ڈئیر ڈائری! میاں کا یہ نیا شوق پورا کرتے کرتے میَں تنگ آ گئی ہوں۔ روزانہ وہی ٹنٹنا! ارے بھئی ایک دفعہ ہوا ، دو دفعہ ہوا ۔ مگر یہ کیا کہ ہر شب میاں جی کا ایک ہی اصرار۔
ہر شام یہ فِکر کیسے کٹے گی رات
ہر صبح یہی سوچ کہ کیسے گُزر گئی
جب سے میاں جی منٹو پارک میں عید کی نماز کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ اندرون شہر کی تنگ گلیوں میں کوئی فلم دیکھ کر پیدل چل کر کرشن نگر واپس گھر دیر سے آئے ہیں تب سے یہ نیا مسئلہ شروع ہوا ہے۔ شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک میاں نے پہلے کبھی کوئی خاص شوق ظاہر نہیں کیا۔ سیدھا سادا ڈھیلا ڈھالا ہر کام میں بے صبرا پُھرتیلا چل چلاؤ ڈَنگ ٹپاؤ سلوک چل رہا تھا۔ میری طبیعت، مزاج، مرضی اور مُوڈ کی پروا نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ اپنی مرضی منوانے کا شوق لیکن میری سُننے کا نہ خیال نہ کبھی میرے جذبات کے اظہار کی ترغیب۔ میَں نے کہیں کسی دانشمند کا قول پڑھا تھا کہ اپنی ہی ذات کے کاموں میں مصروف بندے کو شادی نہیں کرنی چاہئیے۔ بڑے بڑے فلاسفر، ماہرینِ موسیقی، مؤجدوں، آرٹسٹوں، شاعروں اور اکثر روایتی مشہور صوفی حضرات کی عائلی زندگی شاید اسی لیے زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ ادھر ہماری شادی کو تین سال ہو گئے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اپنے چھ بیٹوں کے بعد میری ساس کو ایک پوتی کی بہت خواہش ہے۔ وہ مجھے دزیدہ نگاہوں سے دیکھتی ہیں، دبے لفظوں میں کہتی ہیں، ’’شیریں! اپنے جیسی ایک خوبصورت گُڑیا کہیں سے لا دو!‘‘۔ شاید اُنہیں اپنے پہلے بیٹے سے کوئی خاص اُمید نہیں۔ اور اب میاں کے اس نئے شوق کے بعد تو بالکل ہی ساحل پیاسا رہ جانے والی بات ہے۔ عدم نے بھی کیا خوب کہا ہے
مے کدہ کے موڑ پر رُکتی ہوئی
مُدتوں کی تشنگی تھی میَں نہ تھا
پردے کی آڑ سے میَں نے دیکھا ہے۔ بیٹھک میں اپنے دوستوں کے ساتھ قہقہے لگاتے میرے میاں تاش کی گڈی بھی بڑی بے دِلی سے پھینٹتے ہیں۔ بس آدھی گڈی اُٹھائی اور دوسری آدھی کے نیچے رکھ دی۔ پھر ایک تہائی اُٹھائی اور دو تہائی کے نیچے رکھ دی۔کھیلتے وقت ہاتھ میں پتے اپنی چھاتی کے بہت قریب رکھتے ہیں لیکن اپنی چال چلتے وقت تاش کا پَتّا، چاہے غلام ہی کیوں نہ ہو، ایسے زور اور بے صبری سے کافی ٹیبل پر پھینکتے ہیں جیسے اینٹ کا یَکّا ہو۔ عجیب بات ہے کہ کون آئس کریم کھلاتے وقت غلام کا پَتّا بھی صابر و شاکر یَکّا بن جاتا ہے۔
سُسر ہمارے ماشااللہ نیک آدمی ہیں۔میری ساس سے مشورہ کرتے، منجی پر بیٹھے، حُقّہ ایک ہاتھ سے گَڑگَڑاتے، دوسرے ہاتھ سے اپنے بے ہدایئتے بیٹے کو ہدایت کرتے رہتے ہیں، ’’عورتیں تُمہاری کھیتیاں ہیں۔۔۔۔‘‘۔ لیکن کاش کہ مسئلہ اتنا آسان ہوتا۔ شادی سے پہلے میَں نے ایگرونومی میں ماسٹرز کر کے اتنا جان لیا تھا کہ کھیتی میں صرف ہل چلانے سے ہر کام نہیں ہو جاتا۔ کسی کسان سے پُوچھ لیجئے کہ ہل چلانے کا بھی خاص موسم ہوتا ہے۔سخت پَرتوں کو توڑنے کے لیے مٹی میں نمی ہونی ضروری ہے۔ علّامہ اقبال نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا “ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی”۔ بیج کے پُھوٹنے کے لیے زرخیزی اور نمی کے علاوہ مٹی نہ صرف صحیح موسم مانگتی ہے بلکہ انا کی جمی برفوں کے زیرِ ناف پوشیدہ نشیب و فراز کی چٹانوں سے جُوئے شِیر لانے کے لئے تیشۂ فرہاد سے باقاعدہ ،لگاتار کوشش، استقامت اورصبر کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔
معاملہ اسی طرح چلتا رہتا اگر کالج کے زمانے کی میری سہیلی عِفّت مجھے ڈُھونڈتی ملنے نہ آتی۔ اس کی شادی کو دو سال ہو گئے تھے۔ میری ساس نے اُس کے بازوؤں میں ایک خوبصورت گُڑیا دیکھی تو تڑپ کر گود میں لے کر سُسر کو دکھانے لے گئیں۔ میری گود خالی دیکھ کر عِفّت نے کرید کرید کر مُجھ سے سب کچھ پُوچھ لیا پھر اپنے ڈاکٹر میاں کا بتایا جو ایک مشہور صُوفی سلسلے سے وابستہ جاگیردار سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتے تھے۔ لاہور ایچی سَن کالج میں گھوڑے دوڑانے کے بعد امریکہ جا کر پہلے میڈیکل ڈاکٹری کی ڈگری لی پھر چار سال سائیکائٹری میں ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئے۔
’’شِیریں! اب میَں تُمیں کیا بتاؤں! جائیداد میں اپنے حصے کی کچھ زرعی زمین ہے اور سندھ میں آموٰں کا باغ ہے جس کی آمدنی ہماری ضروریات کے لئے کافی ہے۔ امریکہ میں پڑھنے سے میاں کا دماغ کچھ اُلٹ گیا ہے۔ کہتے ہیں ’’میَں نے سیاست یا گَدّی نشینی اختیار نہیں کرنی۔ ضرورت مندلوگوں کی مدد کرنی ہے‘‘۔ اب حال یہ ہے کہ دِن میں چھ گھنٹے گھر کی بیٹھک میں فری سائیکاٹرسٹ کلینک کھولا ہوا ہے۔ مجھے سیکریٹری بنا کر ساتھ والے کمرے میں فون پر بٹھایا ہوا ہے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر کسی کو نہیں مِلتے اور پندرہ منٹ سے زیادہ کسی کلائنٹ کو وقت نہیں دیتے۔ روزانہ بیس کے قریب مریض آتے ہیں اور زیادہ تر عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے، مُرید ہی ہو جاتا ہے لیکن میرے میاں بہت محتاط ہیں۔ ڈاکٹر اور کلائنٹ کے مابین مناسب فاصلہ رکھتے ہیں اور پِیری مُریدی جیسی ذاتی عقیدت کی عادت کے سخت خلاف ہیں۔ میَں نے ایک دن پُوچھ لیا کہ عورتوں کی عام شکایت کیا ہوتی ہے تو مُسکرا کر بولے، ’’دانہ پَھکا نئیں ریا‘‘۔ دوائی کا نسخہ بھی کبھی کبھی لکھ دیتے ہیں لیکن عموماً ہدایت ہی کرتے ہیں۔ تُم ضرور مِل لو۔ میَں تمہاری اپائنٹمنٹ لے دوں گی اور تعارف بھی کرا دوں گی۔‘‘
ڈئیر ڈائری! عِفّت کا خدا بھلا کرے۔ اس کے ڈاکٹر میاں صاحب سے ملاقات بھی ہو گئی ہے۔ بہت عجیب و غریب لیکن دلچسپ شخصیت ہیں۔ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ گاؤں میں پیدا ہونے کے باوجود میَں نے ایگرونومی کی سائنس میں ماسٹرز کیا تھا تو عینک کے پیچھے سے اپنی موٹی موٹی آنکھیں کچھ زیادہ ہی کھول دیں۔ میری روئیداد بہت غور سے سُنی پھر مُجھ سے پُوچھا اگر میَں سائنس کی طالب علم ہونے کے علاوہ ادبی شوق بھی رکھتی ہوں۔ میَں نے بتا دیا کہ شوق تو تھا لیکن کبھی وقت نہیں نکالا۔ میرے میاں کے بارے میں پُوچھا۔ میَں نے بتا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک دو سوال میری موٹی عقل میں نہیں آئے۔ میں کس قسم کا لباس گھر میں پہنتی ہوں۔ گھر میں فرنیچر کیسا ہے۔اس کے بعد اپنے پیَڈ پر نُسخہ لکھ کر مجھے پکڑا کر نرمی سے بولے۔ ’’میاں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھ لینا اور عمل کر لینا۔‘‘ پھر ساتھ والے کمرے میں عِفّت کو فون کر کے کہتے ہیں، ’’بھئی شِیریں کے میاں کو بھی کل میرے ساتھ ایک سیَشن لگوا دو۔‘‘
واپسی کے لئے ٹانگے پر بیٹھ کر میَں نے نُسخہ دیکھا تو اس پر سعادت حسن مَنٹو اور عصمت چُغتائی کے افسانوں پر مبنی دو کتابوں کے نام لکھے ہوئے تھے، اس ہدایت کے ساتھ کہ کونسے افسانے میاں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے ہیں۔ لباس کے بارے میں اور اُونچی باریک ایڑی کی سیَنڈل پہننے کے بارے میں کچھ ہدایات تھیں۔ اب میں اتنی بھی ٹِھگنی نہیں ، میاں سے ایک دو اِنچ اُونچی ہی ہوں۔ حیَرانی تو ہوئی لیکن ٹانگے والے کو کہا، ’’مجھے پہلے انارکلی اور پھر اُردو بازار لے جاؤ۔ سیَنڈل بھی خرید لی اگرچہ ایسی ناآرام دہ جُوتی میَں نہیں پہنتی۔ کتابیں بھی مل گئیں۔ گھر آ کر دوسرے کام ختم کرنے کے بعد پڑھ بھی لیں۔ کچھ سمجھ میں آیا اور کچھ نہیں۔ تھکی ماندی تھی جلدی سو گئی۔ میاں جی دیر سے گھر آئے۔ مُجھے ڈسٹرب نہیں کیا ۔ دوسرے دِن دفتر کے بعد ڈاکٹر صاحب کو مِلنے کے بعد میرے میاں جی گھر آئے تو مُجھے ایک جِھینپی جِھینپی لیکن نئی نگاہ سے دیکھا۔ گھر میں لائبریری تو کوئی ہے نہیں۔اخبار بھی نہیں آتا۔اب بیَڈ سائیڈ میز پر خلافِ عادت پڑی دو کتابیں دیکھیں تو ذرا سا مُسکرائے۔۔۔۔
ڈئیر ڈائری! بہت عرصے سے لکھنے کا وقت نہیں مِلا۔ مطالعہ کا شوق جونک کی مانند چِمٹ گیا ہے۔مختلف موضوعات پر گھر کی لائبریری بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ہلکی سَردیوں کے دِن ہیں۔ کون آئس کریم چِٹانے کے بعد مَست ہاتھی لحاف اوڑھ کر ڈیوڑھی میں جُھوم جُھوم کر مزیدار چٹنی چَکھتا ہے۔ پھر ڈائننگ ٹیبل پر تاش کی گڈی اچھی طرح پھینٹنے کے بعدمیاں جی غلام کا پَتّا ٹرمپ کا یَکّا بناکر زور سے پھینکتے ہیں۔میری اُونچی ایڑی کی سیَنڈلز آویزے بن کر میاں جی کے کانوں سےلٹکتی ہیں مگر میاں جی کو اپنی آنکھیں پُھوٹنے کی بالکل پروا نہیں۔ تیشۂ فرہاد چٹانیں کاٹ کاٹ کر جُوئے شِیر لے کر آتا ہے۔ پتنگوں کاپیچا لمبا ہوتا جا تا ہے۔ بتدریج چڑھتی پینگ سے شدّت پذیرہم آہنگ کلاسیکل موسیقی اپنے کلائمیکس پر پُہنچتی ہے۔ یکایک ریَزوننس کے زلزلے سے پہاڑ کانپتا ہے۔ چوٹی پر جمی دُودھیا برفوں کا ایوالانچ اڑڑادھم دھماکے سےآ گرتا ہے۔ کائنات میں رنگ برنگی پُھل جھڑیاں چُھوٹتی ہیں۔دونوں پتنگیں کٹ جاتی ہیں۔ میری تسلی تو بالآخر ہوئی سو ہوئی ہے لیکن مزیدار بات یہ کہ میری ساس کی دیرینہ آرزو بَر آئی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...