نلکے کی ٹونٹی میں کوئی خلل پیدا ہو جائے تو فرش پر ٹپکتا بوند بوند پانی ایک عجیب، ناقابلِ بیان سی کوفت اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرتا ہے۔ بیسیوں بار اس خراب نلکے کو پوری قوت لگا کر بند کرنے پر بھی پانی کے قطرے تھمتے نہیں جب تک کہ ٹونٹی تبدیل نہ کی جائے۔ مسلسل ٹپ ٹپ کی آواز کے ساتھ دائرے کی شکل میں پھیلتی ایسی ہی ناقابلِ بیان کوفت، جھنجھلاہٹ اور بے چینی وقفے وقفے سے اس پر سوار ہوتی رہتی۔ ایک ملفوف احساس تھا جو اس تیزی سے سطح ذہن پر گرتا کہ وہ قطرے کو ہتھیلی میں روک کر اس کے دائروں کو پورے وجود میں پھیلنے سے روک بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے کئی بار اس بے چینی اور کوفت کو سمجھنا چاہا لیکن یہ ریشمی دھاگے کا وہ گچھا تھا جسے سلجھانے والا سرا نہیں ملتا۔
جب بھی یہ دورہ پڑتا، وہ بار بار سر جھٹکتی، خود کو مصروف تر کرلیتی، اونچی آواز میں بے تکان بولتی مگر سب بے سود رہتا۔ زیادہ وقت ہو جائے تو جیسے پانی گرنے کی آواز معمول کا حصہ بن کر کب اور کدھر گم ہو جاتی ہے پتہ نہیں چلتا، وہ ہی حال اس کی کوفت اور بے چینی کا بھی ہوتا۔ پھر کہیں مولانا سمیع اللہ عرف حضرت جی کا ذکر نکلتا اور گم ہوئی بے چینی کو راستہ مل جاتا۔ اب بھی ان کا ذکر سنتے ہی اس کے اندر یہ مانوس کیفیت بیدار ہوئی تھی۔
وہ اسکول سے آئی تو خلاف معمول دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔
’’ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ وہ ہال عبور کر کے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے ساس کی آواز پر رک گئی۔
’’ اگلی بائیس تاریخ کو حضرت جی آئیں گے، اسی دن اس کے ابّا کو بلا کر ہم ان کے سامنے بات کریں گے۔ ‘‘
’’ امجد کو تو اس نے چپ کرادیا لیکن حضرت جی کے سامنے نہ امجد نہ اس کا باپ، کوئی منہ نہیں کھول سکے گا۔ ‘‘ یہ اس کی بڑی نند تھی جو آج کل اس کی نوکری چھڑانے کے در پہ تھی۔
تین بچوں کی پیدائش کے بعد جب اخراجات کے لیے امجد کی تنخواہ کی چادر چھوٹی پڑنے لگی تو اس نے شوہر کو راضی کیا کہ اسے ہاتھ بٹانے دیں۔ امجد بھی تنگ دستی سے تنگ تھا، ایسے میں اضافی آمدنی کا خیال بڑا خوش کن تھا۔ اس کی تعلیمی لیاقت کے بنا پر جلد ہی اسے لڑکیوں کے اسلامک اسکول میں نوکری مل گئی۔
کئی سال سب کچھ ٹھیک چلتا رہا۔ اتنے برسوں میں ہوئی امجد کی ترقیوں نے اس کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا اس لیے اب وہ اپنی اور بچوں کی ضرورتوں کے علاوہ ان کی خواہشوں پر بھی خرچ کرنے لگی تھی۔ اس کی یہ ہی ’ شاہ خرچیاں ‘ سب کو کھٹک رہی تھیں اور نکیل ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ حالاں کہ اب بھی اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے بچا رہی تھی۔ بات شروع یہاں سے ہوئی کہ وہ اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ گھر میں دیا کرے۔ اس نے صاف انکار کر دیا کہ ’ میں گھر کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے یہ مشقت اپنے بچوں کے لیے کر رہی ہوں اور گھر میں ایسی تنگی ہے بھی نہیں کہ میرا کا دینا لازمی ہو۔ ‘ سسر اور دیور دونوں برسرروزگار تھے۔
امجد کچھ کہتا اس سے پہلے ہی اس نے اگلے دس سالوں کا نقشہ کھینچ دیا۔ بڑا آئی ٹی فیلڈ میں اپنا مستقبل دیکھ رہا تھا، چھوٹا سول انجینئر بننا چاہتا تھا اور بیٹی کا پسندیدہ کھلونا ابھی سے اسٹیتھواسکوپ تھا۔ کالج تک پہنچنے سے پہلے ہی بچوں کی کوچنگ اور انٹرنس کی تیاری میں لاکھوں لگنے تھے۔
اپنے کمرے میں جانے کے لیے ساس کے کمرے کے آگے سے گزرنا پڑتا جس کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ دبے پاؤں پلٹ کر داخلی دروازے سے باہر نکلی اور اطلاعی گھنٹی بجا کر دوبارہ اندر داخل ہوئی۔
’’ سوری میں نے بیل بجانے کے بعد دیکھا، دروازہ لاک نہیں تھا۔ ‘‘ چند پل بعد ہی دروازہ کھولنے کے ارادے سے نند نمودار ہوئی تو اس نے کہا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
اس نے زندگی میں اپنے ابّا سے زیادہ سادہ اور عملاً دین دار دوسرا بندہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ سرکاری اسکول میں مدرس تھے۔ ان کا طرزِ زندگی بڑا سادہ تھا۔ بڑی فاطمہ کےچولہا سنبھالنے سے پہلے امّی کھانا بناتی تھیں اور اس میدان میں وہ اوسط سے بھی کم تھیں لیکن ابّا نے دسترخوان پر کبھی تکرار یا نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا، شکر کر کے سب کھا لیتے۔ یہ کتنی بڑی بات تھی اس کا احساس اسے سسرال آنے کے بعد ہوا تھا۔ رشتے دار اور پڑوسی تین بیٹیاں اور بیٹا نہ ہونے کا احساس دلاتے، افسوس جتاتے مگر اس پر بھی وہ اللہ کی رحمتیں حاصل ہونے کا شکر ادا کرتے۔
تینوں بیٹیوں کا بھی بہت خیال رکھتے۔ کوئی بات ناگوار گزرتی یا انھیں پسند نہ آتی تو نرمی سے بتا دیتے۔ ان کی در گزر اور صلہ رحمی کی عادت سے امّی تنگ تھیں کیوں کہ رشتے دار اور دوست و احباب یا تو اس کا غلط فائدہ اٹھاتے یا انھیں بے وقوف سمجھتے تھے۔ وہ صرف نماز روزے کی ہی پابندی نہیں کرتے تھے بلکہ چھوٹی اور معمولی باتوں میں بھی احکامِ دین کا خیال رکھتے۔ کپڑے، چپلیں، چشمہ اور دیگر چیزیں جب تک ناقابلِ استعمال نہیں ہوجاتیں، وہ نئی نہ لیتے۔ اپنے اوپر کم سے کم خرچ کرتے اور ضرورت مندوں کی مدد اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتے،
اس کے لیے اپنی ضروریات بھی ٹال دیتے۔ تینوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور شادی کے وقت ان کی مرضی کو بھی اہمیت دی۔ رشتے طے کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیوں کہ ابّا کے مزاج اور گھر کے ماحول کی وجہ سے لوگوں کو لگتا تھا یہ ’ دبی ‘ ہوئی لڑکیاں ان کے گھر کے لیے موزوں ترین ہیں اور ابّا کی طرف سے مستقبل میں بھی کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ سب سے چھوٹی تھی اور اسے ابّا سے محبت بھی سب سے زیادہ تھی۔ فارعہ کے سسرال کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن فاطمہ کے سسرالی اکثر اس کی شکایتیں لیے موجود ہوتے۔ ابّا سر جھکا کر ان کی بات سنتے اور بعد میں فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتے:
’’ میں جانتا ہوں تمھاری کوئی غلطی نہیں۔ تم میری بہت سمجھدار اور صابر بیٹی ہو۔
ایسے وقت میں امّی بڑی اداس ہوتیں کہ کوئی بیٹا ہوتا تو لوگوں کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ بلا وجہ باتیں سنا کر انھیں سر جھکانے پر مجبور کرتے۔ تبھی اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی وجہ سے کبھی ابّا کا سر جھکنے نہیں دے گی۔
اس کے لیے آئے امجد کے رشتے کی شہ سرخی ’’ دین دار گھرانہ‘‘ تھی۔ شادی کے بعد اس نے پورا مضمون پڑھا تب جانا کہ بڑی گمراہ کن شہ سرخی تھی۔ ساری دین داری مشہور عالم دین مولانا سمیع اللہ یعنی حضرت جی سے جڑے رہنا تھی۔ ان کے گھرانے سے اس کے سسرال کے پرانے تعلقات تھے۔ وہ اجتماع اور جماعت کے دیگر معاملات کی وجہ سے شہر شہر گھوما کرتے اور جب ان کے شہر میں ہوتے تو ان کے یہاں ضرور آتے۔ ان کی آمد پر خاص اہتمام ہوتا۔ یونہی نمازیں قضا کرنے والی اس کی ساس، نند، دیورانی ہال کی صفائی خود کرنا فرض سمجھتیں۔ بھلے ایک دن پہلے ہی بدلے ہوں تو بھی پردے، صوفے اور کشن کے کور تبدیل کرنا جیسے واجب ہو جاتا۔ حضرت جی کی پسند کا مینو ترتیب دیا جاتا۔ وہ کھانے کےمعاملے میں کتنے حساس ہیں، یہ ذکر بڑی محبت سے ہوتا تھا۔ انھیں جو اچھا نہیں لگتا اس کا اظہار وہ اپنے انداز میں کر دیا کرتے۔ اتنے پکوان عید بقرعید میں نہ بنتے جتنے ان کی آمد کے دن تیار ہوتے۔ پھر گھر کے سارے معاملات، مسائل ان کے گوش گزار کرائے جاتے اور ان کی بات بطور مشورہ یا صلاح نہیں لی جاتی بلکہ وہ فیصلہ ہوتا۔ شکن سے پاک ان کا کرتا پاجامہ جو کسی ڈیزائنر پوشاک سے کم نہ لگتا، سیاہ چکمتے جوتے، آئی فون، برانڈیڈ دستی گھڑی، ویسا ہی دھوپ کا چشمہ اور ان کی ایس یو وی، یہ سب ان کے صبر، قناعت، سادگی کے بیان سے میل نہ کھاتے جو وہ ہر دورے میں پردے کے دوسری طرف بیٹھی خواتین کے لیے دیتے تھے۔ وہ حیرت سے سب کی آنکھیں دیکھتی جنھیں یہ تضاد نظر نہیں آتا تھا۔
’’ کیوں حضرت جی کو اس گھرمیں اتنی اہمیت حاصل ہے؟ ‘‘ اس نے امجد سے پوچھا تھا۔
’’ یہ کیسا سوال ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔خوش نصیبی ہے یہ تو ہماری! ان سے بڑا عالم دین ہمارے علاقے میں کیا پورے ضلعے میں کوئی نہیں اور ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ امجد نے اسے جس نظر سے دیکھ کر بات شروع کی تھی، اس نے اسے مزید سوال جواب سے روک دیا تھا۔
ایک دفعہ اتفاق سے حضرت جی کی موجودگی میں ابّا بھی آگئے اور اس نے پردے کی اوٹ سے ہال میں جھانک لیا۔ گردن اکڑا کر بیٹھے حضرت جی کے مقابلے میں ابّا کی عاجزی و انکساری اسے پہلی بار اچھی نہیں لگی تھی۔ یہ ہی منظر اس کے لیے خراب نلکے کی ٹپ ٹپ تھا۔ تب سے ابّا اور ان کا موازنہ اس کی عادت ہو گئی تھی اور گھٹتی بڑھتی بے چینی اور کوفت دائمی۔
بڑی دیر تک سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ جو اس کی ساس اور نند سوچ رہی تھیں، یہی اس کے لیے موقع ہے کہ وہ ابّا کو ان کے مقابل سب سے بلند قامت ثابت کر دے۔ وہ جانتی تھی حضرت جی سے بات کس انداز میں کی جائے گی اور ان کا فیصلہ کیا ہوگا۔ لیکن اسے یہ بھی پتا تھا کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہی ہے۔ شوہر کی اجازت تھی، پردے کا اہتمام کرتی تھی، ساس کے سونپے گئے کام بھی، اسکول میں کوئی مرد اسٹاف نہیں تھا، سوائے چوکیدار کے۔ اسے یہی ثابت کرنا تھا کہ حضرت جی سے زیادہ سچے پکے اور عملاً مسلمان اس کے ابّا ہیں اور ان کا دیا علم اور تربیت ہی ہے جو اس نے اپنے دلائل سے انھیں لاجواب کر دیا ہے۔ اس کی بے چینی کو قرار اسی سے ملنا تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا اگر مگر کی گنجائش رکھے بنا کام یابی سے کیسے یہ معرکہ سر ہوگا؟ مسلسل سوچتے ہوئے بھی اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
اگلے دن اس نے اسکول میں سب سے ذہین مانی جانے والی اپنی کولیگ کو یہ منصوبہ اور پریشانی بتائی۔ خوش قسمتی سے اس نے فوراً ہی اس کا حل بتا دیا۔ وہ جوش اور جذبات میں یہ بھی فراموش کر بیٹھی تھی کہ اگر حضرت جی قائل نہ ہوئے، ناراض ہوگئے تو اس بات پر امجد بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔ گھر والوں کے خلاف جانے اور حضرت جی کے خلاف جانے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی اولاد کی محبت ہو یا پیسے کی، اندھی عقیدت سے جیت نہیں سکتی۔
بائیس تاریخ آگئی اور حضرت جی بھی آگئے۔ نند بھی موجود تھی۔ اپنے تئیں گھر والوں نے اسے اور امجد کو بے خبر رکھ کر ابّا کو بھی مدعو کیا تھا۔ اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ چاہتی تھی جلد سے جلد اسے بولنے کا موقع دیا جائے۔ پرتکلف طعام کے بعد ساس صاحبہ نے بہو کا مسئلہ اس طرح بیان کیا مانو انھیں علم ہو کہ یہ باتیں سن کر انھوں نے اسے نوکری چھوڑنے کا حکم ہی دینا ہے اور یہ ہی ہوا۔ اسے ہال میں بلایا گیا۔ مولانا نےبڑوں کی فرمانبرداری کا ثواب، عورت کی گھر میں رہ کر کمائی جانے والی نیکیاں، بچوں کی تربیت میں ماں کی ذمہ داریاں اور بلا وجہ گھر سے باہر جانے والی عورت کس طرح گناہ کی مرتکب ہوتی ہے اور اس پر بھیجی گئی لعنتوں پر مختصر سا وعظ دیا۔ اب اس کا متوقع کام سر جھکا کر ان کی بات درست ہونے کا اقرار کرنا تھا یا پھر خود ہی اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نوکری چھوڑنے کا اعلان۔ کوئی مزید کچھ کہتا اس سے قبل ہی اس نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا۔
’’ میں نے اپنی نوکری اور تنخواہ کا مسئلہ پوری تفصیل سے مفتی صاحب کو لکھا تھا، انہوں نے جواب دیا ہے کہ شوہر نے نوکری کی اجازت دی ہے، مقصد بچوں کی تعلیم کے لیے پیسوں کا انتظام ہے، کام کی جگہ کوئی نا محرم نہیں، پردے کا اہتمام بھی ہے تو یہ نوکری جائز ہے اور تنخواہ گھر میں دینا نہ دینا میری مرضی پر منحصر ہے۔ ‘‘ اس نے دوپٹے کے نیچے سے ہاتھ نکال کر آن لائن دار الفتاویٰ کے ای میل کا پرنٹ آؤٹ تپائی پر رکھا۔
’’ اس میں پوری تفصیل ہے۔ یہ اسی دارالعلوم کے دارلافتاویٰ کے مفتی صاحب ہیں جہاں سے حضرت جی فارغ ہیں۔ ‘‘ وہ سر جھکائے اپنی بات کہہ رہی تھی پھر بھی اسے سب چہروں کے تاثرات سمجھ آرہے تھے۔
’’ یہ۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔۔۔ کب کیا؟ ‘‘ امجد کی بوکھلائی اور بے یقین سی آواز ابھری۔
وہ چپ رہی۔ اسے بس اپنے ابّا کا فخر سے اونچا سر دیکھنا تھا۔ اس نے جھجھکتے ہوئے سر اٹھا کر ابّا کی سمت دیکھا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساری کوفت اور بے چینی اڑن چھو ہوگئی۔ اس کی جگہ خاموشی تھی، دور تک پھیلی، درد سے بھری، ناقابل یقین خاموشی۔ شرمندگی اور تاسف بھری نظر بیٹی سے ہٹا کر ابّا اپنی جگہ سے اٹھ کر سر جھکائے حضرت جی کی جانب بڑھ رہے تھے اور وہ اس نظر سے اندازہ لگا چکی تھی کہ کمرے میں حضرت جی کا سب سے بڑا مُعتقِد کون ہے۔
https://www.facebook.com/photo/?fbid=3091429621179137&set=gm.2964334927151037