(بعض روایات کے مطابق گِرج پرندہ شمال امریکی انڈین کا ایک روایتی بڑا پرندہ ہے جس کے بارے یہ مشہور ہے کہ گِرج بجلی کڑکنے، بادل گرجنے اور بارش برسانے کا اہل پرندہ ہے)۔
حضرت سائیں گرج پال رحم اللہ کے اسم گرامی کے بارے آرا مختلف تھیں۔ قولِ معروف یہی تھا کہ وجہ اُن کی خانقاہ کے اوپر اُڑنے والے، ارد گرد منڈلانے اور کہیں زمین پر بیٹھے چیل نما پرند ہیں۔ کچھ گرج کو بادلوں کی آواز سے تشبیہ دیتے اور بقیہ شیر کی دھاڑ سے علامت کرتے کہ آواز میں وہ سب موجود تھا کہ بولتے تو بادلوں سے نکلتی کڑک آواز محسوس ہوتی جو اپنے نقطہ عروج پر پہنچنے سے قبل دھاڑ میں بدل جاتی اور ظاہر ہے پیچھے بجلی کڑکنا اور مار ہی بچتا ہے۔ اِکا دُکا جو پڑھ لکھ گئے تھے سمجھتے تھے کہ خانقاہ اور اُس کا ماحول گرجا سے ملتا جُلتا ہے مگر ان نامعقولوں کو جلد ہی حضرت سائیں صاحب کی بدُعا (لوگوں کے مطابق) قصبہ سے دُور شہروں میں چھوڑ آئی تھی۔ جہاں سائیں صاحب کا در، خانہ اور خانقاہ تھا اُس کے پچھواڑے تاحدِ نگاہ فصلیں یا اُن کی عدم موجودگی میں خالی میدان تھے اور سرِ شام ہی گیدڑ کُوکنا شروع کر دیتے۔ خیر وجہ جو بھی رہی ہو زیر زبر کے ہیت پھیر کا نام حیات ہے، اصل یہ ہے کہ سرکار سائیں صاحب اسی نام سے معروف ہوئے۔
دادا حضور کی مُراد پُوری ہوئی اور اولادِ نرینہ کا نام حضرت سائیں گرج پال سرکار کے اِسم مُبارک پر رکھا گیا جو بعد میں گرج پال رائے بہادر سِکڑے والا کے نام سے مشہور ہوئے۔ دادا ابا ہندو تھے مگر سائیں صاحب سے خاص رغبت و محبت کا معاملہ فرماتے۔ ارشاد تھا کہ ہمارے والد حضرت گرج پال سرکار کی دعا ہیں۔ والد بزرگوار گرج پال رائے بہادر سِکڑے والا جب سے خُلد مکین ہوئے، ہمارے حالات بدلنے کا نام نہیں لے رہے۔ والد محترم، حق مغفرت کرے، نے اسم شریف بارگاہِ حق میں موحد ہونے کے بعد شاہین اقبال اختیار کیا۔
قبولِ اسلام کے بعد والد بزرگوار نماز پنجگانہ، صیام، زکواۃ کے ساتھ کثرت سے روزے، نوافل اور صدقات فرمایا کرتے۔ سوائے کاروبار کے سب کچھ بدل گیا۔ اگر نہیں بدلا تو نام نہ بدلا۔ وجوہات اِس امر کی کئی ہیں مگر کچھ بیان کر دی جاتی ہیں۔
والد محترم شروع ہی سے حضرت علامہ کے پرستار تھے۔ دین بدلا تو نام بھی علامہ مرحوم و مغفور کی نسبت سے شاہین اقبال رکھ لیا۔ والد صاحب کا حلقہ احباب گو ایسا بڑا نہ تھا مگر جو تھا اُس کا متفقہ خیال یہی تھا کہ نام زنانہ ہے۔ اُن کے ایک یارِ خاص نے یہاں تک کہہ دیا کہ نام سُن کے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شاہین خاتون اقبال کے ساتھ بیاہی گئی ہیں مگر والد صاحب کا فرمانا تھا کہ نام کی معانی پہ توجہ دی جانی چاہیے۔ شاہین کی پرواز، ہیبت اور پکڑ سمیت جُملہ اوصاف وہ بیان کرتے ایک دن اس باب میں خموش ہو گئے۔
والد بزرگوار کے نام بدلنے کے کُچھ دن بعد جو ایک واقعہ پئش آیا اُس نے تو والدہ محترمہ، حق کروٹ کروٹ فردوس نشین کرے، کو یہ کہنے پر مجبُور کر دیا کہ گرج پال اور کرتے تو کہتی کہ اغیار کی درفطنی ہے، آپ کے فلاں اور فلاں قریبی دوستوں کا کہنا یہی ہے کہ مُجھ تک پہنچنے سے قبل آپ کی زندگی میں کسی شاہین کا ہاتھ تھا، خیر سے اب تو باقاعدہ تصرف ہو گیا۔ یعنی مہریں کہیں ٹھوکتے رہے، چٹھی کہیں پوسٹ کر آئے۔ والدہ سورگ باسی ہونے سے قبل اسی یقین پہ قائم رہیں اور والد بزرگوار گرج پال کے نام سے ہی پکارے جاتے رہے۔
سن سنتالیس میں ہمارا خاندان پاکستان میں رہ گیا۔ دادا جان کا سِکڑے کا کاروبار تھا اور گاہک بھی خوب پڑتا تھا۔ دادا جان نے یہ کہہ کرہجرت سے انکار کر دیا کہ بھرا پرا کُنبہ اور کاروبار چھوڑ کے کون جاتا ہے۔ اُن کے بڑے بڑے گاہک براہ راست دین دار نظر آنے والے لوگ تھا اور اُن دین داروں کے اُن سے ایک بڑھ کے ایک گاہک تھے۔ خود دادا حضور کو اب سکڑا ملنے کی حاجت نہیں تھیں پان بیڑی نے دانت سیاہی مائل کر رکھے تھے اور ہونٹ گاڑھے بھورے رنگ کے ہو چُکے۔ رنگ صاف تھا اور چہرے پر دانت اور ہونٹ عجیب منظر پیش کیا کرتے۔ والد بزرگوار نے میٹرک کر لیا تو دادا صاحب کے ساتھ کاروبار میں جُڑ گئے۔ ہماری معاشی حالت پہ اتنا ہی فرق پڑا کہ پہلے ہندوستان اور اب پاکستان میں کرنا تھا مگر کرنا کاروبار ہی تھا۔ دادا حضور نے حالات بھانپ لیے تھے اور سکڑے سے گودام اُبل رہے تھے۔ نرخ آسمان تک گئے مگر سکڑا کرنے والوں کو کیا فرق پڑتا۔ مہندی، سکڑا، اگربتی مسجد مندر گرجے کی ضروریات تھیں اور اُن کے لیے تقسیم کوئی نئی بات نہیں تھی۔ رہ گئے گھر تو جو بڑی بوڑھیاں ہفتہ میں ایک مرتبہ ان کا ستعمال کرتیں انھوں نے دو ہفتہ میں ایک مرتبہ کر دیا، بس اتنا ہی فرق پڑا۔رام داس رائے بہادر کا سکڑے کا کاروبار ہلکے پُھلکے ہچکولے کھانے کے بعد پھر زور پکڑ گیا۔ دادا حضور مسافرِ عدم ہوئے سکڑے کا سارا کاروبار والد صاحب کے ہاتھ آ گیا۔
دادا حضور نے اپنے پیچھے کاروبار کے علاوہ سو مربع زمین، پچاس گھوڑے اور چار کاروباری مراکز چھوڑے جہاں سوائے سکڑے کے سب کُچھ ہی بکتا تھا۔ سکڑا وہاں کیوں نہیں بکتا تھا یہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ وہ تو، بھلا یا بُرا کُچھ بھی کہہ لیجیے، ہم بھائیوں کا قیاس ہے کہ سکڑے کا کاروبار تھوک پر چلتا تھا شاید اس لیے دکانوں پر نہیں بیچا جا سکتا تھا ورنہ جہاں منجن بنام ٹوتھ پاؤڈر اور ٹوتھ پیسٹ جیسی بدعت با آسانی رعائتی نرخ پر دستیاب تھی وہاں سکڑا نہ بیچنے کی اور کوئی معقول وجہ سمجھ کے احاطے سے باہر تھی۔ ہمارے گھرانے میں سکڑے کا باقاعدہ ایک مقام اور اہتمام تھا۔ مثل مشہور تھی کہ رام داس کو سکڑے کے گاہک یوں ملتے ہیں بڑے حضرت جی امام الدین مدظلہ کو مریدین ملتے ہیں۔
والدہ کوئلہ کُوٹ کر اُس کا سفوف سا بنا کر ہفتہ بھر کے لیے ایک مرتبان میں رکھ لیتیں۔ دادی، بُوا، والد صاحب اور ہم دونوں بھائی علی الصباح کڑوا سرسوں کا تیل ہاتھ کی تلی پر رکھے کوئلہ سفوف میں ملا کر اچھے سے تب تک دانت رگڑتے جب تک ہماری چیخیں بلند ہونا شروع ہوجاتیں۔ خوب دانتوں کو دھویا جاتا اور غرارے کیے جاتے۔ پھر سکڑا مل لیا جاتا۔ ہم سکول جایا کرتے تو دانتوں کی سپیدی اور ہونٹوں کا سیاہ پڑتا گھنا بھورا رنگ بڑی جماعتوں کے لڑکوں کو ہماری طرف متوجہ کیے رکھتا۔ بہت مرتبہ کُچھ اُساتذہ بھی یُونہی چلتے پھرتے گال سہلا دیتے، چُٹکی بھروانے کے تو خیر ہم عادی ہو چکے تھے (یا کر دیا گیا تھا)۔
دادا حضور رام داس (بقول والد صاحب بزرگوار، اللہ دتہ) رائے بہادر اس لیے تھے کہ سو مربع زمین، پچاس گھوڑوں اور چار پلازوں کے مالک تھے ( بقول دادا حضور) مگر عوامی رائے یہ تھی کہ پچاس گھوڑے اور سو مربعے انگریز بہادر کی دین تھے اور دادا حضور کو رائے بہادر کا خطاب انگریز نے اپنے گھوڑوں کی چاکری کے عوض دیا تھا۔ وجہ جو بھی رہی ہو، یہ طے ہے کہ ہمارے پاس رائے بہادر ہونے کے باقاعدہ گواہ موجود ہیں اور خاندانی شرافت اور وجاہت پہ مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے، خدا کا کرم ہے، یہ سب کافی ہے۔
دادا حضور کے بعد والد بزرگوار نے کاروبار میں کچھ اصلاحات کیں۔ سرفہرست یہ ہے کہ اُنھوں نے دادا حضور کا رائج کردہ نظام یک جنبش قلم منقطع کر دیا۔ دادا حضور جب کسی کو مال دیتے تو نقد وصول کر لیا کرتے۔ نقد رقم پوری نہ ہونے کی صورت میں مال رقم کے مطابق دیتے یا انتہائی حالات میں بقیہ رقم پہ منافع کی شرح اتنی رکھ دیتے کہ کئی بڑے گاہک (نظر بظاہر بڑے بیوپاری) سالوں سے دادا حضور کے غلام چلے آ رہے تھے۔ دادا حضور کے ہاں ہندو، مسلمان عیسائی یا سکھ کی حیثیت صرف گاہک کی تھی۔ والد صاحب کے ہاتھ کاروبار لگا تو سالوں سے قرض اور کھاتوں میں جکڑے بیوپاریوں کو معافی مل گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہولے ہولے والد بزرگوار کی کمائی مال کی کھپت سے آدھی یا اُس سے تھوڑا کم رہ گئی جو بتدریج کم ہوتی گئی۔ زکواۃ تو خیر دینا ہی تھی، ساتھ صدقات اور قرض معاف کرنا اور مال کی جائز رقم کی ادائیگی میں تاخیر نے بھی پر نکال لیے۔ گاہکوں کے ایسے ایسے حوصلے بلند ہوئے کہ مال لے جاتے اور کھاتے بند ہوتے مہینوں (بعض اوقات سالوں) لگ جاتے اور ایک کھاتا بند ہوتا تو دو چار نئے کھل چکے ہوتے مگر والد بزرگوار کے پایہ استقلال میں ہلکی سی لرزش نہ آئی۔ کاروبار میں نقصان کو پورا کرنے کے لیے پہلے زمینیں بکیں پھر پلازے ہاتھ سے گئے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گھوڑوں کے لیے زمینیں ہونا ضروری ہے۔
والد صاحب نے مقابلہ تو خوب کیا مگر عمر کا پہیہ چلتے چلتے بے قابو ہوتا گیا۔ پہلے نٹ ڈھیلے ہوئے پھر ایک ایک کر کے گرتے گئے اور آخر کار جو ڈھانچہ بچا تھا وہ رہ عدم سدھار گیا، حق مغفور و مرحوم کرے۔
میں رائے محمد اقبال اور میرا چھوٹا بھائی رائے ظفر اقبال، خدا کا فضل ہے، تعلیم مکمل کر گئے۔ لاہور کی جامعہ پنجاب سے میں نے ایم اے انگریزی اور ایم اے تاریخ کیا جب کہ ظفر اقبال نے جامعہ انجینرنگ و ٹیکنالوجی سے سول انجینرنگ میں سند پائی۔ انجینیر ظفر اقبال نے اسلامیہ گروپ آف ایجوکیشن (اسلامیہ ہائر سیکنڈری سکول و کالج برائے خواتین اور اسلامیہ ڈگری کالج اور اسلامیہ کالج آف کامرس) کی عمارتیں بنانے میں دن رات ایک کیے رکھا جو ہمارے دادا حضور رام داس رائے بہادر کی زمینوں پر بنیں اور اسلامیہ گروپ آف ایجوکیشن کے اسلامیہ ہائر سیکنڈری سکول برائے خواتین میں مّیں انگریز برصغیر کی تاریخ کا اُستاد مقرر ہوا۔ گزشتہ کل تاریخ پڑھاتے ہوئے نہ جانے کیوں طالبات کے سامنے اپنے خاندان کی تاریخ کھول کر رکھ دی۔
تو میں عرض کر رہا تھا کہ جب سے والد بزرگوار رفیقِ عدم ہوئے، تب سے حالات ہیں کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ والد صاحب کی کاروباری معاملات میں سخاوت اور ڈِھیل نے ہولے ہولے گُل کھلانے شروع کر دیے۔ دادا حضور کے قریبی دوست، حضرت سائیں گرج پال سارکار کے اکلوتے خلیفہ مجاز اور باقاعدہ گدی نشین بڑے صاحب زادہ صاحب کہلوایا کرتے۔ گدی نشین ہونے کے بعد کسی نے مشورہ دیا (یا اُن پہ الہام ہوا) کہ بڑے حضرت جی کہلوایا جانا افضل ہے چناں چہ سالکین میں بڑے صاحب زادہ صاحب نے بڑے حضرت جی کا حُکم نامہ جاری کروا دیا گیا۔
حضرت ہیں ہو رہے
مالک خیر کرے
دادا حضور کا یہ شعر شاید اُنہی وقتوں کا ہے کیوں کہ یہ شعر سُننے کے بعد (بقول دادا ابا) صاحب زادہ بڑے حضرت جی امام الدین (نور اللہ مرقدہ) نے دادا ابا سے باطنی طوالت اختیار کر لی جو طویل سے طویل تر ہوتی گئی مگر ظاہری طور پر اُنھوں نے دادا ابا کو بالکل محسوس نہ ہونے دیا۔ شعر کیا تھا، عام سا چُٹکلہ کہہ لیجیے جو دوست احباب آپس میں بنام پُھلجڑی چھوڑ لیتے ہیں۔
دادا ابا نے والد بزرگوار کو رہ عدم سدھارنے سے قبل حضرت جی کے خاندان سے تعلق مضبوط تر کرنے کی تلقین کی اور والد گرامی چوں کہ مسلمان ہو چُکے تھے اور مائل بہ کرم بھی تو اُنھوں نے حضرت جی کے خاندان سے از سر نو تعلقات اُستوار کیے جس میں ظاہر کی جگہ باطنی اسلوب اور احوال کو فوقیت دی جاتی اور جس کو نذرانوں، تحفے تحائف جو ہمیشہ ہزاروں مریدین کی طرح یک طرفہ ہوتے، سے مضبوط کیا جاتا۔ نذر نیاز اکثر رقم کی صورت ہوتی اور جو رقم کی نعمت سے محروم تھے وہ گھر کے جانور وغیرہ چھوڑ جاتے۔ خیر، والد بزرگوار واپس پٹڑی پر آ چکے تھے اور خود بھی حضرت جی کے صاحب زادہ صاحب اختر امام دامت برکاتہم مجدہ جو اُس وقت حضرت جی کے خلیفہ مجاز تھے اور فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، کے دست اقدس و اطہر پہ بیعت فرما چُکے تھے۔
کاروبار میں مندا عروج پر تھا۔ صاحب زادہ اختر امام بریگیڈیر ریٹائرڈ ہو چکے تو انھیں بڑے حضرت جی کے قول مبارک کو پورا کرنے کا خیال آیا۔ سو مربع زمین آہستہ آہستہ والد بزرگوار کے ہاتھوں سے نکالی، اونے پونے گھوڑے جو بچ گئے تھے وہ بھی اپنے نام کروائے اور باقاعدہ اسلامیہ سیکنڈری اینڈ ہائر ایجوکیشن ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ جس کے بورڈ آف گورنرز کے پہلے سربراہ حضرت جی خود بنے اور نائب اُن کے بیٹے صاحب زادہ امام الدین اختر قرار پائے۔
لیکچر ختم ہونے کے بعد طالبات نے کرید کرید کر پُوچھا، خاندان، ماضی اور حال سب کُچھ۔ ایک استاد کے طور پر (اپنے تئیں) مکمل ذمہ داری سے (جو میرے نزدیک درست تھا) بیان کر دیا۔ لیکچر ختمُ ہوئے چوبیس گھنٹے اور مجھے پرنسپل کے دفتر کے باہر بیٹھے تین گھنٹے ہو چکے ہیں۔ کالج کا وقت ختم ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا اور میں آج صبح سے پرنسپل صاحب کے بلاوا پر اُن کے دفتر کے باہر بیٹھا اندر بلائے جانے کا منتظر تھا۔ مُجھے بتا دیا گیا تھا کہ پرنسپل صاحب اسلامیہ گروپ آف ایجوکیشن کے بورڈ آف گورنرز کے ساتھ مصروف ہیں جس کے چیرمین اور وائس چیرمین اُس خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس نے والد بزرگوار سے یہ زمین اونے پونے خریدی تھی اور اُس پر یہ علم کا شہر تعمیر کیا تھا۔
ان حروف کے لکھنے والے نے آخری بار گھڑی کو دیکھا، پرنسپل کے دفتر کا دروازہ کھلا، ہاتھ میں اپنے قد برابر لاٹھی لیے، سفید کاٹن اور لٹھے کے کُرتہ شلوار میں ملبوس، دھاری دار چادر کندھوں پر اور کلف لگے شملہ والی دستار اقدس سر پر سجائے اپنے نائب اور پرنسپل سمیت کالج سٹاف کے ساتھ تیزی سے نکلے اور ناک کی سیدھ میں چلتے اپنی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے نائب اور ڈرائیور سمیت عمارت کے مرکزی دروازے سے نکل گئے۔
واپسی پر پرنسپل صاحب نے مُجھے دفتر میں بلانے کی زحمت گوارا کیے بغیر چپڑاسی کے ہاتھ ایک لفافہ مجھے عطا کیا جس کے اندر ایک ماہ کی تنخواہ اور کُچھ کاغذات تھے اور آخری کاغذ جس پر مہر ثبت تھی میرے کالج سے نکال دیے جانے کا پروانہ تھا۔ میں جب اُن عمارتوں کے جُھنڈ سے نکلا تو کہیں گرجیں اُڑ رہی تھیں، کُچھ ہلکے ہچکولے کھاتیں کالج گراؤنڈ کے اُوپر منڈلا رہی تھیں اور کُچھ زمین پر اُتر چُکیں میری طرح باقیوں کے اُڑنے اور منڈلانے کا نظارا کر رہی تھیں، بادل اُمڈ رہے تھے اور گیدڑ کُوکنا شروع ہو چُکے تھے اور گھر پہنچتے پہنچتے بارش جل تھل ایک کر چُکی تھی۔