آنکھ کی پیالیوں میں اشک، ہونٹ کی لکیروں میں ورد، سورہ یٰس کی سرگوشیاں، کلمۂ شہادت کی ہچکیاں، بیٹیوں کی آہ وزاریاں، نتھنوں کی سسکیاں؛ جیسے وہ ناک کے ذریعے زندگی کو سُڑک لینے کی کوشش کررہے ہوں مگر نتھنوں سے روح نکل بھاگنے کی تگ ودو میں مصروف تھی۔ الغرض حکیم مرجان کی ناک میں موت و زندگی کی جنگ جاری تھی۔
یہ بھی عجب ماجرا تھا کہ اس وقت حکیم جی کا جسم سرد ہونے کے بجائے گرم ہوا جاتا تھا۔ چہرے پر پسینے کی بوندیں اُگ آئی تھیں۔ ان بوندوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے تھوڑی دیر پہلے برف جمی کوئی کٹوری فِرج سے نکال کر رکھ دی گئی ہو اور اس کے بیرونی حصے پر ننھی ننھی بوندوں نے قبضہ کرلیا ہو۔ گویا کٹوری کا جسم اشک آلود تھا اور یہاں موجود تمام آنکھیں اشک بار تھیں مگر حکیم جی کی آنکھوں سے سرخیاں اُبل رہی تھیں۔
ایسے دل دوز موقعے پر سب آرہے تھے مگر عزرائیل علیہ السلام کا کچھ پتا نہیں تھا۔ چناں چہ سورہ یٰس کا ورد ہورہا تھا۔ جیسے کوئی سپیرا اپنی آواز سے سانپ کو مائل نہ کررہا ہو بلکہ وردِ روحانی کے ذریعے عزرائیل کو رجھانے کی کوشش جاری ہو۔
وقتِ نزع تھا۔ حکیم مرجان کے اکلوتے بیٹے سنجان اور بیٹیاں اقلیمہ، المانہ اور سالمانہ؛ سب والد کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ اسی درمیان وصیہ بھی اپنے ماموں کو دیکھنے آپہنچی اور ان کے نتھنوں کی آواز تیز ہوگئی تھی۔
دریں اثنا ماموں نے آنکھ کے پپوٹوں کو پوری قوت سے کھولا اور سرخ آنکھوں سے آس پاس کے مناظر کو محسوس کیا۔ پھر انھوں نے اچانک اپنی ایک بے جان ہتھیلی میں پاس کھڑی وصیہ کی ہتھیلی تھام لی اور چند سکنڈ ٹھہر کر بیٹے کی ہتھیلی کی طرف اپنی ہتھیلی بڑھادی۔ ہال میں موجود تمام رشتے دار حکیم جی کی اس حکمت پر غور کررہے تھے۔ اسی درمیان انھوں نے بڑی سرعت سے وصیہ اور سنجان کی ہتھیلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کردیا۔ دونوں کی ہتھیلیوں پر حکیم مرجان کی پھیلی ہوئی سرد انگلیاں بکھری پڑی تھیں۔ پھر ان کے پپوٹے سیپ کے دونوں حصے کی طرح بند ہوگئے۔ لوگوں کی نگاہیں بہ طورِ گواہ اس منظر کو اپنی آنکھوں میں اتارتی چلی گئیں۔
٭٭٭
ہتھیلیوں کے ملاپ کے بعد سے سنجان اور وصیہ کے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا تھا۔ وہ اس سے لازمی پردہ کرنے لگی تھی۔ حکیم مرحوم کا بنگلہ معمول کی طرف لوٹنے کی کوشش کررہا تھا۔ سبھی کو انتظار تھا کہ بنگلہ وفاتِ حکیم کی کینچلی اتار پھینکے توان دونوں کو ایک کردیا جائے۔
سنجان کے گھر کی آمدنی کو آج بھی اگر قابل ذکر نہیں کہا جاسکتا تھا تو معمولی کہنا مناسب نہیں تھا۔ اس لیے وہ دونوں ابھی بھی ایک ہوجا تے تو انھیں کم از کم مالی دشواریاں نہیں ہوتیں۔ البتہ تین بہنوں کا معاملہ الم نگیز تھا۔ سنجان کے ذہن پر یہ ایک پہاڑ تھا۔ وہ ہمیشہ بہنوں کے متعلق متفکر رہتا تھا۔ پھر بہنوں کے لیے اب سوچے بھی تو کون، والد بھی نہیں رہے۔
بیٹیوں کے مسئلے پر بیوہ یوسفہ جس طرح آج فکر مند تھی اسی طرح حکیم جی کی موت سے پہلے بھی رہا کرتی تھی۔ جب وہ صاحب فراش تھے تو ان کی کیفیت مزید تشویش ناک ہوگئی تھی۔ اس وقت حکیم جی کو کچھ افاقہ ہوتا تو وہ بیٹیوں کا مسئلہ لے کر بیٹھ جاتی تھیں:
’’دیکھیے، بیٹیاں کوئی سوکھا سودا نہیں کہ جب تک چاہیں گھر میں رکھیں۔‘‘
’’ہاں بابا، مجھے بستر سے اٹھ لینے بھی دو۔ دیکھ لینا لڑکوں کی لائن لگادوں گا۔ اب کی بار بے شمار رشتے آئیں گے۔ صبر تو بنائے رکھو۔‘‘’’خدا جلد آپ کو بوتا دے، ہم سب کی دعا ہے۔ مگر کیسے کہوں کہ لائن لگانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ لائن توڑنے کی ضرورت ہے، آپ سمجھیں میری بات کو۔۔۔‘‘
’’ہاں، ہاں سب ہوگا۔‘‘
’’کب ہوگا؟ ابھی اقلیمہ اور المانہ دو بیٹیاں لائن میں ہیں۔جب سالمانہ بھی آجائے گی، تب؟ لڑکوں کی لائن تو چھوڑ ہی دیجیے۔ اب خود ہمارے گھر میں لائن لگ گئی ہے، لڑکیوں کی لائن۔ بھلا لائن کی یہ لعنت کب ختم ہوگی، خدایا!
یاد رکھیں، لائن صرف جوڑتی نہیں، توڑتی بھی ہے۔لائن کی داہنی طرف الگ دنیا ہوتی ہے اور بائیں طرف الگ دنیا۔ لائن میں صرف آگے یا پیچھے جوڑنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ دائیں اور بائیں میں واقعی دایاں بایاں کرنے کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ اس لیے خدا واسطہ لائن کی بات نہ کیجیے۔‘‘
یہ سب سن کر صاحب فراش حکیم مرجان پھٹی نظروں سے اپنی بیگم کو دیکھتے اور خاموش ہوجاتے تھے۔ اس وقت انھیں محسوس ہوتا تھا کہ لائن کی لمبائی خطا کرسکتی ہے مگر حقیقت کی گہرائی صدف و گوہر سے نواز جاتی ہے۔ ان پہلوؤں پر سوچتے سوچتے یکایک مناسب رشتے کی بات ان کے ذہن میں اٹک جاتی۔ پھر رفتہ رفتہ وہ مناسب کیا بلکہ اعلا ترین رشتوں کے خیال میں الجھنے لگتے اور بیگم یوسفہ ہِرپھر کر تینوں کا قضیہ لے کر بیٹھ جاتی تھیں۔
’’مجھ سے اب بیٹیاں دیکھی نہیں جاتیں۔ دیکھو تو ذرا اُن کی آنکھیں کیسے چغلی کھاتی ہیں۔ بدن ڈھلتا جاتا ہے۔ جیسے سوراخوں سے زندگیاں بہہ گئیں ہوں۔‘‘
’’ہائے ہائے توبہ اقلیمہ کی ماں۔ میں تو خوب تر کی تلاش میں ہوں۔ رشتہ نوشتہ، مل ہی جائے گا۔ ارینج میرج کا معاملہ ہے، ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں مل جائے گا، مگر کب؟ لو دیکھ لیا، میں جو نہ کہتی تھی۔۔۔‘‘ بولتے بولتے یوسفہ کی آواز رندھ گئی۔
’’کیا کہتی تھی۔۔۔‘‘حکیم جی نے یوسفہ کی آواز کو کوئی گھٹی پلانے کی کوشش کی۔
’’کل وصیہ کے ابو آئے تھے، آپ کے بہنوئی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ رک گئیں۔ پھرآنچل سے چشمِ حوض کو صاف کیا۔ اس کے بعد گویا ہوئیں: ’’وہ کسی ہاشم کے یہاں کا پیغام لائے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ ایک مناسب رشتہ ہاتھ آیا ہے مگر بڑی بیٹیاں اقلیمہ اور المانہ کے لیے نہیں۔ اگر سالمانہ کے لیے ہامی بھر دی جائے تو وہ آویں گے، دیکھنے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے چھوٹی کو قبول کرسکتے ہیں۔‘‘
’’اَما یہ کوئی تُک ہے۔ کاہے ہم اپنی مٹی پلید کیے دیں۔ بڑی بیٹھی رہیں اور ہم چھوٹی کی ڈولی سجادیں۔ قطعاً نہیں، ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہاشم تو ہاشم، وصیہ کے باپ نے کیسے سوچ لیا۔ نہیں بالکل نہیں۔ حکیم کا فیصلہ ہے، اٹل فیصلہ۔ سمجھ لو بس اٹل فیصلہ۔ اب ذرا مجھے بستر سے اٹھ لینے دو۔‘‘
اس لیے ہاشم کو منع کردیا گیا تھا۔
حکیم مرجان صاحب فراش ہی تھے کہ ایک اور نیا رشتہ آیا تھا۔ رشتہ ہی کیا، اب رشتے والے حکیم جی کی لڑکی کو دیکھنے آرہے تھے۔
ان دنوں ارینج میرج میں تھوڑی تبدیلی آئی تھی۔ اس لیے لڑکی کے گھر لڑکے کو بھی آنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اقلیمہ سے نسبت کا معاملہ تھا۔
’’ماشاء اللہ، لڑکا تو مناسب ہے۔‘‘ حکیم جی نے کہا۔
لڑکا کسی اور روم میں بیٹھا تھا۔ دوسرے کمرے میں حکیم جی اپنے ہونے والے سمدھی سے گفتگو کررہے تھے۔ بہت سے مسائل پر بات چیت ہوتی رہی۔ مستقبل کے معاملات طے ہورہے تھے۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی:
’’سا لانہ آمدنی کتنی ہوگی لڑکے کی؟‘‘
’’کتنی ہوگی۔ بس یہ سمجھ لیجیے،سب کچھ مناسب ہے۔ گزراوقات کے لیے مناسب ہے۔ ان شاء اللہ، اور بھی بہتر ہوگا۔‘‘ ہونے والے سمدھی نے کہا۔
’’گزر اوقات، یہ تو مناسب بات ہے اور نہ ہی مناسب جواب۔‘‘
سمدھی صاحب نے حکیم جی کے چہرے کی لکیریں پڑھنے کی کوشش کی۔
موٹی موٹی بات چیت کے بعد تمام افراد اُسی روم میں آگئے جہاں ہونے والے دونوں سمدھی پہلے سے موجود تھے۔ حکیمانہ شان سے دسترخوان چن دیا گیا تھا۔ سب کھا پی رہے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں۔ملے جلے موضوعات جیسے چٹنی کا کام کررہے ہوں۔ لیکن حکیم جی قدرے خاموش تھے۔
بیگم یوسفہ اپنی بیٹیوں کے پاس ساکت بیٹھی تھیں۔ مہمان دسترخوان کی شان بڑھا رہے تھے۔ انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس ماحول میں بیٹیوں سے کن مسائل پر گفتگو کرے۔ البتہ چند منٹوں بعد وہ یوں گویا ہوئیں :
’’بیٹی، اقلیمہ۔ یہ جو بابو شامخ ہیں، پسند ہے نا۔ جو آئے ہیں تمھیں دیکھنے ! ‘‘ ماں نے ہڑبڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں، ہاں، ہاں امی۔‘‘ جیسے وہ ابھی قبول کیے لے رہی ہو۔
ماں نے جب آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ ان کے گمان کے برعکس بیٹی نے فی الفور ہاں کا ورد کردیا تھا، جس پر شاید بیٹی کو اب پچھتاوا تھا۔ اس مختصر مکالمے کے بعد پھر وہ اپنی بہنوں کے پاس چلی گئی۔ بہنوں نے اسے دلہن بننے سے قبل ہی دلہن بنانے کی کوشش کی تاکہ وہ مہمانوں کو پرکشش نظر آئے۔
کچھ دیر بعد ماں کی دھیمی دھیمی آواز آئی ’’اقلیمہ، اقلیمہ۔ ادھر آؤ بیٹی۔‘‘
بہنوں کی جھرمٹ سے اقلیمہ باہر آئی اور ماں نے اس سے کہا: ’’یہ لو ٹرے پکڑو، جاؤ اُن سب کو سلام کہہ آؤ۔ ‘‘
’’السلام علیکم۔۔۔‘‘ ٹیبل پرٹرے رکھتے ہوئے اقلیمہ نے کہا۔
پہلے کبھی لڑکیاں ایسے موقع پر عموماً پان لے کر آتی تھیں اور رسمی طور پرپان پیش کرتے ہوئے گزرجاتی تھیں۔ اس طرح لڑکے والے لڑکی دیکھ لیتے تھے مگر آج ٹرے میں پان کی جگہ کولڈ ڈرنک کے گلاس سجائے گئے تھے۔ وہ ہر ایک کے سامنے ٹرے لیے گزر رہی تھی۔
ان تمام مراحل کے بعد مہمانوں کی واپسی ہوچکی تھی۔ لڑکی دیکھنے دکھانے کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔چند گھنٹوں کے بعد حکیم جی کے سامنے تجسس بھری نظروں سے سنجان اور بیگم یوسفہ موجود تھے۔ آیا یہ رشتہ کیسا تھا۔ اسی درمیان انتہائی گہرے لہجے میں حکیم جی نے کہا:
’’لڑکا تو مناسب ہے مگر لڑکے کے والد کا جواب غیرمناسب۔‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ چند سکینڈ رکے۔ پھر کہنے لگے ’’لڑکے کی سالانہ آمدنی مناسب ہے۔ گزر اوقات مشکل نہیں۔ تم لوگوں کو نہیں لگتا کہ یہ کوئی مناسب جواب نہیں ہے۔ میرا تو خیال ہے، یہ قطعاً غیر مناسب جواب ہے۔
اگر تم لوگ مجھے کہنے کی اجازت دو تو میں کہہ دوں کہ ان کی ذہنیت غیر مناسب ہے۔ کیوں کہ زندگی کا ایک معیار ہوتا ہے۔ جس طرح زندگی کا معیار ہے اسی طرح ملازمت کا بھی۔ سرکاری ادارے میں غیر سرکاری رہنا غیر معیاری صلاحیت کا پتا دیتا ہے۔ پھر غیر معیاری ملازمت قبول کرنا بھی غیر معیاری ذہنیت کی علامت ہے۔ سمجھو اس بات کو کہ شامخ سرکاری ادارے میں غیر سرکاری ہے! ‘‘
حکیم جی کے انتقال کو کوئی چھے سات ماہ کا عرصہ گزرگیا تھا۔ بیوہ یوسفہ آج اس پورے منظر کو یاد کررہی تھیں جب حکیم جی صاحب فراش تھے اور اقلیمہ کا آخری رشتہ آیا تھا۔ اس رشتے کو انھوں نے غیر مناسب کہا تھا۔ اس لیے آج بھی انھیں شاید کسی مناسب رشتے کا انتظار تھا۔ مناسب کیا، بیٹی کے لیے اب انھیں کسی درجے کا رشتہ قبول ہوسکتا تھا۔ بیوہ یوسفہ کبھی ماضی میں پہنچ کر اپنے شوہر کے جملوں کو یاد کرتی تھی تو کبھی اپنی بیٹیوں کے مستقبل پر آہیں بھرنے لگتیں۔ پھر کبھی ان کے کانوں میں ’’ہاں، ہاں،ہاں امی۔۔۔۔‘‘ کی ڈراؤنی آواز گونجنے لگتی۔ آواز کے قافلوں کی یلغار ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ چناں چہ ان کی آنکھوں کے سیلاب میں مناسب اور نامناسب سب بہے جارہے تھے۔ اقلیمہ کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی اور خود ان کا وجود لزرتا جارہا تھا۔
یوسفہ اپنی اس کیفیت کا اظہار کس سے کرتیں۔ پہلے حکیم جی ہوا کرتے تھے مگر اب کون؟ اب تو فقط ان کی یادیں تھیں۔ ان کے مناسب اور غیر مناسب کی رٹ تھی یا پھر لائن لگانے والے جملے تھے۔
٭٭٭
یہی وہ زمانہ تھا جب شادی کے دن قریب آرہے تھے۔والد نے جاتے جاتے ایک غیر مرئی دھاگے میں وصیہ اور سنجان کو باندھ دیا تھا۔ اب تو مضبوط پٹے میں تبدیل کرنے کا موسم آیا چاہتا تھا۔ سنجان نے اپنی ماں کو سمجھایا اور دیگر رشتے داروں کی ذہن سازی کی کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ وصیہ کو بس اُس گھر سے اِس گھر تک آنا ہے۔ پہلے تینوں نہ سہی ایک بہن سے نمٹ لوں، اس کے بعد میری شادی مناسب رہے گی۔
جب کہ وصیہ کے والد سوچ رہے تھے کہ بلاشبہ سنجان اچھا لڑکاہے مگر گزرتے وقت کے ساتھ کہیں وہ باپ کے دھاگے کو توڑ نہ ڈالے۔ اس لیے وہ اِمروز و فردا کو غنیمت جان بیٹھے تھے۔ اپنے مشن میں کامیابی کے لیے انھوں نے کئی ایک مہروں کا استعمال کیا۔ ان مہروں نے سنجان کو سمجھایا۔ تاخیر سے کیا فائدہ۔ اپنی ماں کی بھی حالت دیکھو، کیسے گھلی جاتی ہیں۔ وصیہ آجائے گی تو ماں کی جان میں جان آئے گی۔
پھر بکروں کی قربان گاہ پر بھینسوں کی قربانی کا کیا مطلب!
بہنوں کو قسمت سے جوڑا ملے گا۔ خدا حکیم جی کے درجات بلندکرے۔ انھیں خوب تر کی تلاش تھی، خوب تر ہی ہوگا۔ مگر تم کاہے خود کو سُکھائے جارہے ہو۔ وصیہ آئے گی تمھیں آرام ملے گا۔ بیوہ یوسفہ بھی حوصلہ پائے گی۔ بہنوں کو ایک بھابھی مل جائے گی، اکلوتی بھابھی۔ ان کا بھی جی بہلا بہلا رہے گا۔
کئی لوگوں کے مسلسل سمجھانے کے بعد سنجان بھاری دل سے مان گیا مگر اس کی رگوں میں بہنوں کی جوانی خنک سوئی بن کر چبھے جارہی تھی۔ اپنی شادی میں اسے کرنا ہی کیا تھا۔ بس اُس گھر سے وصیہ کو اپنے اِس گھر آجانا تھا۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ اسی موقع سے ایک بہن اور بھائی کا معاملہ ٹھکانے لگے مگر قسمت مان کر نہیں دے رہی تھی۔
٭٭٭
ادھر وصیہ کے دل کا حال مختلف تھا۔ اس کے انگ انگ میں سُرور گھلتا جارہا تھا۔ وہ دور سے ہی سنجان کو محسوس کرکے ایک الگ دنیا میں پہنچ جاتی تھی۔ خاموشی جیسے سنجان کی شکل میں نمودار ہوتی تھی اور وہ اس کے بدن کی رسی کے سہارے لذت کے سمندر میں اتر جایا کرتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ماما نے جاتے جاتے ہماری ہتھیلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کردیا تھا تو اس وقت یہ جنسی احساس سے خالی تھیں مگر اب ہم دونوں کی ہتھیلیوں میں خواب اُگیں گے۔ محبت کی ریکھائیں ایک دوسرے میں پیوست ہوں گی۔ اُنس کی چاک پر ہم گردش کر یں گے۔ کیا ہی حسین لمحات ہوں گے! ان لمحات کے بستروں میں ہم دبک جا یا کریں گے۔
پھر یکایک نئی دلہنوں کے خیالات اسے گھیر لیتے تھے۔ سنجان، میرے جذبات سے انجان بنا تو نہیں پھرے گا؟ کیا اس کے لیے میں اور میرے لیے وہ، پرفیکٹ ہے؟ کہیں میں نے فیصلے میں جلدبازی تو نہیں کردی۔ ماما نے ہمارے لیے اشارہ تو کردیا تھا مگر میرے والد نے سنجان کے متعلق میری رائے ٹٹولنے کی کوشش کی تھی۔ سچ وہ موقع تھا پسند یا ناپسند کا۔۔! کیا سنجان سے اچھا کوئی مجھے مل سکتا تھا؟سرور و خدشات کی ڈولی میں وہ بیٹھی تھی۔
کبھی کبھی وصیہ شادی شدہ اپنی ہم جولیوں کو فون کر لیتی اور انجانے خدشات کو دھونے کی کوشش کرتی۔ سب ’ارے پگلی‘ کہہ کر اسے لاجواب کردیتے تھے اور وہ شگفتگی کے عالم میں پہنچ کر برنائیوں کے خیمے لگائے جاتی تھی۔
٭٭٭
دوسری طرف بنگلہ حکیم خان میں ایک خیمہ تیار کیا جاچکا تھا۔ جسے مقامی زبان میں’مروہ‘ کہا جاتا تھا۔ چار کھونٹے اور منقش چادریں اس کی کل کائنات ہوتی تھیں۔ جسامت کو دیکھتے ہوئے اسے ’شامیانچہ‘ کہا جانا غیر مناسب نہیں ہے۔ اسی چادر کے نیچے بیٹھ کر دولہے کو بارات کے دن تک اُبٹن لگائے جانے والے تھے۔ ایسا ہی ’مروہ‘ آنگن میں لڑکی کے یہاں بھی بنایا جا تا تھا۔ ’مٹکورہ‘ سے شادی تک کے تین دن اہم تھے۔ کیوں کہ بیش تر اوقات سنجان کو اسی میں گزارنے تھے۔ گویا سعودیہ کے صفا و مردہ کے درمیان حاجی دوڑتے ہیں اور ہندستانی مروے میں دولہے اور دلہن بیٹھے رہتے ہیں۔ انھیں یہیں اُبٹن اور مہندی لگائی جاتی ہے۔
مٹکورے کے دن سنجان کا گھر جگ مگ کررہا تھا۔تہذیبی نزاکتوں نے حسن کو دوبالا کردیا تھا۔ اہل خانہ سے متعلقہ نائیوں نے ایک قسم کا ہدیہ ’دچھنا‘ وصول کرلیا تھا۔ گھر والوں نے انھیں دعوت نامے کی طویل لسٹ بھی تھمادی تھی جس کے مطابق علاقے بھر میں گھر گھر جاکر دعوت دینا تھی۔ یہاں کوئی شادی کارڈ نہیں تھا، بس کاغذ پر مشترکہ دعوتی فہرست تھی۔ یہ فہرست اسی ’ڈگرے‘ میں رکھی تھی جس میں’دچھنا‘ میں ملنے والی رقم موجود تھی۔
ڈگرہ دراصل سینی نما بانس کی باریک کھپچیوں سے بنی ہوئی پرات تھی۔ اس کی اونچائی کوئی پون انچ رہی ہوگی۔ گول ڈگرے کی لمبائی اور چوڑائی تقریباً ڈیڑھ بائی ڈیڑھ فٹ تھی۔ ڈگروں کا استعمال صرف مٹکوروں کے موقع پر نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اناج کے پھٹکنے میں بھی وہ مستعمل تھا۔ سوپ کے قبیل کی ایک چیز تھی۔ خوشی سے جھومنے والے رشتے دار اسی میں نائی کے لیے ’ہدیہ‘ رکھتے جاتے تھے۔ اس میں بہ طور رسم چند مٹھی چاول اور دوچار دوبیوں کی گھاس بھی رکھ دی گئی تھی۔ نائی کبھی کبھی ان چاولوں میں ہدیے کی رقم چھپائے جاتے تھے۔
کیا خوشنما ماحول تھا۔ ہر ذرہ گل زار بنا ہوا تھا۔
سنجان شامیانچے میں بیٹھا تھا۔ رشتے کی بھابھیاں ہلدی مَل رہی تھیں تاکہ اس کے چہرے پر فطری پن آجائے، یا پھر اس رگڑ سے چہرے پر جمی فکر کی پرتیں دور ہوجائیں، تاہم سنجان کو محسوس ہورہا تھا کہ ہلدی کے لیپ سے چہرے پر جمے بہنوں کے غمِ جوانی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ میں بارات کے دن پر کشش نظر آؤں۔
مٹکورے کی رسم کو تین دن بیت گئے تھے۔ جشن میں ڈوبے لمحات میں باراتیوں کو سکون مل رہا تھا۔ جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو کر وصیہ سسرال آگئی تھی۔ سنجان کی بہنوں نے جی کھول کر بھابھی سے مذاق کیا مگر ان کی شرارت اور ہنسی مذاق میں غم کی جو دھند جمی تھی، بیوہ یوسفہ اور بیٹے سنجان کے علاوہ شاید ہی کسی کو اس کا عرفان تھا۔
وصیہ حجلۂ عروسی میں بیٹھی تھی اور ان لمحوں کو کاٹے جارہی تھی جو فی الحال اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان حائل تھے۔
سنجان فکر کی انجان راہوں پر نکلا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس نے وصیہ سے پر تپاک معانقہ کیا۔ اس وقت وہ پریوں کے دیس سے آئی ہوئی کوئی مخلوق نظر آرہی تھی۔
جذبات کے پُلوں سے گزر کر دونوں بہت قریب آگئے تھے۔ بستر کی سلوٹوں نے متحد ہوکر جیسے ان دونوں کو قریب کردیا تھا۔ سانسوں کی گرمی سے وجود پگھلا پگھلا جاتا تھا۔ وصیہ کے جذبات شباب پر تھے مگر سنجان کی انگلیوں نے سرد مہری کا کرشمہ دکھانا شروع کردیا تھا جس کا احساس وصیہ کو اچھی طرح ہوگیا تھا۔ وہ گومگو میں مبتلا تھی۔ کیا وہ سنجان کی طرح ہی سرد مہری کی شکار ہوجائے لیکن چند ساعتوں کے بعد اس کا شباب ہیجان میں تبدیل ہوگیا۔ اسی درمیان اس نے بڑے زور کا دھکا دیتے ہوئے سنجان کو اپنے جسم سے دور پھینک دیا۔ حسرتوں کی جھریوں میں وہ الجھی تھی۔ پھر اس نے بیڈ سے چھلانگ لگا دی اور تولیے سے اپنے آدھے وجود کو سہارا دیا۔ کپکپی کے مارے بے ترتیبی سے بندھا ہوا تولیہ اس کی پنڈلیوں تک آلیا تھا۔ اس کی آنکھیں حکیم کی آنکھوں سے زیادہ سرخ تھیں اور وہ غراتی آنکھوں سے سوال برسا رہی تھیں۔ سچ پوچھیے توان میں وہی سوالات تھے جو ’ٹھنڈا گوشت‘ کی کلونت کور کی زبان پر تھے:
’’۔۔۔۔ مگر وہ کون ہے تمھاری ماں، میں پوچھتی ہوں، وہ کون ہے؟ اس کے پیچھے کون ہے وہ کلموہی، بتا کہاں گئے تھے، کہاں۔‘‘
’’گیا تو کہیں نہیں، بس خیال آیا ہے۔ بہن کا خیال۔۔۔۔‘‘ بڑے ہی سرد لہجے میں سنجان نے کہا۔
نظریں جھکائے جیسے وہ کہہ رہا ہو، ملبے پر رکھی گئی بنیاد دراصل بے بنیاد ہوتی ہے۔ ایک طرف بہنوں کی زندگی اور ان کی حسرتوں کے ملبے ہیں اور دوسری طرف میری جوانی کی منزل! وصیہ میری وصیہ، میرے بدن میں سنسناہٹ ہے۔ کیا کروں، بتاؤ۔ میرا وجود لرز رہا ہے۔ بتاؤ تم ہی کچھ تو بتاؤ۔ ابھی تو بس مجھے تم اپنے آنچل میں پناہ دے دو۔
آنچل میں وہ ملفوف تھا۔ اس کی نظروں میں زندگی سُڑکنے والی والد کی ناک اور سرخ آنکھیں ابھرنے لگیں۔ اس طرح ایک بار پھر نتھنوں کی ڈراؤنی آواز گونجنے لگی تھی۔ گویا مرکر مرجانا ہی اچھی علامت ہے اور زندہ رہ کر زندہ ہونے کا احساس دلانا زندگی ہے، تاہم سوال نہ کرنے کی بیماری انسانوں کو مار دیتی ہے اور غلط فیصلے جینا تو کیا مرنے بھی نہیں دیتے۔ سنجان کے ذہن میں سوالوں کی برف پگھل رہی تھی اور اس کا بدن پسینوں میں ڈوبا تھا۔ جب کہ وصیہ نے سنجان کو اپنی غیر مرئی دنیا کا مہمان نہیں میزبان بنا یا تھا مگر وہ میزبان بن کر بھی اجنبی تھا۔ اس اجنبی پن کا علاج کس کے پاس ممکن تھا، وہ غور کرتی رہتی تھی۔
***