" جانتی ہوں میں کہ آپ پر بوجھ بن کر گری ہوں۔
گھر والوں کی ضد کی وجہ سے آپ نے اپنی محبت کھو دی اور نا چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لیا۔
جب سے میں آئی ہوں آپ کو ایک بار بھی ہنستے نہیں دیکھا۔
میری ساس بتاتی ہیں کہ آپ بہت خوش مزاج آدمی تھے۔
اپنی مزاحیہ باتوں سے دوسروں کو خوب محظوظ کیا کرتے تھے۔
مگر یہ تو آپ کا ماضی تھا ۔
آج آپ کی حالت کو دیکھ کر کوئی یقین کرنے پر تیار ہی نہیں کہ آپ کبھی ویسے بھی رہے ہوں گے۔
آپ پر ایسا رنگ ایسا چڑھا کہ ویسا رنگ اتر کر رہ گیا۔
کاش میں آپ کو خوش کر سکتی۔
کاش میں آپ کے ہونٹوں پر پھر سے مسکراہٹ ابھار سکتی۔
میں نے آپکی خدمت کی ہر ممکن کوشش کی مگر میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہی۔
کاش میں شگفتہ ہوتی یا اے کاش کہ آپکی زندگی میں شگفتہ ہی بیوی کے روپ میں شامل ہوتی۔
کم از کم آپ چہکتے تو رہتے۔
آپ کا ٹھنڈا ٹھار وجود اور سرد مہرانہ سا رویہ مجھے مار ڈالے دیتا ہے۔
سچ ہے کہ میں آپکی محبت تھی نہ کبھی ہو سکتی ہوں۔
لیکن اس بھی بڑا سچ یہ ہے کہ آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں۔
میں نے کئی بار چاہا آپ سے کہوں کہ اگر آپ اپنی محبت کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیں تو میری طرف سے پوری اجازت ہے۔
لیکن میں یہ بات اپنے ہونٹوں پر لا نہ سکی۔
میری ساس نے اس دوران مجھے بتایا کہ آپکی محبت اب کسی اور کی دلہن ہے ۔ سوچتی ہوں آپ کو پتہ چلا تو یہ دکھ کیسے سہہ پائیں گے؟
میں تو دعا کرتی ہوں آپ کو کبھی علم ہی نہ ہو ۔۔۔۔کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔" ۔
" اور میں یہ سب پڑھ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا ۔
میں مرد تھا ایک انا پرست مرد
مگر اسکی باتوں نے آج انا کے اس بت کو پاش پاش کر ڈالا تھا۔
آج اس کی ان چاہی بیوی کرونا کے باعث زندگی اور موت کی کشمش میں مبتلا تھی۔
ڈاکٹرز مایوسی کا اظہار دبے دبے لفظوں میں یہ کہہ کر کر چکے تھے کہ مجھے ہر طرح کی صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
آج اتفاق سے اسے اسکی ڈائری ہاتھ لگ گئی جس نے میری زندگی کو زلزلوں کے سپرد کر دیا تھا ۔
کیا میں نے کبھی اس سے پیار کیا تھا
پیار کرنا تو رہا ایک طرف ہنس کے بات بھی کی تھی ؟
میں نے سوچا تو تھوڑی ندامت سے جھکتی ہوئی سینے سے جا لگی ۔
ایسے جیسے کوئی آسمان سے پاتال میں جا گرا ہو ۔
یہ اگر پستی کی آخری حد نہ ہوتی تو اس کی گراوٹ اور بھی زیادہ ہوتی ۔
اپنی جس محبت کا میں سوگ مناتا ریا وہ تو کب کی پیا دیس سدھار گئی تھی اور اب تک تو وہ ماں بھی بن گئی ہو گی اور میری بیوی ۔۔۔۔۔
میں نے اپنی ان چاہی بیوی کو تو کبھی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھا تھا ۔
شادی کی پہلی رات وہ سہاگ کی سیج پر اس کا انتظار کرتے کرتے سو گئی مگر میں نے ایک لمحے کے لیے ادھر کا چکر نہ لگایا ۔
اتنا سب کچھ ہوا اس کے ساتھ اور جو بھی ہوا ایک سے بڑھ کر ایک ہوا ۔۔۔۔۔۔
مگر مجال ہے کہ اس نے کبھی شکایت کا ایک لفظ اپنی زبان سے ادا کیا ہو ۔
اپنے چہرے کے تاثرات سے بھی کبھی اس نے اظہار احتجاج نہ کیا تھا ۔
اور ابھی ابھی ڈاکٹر کی کال آئی تھی کہ میں آ کر آخری دیدار کر لوں
تو کیا یہ میرا آخری دیدار ہو گا ؟
نہیں یقینا ایسا نہیں ہے ۔
یہ میرا پہلا اور آخری دیدار ہو گا
ہاں پہلا اور آخری دیدار
اس کے قدم من من کے ہو رہے تھے ۔
چلنا سخت دشوار ہو گیا تھا ۔
پہلا اور آخری دیدار بہت بھاری پڑنے والا تھا ۔
اسے قرنطینہ میں رکھا گیا تھا ۔
آج بیس دن ہو گئے تھے مگر اس کی طبیعت میں بجائے بہتری کے ابتری کا رحجان دیکھنے کو مل رہا تھا ۔
پلازمہ تھراپی کی بھی کوشش کی جارہی تھی اور یہی اب آخری امید تھی ۔
دعا کے بعد اب اسی علاج کا سہارہ تھا ۔
میں یوں چل ریا تھا جیسے کوئی تختہ دار کی جانب رواں دواں ہو ۔
جیتے جی مجھے انا کے تختے پر مصلوب کیا جانا تھا ۔
میرا جی چاہا اتنا رووں ۔۔۔۔ اتنا کہ۔۔۔۔۔ میرے خدا کو مجھ پر ترس آ جائے ۔
یہ میرا پہلا اور آخری نہیں صرف پہلا دیدار ثابت ہو ۔
میں پوری شدت سے چیخا تھا مگر یہ کیا میری چیخ تو میرے اپنے کانوں تک بھی نہ پہنچ پائی تھی۔
میں نیم جاں ہو کر گرنے ہی والا تھا کہ کسی نے مجھے تھام کر گرنے سے بچا لیا ۔ اپنے محسن پر نظر پڑی تو اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا ۔
میں ہزاروں لاکھوں میں بھی وہ چہرہ بآسانی پہچان سکتا تھا ۔
بھولتا بھی کیسے ؟
جس کی پرستش میں نے برس ہا برس کی تھی اسے بھول جاتا !
" تت۔۔۔۔ تم ۔۔ِ۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ۔۔ِ۔۔۔۔یہاں "
الفاظ میرے منہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے
" ہاں۔۔۔۔۔ یہ میں ہوں ۔۔۔۔۔ تم سے دور رہ کر سب کچھ ملا مگر سکون کی دولت نہیں ملی ۔
شوہر نے طلاق دے کر گھر اور زندگی سے کیا نکالا مجھ پر تو عرصہ حیات ہی تنگ ہو گیا ۔
بڑی مشکل سے وطن واپس لوٹی ۔
کئی ماہ سوگ مناتی رہی اور اب عدت کی مدت گزار کر مجھے تمھارا خیال آیا ۔
تمھارا خیال تو مجھے پل پل دکھی بے چین اور آسودہ کرتا رہا۔
کبھی تمھاری محبت میں ڈوب کر کہا کہ تمھارے بغیر جی نہیں سکتی۔
دو سال کی دوری نے مجھ بتا کہ میں ایک پل بھی تم سے دور نہیں رہ سکتی ۔۔۔ کبھی نہیں رہ سکتی"
اور اس وقت جانے کیوں میرے اندر یہ خواہش جاگی کہ ڈاکٹر کوئی بد خبری ہی سنائے۔
اچانک ایک نرس دوڑتی ہوئی آئی اور بولی
" مریضہ کو ہوش آ گیا ہے۔
پلیز جلدی آئیں وہ آپ کی راہ دیکھ رہی ہے "
میں تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔
اس وقت میرے اپنے جذبات تھے خود میرے لیے کسی پہیلی جیسے ہو گئے تھے۔
میں بد حواسی کے عالم میں اپنی بیوی کے پاس پہنچا تھا۔
اس کا چہرہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھا تھا ۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
اس کی آنکھیں بے ساختہ بند ہوتی چلی گئیں۔
پھر اس میں سے آنسو بہہ نکلے۔
وہ بہت دیر اسی حالت میں لیٹی روتی رہی۔
پھر اس نے میرے ہاتھ پر اپنے کپکپاتے گرم نرم ہونٹوں پر رکھ دیے۔
اف اللہ مجھے یوں لگا دنیا جہاں کی چاشنی میرے وجود میں اترتی رہی ہے۔ میں بھی بے ساختہ رو دیا۔
اتنے بہت سے آنسو جانے میری آنکھ میں آ کہاں سے گئے تھے ؟
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔
میں بھی محویت سے اسے دیکھے گیا ۔ جانے کتنے لمحات گزر گئے۔
اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے مسلسل دیکھ رہی ہے۔
پلکیں تک جھپکانا بھول بیٹھی ہے۔
اور پھر مجھے شدت کا جھٹکا لگا جب نرس نے آکر اس کے اوپر سفید چادر ڈال دی۔
میرے کاندھے پر اس نے اپنا نرم نرم ہاتھ رکھا تو میں سسک اٹھا۔
کھینچ کر اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔
اس وقت میری کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی۔
مجھے معلوم نہ پڑتا تھا کہ مجھے اس کے چلے جانے کا دکھ زیادہ ہے یا اپنی محبت کو پا لینے کی خوشی ۔۔۔۔۔