(Last Updated On: )
تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی لگاتار کوشش کر رہا تھا۔ آسمان سے شعلے برس رہے تھے۔ لوگ کئی دنوں سے مون سون کا انتظار کر رہے تھے مگر بادلوں کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جون کا مہینہ ختم ہونے کو آیا تھا۔ بارش کی ایک بوند بھی کہیں گری نہ تھی۔ جدھر نظر ڈالو وہاں سوکھا پڑا تھا۔ اُدھر محکمہ موسمیات سے مایوس کن خبریں سننے کو مل رہی تھیں کہ مون سون آنے میں ابھی دیر ہے۔
اسے گاؤں کی فکر ستارہی تھی۔ وہاں اس کی بوڑھی ماں، ایک بہن اور دو بھائی تھے۔ ایک بھائی عمر میں اسے بڑا اور شادی شدہ تھا۔ بہن کی شادی کی چنتا سب کو لگی ہوئی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ نہ جانے گھر کا کیا حال ہوا ہو گا۔ ابھی تو پچھلے سال کا قرض بھی نہیں اترا کہ یہ نئی مصیبت آن پڑی۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہوں گی۔ ڈھور ڈنگر پانی کے لیے ترس رہے ہوں گے۔ ان کے لیے چارہ بھی نہیں ملتا ہو گا۔ اسے کئی برس پہلے پڑا ہوا سوکھا یاد آیا جب زمین پر ہر سو دراڑیں ہی دراڑیں نظر آ رہی تھیں اور کہیں کوئی گھاس کا پتّا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دہقان اپنے کھیتوں کو دیکھ کر تلملا رہے تھے۔ ایک طرف قرض داروں کا تقاضا اور دوسری طرف پاپڑ بنے ہوئے کھیت۔ کئی کسانوں کی خود کشی کے سبب سارے گاؤں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔
گوسائیں داس نے دسویں تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر اپنے ہی گھر میں بر انچ پوسٹ ماسٹر کا کام سنبھالا تھا۔ وہ ڈاک ٹکٹیں، لفافے، پوسٹ کارڈ وغیرہ بیچا کرتا اور کبھی کبھار رجسٹری اور منی آرڈر بک کر لیتا۔ گاؤں کے لوگ بچت بنک سے روپے نکالنے یا جمع کرنے کے لیے اس کے پاس چلے آتے۔ یہ سب کام وہ آسانی سے کر لیتا اور وہ بھی اپنے ہی چھت کے نیچے۔ گوسائیں داس اپنی مرضی کا مالک تھا پھر بھی وہ دن نہیں بھول پا رہا تھا جب اس کے ماموں نے ڈاک خانے کے انسپکٹر سے اس کی ملازمت کی بات کی تھی اوربیس ہزار کی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انسپکٹر نے گاؤں میں ڈاک خانہ کھولنے کی تجویز پیش کی،ا س کی منظوری کے لیے تگ و تاز کی اور پھر گوسائیں داس کو غیر محکمانہ برانچ پوسٹ ماسٹر لگا دیا۔ ساتھ میں ایک اور آدمی کو تین ملحق گاؤں میں ڈاک تقسیم کرنے کے واسطے ڈیلوری ایجنٹ مقرر کر دیا۔ ملازمت حاصل کرنے کے لیے اس کے والد کو بیس ہزار کا قرض اٹھانا پڑا تھا۔ ایک دُودھیل گائے تھی اسے بیچ کر کچھ قرضہ اتار دیا مگر شومیِ قسمت اُسی سال سوکھا پڑ گیا۔ گھر میں بدحالی نے ڈیرا ڈال دیا۔ گھر کی خستہ حالت دیکھ کر اور سامنے بیٹی کی اٹھتی جوانی دیکھ کر والد کی ہمت ٹوٹ گئی اور اس نے خود کشی کر لی۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی ساری رقم دے کر بھی نوکری سرکاری نہ تھی بلکہ غیر سرکاری تھی۔ اس وقت تو خیر تنخواہ کچھ حد تک معقول تھی ورنہ دو عشرے پہلے صرف ایک سو دس روپے ماہوار مل جاتے تھے کیونکہ ڈاک خانے کا یہ کام فاضل وسیلۂ روزگار مانا جاتا تھا، بنیادی نہیں۔ بہر حال محنت کش بی پی ایم بچت بنک میں جمع کی گئی رقم سے بطور کمیشن خاصی کمائی کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور امید کی کرن تھی۔ اور وہ تھی کہ اگر بندہ مستقبل میں کبھی محکمے کا امتحان پاس کر لیتا تو سرکاری ملازمت پا سکتا تھا۔ وہ چاہے پوسٹ میں کی نوکری ہو یا پھر گروپ ڈی کی۔ اس طرح معقول تنخواہ مل سکتی تھی، بونس مل سکتا تھا اور سبکدوشی پر پنشن بھی مل سکتی تھی۔ علاوہ ازیں سرکاری چھٹیاں، میڈیکل اخراجات، ایل ٹی سی اور ڈھیر ساری مراعات حاصل ہو سکتی تھیں۔ یہی ایک امید ہے جو ہزاروں لاکھوں غریب دیہی نوجوانوں کو ڈاک خانے سے جوڑ لیتی ہے اور وہ عمر بھراس کی آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ چند ایک کامیاب ہو کر اپنا مستقبل سنوار لیتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر پوری عمر اکسٹرا کا لیبل لگائے اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں۔ نہ امتحان میں کامیابی ملتی ہے اور نہ ہی سینیارٹی کے بل بوتے پر تقرری ہوتی ہے۔ امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے محض سند یافتہ ہونا یا پھر اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرنا کافی نہیں ہوتا۔ کیرئیر کے رتھ کو آگے بڑھانے کے لیے ہر مرحلے پر روپے کے پہیئے لگانے پڑتے ہیں۔ گوسائیں داس نے دس سال کی نوکری میں اتنا تو سیکھ لیا تھا۔ اس کے نصیب نے اس کا ساتھ دیا۔ ایک بار دہلی سے یونین کا جنرل سیکریٹری اس کے گاؤں آیا۔ اس نے لیڈر کی خوب خاطر مدارات کی۔ دستر خوان جام اور مرغ سے سج گیا۔ نتیجتاً اس نے یونین لیڈر کا دل جیت لیا۔ اس کے توسل سے کامیابی کے راستے کھل گئے، سرکل آفس کے افسروں کی جیبیں گرم ہو گئیں اور ایک بار پھر بیس ہزار کی دکھشِنا دے کرگوسائیں داس ہرکارہ بن گیا۔
گوسائیں داس کو گماں بھی نہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ بیس ہزار کی چپت تو لگ چکی تھی مگر اصلی جھٹکا تب لگا جب اس کو شہر میں تعیناتی کا حکم مل گیا کیونکہ گاؤں میں پوسٹ میں کی تقرری ممکن نہ تھی۔ انجام کار گھر چھوٹ گیا، ماں بھائی بہن سب چھوٹ گئے، اور اب شہر میں ایک حبس زدہ کمرے میں دن گزارنے کی نوبت آئی۔ کئی بار جی میں آئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جائے مگر پھر چالیس ہزار اور اس گائے کی یاد آتی جس کو بیچ کر یہ نوکری نصیب ہوئی تھی۔ یہ سوچ کر دل میں اٹھا طوفان تھم جاتا۔ دو چار مہینوں کے بعد گھر جانے کی فرصت ملتی مگر وہاں کی پراگندگی دیکھ کر دل مایوس ہو جاتا۔ گاؤں والوں کا کیا انھیں تو گوسائیں داس کسی بڑے بابو سے کم نہیں لگتا تھا۔ اس کی جھلک پاتے ہی سب لوگ گھروں سے باہر نکل آتے اور اس کو گھیر لیتے۔ ماں، بھائی بندھو سب اس کو دیکھ کر خوش ہو جاتے اور اس سے تحائف کا تقاضا کرتے۔ وہ کسی کو نہیں بھولتا تھا۔ سب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا۔
شہر میں صبح سویرے جب وہ دفتر کے لیے نکل جاتا ایک خوبصورت لڑکی اس کا راستہ کاٹ لیتی تھی۔ کوئی کالی بلّی تو تھی نہیں کہ سائیکل پر سے اتر کر تھوڑی دیر رک جاتا اور پھر سفر جاری رکھتا۔ وہ پہلے پہل اسے نظر انداز کرنے لگا مگر ایسا کہاں تک ممکن تھا۔ آخر کار ایک روز اس لڑکی نے شرارت بھرے لہجے میں پکارا۔ ’’ بابو، میری چھٹی پتری تو نہیں آئی ہے۔ کب سے کوئی پتر ہی نہیں ملا۔ ‘‘
گوسائیں داس نے مڑ کر لڑکی کو دیکھا اور گویا ہوا۔ ’’ کس کی چھٹی کا انتظار ہے ؟ کوئی رشتے دار کہیں باہر گام گیا ہے کیا؟‘‘
’’ ہاں یوں ہی سمجھ لو بابو۔ کب سے انتظار میں بیٹھی ہوں۔ ‘‘ لڑکی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ تو پھر اور تھوڑا انتظار کر لو۔ شاید آ جائے۔ اپنا نام بتا دو، آگے سے خیال رکھوں گا۔‘‘
’’ ہرکارہ بابو، دیکھ لینا، کوئی خط برکھا رانی کے نام آ جائے تو دے دینا۔ ‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔
گوسائیں داس پھر بھی اس کا مطلب سمجھ نہیں پایا لیکن من میں چاہت کی چنگاری پیدا ہو گئی۔ سوچنے لگا کہ کون ہو سکتا ہے جس کے خط کا انتظار برکھا رانی کو ہے ؟گاؤں میں ایسا کون ہے جس کے ساتھ اس کی آشنائی ہو سکتی ہے ؟ سنا ہے کہ ڈاکیے خط کو دیکھ کر ہی اس کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ بنا کھولے بتا سکتے ہیں کہ اندر کیا لکھا ہے، خوشخبری ہے یا کوئی منحوس پیغام !مگر یہاں تو الٹا ہی معاملہ تھا۔ یہاں تو قیافہ شناسی کا امتحان لیا جا رہا تھا۔
دوسرے روز برکھا رانی نے پھر اس کا راستہ روک لیا۔ دیکھتے ہی بولی۔ ’’ کیوں رے، بابو، کوئی خط آیا یا نہیں۔ ‘‘ اور پھر کئی روز یوں ہی گزر تے رہے۔ نہ خط آیا نہ برکھا کے من کی پیاس بجھی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ ہر روز وہی سوال کرتی اور وہی جواب پاتی۔ گوسائیں داس کو چڑ سی ہونے لگی۔ ایک روز تنگ آ کر جواب دیا۔ ’’ اری برکھا، میں کیا کروں، تمھیں کوئی خط لکھتا ہی نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور۔ جب خط آئے گا تو خود ہی دے دوں گا۔ یہ روز روز کیوں پوچھتی ہو۔ ‘‘
برکھا رانی آج بہت ہی شاداں و فرحاں لگ رہی تھی۔ مسخرے پن سے بولی۔ ’’ بابو، کوئی نہیں لکھتا تو کیا ہوا، تم ہی لکھ دو۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور دوڑتے ہوئے گلی میں غائب ہو گئی۔
آج پہلی بار گوسائیں داس کو کچھ کچھ سمجھ میں آیا۔ گھر جاتے ہی اس نے مکان مالکن سے، جس کو وہ اماں کہتا تھا، اس بارے میں پوچھ لیا۔ اماں سن کر ہنس دی اور کہنے لگی۔ ’’ مورکھ ابھی تک نہیں سمجھے۔ وہ تمھیں چاہتی ہے۔ اس کو کسی کے خط کا انتظار نہیں ہے۔ وہ تو بس تمھارے ساتھ پریم کرنے لگی ہے۔ کل جب ملو گے تو ہاں یا ناں میں جواب دے دینا۔ ‘‘
بوڑھی اماں کا تجربہ کام کر گیا۔ گوسائیں نے اپنے من کی بات کہہ دی اور برکھا رانی کو ایسا لگا جیسے اس کے سوکھے وجود پر ابر دریا بار چھا گیا۔ وہ پھولی نہ سمائی۔ اور پھر یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ دونوں کبھی آم کے باغوں کی سیر اور کبھی دریا کے کنارے گھنٹوں ٹہلتے رہتے۔ برکھا رانی کے نشے میں گوسائیں گاؤں کو بھول ہی گیا۔ شہر میں خرچہ اتنا بڑھ گیا کہ گاؤں روپے بھیجنا بند کر دیا۔ وہاں سے مسلسل تقاضا ہوتا رہا اور یہاں سے طویل خاموشی چھا گئی۔ ماں پریشان، بھائی پریشان، بہن پریشان، خط پر خط لکھے جا رہے ہیں لیکن گوسائیں کسی کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ بڑے بھائی نے سب کام چھوڑ چھاڑ کر شہر کی راہ لی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گوسائیں داس بھلا چنگا ہے مگر اس کا رویہ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ بہت پوچھنے پر بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ آخر کار اماں نے راز فاش کر دیا اور بڑے بھائی کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ گوسائیں کسی لڑکی کے قابو میں آ گیا ہے اور تب سے عجیب عجیب سی حرکتیں کر رہا ہے۔ اب نہ اس کے دن کا پتا چلتا ہے اور نہ رات کا۔ بہتر ہو گا کہ ان دونوں کی شادی کی جائے۔ اتنا سننا تھا کہ بڑے بھائی نے رات کو ڈنر کے وقت گوسائیں داس سے سب کچھ پوچھ لیا اور اگلے ہی روز لڑکی کے گھر پہنچ گیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ لڑکی کے گھر جا کر اسے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیٹھتے ہی اس کی ذات پوچھی گئی اور جب اس نے اپنی ذات کے بارے میں بتایا تو جواب ملا۔ ’’ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کھشتری ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ہمارا حال آج کل کچھ پتلا سا ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی لڑکی کسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے کو دیں گے۔ ہماری ڈیوڑھی پر ایک زمانے میں ہن برستا تھا۔ دادا جی گاؤں کے مکھیا تھے۔ جوئے اور شراب میں ساری جائیداد گروی رکھ دی اور ہمیں سڑک پر لا کر چھوڑ دیا۔ مگر کہتے ہیں نا کہ ہاتھی ہزار لٹے تو بھی سوا لاکھ ٹکے کا۔ ہماری لڑکی تو بڑے گھر ہی بیاہی جائے گی۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آپ نے یہاں آنے کی ہمت کیسے کی۔ ‘‘
واپس آ کر بڑے بھائی نے گوسائیں داس کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ سمجھا۔ وہ کسی اور جگہ شادی کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ نصیب اچھا تھا کہ اس کی پٹائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کے نام کی سپاری دی گئی ورنہ ان لوگوں کی رگوں میں ٹھاکروں کا خون دوڑ رہا تھا اور وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے۔ گوسائیں اور برکھا دونوں تڑپ کر رہ گئے۔ برکھا پر تو اب پہرے لگ چکے تھے۔ ملنے کی کوئی سبیل نہیں بن رہی تھی۔
اِدھرگوسائیں کی صحت گرتی چلی گئی۔ کئی بار بیمار ہوا۔ ڈاکٹر نے جانچ کی مگر معلوم ہوا صرف ذہنی پریشانی اور جسمانی کمزوری ہے۔ ڈیوٹی تو خیر کرنا ہی پڑتی ہے۔ وہ چاہے جھلستی گرمی ہو، ٹھٹھرتی سردی ہو، موسلا دار بارش ہو، بازار میں پتھراؤ ہو، بستی میں بم پھٹ رہے ہوں یا پھر سڑک پر لاٹھی چارج ہو رہا ہو۔ ڈاک تقسیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب صبح سویرے برکھا کے بدلے بِلّی راستہ کاٹ کر جاتی ہے۔ دن بھر منحوسیت کا عالم رہتا ہے۔
آج گوسائیں کو کئی محلوں میں ڈاک تقسیم کرنے جانا تھا۔ ڈاک کا بڑا سا تھیلا اٹھا کر اس نے سائیکل کے پیچھے کیرئیر میں باندھ لیا اور رام کا نام لے کر دن کے سفر پر چل پڑا۔ اس کا دائرۂ گشت ڈاک خانے سے کافی دور تھا۔ راستے میں ایک ڈیڑھ کلو میٹر کا خالی میدان پڑتا تھا۔ دائیں بائیں ایستادہ سبھی درخت سڑک بناتے وقت کاٹے گئے تھے اور اب خال خال ہی کہیں سایہ دار شجر دکھائی دیتا تھا۔ مسافر کہیں دم لینا بھی چاہتا تو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی تھی جہاں پر وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر سستاتا۔ سڑک کے اختتام پر گوسائیں کو برساتی نالے پر بنا ہوا پُل پار کرنا پڑتا۔ تب وہ کہیں جا کر دوسری طرف بسے گاوں میں پہنچ جاتا اور وہاں دکانوں اور گھروں میں ڈاک تقسیم کر لیتا۔ شد ید گرمی کی وجہ سے اس کا سر چکرانے لگا۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ آس پاس کہیں پانی کی بوند بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ اگر نالے میں اس وقت پانی ہوتا تو وہ اسے ہی پی لیتا۔ اس کے سوکھے حلق میں کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ بدن پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ سارا جسم تپ رہا تھا۔ وہ کہیں چھاؤں میں آرام کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ٹانگوں میں سائیکل چلانے کی قوت باقی نہیں بچی تھی۔ پھر بھی وہ سائیکل کو اس امید کے ساتھ گھسیٹے جا رہا تھا کہ آگے کہیں نہ کہیں بستی ملے گی اور وہ اپنی پیاس بجھا سکے گا۔ جیسے تیسے اس نے پُل پار کر لیا اور سامنے بستی نظر آنے لگی۔ دیکھ کر تھوڑا بہت اطمینان تو ہوا لیکن اسے ابھی بھی یقین نہ تھا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو گا۔
آخر کار وہ ایک دکان کے پاس پہنچ گیا اور اس کے ہاتھ سے سائیکل چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ اس نے دکان دار کی جانب دیکھ کر کہا۔ ’’بھیا، ذرا مجھے پانی پلا دو۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ نڈھال ہو کر دکان کے تھڑے پر گر پڑا۔ دکان دار اسے دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا۔ جلدی سے تھوڑی سی مٹھائی اور پانی لے کر آیا اور اسے پلا دیا۔ پھرگوسائیں کو بانہوں میں اٹھا کر دکان کے اندر لایا۔ تب تک اور بھی کئی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ گوسائیں کا بدن تپ رہا تھا۔ پانی پلانے کے باوجود اسے ہوش نہیں آ رہا تھا۔ دکان دار نے سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر اپنا رائیل این فیلڈ سٹارٹ کیا۔ ایک اور آدمی نے گوسائیں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے زور سے پکڑ لیا۔ اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی ہسپتال پہنچ گئی۔
سائیکل اور ڈاک کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ گیا۔ جاتا بھی کیسے۔ یہاں گوسائیں کی جان پر بن آئی تھی پھر ان چیزوں کی طرف کون دھیان دیتا۔ سبھی لوگ اس کو بچانے کی کوشش میں جٹے ہوئے تھے اوراس کے آگے پیچھے منڈلا رہے تھے۔
اُدھر تین چار گھنٹے بعد پوسٹ ماسٹر کو اس حادثے کی خبر مل گئی۔ اس نے میل اوؤر سیر کو سائیکل اور غیر تقسیم شدہ ڈاک واپس لانے کا حکم دیا۔ سائیکل تو ملی مگر وہ تھیلا جس میں ڈاک تھی کتوں نے اس کی تکا بوٹی کر دی تھی اور ساری چٹھیاں وہیں زمین پر بکھیر دی تھیں۔ کچھ ثابت تھیں اور کچھ پھٹی ہوئیں۔
گوسائیں داس کو ہوش آنے میں کافی وقت لگا۔ آخر کار جب آنکھیں کھلیں تو اسے تعجب ہوا کہ وہ ہسپتال کیسے پہنچ گیا۔ اس کے گھر والوں کو بھی خبر چلی گئی تھی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ گھر والوں کو دیکھ کر گوسائیں داس اور بھی زیادہ پریشاں ہو گیا۔
اس رات موسم بھی بدل گیا۔ باہر جم کر برسات ہونے لگی۔ کب سے گاؤں والے برکھا کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کی مراد یں پوری ہو گئی مگر گوسائیں کی تشنگی پھر بھی برقرار تھی۔ اس کی برکھا اب تک نہیں آئی تھی۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگا کہ نہ جانے اسے خبر ملی بھی ہو گی یا نہیں۔
کئی دن یوں ہی بیت گئے۔ گوسائیں داس نے دوبارہ دفتر جانا شروع کر دیا۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی اس کی پیشی لگ گئی۔ پوسٹ ماسٹر نے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا۔ ’’ تم کو اپنی ڈیوٹی کا ذرا بھر بھی خیال نہیں رہتا ہے۔ معلوم ہے اس روز تمھاری ڈاک میں سے ایک انشورڈ آرٹیکل اور ایک رجسٹری گم ہو چکی ہے۔ اس بارے میں شکایت بھی درج ہو چکی ہے۔ شاید محکمے کو ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا اور اس کی بھرپائی تمھاری تنخواہ سے ہو گی۔ ‘‘
’’ صاحب جی، اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں نے تو سبھی چیزیں بڑے احتیاط سے سائیکل پر رکھی تھیں۔ گرمی کے سبب میری بہت بری حالت ہو گئی تھی اور میں بے ہوش ہو کر گر گیا تھا۔ ‘‘
’’ تمھیں محکمے کے قاعدے قانون کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ تقسیم کے لیے دی گئی ڈاک کی رکھوالی کرنا تمھاری ڈیوٹی ہے۔ تمھارا فرض تھا کہ ان چیزوں کی جان سے بھی زیادہ رکھوالی کرتے۔ انھیں پہلے کسی کے حوالے کرنا چاہیے تھا اور تب ہسپتال جانا چاہیے تھا۔ میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتا۔ ‘‘
چند ہی روز کے بعد اس کے ہاتھ میں سپرنٹنڈنٹ صاحب کا جاری کردہ چارج شیٹ تھا۔