سچل کی بانسری کی دھن فضا ءمیں بکھر رہی تھی اورملہار آنکھیں بند کیے اس آواز کو اپنے دل کی دھڑکن میں سمو رہی تھی ۔پھر سچل کی بانسری بند ہو گئی توملہار کو ایسا لگا جیسے وہ ابھی ابھی دھرتی پر آئی ہے۔وہ شاید آسمانوں پر چاند ستاروں کے ساتھ رقص کر رہی تھی یہ کیفیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
”کیا ہوا ؟“ سچل نے اُسے حیران و پریشان دیکھ کر پوچھا ۔
”کچھ نہیں بس جب تم بانسری بجاتے ہو تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں آسمان پر چاند ستاروں پر رقص کر رہی ہوں بالکل ایسے جیسے ہمارے تھر میں کبھی مور ناچا کرتے تھے۔ بابا نے مجھے بتایا ہے کہ جب کبھی گھنیرے بادل آسمان پر ڈیرے ڈالتے تو تھر کی زمین پرمور اپنے پر پھیلا دیتے پھر گھنگھور گھٹاوں کے برستے ہی مور بد مست ہو کر بے تکان ناچتے۔بارش کا برستا پانی انسانوں کے ساتھ ساتھ جانورں اور پودوں کے لیے زندگی کی نوید لے کر آتا اور جل تھل کر جاتا پورا تھر بارش سے نکھر کر کسی مصور کی تصویر کا منظر پیش کرنے لگتا ۔مگر سچل اب بارش کیوں نہیں ہوتی؟پھر خود ہی دوبارہ بولی!
”دیکھ تو زمین کسی پیاسے کے ہونٹوں کی طرح خشک ہو کر چٹکنے لگی ہے ۔درختوں کا سایہ بھی کم ہو گیا ہے اب تو درختوں کی ٹہنیاں جھولوں کا وزن بھی نہیں سہہ پاتیں اور جانوروں کے پیٹ ان کی کمر سے جا لگے ہیں“۔
سچل اُسے پریشان نہ کرنا چاہتا تھا۔کہ اماں نے اُسے کہا تھا کہ ان دنوںملہار کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھوںکہ ماں بننے والی عورت کا خوش رہنا اس کے بچے پر اچھا اثر ڈالتا ہے ۔اس لیے اس کا خوش رہنا ضروری ہے
اسی لیے وہ اس سے یہ نہ کہہ سکا کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں ۔اب تو تھر کے گھروں پر موت کا سایہ منڈلا رہا ہے ۔ ڈھور ڈنگر سب زندگی کی بازی ہارتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں جبھی تو اب بستی کے باہر والے درختوں پر گدھ آکر بیٹھنے لگے ہیں ۔کہتے ہیں گدھ فضا ءمیں موت کی بو سونگھ لیتے ہیں اور پھر اسی سمت پرواز شروع کر دیتے ہیںجہاں موت اپنا رقص کرنے جا رہی ہو کہ جب موت کے رقص کی تھاپ پر سانسوں کی ڈور ٹوٹنے لگتی ہے تو گِدھوں کو اپنی زندگی کی نوید سنائی دیتی ہے ۔ان کی آنکھیں سیرابی شکم کے تصور سے چمکنے لگتیں ہیں ۔
ٓ یہ سب باتیں کر کے وہ اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ملہاراُسے بہت عزیز تھی۔ اس نے بہت ضد کر کے اماں بابا کو اِس سے شادی پر راضی کیا تھا ۔اماںتو پھر بھی مان گئی تھی ،مگر بابا تو اُس وقت تک نہ مانا جب تک ملہار کے ماں باپ نے بدلے میں اُس کی بہن مومل کا رشتہ نہ لے لیا ۔یوں وٹے سٹے کی بنیاد پر ہی سہی مگر اُس کی یک طرفہ محبت اُسے مل گئی۔
یک طرفہ اس لئے کہ سچل نے ملہار کو گاوں کی ایک شادی میں دیکھا تو اُس کا اپنا ہی دل ملہار کا اسیر ہو گیا ۔مشکل سے ہی سہی مگر اب ملہار نہ صرف اُس کی بیوی تھی بلکہ اُس کے بچے کی ماں بھی بننے والی تھی ۔اماں بابا بہت خوش تھے ۔ اب وہ خود بھی اُس کا بہت خیال رکھتے تھے۔
مومل بھی اپنے سسرال میں خوش تھی اللہ سائیں کی مہر سے اُس کا پاو¿ں بھی بھاری تھا ۔ بستی میں نومود کی آمد پر بستی کے بزرگ اللہ کا شکر ادا کرتے ۔بزرگ بابا نورالدین سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرتا وہ اُس روز جم کر بھنگڑا ڈالتا اور ایک ایک سے کہتا ،دیکھو اللہ سائیں ابھی اپنے بندوں سے نا اُمید نہیں ہوا ہے ۔جبھی تو اُس کی رحمت اور نعمت برس رہی ہے ۔
مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے بابا نور الدین آج کل آسمان کو گھنٹوں ٹکٹکی باندھ کردیکھتا رہتا ، جب بھی کوئی جانور مر جاتا، تو کہتا ،
” اسے بھی دفن کرو ورنہ گدھ آجائیں گے مردار کھانے“
ایک دن تو بخشو نے غصے میں کہہ بھی دیا کہ آنے دو انہیں اب ہمیں کیا اِن مردہ جانوروں کو کوئی بھی کھائے کم از کم ان کا تو پیٹ بھرے گا، تو بابا نوالدین نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور بولا!
” نہ اب نہ ایسا بولنا، ایک تو ہم پر برا وقت ہے کہ ہماری زمین سوکھ رہی ہے اور اس پر ایسی سوچ نہ، نہ کیا تم نہیں جانتے اس کا تو سایہ بھی منحوس ہے جس پر پڑ جاتا ہے۔
پھر وہ بھی حرام کو زندگی سمجھ لیتا ہے۔ ہم تواشراف لمخلوقات ہیں ہم مردار کھانے کی تو اپنے دشمن کو بدعا بھی نہیں دیتے “۔
بابا نور الدین کی باتیں سن کر سب خاموش ہوگئے کہ اس کی عمر ہو چلی ہے۔ اس عمر میں دماغ پھر جاتا ہے، اور اکثر بندے ایسی ہی باتیں کرتے ہیں ۔اکثر تو بابا نور الدین خود ہی اوکھے سوکھے ہو کر سوکھی زمین کھود کر گڑا بنانے کی کوشش کرتا کہ مردہ جانور کو اس میں دفن کر سکے اور ساتھ ساتھ بڑ بڑاتا بھی جاتا کہ میںتمہیں مردار نہں کھانے دوں گا۔ میری بستی سے دور چلے جاو میں اپنے لوگوں پر تمھارا سایہ بھی نہیں پڑنے دوں گا۔ مگر کسی بھی مور کو دفنانے سے پہلے وہ ہولے ہولے اس کے سارے پر نکال لتیا اور شام کو مزار پر اُنہی پروں سے چھاڑو دیتا اور دعا مانگتا کہ اللہ سائیں راضی ہو جائے ۔
بابانورالدین نے ہی بتایا تھا کہ موسم تو پہلے بھی سخت ہو جاتا تھا مگر لوگوں کا آپس میں خلوص و پیار دیکھ کر نرم پڑ جاتا تھا، جب تک کسی ایک بھی تھری کے گھر پانی کا ایک بھی گھونٹ ہوتا تو وہ بھی ہر ایک کا ہوتا تھا اب تو کوئی کسی کی آنکھ کے پانی کی وجہ بھی نہیں جاننا چاہتا، شاہد اسی لئے موسم بھی ظالم ہو گیا ہے۔ موسم بھی تو اللہ ہی کی مخلوق ہے ناں ،ظالم کا رنگ چڑھ گیا ہو گا پڑ گیا ہو اس پر سایہ۔۔۔۔۔۔
مومل اپنے سسرال میں خوش تو تھی مگر جب بھی اپنی بھابھی کے لئے اپنے بھا ئی کی والہانہ محبت دیکھتی تو دل میں کسک محسوس کرتی کہ قاسم تو اُسے ایسا پیار نہیں کرتا۔ اسی زیادہ کی چاہ میں کبھی کبھی بد مزگی ہو جاتی مگر پھر آہستہ آہستہ سب معمول پر آ جاتا ۔
مگر اُس روز تو حد ہی ہو گئی رات جب وہ پانی پینے اٹھی تو دیکھا قاسم اپنے بستر پر نہیں، مومل نے قاسم کی تلاش میں اِدھر اُدھر نگائیں دوڑائیں تو صحن سے ذرا پرے کونے میں نیم کے درخت کے پیچھے چاند کی چاندنی دو سائے بنا رہی تھی۔ مومل اپنے دل میں ڈھیروں وسوسے لئے دبے پاوں اُس جانب بڑھی قریب پہنچ کر اُوٹ میں ہی رک گئی یہ آواز اُس کے سسر کی تھی، جو قاسم سے کہہ رہے تھے ۔۔
”بس تو دل چھوٹا نہ کر تجھے نئی موٹر سائیکل مل جائے گی، فیکا نائی بتا رہا تھا کہ اُ سکی دُکان پر ایم این اے کا منشی آیا تھا وہ بتا رہا تھا، کہ گورئمنٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ تھر کے ہسپتال میں سہولیات کی کمی کے باعث اگر زچگی کے دوران کوئی بچہ مر جائے گا تو اُس کے وارثوں کو پچاس ہزار ملیں گے ۔بس تو اپنی بیوی کا نام اُسی ہسپتال میں لکھوا دے ،اور ہاں جب اس کو زچگی کے درد اُٹھیں تو ہسپتال لے جانے میں دیر کر دینا،بچہ پیٹ میں ہی مر جائے گا۔ تو تجھے پچاس ہزار مل جائیں گے، تو اِن پیسوں سے نئی موٹر سائیکل خرید لینا ۔
”مگر بابا میرا بچہ!“ قاسم نے مری ہوئی آواز میں پوچھا !
”بچے کا کیا ہے ؟ دوبارہ پیدا کر لینا تو جوان ہے“ ۔باپ نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا !
” اپنے دین محمد کو دیکھ اُ س کے دو بچے آگے پیچھے بیمار ہو کر مر گئے کیا ہوا صرف اخبار ٹی وی والے آئے خبر بنائی، گنتی گنی کہ تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداداتنی ہو گئی ہے اور بس اللہ، اللہ خیر صلہ، اب سنا ہے اس کی بیوی پھر اُمید سے ہے“ ۔
مومل سے اس سے زیادہ نہ سنا گیا وہ سن ہو کر رہ گئی مگر نجانے اُس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ وہ چپ چاپ اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گئی اور قاسم کے آنے سے پہلے سوتی بن گئی اُس کے دل میں طوفان اُٹھ رہے تھے اُسے اپنے ماں باپ بہت یاد آنے لگے ،رات نا جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔صبح اُٹھی تو اُسی نیم کے درخت پر نظر جا ٹھہری اُ سے ایسا لگا جیسے درخت کی چوٹی پر گِدھ بیٹھا ہو، جس کا سایہ اُس کے آنگن ہر پڑ رہا ہے۔اُس نے ایک نئی ضد شروع کر دی کہ مجھے اپنے میکے جانا ہے ۔رات میں نے اچھا خواب نہیں دیکھا۔
مومل کی ساس نے جب سسر سے اُس کے میکے جانے کی اجازت مانگی تو سسر نے بھی خوشی خوشی اجازت دے دی اور کہا!
” ہاں ہاں ابھی لے جاو، ملوا کے لے آنا اس کا جی بہل جائے گا“ ۔پھر بیوی سے بولا” اس کی زچگی سسرال میں ہی ہو گی“ ۔
مومل جب اپنے میکے آئی تو ملہار کے گلے لگ کر کچھ اس لجاجت سے ضد کی کہ ملہار نے اپنے بھائی کو یہ کہہ کر اکیلا واپس بھیج دیا کہ ایک دو روز میں واپس بھیج دوں گی ۔
اُس دن تو مومل، اماں بابا سے کوئی بات نہ کر پائی کہ رات بھی جلدی ہی سو گئی تھی مگر صبح اُٹھی تو اماں اُسی کے پاس آکر بیٹھ گئیں اماں کچھ کہنا چاہ رہیں تھی مگر بات شروع نہ کر پا رہی تھی، بس ابھی یہ ہی پوچھا تھا کہ واپس کب جاو گی کہ بابا نے آواز دے دی اور اماں اُٹھ کر چل دی۔
مومل نے سوچا مجھے اسی وقت بات کر لینی چاہیے ،تو وہ بھی یہ سوچ کر ماں کے جاتے ہی پیچھے پیچھے چل دی مگر بابا کی آواز نے اس کے قدم کمرے کے باہر روک دیئے، بابا کمرے کے باہر اس کی موجودگی سے بے خبر اماں سے کہہ رہا تھا کہ
” مومل کو اس کے گھر بھیج دو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہاں رک جائے اور ملہارکو ہمیں اُس کے میکے بھیجنا پڑے زچگی کے لئے ۔پھر تو مجھ سے شکوہ نہ کرنا کہ میرا بیٹا شادی کے بعد مجھ سے دور ہو گیا ہے ۔اور میرے ہاتھ سے زمین بھی نکل جائے گی بڑے موقعے کی زمیں مل رہی ہے پھر گورئمنٹ کہاں بار بار یہ اعلان کرتی ہے کہ زچگی کے دوران مرنے والی
زچہ اور بچہ کے ورثہ کو کو دو لاکھ ملیں گے ۔
٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...