بے ٹھکانہ کبوتروں کا غول آسمان میں پرواز کر رہا تھا۔
متواتر اڑتا جارہا تھا۔ اوپر سے نیچے آتا۔ بے تابی اور بے چینی سے اپنا آشیانہ ڈھونڈتا اور پھر پرانے گنبد کو اپنی جگہ سے غائب دیکھ کر مایوسی کے عالم میں آسمان کی جانب اڑجاتا۔
اڑتے اڑتے ان کے بازو شل ہوگئے۔ جسم کا سارا لہو آنکھوں میں سمٹ آیا۔ بس ایک ابال کی دیر تھی کہ چاروں طرف۔۔۔
لیکن یہ پڑوسیوں کے بچے بھی کم بدمعاش نہیں۔ مرغیوں کے ڈربے میں آدمی رہنے پر مجبور ہوجائیں اور مرغیاں وسیع و عریض ہال میں چہل قدمی کرنے کی سعادت حاصل کرلیں تو کئی باتوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوتا ہے۔۔ لیکن بچے تو بچے ٹھہرے۔ اپارٹمنٹ کے بچے ہوں یا عام قصباتی گلیوں اور جھونپڑ پٹیوں کے بچے۔۔۔
بچے بھی اتنے بے ہنگم ہوتے ہیں۔۔۔ اتنا شور مچاتے ہیں۔۔۔ سارے فلیٹ کو سر پر اٹھا لیتے ہیں، لیکن سر پر اٹھانے کے لیے شہر کے سب سے بڑے اپارٹمنٹ کا سب سے چھوٹا وَن بیڈ روم یونٹ یعنی اس کا فلیٹ ہی تھا جس میں کھیل کود کی سب سے کم گنجائش تھی۔ کارپیٹ ا یریا کے نام پر چند انسانوں کے سانس لینے کے لے جسم کے ہلنے ڈلنے بھر کی جگہ دی گئی تھی۔ چاروں طرف سے بند ڈربے میں بس ایک چھوٹی سی بالکنی ہی راحت پہنچاتی تھی، جس کے بڑے حصے میں متعدد گملے سجے ہوئے تھے۔ گملوں میں انواع و اقسام کے پھولوں کے پودے لگے ہوئے تھے۔ گلاب، چنبیلی زنّیا، کروٹن اور۔۔۔ جینے کی آرزو کے استعارے۔۔۔
دن بھر کا تھکا ماندہ، ہانپتے کانپتے بغیر لفٹ کے اپارپاٹمنٹ کی چوتھی منزل پر پہنچ کر وہ ا پنے فلیٹ کی کال بیل بجاتا، بدحواسی پورے وجود پر طاری ہوتی۔
بچے پیروں سے لپٹتے کاندھوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے۔
’’تم لوگ اب تک کلچرڈ نہیں ہوسکے۔ دوسرے بچوں کو دیکھو۔۔۔ سیکھو کچھ ان سے۔۔۔ کس طرح نہ ہونے کی طرح ہوتے ہیں۔ یہی تو ان کی شناخت ہے۔۔۔‘‘
لیکن چھوٹی سی بالکنی میں آکر بیٹھ جاؤ۔۔۔ گرم گرم چائے کی ایک پیالی مل جائے اور بچے خاموش اور مصروف ہوں تو معلوم ہوتا کہ زندگی میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ جنت میں اس سے زیادہ لطف آئے گا بھلا ۔۔۔ساری تکان دور ہوجاتی۔
اپارٹمنٹ کے کیمپس میں بڑے پیپل کے درخت کو بلڈر نے اپنی جگہ سالم چھوڑ دیا تھا۔ اس کی ایک شاخ اس کی بالکنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ سیمنٹ کے اس پہاڑ کے ساتھ پیپل کے درخت کا کولاژ جدید مصوری کے شاہ کار نمونے کی طرح دکھائی دیتا تھا۔
گوریّوں کا جھنڈ چہچہاتا ہوا اپارٹمنٹ کی اس بالکنی میں منڈلاتا رہتا اور زندگی کی خوب صورتی کے گیت گاتا۔ ایک نٹ کھٹ گلہری تیزی سے آتی اور شرارت بھری آنکھوں سے اسے گھورتی ہوئی پیپل کے درخت کی ٹہنی کے راستے پیڑ پر واپس چل دیتی۔ہواؤں کی خنکی میں سورج کی سنہری کرنوں کی گرمی من پسند دل ربا اور سیم تن کی گرمی سے ذائقہ دار ہم آمیزی کا لطف دیتی۔
زندگی اتنی سفاک نہ بن۔۔۔
سب کچھ داؤں پر لگا کر تجھے حاصل کیا ہے یا ہنوز۔۔۔
تجھے پانے کی جستجو میں ہوں۔۔۔
وہ دھیمے دھیمے سر میں گنگناتا۔
وہسکی اور بیئر کو ملادو تو اس کی تلخی دماغ کو جھنجھناتا ہوا لطف عطا کرتی ہے۔ سارا وجود ہلکا ہوکر آسمان میں اڑنے لگتا ہے۔ اوپر سے دیکھنے پر زمین پر چلنے والے لوگ کتنے بونے نظر آنے لگتے ہیں۔
ہوائیں تیز چلنے لگیں۔ پیپل کے پتے ہلنے لگے۔ پیپلیاں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ گوریّوں کی چہچہاہٹ معمول سے مختلف سماعتی پیکر اختیار کر رہی تھی۔
بغل والا پڑوسی کہہ رہا تھا، اس بار پچھلے سال والا ابال نہیں۔ دن خیریت سے کٹ جائے گا۔ موسم ٹھیک ہے۔ جینے کی چاہت قائم ہے۔۔۔ آپ بھی مزے سے رہیے۔
’’نو پرابلم۔۔۔‘‘
’’اپارٹمنٹ کے تمام بچوں کو میرے ہی فلیٹ میں مجمع لگانا تھا۔ ان کی کوئی کانفرنس ہے کیا۔ ٹو بیڈروم اور تھری بیڈروم کے بڑے بڑے فلیٹ چھوڑ کر ون بیڈروم فلیٹ میں ان کا جماؤ۔۔۔ ہر جگہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے۔ لیکن تمام چھوٹی مچھلیاں مل کر بڑی مچھلی کا روپ دھارن کر لیں تو۔۔۔‘‘
ٹیلی ویژن آن تھا۔ پرائیویٹ چینل کے پروگرام چل رہے تھے۔ دودھیا اسکرین پر تاریخ کی طویل صدیاں لمحوں کی نوک پر خود بہ خود آخری ہچکی لے رہی تھیں۔
’’کوئی تو سمجھائے ان بچوں کو جاکر۔۔۔ ناگفتہ بہ حالات میں کیا آسمان سر پر اٹھالینے کا ارادہ ہے۔۔۔ گلیوں، پھولوں اور تلسی کی پتیوں، میرے گملوں پر کوئی ضرب نہ آجائے۔۔۔ بڑی محنت سے انھیں سینچا ہے۔۔۔ اجی سنتی ہو۔۔۔ ذرا دیکھو۔۔۔ اچھا چھوڑو۔۔۔ شریف آدمی کو تو مرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ کچھ مت کہو۔۔۔ بچے تو بچے ہی ہیں۔۔۔ پڑوسیوں کے بچے۔۔۔ ہُمکیں گے بھی تو کس حد تک جائیں گے۔۔۔‘‘
بغل والے فلیٹ کے ینگ مین آف سکسٹی ٹو سین دادا کے ساتھ باہر نکلنے سے پہلے اس نے بیوی سے بدبداتے ہوئے کہا۔ پھر ان کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے دور تک نکل گیا۔ دادا بول رہے تھے۔
’’ہاں صاحب، گھبرانے کی بات نہیں۔۔۔ سب کچھ نارمل ڈھنگ سے ہورہا ہے۔ اضطراری چیزیں زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتیں۔ امن و استقامت کی راہ اپنا کر ہی ہم اور آپ چین اور سکھ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔۔۔ میں تو پچھلے سال کے مقابلے میں بڑی تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ راوی چین اور راحت کی سانسیں لکھتا ہے!‘‘
پرانے زمانے کے سین دادا اس کے ساتھ ہوتے تو اردو کے ثقیل الفاظ کچھ زیادہ ہی استعمال کرتے تھے۔
سڑک پر گاڑیاں معمول کے مطابق چل رہی تھیں۔ چھٹی کے دن چہل پہل کی جو کمی عام طور پر دیکھی جاتی ہے، وہ اس روز بھی تھی۔
پڑوسی نے سگریٹ کا لمبا کش لیا، ’’ارے صاحب، کیوں سوگواری کا موڈ طاری کیے ہوئے ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں آپ اپنی بالکنی اپنے پودوں اور گملوں کے تحفظ کے لیے بے چین ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کے سارے گملے خیریت سے رہیں گے۔ اب دوستوں سے ملنے چل رہے ہیں تو یوں اداس نظر آنا چھوڑیے۔۔۔ انجوائے کیجئے۔۔۔ دیکھیے گول گول گنبدوں کی گولائی اور نوکیلے ابھار۔۔۔ اف۔۔۔ سامنے کے پرکشش منظر سے جسم میں عجب ترنگ پیدا ہو رہی ہے۔۔۔ ذرا دیکھیے آپ بھی۔۔۔‘‘
’’اس عمر میں دادا آپ۔۔۔‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اس کا دل دوسرے گنبدوں میں الجھا ہوا ہولناک کیفیات سے گزر رہا تھا۔ سین دادا نرم و گداز جسمانی گنبدوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے چٹخارے ماررہے تھے۔
’’عمر کی کیا بات کرتے ہو۔۔۔ ہمیشہ خود کو جوان سمجھو۔۔۔ دیکھنا اور دیکھتے ہوئے ان رنگین تصویروں میں ڈوب جانا اور بار بار ڈوبنا ابھرنا۔۔۔‘‘
سین دادا نے پھر کہا، ’’ینگ مین، تم جوانی میں بوڑھا ہوگیا۔۔۔ ذرا نظر تو اٹھا۔۔۔‘‘
سین دادا نے اس کے شانے پر اپنی انگلیوں کی گرفت سخت کی۔
آگے تین قیامتیں فاختاؤں کی چال چلتی ہوئی گپ شپ میں مصروف تھیں۔
’’سین دادا آپ ان فاختاؤں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ذرا اوپر دیکھیے بے ٹھکانا کبوتروں کا غول مستقل آسمان میں چکر کاٹ رہا ہے۔ اپنے مستقر کے بے دردی اور بربریت کے ساتھ مسمار کرکے غائب کردیے جانے کے بعد کیسی بے گھری اور بے امانی جھیل رہا ہے۔ آپ ان کبوتروں کی آنکھیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان میں اترتا خون، بےچارگی اور کچھ کر گزرنے کی تڑپتی ہوئی آرزوئیں محسوس کررہے ہیں۔۔۔‘‘
سین دادا اپنی دھن میں مگن تھے۔ آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کے پاس تو پوری زمین تھی اور زمین پر آسمانی جلوے موجود تھے۔ وہ ان سن رسیدہ لوگوں میں تھے جن کی آنکھوں سے بیویوں کے مرجانے کے بعد شہوت کے شرارے پھوٹتے ہیں۔
اسے یاد آگیا کہ ایک روز جب گارڈ نے اطلاع دی کہ اپارٹمنٹ کے نیچے ایک سانپ نظر آیا ہے تو سب پر وحشت طاری ہوگئی تھی۔ پورے اپارٹمنٹ میں ریڈ ایلرٹ کردیا گیا تھا۔ لوگ رات بھر سو نہیں پائے۔ ادھر ادھر سے مانگ کر ڈنڈے اور لاٹھیاں جمع کرلی گئیں۔ کھڑکی دروازے سب کے سب مقفل تھے۔ آنکھیں پہرے دے رہی تھیں۔ لیکن ہر آن یہ ڈر تھا کہ روشنی گل ہوگئی یا آنکھیں لگ گئیں تو پتہ نہیں سانپ کس کو ڈس لے۔
اسے تو بس اس بات کی فکر تھی کہ اس کی بالکنی میں آنے والی گلہری اور گوریوں کا جھنڈ متوحش نہ ہوجائے۔ کہیں سانپ انھیں نہ ڈس لے۔ مبادا اس کے رنگ برنگ پھولوں والے گملوں، گلہری اور گوریّوں سے جو کولاژ بنتا ہے، اس پر سیاہ بادل منڈلانے لگیں۔
وہ چپ چاپ ایک لوہے کی چھڑ لے کر اپنی بالکنی میں جاکر بیٹھ گیا۔ بالکنی میں گوریوں نے چھوٹا سا گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ چوں چوں کی آوازیں رنگین روشن فوراوں کی طرح پھوٹ رہی تھیں۔ اس نے اطمینان کی گہری سانس لی۔ اس کے ایک ہاتھ میں تین سیل والی ٹارچ تھی۔ اس کی بیوی بک بک کرتی رہی۔ اسے برا بھلا کہتی رہی۔ بالکنی سے ہٹنے کی ہدایت دیتی رہی۔ اس نے طرح طرح سے اسے سانپ کے زہر سے ڈرانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک نہ سنی، آخر کار اسے کہنا پڑا کہ اگر بہت ڈر لگ رہا ہے تو بالکنی کا دروازہ اندر سے بند کرلے۔ وہ گوریوں کے گھونسلے کی حفاظت پر مامور رہے گا۔ بہت دیر تک اس کی بیوی بچے منت سماجت کرتے رہے۔ اسے خبطی اور بیوقوف قرار دیتے رہے۔ لیکن اس نے گوریوں کی ننھی سی جانوں سے لاپروائی کے لیے خود کو کسی قیمت پر آمادہ نہیں کیا۔
کسی فلیٹ میں سانپ نہیں ملا۔ تمام کونے کھدرے جھاڑے گئے۔ بکس اور کپ بورڈ کی چھان پھٹک کی گئی۔ بچے تو بچے ہی ٹھہرے کچھ دیر تک سانپ کا چکر انھیں دل چسپ تماشے کی طرح لگا۔ بڑوں کے کاموں میں وہ پوری تندہی کے ساتھ ہاتھ بٹاتے رہے۔ بعد ازاں سب کے سب تھک کر جہاں تہاں سوگئے۔ بڑے بوڑھے رات بھر جاگتے رہے اور بالآخر صبح ہونے پر سب کے سب اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک افواہ تھی جو انھیں رات بھر پریشانیوں میں مبتلا رکھنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ تفتیش کی گئی کہ سب سے پہلے یہ خبر کس نے اڑائی تھی۔ آخر کار اپارٹمنٹ کا گارڈ شک کے گھیرے میں آگیا۔ سب اس کی کرتوت ہے۔ محافظت کی ذمہ داری میں گھپلا کر رہا ہے۔
صبح کی نرم و نازک ہواؤں کے ساتھ تتلیاں اڑتی ہوئی پھولوں کی طرف آئیں۔ بھنورے پھولوں کا چکر کاٹنے لگے۔ گھونسلے سے گوریوں کے جھنڈ نے دانہ چگنے کے لیے اڑان بھری۔ سورج کی نرم کچی کرنوں نے اس کی بالکنی کو گلے لگایا تو اسے محسوس ہوا کہ جینے کے جواز ابھی ختم نہیں ہوئے۔
’’دادا میرا دل نہیں لگ رہا ہے۔۔۔ اب واپس چلیں۔۔۔ نہ معلوم میرے پھولوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ بچوں کی بھیڑ کے ارادے نیک نہیں معلوم ہوتے۔۔۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ وہمی ہوگئے۔ کسی نہ کسی فلیٹ میں سب برابر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس بار تمھارے فلیٹ کی باری ہے۔ آخر تمھارے بچے بھی تو ان میں شامل ہیں۔۔۔ گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔‘‘
’’دادا۔۔۔ میرا دل نہ جانے کیوں گھبرا رہا ہے۔۔۔ یہ بے اماں کبوتروں کا اڑتا ہوا غول دماغ میں عجیب قسم کی وحشت پیدا کر رہا ہے۔ ان کی جائے اماں ان سے چھن گئی۔ گنبدوں کی بلندی دھول چاٹ رہی ہے۔ یہ کبوتر اب کہاں جائیں دادا۔۔۔ انھیں کہاں آسرا ملے گا۔۔۔؟‘‘ ’’تم ینگ مین۔۔۔ پازیٹو ہوکر سوچو تو ہر جگہ ٹھکانا ہی ٹھکانا ہے۔۔۔ گنبد، پہاڑوں کی سفاک چوٹیاں، پتھریلے غار اور گھنے جنگل کے درختوں کی ڈالیاں۔۔۔ موسموں کے سرد و گرم جھیلنے کے لیے تیار رہو۔۔۔ یار۔۔۔ یار، اپنی کھال تھوڑی کھری کھری بناؤ۔۔۔‘‘
ہر طرف اندر ہی اندر مختلف آہٹیں تھیں۔۔۔
کہیں پھلجھڑیاں چھوٹ رہی تھیں، کہیں شہنائی پر ماتمی دھن بج رہی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ عجیب و غریب لمحہ ایک نقطے پرمنجمد ہوگیا تھا، جہاں سے بیک وقت خوشیوں اور غم کے دھارے پھوٹ رہے تھے. بظاہر چاروں طرف سراسمیگی اور گہرا سناٹا تھا جو آنے والے بڑے طوفان کا نقیب معلوم ہورہا تھا۔
سین دادا دونوں جذبوں سے یکسر بے نیاز تھے۔ ان پر شہوانی جذبات حاوی تھے۔
جن دوستوں کے یہاں جارہے تھے، ان کی عورتوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کئی جگہوں سے ہوتے ہوئے وہ دونوں مسٹر تھامسن کے گھر پہنچے۔ مسٹر تھامسن مہمان نواز انسان تھے۔ انھوں نے جھٹ نئی بوتل نکال لی۔ گلاس سامنے رکھ دیے۔ ان کے گھر کی نوجوان خادمہ مس ریزہ بڑی پھرتی سے ہر کام میں ہاتھ بٹا رہی تھی۔
جھٹ پٹ اس نے فریج میں رکھے ہوئے گوشت کے قتلے کیے اور انھیں فرائی کر کے ان کے آگے رکھ دیا۔ گرم گوشت سے اٹھی ہوئی بھاپ سے سین دادا کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ مسٹر تھامسن پہلے ہی سے شغل میں مصروف تھے۔ ان کا نشہ آسمان کو چھورہا تھا۔ سین دادا بھی مست ہورہے تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوا۔ انھوں نے نیم برشت کاجو کی پلیٹ لاتی ہوئی مِس ریزہ کی ننگی گرم پنڈلی پر اپنی لرزتی ہوئی انگلیاں رکھ دیں۔ اس نے بڑے پیار سے سین دادا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر عقیدت بھرا بوسہ دیا اور ان کا پیگ بناکر گلاس ان کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ ایک لمحے کے لیے ان کی مدت کی پیاس بجھ گئی۔ دل کو قرار آگیا۔ دوسرے ہی لمحے ان کی تڑپ اور شدت اختیار کر گئی۔ شریانوں میں خون کا دباؤ بڑھ گیا۔۔۔ ان کی انگلیاں ایک بار پھر مس ریزہ کی بَرہنہ پنڈلی کو چھوتی ہوئی اس کی سڈول جانگھوں کی طرف رینگنے لگیں۔
مس ریزہ کچھ دیر مبہوت رہی۔ کوئی تاثر اس کے چہرے پر نہیں تھا۔ اس نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کی انگلیاں اور آگے بڑھنے لگیں۔
مِس ریزہ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے۔
دراصل مس ریزہ سین دادا کو دیکھ کر ماضی کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔ اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا تھا۔
’’مائی لَونگ ڈیر ریزہ۔۔۔
لائف از این اینڈلس اسکائی۔۔۔
یو ہیو ٹو گولانگ وے۔۔۔ ویری لانگ۔۔۔‘‘
اس کے مشفق باپ کی آنکھوں میں کیسے کیسے خواب تھے۔ وہ باپ سے لپٹ گئی۔۔۔ننھے ننھے پیروں سے اس کے کندھوں پر چڑھ گئی۔۔۔ مسٹر سین کے چہرے کی اس کے باپ سے مشابہت نے اسے چشمِ زدن میں ان کے قریب کردیا تھا۔۔۔ بعد ازاں اس کے باپ نے تابوت میں سکونت اختیار کرلی۔ ہواؤں کے دوش پر اڑتی ہوئی پتی کی طرح کئی جگہوں سے ہوکر اسے تھامسن کے ہاں آسرا ملا تھا جو اس علاقے میں بڑا عزت دار شخص گردانا جاتا تھا۔۔۔ یہاں اسے بہت دباؤ اور جبر میں ہنستے اور خوش دکھتے ہوئے خود کو تھامسن کے حوالے کرنا پڑا تھا۔
اس کے لیے کوئی اور راستہ بھی نہ تھا۔۔۔ کئی دروازے اس نے بدلے تھے۔ ہر دروازے پر زبانیں لپلپاتے، سرخ آنکھوں والے حیوان موجود تھے، رال ٹپکاتے۔ پھر مسٹر تھامسن کیا برے تھے۔ صاف ستھرے خوشبودار انسان۔ ان کے لمس میں کم از کم اسے جمالیاتی طور پر کسی کراہیت کا احساس نہ ہوتا تھا۔۔۔
سین دادا مس ریزہ کی ان کیفیات سے بے خبر سرشاری اور لذت یابی کی اپنی دنیا میں محو تھے۔ وفورِ جذبات سے ان کی پلکیں مندنے لگی تھیں۔۔۔ مس ریزہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے نزدیک کھڑی تھی۔ نشہ کی حالت میں مسٹر تھامسن نے سین دادا کے ارادے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ ایک دریا دل انسان تھے۔ شراب و کباب میں تو دوسروں کی شرکت پسند کرتے تھے، لیکن اور کسی نجی چیز میں انھیں کسی کی حصہ داری منظور نہ تھی۔
انھوں نے خشم گیں نگاہوں سے مس ریزہ کی طرف دیکھا۔ مس ریزہ جس کی آنکھوں میں سین دادا کے لیے ہم دردی امنڈ آئی تھی، تھامسن کی یہ کیفیت دیکھ کر سٹپٹا گئی اور خالی پلیٹ اٹھا کر آنسو پونچھتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ پھر وہ نظر نہ آئی۔ یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر مسٹر تھامسن کو اسے چیخ کر بلانا پڑا۔ اس نے سوچا، اس کے اور مس ریزہ کے دکھ میں کس کا دکھ بڑا ہے۔ غٹرغوں کرتے ہوئے کبوتروں کا غول اس کے سر پر منڈلانے لگا۔ اس نے ہامی بھری۔ اس سے بڑا غم تو ان بے امان کبوتروں کا ہے، جنھیں اب ساری عمر، ہجرت کا عذاب جھیلنا ہے۔۔۔ کئی نسلوں سے وہ ان گنبدوں کے باشندے تھے۔۔۔ لیکن اب۔۔۔
اسے سین دادا اور مسٹر تھامسن کی مے نوشی پر غصہ آنے لگا۔ سین دادا بولتے ہیں ینگ مین غم بھلاؤ۔۔۔ انجوائے کرو۔۔۔ ایسے حالات میں بھلا کوئی انجوائے کرسکتا ہے۔۔۔
اندرونِ خانہ سے برتنوں کے گرنے کی آواز آرہی تھی۔
متوحش سی ریزہ دوڑتی ہوئی آئی۔
’’انکل۔۔۔ ایک کبوتر گھر کے اندر داخل ہوگیا ہے۔۔۔ بغل والے پڑوسی کی بلی اس پرجھپٹنا چاہ رہی تھی۔۔۔ کبوتر کچن میں برتنوں کے بیچ چھپ گیا ہے۔ بڑی مشکل سے میں نے بلی کو بھگایا اور کچن کا دروازہ بند کر کے آرہی ہوں۔۔۔‘‘
اس کا کلیجہ دھک سے ہوکر رہ گیا۔ اس نے سین دادا کی آنکھوں میں جھانکا پھر تھامسن کو دیکھا۔ نشے کی چمک ہونے کے باوجود ان کی آنکھوں میں کبوتر کے بارے میں سن کر سراسمیگی پیدا ہوگئی تھی۔ دونوں کے سر جھک گئے۔ جیسے کوئی افتاد آپڑی ہو۔
اسی وقت باہر کے دروازے پر کسی نے دستک دی، ’’مسٹر تھامسن۔۔۔ مسٹر تھامسن۔۔۔‘‘
اداس اور سراسیمہ ریزہ نے دروازہ کھولا۔
پڑوسی مسٹر جان کھڑے تھے۔
’’مس ریزہ۔۔۔ مسٹر تھامسن کو بلاؤ۔‘‘
’’کیا ہے بھائی۔۔۔‘‘ مسٹر تھامسن نشے میں جھومتے ہوئے بھاری بھاری قدموں سے باہر آئے۔
’’میرا کبوتر آپ کے یہاں آگیا ہے۔۔۔ آپ جانتے ہیں میری مدر ان لا پرانی مریض ہیں۔۔۔ آج کل ان کے ہاتھوں میں سنسناہٹ رہتی ہے۔ ڈاکٹروں نے کبوتر کا سوپ تجویز کیا ہے۔۔۔ اسے ذبح کر ہی رہا تھا کہ اڑ کر آپ کے یہاں چلا آیا۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ میرے یہاں آکر چھپ گیا ہے۔۔۔ ابھی ابھی مس ریزہ نے مجھے رپورٹ دی ہے۔۔۔ ایک بلی بھی ہے جو اس کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔۔۔ مس ریزہ جاؤ ان کا کبوتر انھیں واپس کردو۔۔۔ آئیے۔۔۔ آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں مسٹر جان۔۔۔ کچھ ہوجائے جب تک۔۔۔‘‘
’’او نو تھینکس۔۔۔ میں صرف ویک اینڈ میں لیتا ہوں۔۔۔ دوسرے روز چھٹی رہتی ہے۔۔۔ سویرے اٹھنے کا چکر نہیں ہوتا۔۔۔ کم بخت کو لینے سے مجھے نیند بہت آتی ہے۔۔۔‘‘
ہزار اندرونی شکست و ریخت سے گزرنے کے بعد ناچار مس ریزہ کبوتر کو پکڑ لے آئی تھی۔۔۔ لیکن اس نے دیکھا کہ اس کے پورے وجود پر کپکپاہٹ طاری تھی۔ ۔۔۔ مسٹر تھامسن نے اس کی آوازوں کو سنا۔۔۔ بہت دنوں سے وہ اسے خود سے اسی طرح کی باتیں کہتے ہوئے سن رہا تھا۔۔۔ خاموش نگاہوں سے وہ بدبدا رہی تھی۔
لڑ نہیں سکتا تو بھاگ جا نامراد۔۔۔ اڑجا۔۔۔ بستیوں سے دور وسیع آسمانوں اور جنگلوں کی طرف بھاگ۔۔۔
لیکن سہما ہوا کبوتر اس کی ہتھیلیوں میں سکڑتا سمٹتا چھپنے کی کوشش میں مصروف تھا۔۔۔ اور جب مسٹر جان نے تھینک یو۔۔۔ تھینک یو۔۔۔ کہتے ہوئے اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مس ریزہ کے اندرون سے کسی نے اچھال لگائی۔
اس منظر نامے میں اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کس میں لرزش زیادہ تھی۔۔۔ کبوتر یا مس ریزہ میں۔۔۔ یا وہ خود زیادہ لرز رہا تھا۔۔۔ یہ کبوتر کہیں۔۔۔ اچانک اسے خیال آیا۔
بے اماں کبوتر۔۔۔ شاید ان میں سے ایک بوڑھی عورت کے ہاتھوں کو حرارت پہنچانے کے لیے مذبح کا اسیر ہوگیا۔
مس ریزہ نے ہتھیلیاں ڈھیلی کردیں۔ اس کے اندر کسی نے اچھل کر جیسے اس کے ہاتھوں کو جھٹکا دیا۔
لڑ نہیں سکتے تو کم از کم بھاگ تو سکتے ہو۔۔۔ ہائے نامراد۔۔۔ تو نے یہ صلاحیت بھی کھودی۔۔۔
کبوتر اڑا اور روشن دان پر جاکر بیٹھ گیا۔
مسٹر تھامسن نے ایک طمانچہ اس کے گال پر جڑ دیا۔ وہ بے حد غصے میں تھے۔ مس ریزہ پر سکتہ طاری ہوگیا۔۔۔ تھامسن نے ٹیبل پر اسٹول رکھ کر اسے پکڑنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں اسٹول کھسکنے سے مس ریزہ گری۔۔۔ اسے شدید چوٹیں آئیں۔۔۔ سین دادا اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھے لیکن تب تک مسٹر تھامسن نے بڑھ کر اسے اٹھا لیا تھا۔۔۔ ان کے سینے سے لگی ہوئی مس ریزہ کانپ رہی تھی۔
وہ دونوں اٹھ گئے۔
’’اجازت ہو مسٹر تھامسن۔۔۔ آپ کی محفل میں بڑا لطف آیا۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ صاحب تو اتنے سوگوار ہیں کہ انھوں نے کوئی مزہ نہ لیا۔۔۔‘‘
سین دادا نے بڑے پیار سے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ویسے کنکھیوں سے وہ مستقل کانپتی ہوئی مس ریزہ کو دیکھے جارہے تھے۔
’’اس کی اداسی برحق ہے۔۔۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ خواہ مخواہ اداس ہونے کا فائدہ کیا ہے۔۔۔ کوئی راستہ نکلتا تو ٹھیک تھا۔۔۔ آپ کے پاس لایا تھا کہ انگور کی بیٹی کے ساتھ شغل کرے گا تو بہل جائے گا۔۔۔ لیکن یہاں کبوتر اور بلی کا تماشا دیکھ کر یہ اور بھی اداس ہوگیا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔۔۔ آپ نے بڑی فیاضی دکھائی۔۔۔ اس گرما گرم محبت کا شکریہ۔۔۔‘‘
رخصت ہونے سے قبل انھوں نے مس ریزہ کو بھرپور نگاہوں سے دیکھا جو اس متوحش انداز میں بھی بَلا کی حسین لگ رہی تھی۔۔۔
’’بائی بائی ریزہ۔۔۔ بائی مسٹر تھامسن۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔‘‘
اس روز کئی دوستوں کے ہاں دونوں گئے تھے۔ سب نے اس روز کے اہم ترین واقعے پر بات چیت کرنے سے گریز کیا تھا۔ لوگ دل ہی دل میں یا تو رو رہے تھے یا ہنس رہے تھے۔ عجیب بے بسی اور دلی خوشی کی کیفیتیں تھیں۔ جن سے مختلف لوگ اپنے اپنے حساب سے گزر رہے تھے۔ لیکن تمام کیفیات اور بے نیازی کے باوجود ایک سوال سب کو کریدر رہا تھا۔
’’اب کیا ہوگا۔۔۔آئندہ کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟‘‘
وہ اوب گیا تھا۔ تھامسن کے ہاں اس نے بھی مے نوشی کی۔ لیکن اسے نشہ آنا تو دور، ہلکا سرور تک نہ ہوا۔ رہ رہ کر اسے اپنے گملے کے پودوں، بالکنی اور بچوں کے اجتماع کا خیال آرہا تھا۔ ایک عجیب تشویش میں وہ تمام وقت مبتلا رہا۔
اس علاقے کے تمام دوستوں کے ہاں سین دادا نے جی بھر کر انجوائے کرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا۔ ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ گلابی نشہ پورے وجود پر طاری تھا۔ ریزہ کی لمحاتی قربت نے انھیں عجیب کیف و سرور سے سرشار کر رکھا تھا۔ پھر ابھی اتنا ہوش انھیں تھا کہ ہم سفر کی چارہ جوئی کرنی ہے۔ اسے اپنے پھولوں، پودوں اور گملوں کی سالمیت کے تعلق سے، ڈھارس بندھانی ہے۔ راستے بھر ان کا اندازہ پچکارنے اور دلار نے والا رہا۔
’’گھبراؤ نہیں بچے۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ گیٹ پر اپارٹمنٹ کے گارڈ نے ان کے داخل ہونے کے لیے رستہ چھوڑ دیا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر اس نے سین دادا کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ ٹکرا کر گر پڑتے۔ تیسری منزل پر بہ دقت تمام اس نے دادا کی جیب سے ان کے فلیٹ کی چابی نکال کر ان کا انٹر لاک کھولا۔ ان کے فلیٹ کے اندر داخل ہوا۔ یہ یقین ہوجانے کے بعد کہ دادا نے اندر سے چٹخنی لگالی ہے، وہ اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ اوپر کی منزل کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے اس کے قدم کانپ رہے تھے۔ دل ایک انجانے خوف سے لرز رہا تھا۔
کال بیل بجانے پر بیوی نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی لگیں۔ جیسے بہت دیر سے روتی رہی ہو۔
’’کیا حال ہے۔ میرے پھولوں کا۔۔۔؟‘‘
’’خود دیکھ لو جاکر۔۔۔‘‘
بچے اپنے بستروں میں گہری نیند میں مبتلا تھے۔ سب کے چہروں پر ایسی اذیتیں جیسے کوئی بہت ڈراؤنا اور تکلیف دہ خواب دیکھ رہے ہوں۔۔۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔۔ اس کے جسم میں کاٹو تو لہو نہیں۔ بالکنی کھلتے ہی وہاں کے ٹوٹے پھوٹے منتشر حالِ زار نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ نُچے ہوئے پھول، موزائک کے فرش پر مسلی کچلی بکھری ہوئی پھولوں کی پنکھڑیاں، ٹوٹے پھوٹے گملے۔۔۔ گملوں کی مٹیوں کے جابجا ڈھیر۔۔۔ گوریّوں کے گھونسلوں کے منتشر تنکے۔۔۔ گوریوں کا کوئی پتہ نہیں تھا۔۔۔ گلہری، تتلیاں اور بھنورے تو اب ایک مدت تک دکھائی نہیں دیں گے۔۔۔ اس کی بالکنی کا سارا حسن ملیا میٹ ہو چکا تھا۔
آخر بچوں نے اپنے کھیل میں میرا سب کچھ۔۔۔ اس سے اس کا اندیشہ صحیح نکلا تھا۔ اس دن اپارٹمنٹ میں گھسے سانپ کو چند بچوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور اس سے کھیلنے کے خطرناک عمل کے عادی ہوگئے تھے۔ اسی لیے تو بچے اتنے زہریلے اور وحشی ہوگئے تھے۔
آسمان میں گنبد کے خون آلود کبوتروں کا غول مستقل جائے اماں کی تلاش اور کچھ کر گزرنے کے جنون میں چکر کاٹ رہا تھا۔
بیوی سے اس کی نگاہیں ملیں تو اسے اچانک احساس ہوا کہ گھر میں میت پڑی ہے اور باہر کرفیو میں اس کی تدفین ایک سنگین مسئلہ ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...