شہر کی پرانی بستی سے تقریباً پانچ کلومیٹر فاصلے پر نئی آباد ہوئی ایک پاش کالونی ‘نیو اسٹار کالونی’ ہے، جس کی کشادہ سڑکوں اور شان دار بڑی بڑی عمارتوں سے اس میں بسنے والوں کے معیار زندگی کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان ہی خوب صورت عمارتوں میں سے ایک شان دار دو منزلہ مکان وہ بھی ہے، جس پر جلی حرفوں سے انگریزی میں “گلشن ہاؤس” لکھا ہوا ہے اور جس کے کمپاؤنڈ وال پر لگی نیم پلیٹ پر ‘پروفیسر گلزار ` لکھا ہوا ہے۔ اُس وقت دودھ والے نے اپنی موٹر سائیکل کو مین گیٹ کے سامنے روکا تھا۔
“دودھ والا ۔۔۔” اُس نے مین گیٹ کے ہینڈل کو بجا کر آواز لگائی۔ مسز گلزار نے فوراً دورازہ کھولا اور بڑے سے کمپاؤنڈ سے گزرتی ہوئی مین گیٹ کی طرف جانے لگی۔
“بھیا ! ۔۔۔آج کچھ مہمان آنے والے ہیں۔۔۔۔ ایک لیٹر زیادہ چاہیئے ۔۔۔” انھوں نے مین گیٹ کھولتے ہوئے کہا۔
دودھ والے نے اپنے بڑے سے کین میں جھانک کر دیکھا اور سر ہلاکر کہا ۔۔”ہاں میڈم ۔۔۔ مل جائے گا ۔۔۔”
مسز گلزار دودھ سے لبریز بڑا سا برتن لیے ہوئے اندر چلی گئیں۔ ہال میں سامنے صوفے پر بیٹھے پروفیسر گلزار اخبار پڑھ رہے تھے۔ مسز گلزار نے دودھ کچن میں رکھا اور ہال میں بڑبڑاتی ہوئی واپس آئیں۔۔۔”دیکھو اُس چمپا مہارانی کو ۔۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ آج صبح جلدی آجانا ۔۔۔بہت سارے مہمان آنے والے ہیں ۔۔۔لیکن دیکھو آٹھ بجنے کو ہیں۔۔ اور ۔۔ وہ ابھی تک ندارد ۔۔۔”
پروفیسر صاحب نے سامنے دیوار میں لگی گھڑی کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے ۔۔”کیوں غلط بول رہی ہو ۔۔۔ابھی تو ساڑھے سات بھی نہیں بجے ہیں ۔۔۔آجائے گی آٹھ بجے تک ۔۔۔۔”
مسز گلزار نے اُنھیں گھور کر دیکھا ۔۔۔ “ارے سارے گھر کی صفائی کرنی ہے! ۔۔۔ کھانا بنانا ہے ! ۔۔۔کہیں کوئی چھوٹی موٹی کمی بیشی رہ جائے تو بہت برا اثر پڑتا ہے ۔۔۔” ان کے چہرے پر تشویش صاف دکھائی دے رہی تھی۔
“فکر نہ کرو ۔۔۔ ان شاء اللہ سب انتظام ہوجائے گا ۔۔۔۔ وہ لوگ بارہ بجے تک آنے والے ہیں ۔۔ابھی کافی وقت ہے ۔۔۔ سب ہوجائے گا ۔۔۔۔” انھوں نے دلاسہ دینے والے انداز میں کہا اور اخبار کھولنے لگے۔
“ہاں ۔۔۔سب ہوجائے گا ۔۔۔اور آپ یہاں بیٹھ کر اخبار پڑھتے رہیے ۔۔۔ ” مسز گلزار نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔ پھر آگے بڑھ کر انھوں نے اخبار چھینتے ہوئے کہا ۔۔۔”چلیے اب اُٹھیے ۔۔۔اور بازار جاکر سبزی، گوشت وغیرہ لے کر آئیے۔۔۔ چلیے ۔۔۔”
“ارے جاتا ہوں بھائی ۔۔۔ایسی بھی کیا جلد بازی ۔۔۔۔” پروفیسر گلزار نے ہنستے ہوئے کہا اور اُٹھنے لگے۔
بیگم صاحبہ نے سامان کی لسٹ اور تھیلیاں پکڑا دیں۔ پروفیسر صاحب جب مین گیٹ سے اسکوٹر باہر نکال رہے تھے اُسی وقت چمپا تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔ اُسے دیکھ کر مسز گلزار نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔
بارہ بج کر پندرہ منٹ ہوچکے تھے ۔ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ اُس وقت ہال میں پروفیسر گلزار، اُن کی بیگم صاحبہ، گلزار صاحب کی چھوٹی شادی شدہ بہن نیلوفر، جو پرانے شہر میں رہتی تھی اور فیروزہ آنٹی، آنے والے مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ فیروزہ آنٹی دراصل نیلوفر کی شناسا تھی اور اس رشتے میں وہ بچولیہ کا کردار نبھا رہی تھی۔ اُن کا نام سارے شہر میں فی سبیل اللہ رشتے جوڑنے کے لیے مشہور تھا۔ اُس وقت پروفیسر صاحب خاموشی سے اخبار دیکھ رہے تھے اور تینوں عورتیں آپس میں مصروفِ گفتگو تھیں۔ فیروزہ آنٹی آنے والے اُن لوگوں کی اور خصوصاً ‘لڑکے` کی تعریفوں کے وہ پُل باندھ رہی تھی کہ مسز گلزا رمن ہی من چٹ منگنی پٹ بیاہ کا منصوبہ بنانے لگی تھیں۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ گھر کے مین گیٹ پر ایک شان دار کار آکر رکی اور ہارن بجایا گیا۔ پروفیسر صاحب فوراً اُٹھ کر باہر مین گیٹ کی جانب لپکے اور تمام خواتین بھی اُن کے پیچھے پیچھے تھیں۔ کار کے اگلے دروازے سے ڈاکٹر وقار باہر نکلے اور “السلام علیکم ۔۔۔ ” کہتے ہوئے پروفیسر صاحب کی جانب بڑھے۔ “وعلیکم السلام ۔۔” کہتے ہوئے انھوں نے بھی نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ کار کے پچھلے حصے کے ایک جانب سے ڈاکٹر صاحب کی مسز باہر نکلی تھیں اور دوسری جانب سے اُن کی جوان بیٹی۔
مسز گلزار، نیلوفر اور فیروزہ آنٹی نے آگے بڑھ کر دونوں خواتین کا استقبال کیا۔ کار کی ڈرائیونگ سیٹ سے باہر نکلنے والا ڈاکٹر شہریار خان واقعی بہت شان دار شخصیت کا مالک تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ، آنکھوں پر لگا فریم لیس چشمہ اور شاندار پُرکشش ہلکی سی مسکراہٹ۔ وہ کل ملا کر کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں تھا۔ بیگم گلزار کی آنکھوں میں شہریار کے لیے پسندیدگی صاف دیکھی جاسکتی تھی۔
ہال میں وہ تمام اپنی اپنی مناسبت سے بیٹھ گئے۔ لیکن فیروزہ آنٹی ابھی نہیں بیٹھیں۔ انھوں نے سب سے پہلے تعارف کرانے کا کام شروع کیا۔ “پروفیسر صاحب! ۔۔۔ یہ ڈاکٹر وقار صاحب ہیں ۔۔۔ اور یہ ان کے بیٹے ڈاکٹر شہریار ۔۔۔ ” انھوں نے تھوڑا رک کر کہنا شروع کیا۔۔۔۔ “اور ڈاکٹر صاحب! ۔۔۔ یہ ہیں پروفیسر گلزار ۔۔۔ ان ہی کی بچی کے رشتے کے سلسلہ میں آپ لوگ یہاں آئے ہیں۔۔۔”
مردوں کے تعارف کے بعد وہ خواتین کی طرف پلٹیں اور کہنا شروع کیا ۔۔” یہ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ، مسز یاسمین ہیں، یہ اُن کی بیٹی ڈاکٹر ماریہ ۔۔۔ اور یہ پروفیسر صاحب کی اہلیہ، مسزنسرین ہیں ۔۔۔ اور ان کو تو آپ جانتے ہی ہیں ۔۔۔ مسز نیلوفر ۔۔۔پرفیسر صاحب کی اکلوتی بہن ۔۔۔” تمام لوگوں نے اُٹھ اُٹھ کرایک بار پھر ایک دوسرے سے چہروں پر مسکراہٹیں لیے مصافحہ کیا تھا۔ پھر رسمی باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
“پروفیسر صاحب ۔۔۔۔ آپ کون سے کالج میں پڑھاتے ہیں ؟ ۔۔۔” ڈاکٹر وقار نے پوچھا۔
“جی میں گورمنٹ کالج آف آرٹس اینڈ سوشل سائنس میں، انگلش ڈیپارٹمنٹ میں اسوسیٹ پروفیسر ہوں” گلزار نے بتایا۔
“ماشاء اللہ ۔۔” ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ایک لمحہ رک کر گلزار صاحب نے پوچھا ۔۔”آپ کہاں پریکٹس کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔۔؟”
“جی میں سول ہاسپٹل میں اسسٹنٹ سول سرجن ہوں ۔۔۔” ڈاکٹر وقار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ماشا اللہ ۔۔۔ماشا اللہ ۔۔” گلزار صاحب نے تعریفی انداز میں سر ہلایا۔ اُن کی نظریں ڈاکٹر وقار کے بغل میں بیٹھے ڈاکٹر شہریار کی جانب اُٹھنے لگی تھیں۔ اسی چیز کو بھانپ کر ڈاکٹر وقار نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔”یہ ہمارے فرزند ۔۔۔ڈاکٹر شہریار ۔۔۔ ان کا پرانے شہر میں ایک کلینک چل رہا ہے ۔۔۔اور اس کے علاوہ ماشاء اللہ یہ سول ہاسپٹل میں وزیٹنگ فزیشین بھی ہیں۔۔”
گلزار صاحب نے جیسے “ماشاء اللہ ۔۔۔ماشاء اللہ ۔۔” کا ورد کرنا شروع کردیا تھا۔ پھر انھوں نے ڈاکٹر صاحب کی بیوی کی طرف دیکھے بغیر پوچھا ۔۔” کیا بھابھی صاحبہ بھی ڈاکٹر ہیں۔؟ ” مسز وقار ہنس پڑیں اور کہا ۔۔۔”ارے نہیں بھئی! ۔۔۔ہم تو ہوم میکر ہیں ۔۔۔ اس کام سے ہی فرصت ملے تو کچھ اور سوچیں۔۔۔ویسے یہ ہماری بیٹی ماریہ بھی ڈاکٹر ہیں اور ماشاءاللہ ہمارے ہونے والے داماد بھی ڈاکٹر ہیں۔۔۔” اس بار گلزار صاحب کے ساتھ ساتھ اُن کی مسز اور نیلوفر نے بھی ۔۔۔”ماشاء اللہ ۔۔۔” کا ورد کیا تھا۔
چمپا نے تمام لوگوں کو نہایت سلیقے سے پلیٹوں میں ناشتہ سرو کیا۔ ناشتہ کے دوران اُن تمام کی باتیں چلتی رہیں۔ ڈاکٹر شہریار بھی باتوں میں حصہ لے رہا تھا لیکن باقی لوگوں سے کافی کم!
” بھئی ۔۔۔اب اور صبر نہیں ہوتا ۔۔۔ آپ بلوائیے نا بیٹی کو ۔۔۔کہاں چھپا رکھا ہے! ۔۔۔” مسز وقار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“ارے بھئی چھپاکر کہاں رکھیں گے ۔۔۔میں ابھی لے کر آتی ہوں ۔۔۔” نیلوفر نے اُٹھتے ہوئے کہا اور خوشی خوشی اندر جانے لگی۔
کچھ ہی دیر بعد نیلوفر اپنے ساتھ ایک نہایت خوب صورت لڑکی کو لے کر ہال میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھوں میں چائے کی ٹرے تھی ۔ اُس نے اندر داخل ہوتے ہوئے سب کو سلام کیا اور نہایت سلیقہ سے چائے کی ٹرے ٹی ٹیبل پر رکھنے لگی۔ تمام لوگوں نے اُسے بہ غور دیکھتے ہوئے “وعلیکم السلام ۔۔۔” کہا تھا۔ ڈاکٹر شہریار نے بھی سلام کا جواب دیتے وقت نظریں اُٹھا کر اُسے ایک نظر دیکھا تھا۔ وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ معمولی سے میک اپ میں وہ بہت خوب صورت اور دل نشیں لگ رہی تھی۔ اُس نے تمام مہمانوں کو پہلے چائے سرو کی اور بعد میں اپنے گھر والوں کو۔
“یہاں ہمارے پاس بیٹھو بیٹا ۔۔۔ کیا نام ہے آپ کا ؟” مسز وقار نے اُسے اپنے ساتھ بٹھایا۔ وہ اُسے بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی۔ ماریہ بھی مسکراتے ہوئے اُسے پسندیدگی سے دیکھ رہی تھی۔
“جی ۔۔۔ ہمارا نام گلناز ہے ۔۔۔۔” اُس نے دھیرے سے جواب دیا ۔
“بہت پیارا نام ہے ۔۔۔ماشاء اللہ ۔۔۔” مسز وقار نے اُسے تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ماریہ نے معنی خیز مسکراہٹ سے شہریار کی طرف دیکھا تھا جو چائے کی پیالی تھامے اپنی مسکراہٹ کو دبائے خاموش بیٹھا تھا۔
“بیٹا گلناز ۔۔۔ ۔۔ کیا کررہی ہو آج کل ۔۔۔؟ ” ڈاکٹر وقار نے پوچھا۔
“جی انکل۔۔ پچھلے سال زولاجی میں ایم ایس سی ہو چکا ہے۔۔۔ اور اس سال یہیں اپنی یونی ورسٹی میں، پی ایچ ڈی کا رجسٹریشن ہوا ہے ۔۔۔” گلناز نے بتایا۔
“ویری نائس ۔۔۔!” وقار نے کہا اور پھر گلزار کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے ۔۔
” پروفیسر صاحب آپ literature والے ہیں اور بیٹی ماشاء اللہ سائنس فیلڈ میں ریسرچ کررہی ہے ۔۔۔”
“ہاں ڈاکٹر صاحب ۔۔۔دراصل گلناز کو شروع ہی سے سائنس میں بہت دل چسپی تھی ۔۔۔بس اسی لیے ۔۔۔” گلزار نے بھی مسکراکر جواب دیا۔
“ہاں ! ۔۔ یہ صحیح ہے ۔۔۔ بچوں نے اُن کی مرضی اور پسند کے مطابق ہی پڑھنا چاہیے ۔۔۔” وقار نے سر ہلا کر کہا۔
کچھ دیر بعد وہاں بات چیت کرنے والوں کے دو گروپ بن چکے تھے۔ ایک گروپ میں مرد حضرات اور دوسرے میں خواتین آپس میں باتیں کرنے لگی تھیں۔ اُس وقت نیلوفر کسی کام سے اندر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد نیلوفر نے کھانے کے لیے ڈائننگ روم میں بلایا تھا۔ تمام لوگ ڈائننگ ٹیبل پر اپنی اپنی سہولیات کے مطابق بیٹھ گئے۔ گلناز کو ماریہ نے اپنے بغل میں بٹھایا تھا اور دھیرے دھیرے اُس سے باتیں کیے جارہی تھی۔ وہ تمام آپس میں خوش گوار انداز میں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھارہے تھے۔ وقار نے اپنے پلیٹ میں بریانی نکالتے ہوئے کہا ۔۔ “گلزار صاحب !۔۔۔لگتا ہے، آپ کو پھولوں سے بہت پیار ہے۔۔۔”
“جی ڈاکٹر صاحب ۔۔۔بالکل صحیح کہا! ۔۔۔لیکن ۔۔۔ آپ نے کیسے اندازہ لگایا ؟ ۔۔۔” گلزار نے پوچھا ۔
“۔۔ آپ کا نام دیکھیے ۔۔۔گلزار ۔۔۔۔ آپ کی بیٹی کا نام ۔۔۔۔گلناز ۔۔۔ اور تو اور ۔۔۔آپ کے مکان کانام دیکھیے ۔۔۔گلشن ہاؤس ۔۔۔” وقار نے کھاتے ہوئے کہا۔
“جی ڈاکٹر صاحب ! ۔۔۔واقعی مجھے پھولوں سے بہت پیار ہے ۔۔۔” گلزار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“بائی دی وے ۔۔۔ آپ کے مکان کا نام ۔۔ گلشن ہاؤس ہے ۔۔۔ اسے تو گلزار ہاؤس ہونا چاہیئے تھا ناں ۔۔؟ ” وقار نے تجسس سے پوچھا۔
“جی ۔۔۔گلشن ہاؤس ؟ ۔۔۔” گلزار نے یکایک چونک کر کہا تھا۔۔۔ “میں تو اپنے گھر کا نام جیسے بھول ہی گیا تھا ۔۔۔!” ۔۔۔نسرین اور نیلوفر بھی جیسے چوکنا ہوگیے تھے۔۔۔گلناز کے چہرے کے تاثرات بھی کچھ بدلے تھے۔
فوراً ہی گلزار نے چہرے کے تاثرات کو بحال کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ “دراصل گلزار اور گلشن ۔۔۔دونوں کا مطلب ایک ہی تو ہے ۔۔۔ !” گلزار نے شہریار کی پلیٹ میں ایک پیس ڈالتے ہوئے کہا “شہریار بیٹا آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہے ہو ۔۔۔ یہ ایک پیس لے لو ۔۔۔۔ ”
“ارے نہیں انکل ۔۔۔یہ بہت زیادہ ہوجائے گا ۔۔۔” شہریار نے انھیں روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
کھانے کے بعد وہ لوگ دوبارہ سے ہال میں واپس آگئے۔ گلناز اور ماریہ اب بھی ساتھ ساتھ ہی بیٹھے تھے ۔۔۔شہریار کی نظریں کبھی کبھی گلناز سے ٹکرا جاتیں تو وہ فوراً نظریں جھکالیتی ۔
“بھئی گلزار صاحب۔۔۔ ہمیں گلناز بیٹی ۔۔۔ اور آپ تمام لوگ بہت پسند آئے ہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہماری بیٹی ماریہ کی اگلے مہینے شادی ہے اور پھر شادی کے فوراً بعد یہ لوگ کینیڈا چلے جائیں گے ۔۔۔اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے جانے سے پہلے شہریار کی بھی شادی ہوجائے ۔۔۔ یعنی ۔۔ایک بیٹی وداع ہو تو ۔۔۔ دوسری بیٹی گھر آجائے ۔۔۔” وقار نے گلزار کی طرف سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
“جی ۔۔۔؟” گلزار نے اُن کی طرف دیکھ کر ایسے کہا تھا جیسے کچھ سمجھا ہی نا ہو ۔۔۔ ویسے اُس جملے کو سُنتے ہی گلناز جلدی سے اُٹھ کر اندر چلی گئی تھی اور درمیانی دروازہ دھیرے سے بند کردیا تھا ۔۔۔ اُسے اس طرح سے اندر جاتا دیکھ کر تمام خواتین کے چہروں پر گہری مسکراہٹیں آگئی تھیں۔ فیروزہ آنٹی نے فخریہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔”ایسی ہوتی ہیں حیا دار بیٹیاں۔۔۔” مسز وقار نے فوراً تائید کی تھی۔
“تو گلزار صاحب ۔۔۔ہم نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ ناؤ دا بال اِز اِن یُور کورٹ ۔۔۔ اب آپ بتائیے ۔۔۔” وقار نے سنجیدگی سے کہا۔
“جی ۔۔۔ ان شاء اللہ ۔۔۔ ہمیں بھی آپ بہت اچھے لگے ۔۔۔” گلزار نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا اور سر جھکا لیا۔
“کیا بات ہے گلزار صاحب ۔۔۔آپ کچھ کھوئے کھوئے سے لگ رہے ہیں ۔ ۔۔؟ ” وقار نے پوچھا ہی لیا۔
“نہیں نہیں ۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔ بس ایسے ہی ۔۔میں کسی خیال میں گم ہو گیا تھا شاید ۔۔۔ ” گلزار نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ سے کہا۔
“دیکھیے گلزار صاحب ۔۔میں جانتا ہوں کہ ایک بیٹی کے والد ہونے کی حیثیت سے آپ یقیناً ہم لوگوں کی ۔۔۔ اور خصوصاً شہریار کی ۔۔۔ چھان بین ضرور کرنا چاہوگے ۔۔۔یہ آپ کا حق بھی ہے اور آپ کے لیے ضروری بھی ۔۔لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اس رشتے کے تعلق سے آپ کا فیصلہ اگر ہمیں جلدی مل جائے تو ہمارے لیے بہت اچھا ہوجائے گا ۔۔۔ہم نے اپنا فیصلہ تو آپ کو سنا دیا ہے ۔۔۔ گلناز بیٹی ہمیں بہت پسند ہے ۔۔ اور ہم جلد از جلد یہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ” وقار نے نہایت صاف انداز میں کہا تھا، اُس کی آواز میں گہری اپنائیت شامل تھی۔
“جی ۔۔۔بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میں دراصل آپ لوگوں کا فیصلہ اس طرح سے ۔۔۔ اتنی جلدی expect نہیں کررہا تھا۔۔۔اسی لیے تھوڑا سا نروس ہو رہا ہوں ۔۔۔ باقی ۔۔۔ اور کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ ” گلزار نے یہ سب کہتے ہوئے ایک نظر نسرین اور نیلوفر پر بھی ڈالی تھی جو اُسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔
“بھائی صاحب ۔۔۔کیا آپ ہمیں صرف دو دن کا وقت دے سکتے ہیں ۔۔ دراصل ہمیں اپنے کچھ نزدیکی رشتہ داروں سے بھی یہ بات شیئر کرنی پڑے گی ناں ۔۔۔۔” مسز گلزار نے کہا ۔
“جی ۔۔۔جی ۔۔۔ضرور ۔۔۔” وقار نے کہا ۔
“بہت بہت شکریہ بھائی صاحب۔۔۔” مسز گلزار نے ممنون آنکھوں سے اُنھیں دیکھ کر کہا تھا۔
ان تمام باتوں کے دوران گلزار صرف سر ہلا رہے تھے ۔۔۔اُن کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں کوئی تشویش صاف دکھائی دے رہی تھی۔
ہال کے اندرونی بند دروازے کے باہر کھڑی گلناز یہ تمام باتیں سُن رہی تھی۔ اُس وقت اُس کی آنکھیں میں آنسو تیرنے لگے ۔ اُس نے مضبوطی سے آنکھیں بند کی تب آنسوؤں کی ایک قطار پلکوں سے باہر بہہ نکلی ۔ اُس نے ایک گہری سانس لی ، آنکھیں صاف کی اور آہستہ سے ہال کا وہ دروازہ کھولا۔ اُس وقت ڈاکٹر وقار کچھ کہنے کے لیے گلزار سے مخاطب تھے لیکن اچانک گلناز کو اندر آتا دیکھ وہ رُک گئے۔ اُسے اس طرح اچانک اندر آتے دیکھ کر وہ سب ہی حیران رہ گئے تھے۔ گلناز وہیں قریب ہی سر جھکائے رُک گئی اور آہستہ سے کہا۔۔ ۔
“انکل جی ۔۔۔ آنٹی جی ۔۔۔ آپ لوگ اس رشتے کو پکا کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ اس لیے ۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آپ لوگوں کو ایک بہت اہم بات بتانی ضروری ہے ۔۔۔” گلناز کے اس جملہ پر وہ سب چونک پڑے ۔ گلناز کی آنکھیں نم تھیں ۔۔۔اُس کے انداز بیان سے اُس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا ۔ گلزار، مسز گلزار اور نیلوفر کے چہرے سرخ ہورہے تھے۔ اُن کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔شہریار اور ماریہ نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا تھا۔
“ہاں ۔۔بیٹا ۔۔۔ کہو ۔۔۔ تم کیا کہنا چاہتی ہو ۔۔۔” مسز وقار نے حیرت سےپوچھا ۔
” جی آنٹی ۔۔۔ میں آپ لوگوں کو ہمارے گھر کے ایک بہت اہم ممبر سے ملانا چاہتی ہوں ۔۔۔ ” گلناز نے کہا۔ اُس وقت کچھ آنسو اُس کی پلکوں سے جھلک چکے تھے۔۔۔گلزار اور مسز گلزار کی آنکھوں سے بھی اب ہلکی پھوار شروع ہوگئی۔ وہ دونوں اپنے سر تھامے سر جھکائے بیٹھے تھے۔
“ہاں ہاں بیٹا ۔۔۔ضرور ملواؤ ۔۔۔ آپ کس سے ملانا چاہتے ہو ۔۔۔؟ ” بیگم وقار نے نہایت تجسس سے پوچھا ۔
” جی آنٹی ۔۔۔ بس ایک منٹ ۔۔۔ میں ابھی آتی ہوں۔۔۔” گلناز نے کہا اور فوراً اندر چلی گئی۔۔
ڈاکٹر وقار، مسز وقار ، ماریہ اور شہریار کے چہروں پر چھائی حیرانگی اپنے عروج پر تھی۔ گلزار، مسز گلزار اور نیلوفر نظریں جھکائے بیٹھے تھے اور فیروزہ آنٹی حیرت سے اُن سب کے منہ تک رہی تھیں۔۔۔ چند لمحوں بعد گلناز کسی کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ سب اُسے حیرت سے دیکھنے لگے ۔ وہ تقریباً ساڑھے چار فٹ کی ایک موٹی سی لڑکی تھی ۔ لڑکوں کی طرح چھوٹے چھوٹے تراشے ہوئے بال تھے ۔ رنگ سرخ و سفید تھا۔ ناک کافی چپٹی اور دبی ہوئی تھی۔ چینی منگولیائی لوگوں کی طرح اُس کی آنکھوں کے سرے اوپر کی جانب کچھ اُٹھے ہوئے تھے ۔۔۔اور ابھرے اُبھرے سے گلابی ہونٹ ۔۔۔ ! اُس کو دیکھ کر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایک پیدائشی پاگل لڑکی ہے ۔۔۔ گلناز کے اندر آتے ہی گلزار تیزی سے اُٹھے اور اس کے قریب جاکر گلشن کو گلے لگا لیا اور سسکیاں لینے لگے۔
“انکل جی ۔۔۔آنٹی جی ۔۔۔” گلناز نے وقار اور مسز وقار کی جانب دیکھتے ہوئے نہایت نرم لہجہ میں رُک رُک کر کہنا شروع کیا ۔۔۔۔”یہ میری بڑی بہن ہے ۔۔۔ ان کا نام گلشن ہے ۔۔۔ ابو نے ہمارے گھر کا نام، انہی کے نام پر “گلشن ہاؤس ” رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔ یہ بہت سچی اور ایمان دار ہے ۔۔۔۔ ہم سب ان کو بہت پیار کرتے ہیں ۔۔۔ یہ دراصل mentally retarded ہے ۔۔۔۔ ۔ ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ ان کو Down’s Syndrome نام کی بیماری ہے ۔۔۔ یہ پیدائشی طور پر ہی ایسی ہے ۔۔۔” گلناز خاموش ہوئی ۔ ہال میں سناٹا چھا گیا تھا۔ صرف گلزار اور مسز گلزار کی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
گلناز نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا ۔۔۔” رشتے کی بات آگے بڑھنے سے پہلے ۔۔۔آپ لوگوں کا گلشن سے ملنا بہت ضروری تھا۔۔۔ ابھی آپ لوگوں کے سامنے ، گلشن کی وجہ سے ہی ۔۔۔ ابو اور امی پریشان ہورہے تھے۔۔۔۔۔ بس مجھے گلشن ہی سے آپ لوگوں کو ملوانا تھا ۔۔۔” اس نے کہا اور گلشن کا ہاتھ پکڑے دھیرے سے اندر جانے کے لیے پلٹنے لگی ۔
ڈاکٹر وقار نے اپنی بیوی کی جانب دیکھا جو حیرانگی سے ایک بُت بنی بیٹھی تھی۔ پھر انھوں نے شہریار اور ماریہ کی طرف دیکھا، جو عجیب نظروں سے گلشن کو دیکھ رہے تھے۔ ۔۔۔ وہ ایک ٹھنڈی سانس چھوڑتے ہوئے کھڑے ہوئے ۔ دھیرے دھیرے گلناز کے قریب گئے اور آہستہ سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ پھر گلشن کے سر پر ہاتھ رکھا لیکن وہ سہم کر پیچھے ہٹ گئی ۔۔۔ ڈاکٹر وقار نے گلزار کو کندھوں سے پکڑا اور ان کے آنسو پوچھنے لگے ۔۔
“گلزار صاحب ۔۔۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ ۔۔۔ آپ ہمیں گلشن سے شروع میں بھی ملا سکتے تھے۔۔۔اس میں کیا مسئلہ ہے ؟ ۔۔۔آپ کیوں گلشن کو چھپا رہے تھے ۔۔۔ ہم لوگوں سے ؟ ۔۔” وقار نے نہایت نرم لہجے میں اپنائیت کے ساتھ پوچھا۔
گلزار اور مسز گلزار دونوں مسلسل رو رہے تھے۔ وہاں موجود سبھی کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔۔۔
نیلوفر آہستہ سے اُٹھ کر مسز وقار کے قریب گئی اور ان کے بازو میں بیٹھتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔۔۔”بات دراصل یہ ہے کہ ۔۔۔ گلناز کے لیے ، آپ لوگوں سے پہلے بھی دو تین رشتے آئے تھے ۔۔۔وہ لوگ بھی کافی تعلیم یافتہ تھے ۔ ۔۔۔ ہم نے گلشن کو ان لوگوں سے چھپایا نہیں تھا ۔۔۔ لیکن اُن لوگوں نے ۔۔۔ گھر واپس جاکر یہ جواب بھجوایا تھا کہ ۔۔۔ جب لڑکی کی بڑی بہن پاگل ہے تو ۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ۔۔۔۔ یہ ان کی موروثی بیماری ہو ۔ ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ گلشن پر جنات کے سائے ہوں ۔۔۔۔ ایک خاندان والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کے گھرانے پر کوئی بھوت پریت یا چڑیل کا سایہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ اس طرح کی باتوں کی وجہ سے ہم لوگ بری طرح سے ڈر گئے تھے ۔۔۔بس اسی لیے سوچا تھا کہ اس بار گلشن کو سامنے نہیں لائیں گے ۔۔۔۔لیکن گلزار بھائی کے ۔۔۔۔ پریشان چہرے کو دیکھ کر گلناز سے رہا نہیں گیا ۔۔۔۔ اور اس نے گلشن کو آپ لوگوں سے ملوادیا ۔۔۔ یہ سب ہم بڑوں کی غلطی ہے ۔۔۔ آپ لوگ ۔۔۔ ہمیں معاف کیجئے گا ۔۔۔” نیلوفر یہ کہتے ہوئے رو پڑی تھی۔ لیکن مسز وقار بالکل ساکت و جامد اُنھیں اس طرح سے دیکھ رہی تھی مانو کچھ بھی سُنا ہی نہ ہو۔۔۔
ڈاکٹر وقار نے گلزار کے آنسوؤں کو ایک بار پھر پوچھا اور آہستہ سے کہا ۔۔۔”گلزار صاحب ۔۔۔ آپ دنیا کے ایک خوش نصیب انسان ہیں جن کے یہاں اللہ تعالیٰ نے دو نہایت سچ بولنے والی بیٹیاں پیدا کی ہے ۔۔۔ وہ لوگ نہایت جاہل اور بد عقیدہ تھے جنھوں نے وہ تمام اُوٹ پٹانگ باتیں کہہ کر گلناز کا رشتہ ٹھکرایا تھا ۔۔۔ گلناز تو ہیرا ہے ہیرا ۔۔۔رہا سوال گلشن کی بیماری کا ۔۔۔ تو ہم بحیثیت ڈاکٹر یہ بات بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ یہ بیماری ۔۔۔ موروثی بیماری نہیں ہوتی ہے ۔۔۔یہ تو لاکھوں لوگوں میں سے کسی ایک کو ہوجاتی ہے۔۔۔یہ صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اور کچھ نہیں ۔۔۔” اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے گلناز کے سر پر ہاتھ رکھا تھا جو ان کی باتوں کے دوران سر جھکائے سسکیاں لے رہی تھی۔ ڈاکٹر وقار خاموش ہوئے اور پلٹ کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو ابھی تک بالکل خاموش بیٹھی تھی اور خالی خالی نظروں سے گلشن کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اُن کے قریب آئے اور جھک کر اُن کے کندھے پکڑ کر ۔۔۔اُنھیں اُٹھانے لگے ۔۔۔
“کیا ہوگیا یاسمین۔۔۔ اس طرح خاموش کیوں ہوگئی ہو ۔۔۔ ؟” وقار نے پوچھا۔
“جی ۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔ بس ہونہی ۔۔۔ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔۔ سر میں درد شروع ہوگیا ہے ۔۔۔ مجھے لگتا ہے ، اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔۔” مسز وقار نے نہایت دھیمے لہجے میں اُٹھتے ہوئے کہا ۔ وہ چہرے سے ہی بیمار لگنے لگی تھی۔
“مما! ۔۔۔ آر یو آل رائیٹ ۔۔۔؟ ” ماریہ نے اُن کے قریب آکر پوچھا۔
“ہاں ۔۔۔بیٹا ۔۔۔بس مجھے لگتا ہے اب ہمیں چلنا چاہیے ۔۔۔” انھوں نے ایک بار پھر مری مری آواز میں کہا ۔
“لیکن مما! ۔۔ اس طرح سے ۔۔ کچھ مناسب نہیں لگ رہا۔۔ ” ماریہ نے ان کے کانوں کے قریب جھک کر نہایت دھیرے سے کہا تھا۔
“ہاں بیٹا ۔۔۔بٹ آئی ایم ساری ۔۔۔ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔۔ میری طبیعت خراب لگ رہی ہے ۔۔۔۔”
ڈاکٹر شہریار اُن کے قریب آیا اور آہستہ سے اُنھیں کندھوں سے پکڑ کر نہایت دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔”او کے مما! ۔۔۔ چلیے چلتے ہیں ۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔۔”
ڈاکٹر وقار نے ٹھنڈی سانس چھوڑی اور گلزار کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔”او کے گلزار صاحب ۔۔۔ہم لوگ ابھی چلتے ہیں ۔۔۔ ہماری مسز کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے ۔۔۔ اسی لیے ۔۔۔ان شاء اللہ پھر ملتے ہیں ۔۔۔۔۔او کے ” انھوں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ گلزار نے یوں مصافحہ کیا تھا مانو اپنا ہاتھ خلا میں لہرا رہا ہو۔ گلشن کچھ ضد کرنے لگی تھی اسی لیے گلناز اُسے لے کر اندر چلی گئی۔ مسز گلزار نے سہمے ہوئے سے انداز میں مسز وقار کی جانب مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے نہایت ڈھیلے انداز میں مصافحہ کیا اور باہر جانے لگی۔ وہ سب دھیرے دھیرے باہر نکل گئے۔ گلزار، نسرین، نیلوفر اور فیروزہ آنٹی دروازے سے اُنھیں نکلتے دیکھتے رہ گئے۔ جب کار اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تب نسرین کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ روتے ہوئے دھم سے صوفے پر گر پڑی۔ گلزار اپنے آنسو پوچھتے ہوئے اس کی جانب لپکے تھے ۔۔۔نیلوفر اُنھیں سمجھا رہی تھی اور اُنھیں پانی پلانے کی کوشش کررہی تھی لیکن اُنھیں کوئی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ایک بار پھر کچھ انجان لوگوں نے اُن کو بغیر کسی وجہ کے نہایت سخت گالی دی تھی۔ روتے روتے گلزار، مسز گلزار اور نیلوفر ہلکان ہورہے تھے۔ قریب کھڑی فیروزہ آنٹی کے منہ پر اب تالہ لگ گیا تھا۔
ایک ہفتے بعد ۔۔۔
گلناز زُولاجی ڈیپارٹمنٹ سے باہر نکلی اور گاڑیوں کے اسٹینڈ کی جانب تیز تیز قدموں سے جانے لگی۔ اُس نے اپنی اسکوٹی کی ڈکی کھول کر اُس میں بیگ رکھا اور اُسے اسٹارٹ کرنے لگی۔ اُسے محسوس ہوا جیسے کوئی اُسے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ وہ اسی احساس کی وجہ سے پلٹی ۔۔۔۔ اُس کی نظریں قریب کے ایک درخت کے نیچے کھڑی کار پر پڑی جس کے باہر ڈاکٹر شہریار کھڑا اُسی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بُری طرح سے چونک پڑی ۔ ۔۔لیکن فوراً ہی اُس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور واپس پلٹ کر اسکوٹی اسٹارٹ کرنے لگی۔ ڈاکٹر شہریار یہ دیکھتے ہی تیزی سے اُس کے طرف آنے لگا۔
“مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔” اُس نے دور ہی سے بلند آواز میں آتے ہوئے کہا تھا۔ وہ رُک گئی لیکن اسکوٹی کو بند نہیں کیا تھا۔۔۔
“جی کہیے ۔۔۔ ” اُس نے بالکل سپاٹ لہجے میں کہا ۔
“دیکھیے ۔۔۔آئی ایم ساری ۔۔۔ اُس دن میری مما کی وجہ سے آپ لوگوں کو ۔۔۔بہت تکلیف پہنچی ۔۔۔میں اُسی کے لیے آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں ۔۔۔ ” اُس نے کچھ فاصلے پر رُک کر کہا ۔
“جی ۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔۔۔” اُس کا لہجہ انتہائی سپاٹ تھا۔
“دیکھیے ۔۔۔ مجھے معلوم ہے ۔۔۔کہ ۔۔۔ آپ کو بہت برا لگا ہے ۔۔۔۔اور ۔۔۔ لگنا بھی چاہیے ۔۔۔ اسی لیے ۔۔۔ میں آپ سے معافی مانگ رہا ہوں ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔معاف کردیجیے ۔۔۔۔” اُس نے ہاتھ جوڑ دیے تھے۔
گلناز نے عجیب نظروں سے اُسے دیکھا اور آہستہ سے کہا ۔۔۔ “کوئی بات نہیں ۔۔۔ میں نے معاف کیا ۔۔۔ او کے ۔۔۔” اُس نے اسکوٹی کو سڑک پر لیتے ہوئے کہا۔ جب اسکوٹی سڑک پر آگئی تب اُس نے نہایت گہری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔”اُس دن آنٹی کی طبیعت کافی خراب ہوگئی تھی ۔۔۔ اُن کا خیال رکھیے ۔۔۔ آپ کے یہاں تو بہت سارے ڈاکٹرس ہیں ۔۔۔اُن کا علاج کیجیے گا ۔۔۔۔ ” یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
ڈاکٹر شہریار کسی بُت کی طرح کھڑا اُسے دیکھتا رہ گیا! اُسے محسوس ہوا جیسے وہ ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک مریض ہے ۔۔۔۔ ایک ایسی بیماری کا مریض جو بہت بہت پُرانی ہے اور اُس کی رگ رگ میں پھیل چکی ہے ۔ ۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے اپنی کار کی طرف آیا ۔۔۔ کار کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھا ہی تھا کہ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ماریہ کی آواز آئی۔۔۔”کیا ہوا بھائی ۔۔۔کیا کہا اُس نے ۔۔۔؟”
شہریار نے پلٹ کر اُسے دیکھا اور آہستہ سے کہا ۔۔۔ ” اُس نے کہا کہ مما کا خیال رکھیں ۔۔۔”
ماریہ کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا ۔ اُس نے پھر پوچھا ۔۔۔۔” پھر آگے اب کیا ۔۔۔؟”
شہریار نے سیدھے پلٹتے ہوئے ٹھنڈی سانس چھوڑی اور آہستہ سے کہا ۔۔۔”چلو ۔۔۔اب مما کا علاج کرتے ہیں۔۔۔”
اُس نے دھیرے سے کار سڑک پر لی اور اُسی جانب دوڑا دی جدھر گلناز گئی تھی۔
***
ڈاکٹر انیس رشید خان: مختصر خود تعارف
میرا نام ڈاکٹر انیس رشید خان ہے۔ ودربھ کے شہر امراؤتی کا رہنے والا ہوں۔ مجھے چار سال کی عمر میں دونوں پیروں سے پولیو ہوگیا تھا۔ کافی علاج کرایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میرے مرحوم والد، جناب عبدالرشید خان صاحب اور مرحومہ والدہ، محترمہ صفیہ خاتون صاحبہ دونوں پرائمری اسکول ٹیچرس تھے۔ وہ دونوں تعلیم کی اہمیت جانتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے مجھے تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ میرے والدین نے مجھے تعلیم کا راستہ دکھایا اور اس پر چلنے میں میری جو مدد انھوں نے کی ہے، وہ دنیا میں شاید کوئی نہیں کرسکتا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کرتے ہوئے نہایت کم زور حالات میں مجھے پڑھایا اور فزکس میں ایم ایس سی کروائی۔ اس کے بعد بی ایڈ کیا اور مختلف شہروں میں مثلاً ناندورہ (ضلع بلڈانہ)، دھارنی (ضلع امراؤتی)، کرجگاؤں (ضلع امراؤتی)، اور امراؤتی شہر میں ہائی اسکول ٹیچر اور جونیئر کالج لیکچرر کی نوکریاں کی۔ بالآخر مجھے یہاں امراؤتی میں سرکاری جاب مل گئی۔ آج کل میں ضلع پریشد سائنس کور جونیئر کالج، امراؤتی میں پچھلے ٢٣ سالوں سے فزکس لیکچرر کے طور پر زیر ملازمت ہوں۔ آج کل کورونا کی وجہ سے سارے دیش میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے، اسی لیے تمام اساتذہ گھروں سے ہی بچوں کو پڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ اسی لیے میں نے بھی ایک یوٹیوب چینل تیار کیا ہے جس کا نام PHYSICS VISION ہے۔ اس چینل پر تقریباً ڈیڑھ ہزار طالب علم جڑ چکے ہیں اور فزکس کی تعلیم مکمل کررہے ہیں۔
اردو میں سائنسی مضامین لکھنا اور اردو اخبارات اور رسالوں میں شائع کرنا میرا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ نئی دہلی سے شایع ہونے والا ماہ نامہ ’سائنس‘ جسے جناب ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب شائع کرتے ہیں، اس میں ہر مہینے میرا ایک مستقل آرٹیکل ’بنیادی فزکس‘ شائع ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ’سائنس کی دنیا‘ سہ ماہی رسالے کے لیے بھی کئی مضامین شائع کروا چکا ہوں۔ اسی طرح سے کولہا پور، مہاراشٹر کی رہنے والی سماجی کارکن محترمہ نسیمہ ہرزک کی آب بیتی ”ستاروں سے آگے“ اس عنوان کے تحت لکھا ہوں جسے فاروس میڈیا پبلی کیشن، نئی دہلی سے 2011 میں شائع کیا تھا۔ یہ کتاب محترمہ نسیمہ ہرزک جی نے مراٹھی زبان میں ”چاکاچی کھرچی“ کے عنوان کے تحت شائع کیا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...