منحوس چہرے پر نظر پڑتے ہی گُلہ قصائی کے تن بدن میں آگ سی دہک اٹھتی اور وہ سامنے پڑے لکڑی کے تختے پر موجود گوشت کو تیزدھار چاقو سے بوٹی بوٹی کر ڈالتا۔ گُلہ قصائی کا یہ حیرت انگیزعمل کئی مہینوں سے جاری تھا۔ اس کی دکان کے سامنے چاہیے خریدار ہویانہ ہو پھر بھی منحوس چہرے کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ خودبخود چاقو تھام لیتے اوراندھا دُھند گوشت کاٹنا شروع کر دیتے۔ نفرت انگیز غصے سے اُس کی آنکھیں لال پیلی ہوجاتیں اور گالوں پر سُرخی پھیل جاتی۔ کبھی کبھی کوئی خریدار گُلہ قصائی کی بدلتی رہتی عجیب و غریب کیفیت سے تھوڑاسا حیران ہوجاتا۔
گُلہ قصائی کی دکان سرکاری اسپتال کے مین گیٹ پر تھی۔ جوانی سے لیکر اب اس ادھیڑ عمر میں بھی وہ بڑی سرعت سے اپنا کام کرتا رہتا۔ اُس کی خوش اخلاقی اور ایمانداری نے خریداروں کے دل جیت لئے تھے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آتا لیکن ڈاکٹروں کی عزت کرنے میں وہ کچھ زیادہی فراخ دل ثا بت ہواتھا۔ جب بھی کسی ڈاکٹر کی گاڑی گیٹ سے آتی جاتی تو اُس کا ہاتھ سلام کرنے کے لئے فوراََ اٹھ جاتا اور جب بھی کوئی ڈاکٹر گوشت خریدنے آتا توگُلہ قصائی گوشت تو لنے کے بعد ایک دوٹکڑے لفافے مین زیادہ ڈال دیتا۔ ڈاکٹر لوگ جب گُلہ قصائی کی دریا دلی کی تعریف کرتے تو وہ مسکرتے ہوئے کہہ اٹھتا کہ ڈاکٹر کا پیشہ مسیحائی کا پیشہ ہوتا ہے۔ آپ لوگ نہ صرف عوام کی خدمت کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کے دُکھ درد کا علاج کرکے انھیں تکلیف سے بھی نجات دلاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے وہ اپنی زندگی کا ایک یاد گار واقعہ ا نھیں ضرور سنا نا کہ برسوں پہلے جب اس کی بیوی دردزہ کی حالت میں اسی اسپتال میں ایڈمٹ ہوئی تھی تو ڈاکٹر مشتاق صاحب رات بھر اُس کے علاج معالجے میں جٹے رہے اور صبح کے وقت اُسکا آپریشن کرکے ایک پھول سی بچی میری گودمیں مسکراتے ہوئے ڈال دی تھی۔ میں نے شکریہ کرتے جب چند روپے انھیں دینے کی کوشش کی تھی تو اُس نے سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔مجھے سرکار آپ لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہی تنخواہ دیتی ہے۔ جاؤ‘ ان پیسوں سے بچی کے لئے کپڑے لاؤ۔
وقت بدلتا رہا اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ بھی بدلتی گئی۔ انسانی دلوں میں انسانیت کے بدلے مادیت کا زہر پھوٹنے لگا۔
گُلہ قصائی کی بچی کاپاؤں بھاری تھا۔ وہ دوپہر کے وقت دکان کے کا م کاج میں لگا ہوا تھا۔ اُس کا چھوٹا بیٹا دوڑتے دوڑ تے دکان پر آکر کہنے لگا کہ ماں نے کہا ہے کہ بہن کی طبیعت کچھ خراب سی ہوگی ہے اس لئے جلدی گھر آجاؤ۔ گُلہ قصائی دکان بندکر کے گھر کی جانب دوڑپڑا اور بیٹی کو آٹومیں لاکر اسپتال میں ایڈمٹ کر وایا۔ بیٹی دردزہ سے کراہ رہی تھیں لیکن گُلہ قصائی ڈاکٹر کے علاج سے مطمئن تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر کے ساتھ اُس کی علیک سلیک توہے ہی‘ اس لئے پر یشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک آدھ گھنٹہ گزرنے کے بعد نرس نے گُلہ قصائی کے ہاتھ میں ایک پرچی تھمادی۔ گُلہ قصائی پر چی لیکر مارکیٹ میں دوائی کی دکان پر چلاگیا اور دوافروش سے دوائی دینے کو کہا۔ دوافروش گُلہ قصائی کا جان پہچان والا آدمی تھا۔ اُس نے پرچی دیکھ کر گُلہ قصائی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے کہو کہ وہ دوسری کمپنی کا دوا لکھ کر دیں لیکن گُلہ قصائی کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور وہ دوافروش سے جلدی جلدی دوالیکر اسپتال کی جانب دوڑ پڑا۔ گُلہ قصائی وارڑ سے باہر بڑی بے قراری سے چہل قدمی کررہاتھا۔ بیٹی کی کراہا نے کی آواز یں اُس کے دل کو چھلنی کررہی تھیں۔ اُس کی آبدید ہ نگاہیں بار بار اوپر کی جانب اٹھ رہی تھیں اور وہ سرد آہیں لیتے لیتے سر گوشی کے انداز میں دُعامانگ رہا تھا کہ اللہ اُس کی بیٹی کو نظر رحمت سے نواز ے۔دن ڈھلتے ہی نرس نے گُلہ قصائی سے کہا کی ڈاکٹر کی کوشش کے باوجودبھی آپ کی بیٹی کو کوئی راحت نہیں مل رہی ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب کی ڈیوٹی ختم ہورہی ہے۔ اُس کو کلینک پر جانا ہے۔ آپ کے سامنے دوہی راستے ہیں یا تو آپ کو اسی وقت شہر کے اسپتال جاناپڑے گا یا ڈاکٹر صاحب کے پرائیوٹ کلینک پر اسکا علاج ہوسکتا ہے۔ جلدی مشورہ کرو نہیں تو دیر ہوجائے گی اور آپ کی بیٹی کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ نرس کی باتیں سُن کر گُلہ قصائی پریشان ہوگیا۔ بیوی سے مشورہ کر کے بیٹی کو کلینک میں ایڈمٹ کیا گیا۔ نرس نے دوائی کی ایک اور پرچی تھماتے ہوئے گُلہ قصائی سے کہا کہ اسکا میجر آپریشن کرنا پڑیگا۔ اس کے لئے تقریباََ بیس ہزارکا انتظام کرنا ہو گا۔ بیس ہزار کا نام سنتے ہی گُلہ قصائی سکتے میں آگیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوگا۔ چند ہزار تو میں نے اس دن کے لئے سنبھال کر رکھے ہیں‘ ان میں زیادہ تر خرچ ہوگئے۔ گُلہ قصائی نے جب یہ بات بیوی کو بتائی تو اسکا سر بھی چکر کھانے لگا۔ میاں بیوی ابھی اس بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں جھول رہی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کاکنگن دیکھ کر باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار نکل پڑی۔ بیٹی کے ہاتھ سے سونے کا کنگن لیتے ہوئے گُلہ قصائی کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے آج اُس نے اپنے ہی گھر میں ڈاکہ ڈالا ہو۔ مارکیٹ بند ہونے جارہاتھا۔ گُلہ قصائی نے ایک دکان پر چڑھ کر سنار کے سامنے کنگن رکھ دیا۔ سُنارنے کنگن کا وزن کرکے گُلہ قصائی سے کاروباری زبان میں کہا کہ سونے کا بھاؤ گر گیا ہے اور پھر بھی یہ استعمال شدہ سونا ہے اس لئے پندرہ ہزار سے زیادہ اس کی قیمت نہیں ہے۔ بہر حال گُلہ قصائی کے اصرار پر سُنارنے اُسے سولہ ہزار دے دئے اور گُلہ قصائی پیسے لیکر کلینک کی جانب تیزرفتاری سے پہنچا۔ پیسے جمع کر نے کے بعد جب گُلہ قصائی ڈاکٹر کو لیکر کمرے میں داخل ہوا تو اپنی بیٹی کی آخری آوازاُس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔۔بابا۔۔۔! گُلہ قصائی کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ ہر طرف چیخنے چلانے کی آوازیں سن کر جیسے وہ بہرہ ہوگیا۔
گھرمیں ماتم داری کے دن گزارنے کے بعد گُلہ قصائی دل پر پتھر رکھ کر دکان پر پھر سے بیٹھ گیا۔ وہ اب سرکاری اسپتال کو ذبیح خانہ کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اُس کا ہاتھ نہ کسی ڈاکٹر کو سلام کرنے کے لئے اٹھتا تھا اور نہ ہی وہ کسی ڈاکٹر کو ڈاکٹر مشتاق کی داستان سناتا تھا۔ اُس منحوس چہرے کی گاڑی جب گیٹ سے اندرچلی جاتی تو گُلہ قصائی کے تن بدن میں آگ سی لگ جاتی اور وہ تیز دہار چاقو کو گوشت پر اندھا دُھند چلانا شروع کردیتا۔
عید قربان کا تہوار تھا۔ عرفہ کی گہماگہمی سے بازار چمک رہا تھا۔ گُلہ قصائی کی دکان پر لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔ گُلہ قصائی گوشت کٹائی میں مصروف تھا کہ ایک مانوس آواز نے اُسے چونکا دیا۔منحوس چہرے کو دیکھتے ہی گُلہ قصائی کی آنکھیں لال پیلی ہوگئیں۔ اُس کے ہاتھ تھرتھرانے لگے۔ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اُسے ایک کلو گوشت چاہیے وہ بھی بھیڑ کا‘کیونکہ اُس کی بیٹی کا پاؤں بھاری ہے۔ پیسے دیتے ہوئے اُس نے مزید کہا کہ وہ اسپتال سے چھٹی کے بعد گوشت لے گا۔
”بیٹی کا پاؤں بھاری ہے“ والی آواز بار بار گُلہ قصائی کے کانوں سے ٹکراتی رہی۔ اس آواز نے اُسکے اندر ایک خوش گوار احساس جگا دیا۔ دکان کے کا م سے فراغت پاکر وہ دوافروش سے دوائی کی ایک شیشی لایا۔ شیشی کا ڈھکن کھول کر دوائی پانی میں ملا دی اور گوشت کو پانی میں بھگونے لگا۔اُس کے ذہن میں عجیب وغریب قسم کے خیالات آتے رہے۔ وہ بڑی بے صبری سے ڈاکٹر کا انتظار کرتا رہا۔آدھے گھنٹے کے بعد ڈاکٹر جونہی گوشت لینے کے لئے آیا تو اُس نے مسکراتے ہوئے ڈاکٹر کے ہاتھ میں گوشت بھر الفافہ تھمادیا۔ڈاکٹر پارک والی جگہ پر گاڑی کی طرف جانے لگا۔ گُلہ قصائی راحت کی سانس لیکر خیالات کے گہرے سمندر میں کھوگیا۔ ڈاکٹر نے جب گاڑی اسٹارٹ کی تو گُلہ قصائی کی آنکھوں کے سامنے عید کی خوشی کا منظر رقص کرنے لگا۔اس کا ضمیر نیکی اور بدی کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگا۔ ڈاکٹر کے سلوک سے بدی کا پلڑا بھاری ہوتا رہا۔ یہی وہ منحوس چہرہ تھا جس نے گُلہ قصائی کی انسانیت کے جذبے پر حیوانیت کا تیشہ چلایا تھا۔ ڈاکٹر کو گوشت دیکر اُسے یک گونہ سکون محسوس ہو رہا تھا۔ وہ ان ہی عجیب و غریب خیالات میں ڈوبا ہوا تھا کہ مسجدشریف سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی۔ اللہ اکبر کی صدا سے گُلہ قصائی کو ایک جھٹکا سالگا۔ نیکی کا پلڑا بھاری ہونے لگا۔ گُلہ قصائی کا ضمیر اسے کوسنے لگا کہ توصرف قصائی ہے جلاد نہیں۔ بیٹی کی ”بابا“ والی آواز پھر سے گُلہ قصائی کے کانوں سے ٹکرائی۔ لیکن یہ آواز جلاد سے بدلہ لینے کے لئے نہیں بلکہ بیٹی کی جان بچانے کی آواز تھی۔ گُلہ قصائی ننگے پاؤں گاڑی کی طرف دوڑ پڑا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر گوشت کا لفافہ اٹھا تے ہوئے بول پڑا ”یہ بکرے کا گوشت ہے بھیڑ کا نہیں۔“