سات سالہ پری، والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے ہندوستان آئی ہوئی تھی۔ برسات کا موسم تھا، بارش اس کے لئے بالکل انجان تھی۔ کیونکہ اس کی پیدائش اس صحرائی ملک میں ہوئی تھی جہاں بارش کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ہاں کبھی کبھار بادل جب آب کی تاب نہ لاتے ہوئے برس پڑتے ، تب سارا ماحول، یومِ عید کی نوید سنا جاتا تھا۔
ہندوستان کے خوشگوار موسم نے پری کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔۔۔۔وہ کھڑکی کے قریب بیٹھی گھنٹوں موسلادھار بارش کو تکتی رہتی اور لطف اندوز ہوتی۔اسے بارش کی بوندوں میں ایک عجیب سی رِم جِھم کی جھنکار سنائی دیتی تھی، بارش کا لگاتار برسنا بہت اچھا لگتا۔۔۔۔۔خصوصاً جب لوگ اس سے بچنے کی خاطر رنگ برنگی چھتریوں کا استعمال کررہے ہوتے۔رنگ برنگی چھتریاں اور رم جھم بارش، پری کو جیسے پریوں کی کہانیوں کا گمان ہونے لگتا،بڑی دلچسپی سے ان چھتریوں اور بارش کی بوندوں کو دیکھتی رہتی۔
"چھتری لوگوں کو بارش سے کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے ؟ "دادی ماں سے جب یہ راز جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے تفصیل سے سمجھایا ۔پری کا دل آرزو کرنے لگا کہ اس کی بھی کوئی چھتری ہو جسے وہ رِم جِھم برسات میں اٹھائے محلے بھر میں گھومتی رہے۔
وقت کسی کے لئے نہیں رکتا۔ چاہے وہ موسم ہو، غم ہو یا خوشیاں !! سب کو اپنے ہمراہ چلنے پر مجبور کرتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔برسات کا موسم بھی وقت کا دامن تھامے آگے بڑھ گیا۔ اس کے ساتھ ہی پری کی چھٹیاں بھی ختم ہوئیں۔امی واپسی کی تیاریاں کررہی تھیں۔پری دادی ماں کے قریب بیٹھی بڑی اداس تھی۔دادی ماں نے اس سے کہا۔
"پری ذرا تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔۔۔۔آج میں تمھارے لیے ایک تحفہ لائی ہوں۔ "
"سچ۔۔۔۔! " وہ جھٹ سے اپنی آنکھیں بند کرلی۔ دادی ماں نے اس کی گودی میں ایک خوبصورت تحفہ رکھا ۔ دادی کے کہنے پرپری نے دھیرے سے آنکھیں کھول دی ، دیکھا تو گودی میں ایک گلابی رنگ کی خوبصورت چھتری مسکرا رہی تھی۔ "چھتری !!! "وہ خوشی سے اچھل پڑی ۔ اس تحفے کو پاکر وہ بہت خوش ہوئی۔لیکن افسوس برسات کا موسم تو گزر چکا تھا ۔ چھتری ، استعمال کرنے کی جو آرزو اور خواہش اس کے دل میں تھی وہ حسرت بن کر رہ گئی۔اسی حسرت کو سینے میں دبائے وہ اپنے والدین کے ساتھ صحرائی ملک لوٹ آئی۔
چھتری تو آگئی لیکن بارش نہیں آئی۔ننھی پری مسلسل کئی دنوں تک اس کا انتظار کرتی رہی۔لیکن وہ نہیں آئی ۔اس ننھی سے جان کو پتا نہیں تھا کہ ریگستان کی بارشوں سے، کوئی دوستی نہیں ہوتی ہے !!!
آخر وہ انتظار کرتے ہوئے تھک گئی۔ایک دن وہ اپنی امی سے ضد کرنے لگی۔
"امی مجھے بارش چاہیے ۔۔۔کسی حال چاہیے ۔۔۔۔بس !!"
"ارے یہ کیا ضد لےکر بیٹھ گئی ؟" امی بےاختیار ہنس پڑیں۔
"امی پلیز بارش لادیں۔۔۔۔۔ !!"
"بیٹی یہ تو رب العالمین کے دسترس میں ہے۔۔۔ بھلا ہم بندوں کی کیا اوقات جو ایک بوند بھی پیدا کرسکیں !!"
"مجھے کچھ نہیں سننا !!" وہ جیسےضد کی محاذ پر کھڑی آنسوؤں کی گولہ بارود کرنے لگی۔
"سنو میں تمھیں ایک ضدی بچے کی کہانی سناتی ہوں ۔" پری کہانی کی بات سن کر جلدی سے آنسوؤں کو خشک کرتی ہوئی امی کی گودی میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔
"ایک معصوم سا بچہ جو بالکل تمھاری طرح ضدی تھا اسے آسمان پر چمکتا چاند چاہیے تھا۔ جیسے تمھیں بارش چاہیے۔۔۔۔۔ !!
چمکیلے روشن چاند کو دیکھ کر وہ معصوم ضد کرنے لگا کے کسی طرح اسے چھونا ہے۔۔۔۔ماں بے چاری پریشان۔۔۔لاڈلے کو بہت سمجھایا ۔۔۔۔بہلایا۔۔۔۔۔لیکن ضدی بچے نے اپنی ضد ترک نہیں کی۔۔۔۔تب لاچار ماں نے بڑے سے آنگن کے قدیم حوض کو پانی سے بھر دیا۔۔۔کچھ ہی دیر میں پانی پر چاند کا خوبصورت عکس جھلملا اٹھا۔۔۔۔ماں بچے کو اس عکس کے قریب لے آئی اور چاند کا دیدار کروایا۔اب چاند بچے کی دسترس میں تھا۔ وہ معصوم خوشی سے کبھی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھتا اور کبھی پانی میں ارتعاش کررہے چاند کے عکس کو۔۔۔ !! اس طرح معصوم بچے کی ضد مکمل ہوئی۔
کہانی کے اختتام پر اچانک پری خوشی سے چہک کر بولی
" امی ۔۔۔۔۔ایک ترکیب ہے۔۔۔۔ !!
"کس بات کی۔۔۔؟ "
"ایک منٹ۔۔۔۔ ! "وہ دوڑی اور اپنی چھتری اٹھا لائی۔ یہ دیکھ کر امی ماتھا پیٹ کر گویا ہوئیں ۔
" پھر سے یہ چھتری اٹھا لائی ہو ؟ دادی کا یہ تحفہ مصیبت بن گیا ہے" پری ماں کی کسی بات کی پرواہ کیے بناوہاں سے دوڑ گئی۔
"کہاں جارہی ہو۔۔۔۔۔۔؟" امی نے آوازدی۔لیکن وہ رکی نہیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد امی پریشان ، اسے تلاش کرنے کے ارادے سے اٹھیں۔۔۔۔ اس کے کمرے میں جھانکا وہ وہاں نہیں تھی۔
"کہاں گئی۔۔۔؟ "امی فکرمند ہوئیں۔
"پری۔۔۔۔۔پری کہاں ہوتم۔۔۔؟ " آخرتھک ہار کر وہ ہانپنے لگیں تو اچانک کہیں قریب سے پری کی کھلکھلا ہٹ سنائی دی۔امی آواز کی سمت دوڑیں وہاں جو کچھ دیکھا۔۔۔۔پری کی معصومیت بھری دیوانگی پر حیران رہ گئیں اور دوسرے ہی پل بےاختیار ہنسنے لگیں۔
پری ، گلابی چھتری تھامے پانی کی تیز بوندوں سے لطف اٹھاتی ہوئی خوشی سے کھلکھلارہی تھی۔ گویاچھتری اسے پانی سے محفوظ کررہی تھی اوروہ چھتری کے تحفظ سے محظوظ ہورہی تھی۔
چھتری پر شاور سے گرتا ہوا پانی بارش کی بوندوں کی طرح جھومتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔۔۔۔معصوم پری کسی مورنی کی طرح ناچ رہی تھی۔
رِم جِھم رِم جِھم رِم جِھم رِم جِھم
بارش برسا چھم چھم چھم چھم"
سچ ہے بچے ہی چاند اور بارش کی ضد کرسکتے ہیں!!
ختم شد