رات کے آخری پہر گاؤں میں غلغلہ مچا ہوا تھا، مگر نینسی معبد کی تنہائی میں آنکھیں بھینچے گڑگڑاتے ہوئے خدا سے مداوے کی دعائیں مانگ رہی تھی،،،،
اس سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا تھا،،،
اس نے ایک گونگی کوئل کے دل سے اٹھتی آواز سن لی تھی،،
یہ گونگی کوئل بھی اس کے گاؤں کی ان درجنوں لڑکیوں میں سے ایک تھی، جنہیں معبد میں گڑگڑانے کے سوا کہیں بھی آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں تھی،،،
نینسی نے اپنا اور اپنے جیسی تمام گاوں والیوں کا نام خود سے ہی گونگی کوئل رکھا ہوا تھا،،
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے اپنی اور اپنی بہنوں اور سکھیوں کی آواز بہت اچھی لگتی تھی،،،،
مگر اس گاؤں کے سخت قوانین اور یہاں رائج معبد کے دستور کے پاٹوں میں پستی ان کوئلوں کی آواز کبھی سرگوشیوں سے بلند ہو ہی نہیں پائی تھی،،،،
اس گناہ کا سفر دو سنیچر قبل شروع ہواتھا۔۔
جب نینسی نے راہب کے حکم پر آنکھیں بھینچ کر دعا کرتے حاضرین کی بڑبڑاہٹوں اور گڑگڑاہٹوں سے اکتاتے ہوئے اپنا سر اٹھا کر اس معبد کے در و دیوار کو گھورنا شروع کر دیا تھا، جہاں پر گھومتے پھرتے خدا سے موٹے پیٹ والا راہب سب گاؤں والوں کو ڈراتا رہتا تھا،،
نظریں گھماتے گھماتے اس کی نظر کچھ دور بیٹھی اپنی بہن کیلیا پر جا پڑی، جس کی نگاہیں دور فاختہ کے بت کے عقب میں کھڑے سردار جولیس کے محافظ جیروم پر اٹکی ہوئی تھیں،،،
جیروم بھی اسی کی جانب دیکھ رہا تھا،اور دونوں کے لبوں پر دھیمی دھیمی سے مسکان طاری تھی،،
یہ منظر دیکھ کر نینسی کے دل میں خوف نے سر اٹھا لیا اور وہ بھی آنکھیں بھینچ کر سر جھکائے دعا میں مشغول ہوگئی تھی،،
نینسی اس وقت اپنی ساری تمنائیں بھول کر صرف یہ دعا مانگ رہی تھی کہ گاؤں کے کسی پارسا کی نظر ان دو گناہگاروں پر نہ پڑ جائے،،
گاؤں میں ایسا گناہ ہوئے بہت عرصہ ہوگیا تھا،
بہت پہلے، نینسی کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اس گاؤں میں ہیرالڈ اور میگنی نام کے دو لوگ بھی ایسا گناہ کے پکڑے گئے تھے، جنہیں اس وقت کے سردار، جو کہ نیننسی کے دادا تھے،، نے اپنے جنگجو جتھے کے ساتھ پکڑ کر سولی پر لٹکا دیا تھا اور پھر ان کی لاشوں کو جلانے کے بعد ان کے مددگاروں کو بھی قتل کر کے دریا میں پھینک دیا تھا ،،
اس واقعے کی ترویج گاؤں میں اس قدر کی گئی کہ پھر کبھی ایسا واقعہ رونما ہی نہیں ہوا،،،
نینسی نے اپنے باپ سردار جولیس سے کئی بار سنا تھا کہ وہ اپنے باپ دادا کی طرح اپنے قبیلے اور معبد کے قوانین کا دنیا کی ہر شے اور ہر رشتے سے زیادہ احترام کرتے ہیں اور وہ ان پر عمل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں،،،،
سردار جولیس اور نینسی کے درمیان براہ راست گفتگو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی، ان کے منھ سے جو کچھ بھی سنا، وہ معبد کے چبوترے پر ان کے خطابات کےدوران ہی سنا تھا،،
سردار اپنی بیٹیوں سے اتنی بے اعتنائی برتتے تھے کہ کبھی کبھی تو نینسی کو گماں ہوتا کہ شاید وہ اسے جانتے تک نہیں،،
گاؤں میں خواتین کا کسی بھی مسئلہ پر بولنا گناہ تصور کیا جاتا تھا، اور معبد میں تو کسی لڑکی کی سرگوشی بھی گونجتی تو اس کی مذمت بڑے گناہ کی طرح کی جاتی،،
رشتہ جوڑنے کے فیصلے بھی راہب اور سردار معبد کے چبوترے پر ہی کیا کرتے تھے،،،
نینسی کو یہ سب باتیں بہت معیوب لگتی تھیں، وہ جب بھی اس بارے میں سوچتی تو ساتھ ہی اس کا دھیان ان سنی سنائی خبروں کی جانب چلا جاتا، جن کے مطابق سردار اور اس کے لوگ دور دراز کے چھوٹے موٹے قبیلوں پر دھاوا بول کر ان کی لڑکیاں اٹھا لاتے اور کچھ روز بعد جب گاوں میں جشن فتح منایا جاتا تو شراب کے ٹوٹے پیالوں اور نوچ کھائے گوشت والی جلی بھنی ہڈیوں کے ساتھ ان لڑکیوں کی مجروح لاشیں بھی دریا میں بہہ رہی ہوتیں،،
بالکل ایسے ہی جیسے نینسی کے بچپن میں ان کے قلعے کی چھت پر زخمی ہو کر گری ایک مفلوج فاختہ مالا کے ٹوٹے ہوئے منکے کو نگلنے کی کوشش میں مر گئی تھی، اور نینسی نے اسے قلعے سے گزر کر دریا کی جانب جاتی نہر میں بہا دیا تھا،،،
نینسی کو فاختہ کا بہانا اچھا نہیں لگا تھا مگر معبد کے ایک فرمان کے مطابق اس گاؤں کی مٹی بہت پاکیزہ تھی، اس میں کسی گناہ گار، ناپاک اور غیر وجود کو دفنانے کی اجازت نہ تھی اس لیے انہیں دریا میں بہا کر گاوں سے دور بھیج دیا جاتا تھا،،،
نینسی کے دماغ میں سوچیں شاید کچھ زیادہ ہی رفتار سے جنم لیتی تھیں اس لیے اسے اس سارے ماحول سے کوفت ہوتی تھی،
اس روز بھی نینسی انہی سوچوں میں گھری کیلیا اور جیروم کی سلامتی کی دعا مانگتی رہی،،
عبادت کا وقت ختم ہونے پر جب کوئی ہنگامہ بپا نہ ہوا تو نینسی کو یقین ہو گیا کہ راہب سچ ہی کہتا ہے،،،
خدا اس معبد میں ہر وقت موجود ہوتا ہے اور شدت سے دعا مانگنے پر جلد عرض قبول کر لیتا ہے، نینسی ابھی اس خیال سے مسکرا رہی تھی کہ معبد کے چبوترے پر سردار جولیس کی آمد کا اعلان ہو گیا،،،
ہم اپنے ایک مخالف قبیلے کے ساتھ ہونے والے یدھ میں فتحیاب ٹھہرے ہیں، اسی خوشی میں، میں گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کیلیا اور اپنے سپہ سالار کے بیٹے نارمن کے رشتے کا اعلان کرتا ہوں، ایک سنیچر بعد اگلے سنیچر جشن فتح کے موقع پر اس مقدس معبد میں معزز راہب ان دونوں کے لبادوں کو آپس میں گرہ دے کر ان کے پاک اور جائز تعلق کا اعلان کر دیں گے، تب تک کا وقت کیلیا معبد کے قانون کے مطابق عبادت کے حجرے میں گزارے گی،،
سردار نے چبوترے پر آ کر اعلان کیا اور پھر وہاں موجود راہب اور سپہ سالار سے کندھے ٹکرا کر ملنے کے بعد روانہ ہو گیا،،
اعلان کے بعد نینسی کی نظر ناگاہ ہی کیلیا پر پڑی جس کے سفید رخساروں کی رنگت سرخی میں بدل چکی تھی اور آنسووں کی دھاریں چہرے سے پھسل کر دامن میں ٹپک رہی تھیں،،
نینسی نے دوسری طرف دیکھا تو فاختہ کے بت کے عقب میں کھڑے جیروم کا سر بھی جھک چکا تھا،،
سردار کے رخصت ہوتے ہی لوگ بھی معبد سے نکلنے لگے،،
کیلیا کو معبد کی خادماؤں نے گھیر لیا اور قلعے میں قائم عبادت کے حجرے تک لے گئیں،،
عبادت کا یہ حجرہ نینسی کے کمرے کے قریب ہی تھا مگر وہاں معبد کی خادماؤں کے سوا کسی کا بھی بغیر اجازت داخلہ منع تھا،،،
اگلے سنیچر جب معبد میں سب لوگ آنکھیں بھینچے بڑبڑانے اور گڑگڑانے میں مصروف تھے، تب نینسی ایک بار پھر اکتا گئی ادھر ادھر نظریں بھٹکاتے اس کی نظر کیلیا پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ وہ بھی اس کی جانب ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے،،،
نینسی نے وہم سمجھ کر اپنے عقب میں دیکھا، مگر کسی کو بھی وہاں نہ پا کر اسے یقین ہوگیا کہ کیلیا اسی کی جانب دیکھ رہی ہے،،،
پھر نینسی نے فاختہ کے بت کے عقب میں نظر دوڑائی تو وہاں کھڑا جیروم بھی اسی کو دیکھ رہا تھا،،،
کیلیا کی نظر میں التجا تھی، اداسی تھی اور آنسو تھے،،،
جیروم کی آنکھوں میں بھی التجا ہی التجا تھی،،،
پھر نینسی نے ارد گرد نظر دوڑائی، معبد کے حاضرین، امرا کے محافظوں اور راہب سمیت سب لوگ ہاتھ جوڑے، گردنیں جھکا کر آنکھیں بھینچے بڑبڑاتے اور گڑگڑاتے ہوئے معبد کے درودیوار میں گھومتے خدا سے اپنے حق میں فیصلے کروانے کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے،،،
نینسی نے نظریں پھر سے بہن کے چہرے پر ٹکائیں اور ہلکا سا مسکرا دی،،،،
اس مسکراہٹ سے زیادہ مکالمہ معبد میں ممکن نہیں تھا، نینسی نے بس کیلیا کے جوابا مسکرانے کا انتظار کیا اور آنکھیں موندھ کر اپنا ماتھا اپنے ہی بندھے ہوئے ہاتھوں پر ٹکا کر آس پاس موجود خدا سے اپنی بہن کے حق میں فیصلہ کرنے کی دعا مانگنے لگی،،
دعا مانگتے ہوئے نینسی کو راہب سے کیا جانے والا ایک سوال اور اس کا جواب یاد آگیا،،
کسی گزرے وقت میں معبد کی محفل میں ہی راہب کے کسی شاگرد نے اس سے سوال کیا تھا کہ خدا ہر ایک کی دعا پر اس کے حق میں فیصلہ کیوں نہیں کرتا۔؟
راہب کا جواب یہ تھا کہ خدا بہترین انصاف کرنے والا ہے، اگر فیصلہ دعا مانگنے والے کے حق میں بہتر نہ ہو تو روک لیا جاتا ہے اور اگر معاملہ دو لوگوں کے درمیان ہو تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہے جس کے حق میں کرنا ضروری اور بہتر ہو، خدا اکثر ان لوگوں کے حق میں بھی فیصلہ کر دیتا ہے جو اس سے دعا نہیں مانگتے، مگر ان کے حق میں فیصلہ کرنا بہتر اور ضروری ہوتا ہے،،،،
نینسی کو اس جواب کے آخری حصے سے ہمیشہ خوف آتا تھا،،
معبد کی محفل کے بعد نینسی بھی کالے لبادے لہراتی دیگر گونگی کوئلوں کے ساتھ اپنی قیام گاہ کی طرف چل پڑی لیکن اس روز وہ دیگر ہم نواؤں کی طرح سر جھکائے چلنے کی بجائے گاؤں اور قلعے کے آنے جانے والے راستوں پر نظریں گھماتی رہی،،
اسے یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ ایک مسکراہٹ میں جو دلاسہ اس نے اپنی بہن کو دے دیا ہے اسے پائیہ تکمیل تک کیسے پہنچائے،،،
گھر پہنچ کر بھی وہ انہی سوچوں میں کھوئی رہی،،
شام ڈھلے تک کوئی حل ذہن میں نہ آیا تو اس نے عبادت کا لباس پہنا اور اپنے کمرے میں ہی عبادت میں مشغول ہو گئی،،
دعا کے دوران دل کے کسی کونے سے بار بار یہ صدا آتی رہی کہ یہ دعا تو ایک گناہ کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہے مگر محبت کے گناہ نہ ہونے پر یقین رکھتے ہوئے وہ بار بار اس خیال کو جھٹکتی رہی اور خدا کو پکار پکار کر فیصلہ بہن کی رضا کے مطابق کرانے کے لئے ہی گڑگڑاتی رہی،،
اسی کشمکش میں رات کا سفر نصف تک پہنچا اور کوئی حل سامنے نہ آیا تو عبادت کو تعطل دے کر اس نے کھڑکی کے پٹ کھول دیے اور چاندنی رات کے نظارے سے دل بہلاتے ہوئے تازی ہوا اپنے کلبلاتے وجود میں سمونے لگی،،
چاندنی کی چادر لپیٹ کر سوتے ہوئے نظاروں سے دل بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے نادانستہ ہی نینسی کی نظر قلعے کے عقبی پھاٹک پر پڑی تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا،،
پہرےداری کی چوکی پر کھڑا جیروم اسی کی جانب دیکھ رہا تھا،،
اس خیال سے نینسی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی کہ خدا نے معبد سے اس کے کمرے میں آ کر اس کی فریاد سن لی ہے۔۔۔
یک لخظہ نینسی کے ذہن میں سارا منصوبہ طے ہوگیا، اور وہ ہاتھ سے اگلی رات کا اشارہ جیروم کو سمجھا کر واپس بستر پر آگئی،،،،
دوسری شام نینسی نے اماں سے بہن کا ساتھ دینے کی اجازت لی اور عبادت والا چوغہ پہن کر قلعے کی عبادت گاہ میں چلی گئی،،،
بہن کو دیکھتے ہیں کیلیا کا ضبط جواب دے گیا اور وہ بہن سے لپٹ گئی،،
آنسوؤں کا بوجھ کچھ کم ہوا تو کیلیا نے کچھ کہنا چاہا مگر نینسی نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے ذرا سا پیچھے ہٹاتے ہوئے اس کا عبادت والا چوغا اتار کر پھاڑ ڈالا، اس کی لمبی لمبی کترنوں سے رسی باٹ کر بہن کو پکڑائی اور کھڑکی تک لے گئی،،،،
بہن سے آخری بار جی بھر کر باتیں کرنے اور فرار کے منصوبے کی شد مد سمجھانے پر اکساتے دل کی ضد پر دماغ میں بڑھتے ہوئے وسوسوں اور اندیشوں نے بند باندھ رکھا تھا، اور ہمیشہ سے بول پانے کی چاہ رکھتی نینسی آج اپنے گونگی کوئل کے روپ پر مطمئن تھی اس لیے بغیر کچھ بولے ہی کیلیا کا دھیان چوکی پر کھڑے جیروم کی طرف دلایا اور پھر ہاتھ پھیلا کر اس کی توجہ نہر کے پار ہیرالڈ اور میگنی کی متروک کٹیا کی طرف دلادی،،،
فرار میں مدد کروا کر نینسی واپس خوابگاہ میں آگئی،،
وہ جی بھر کر سونا چاہتی تھی تھی مگر نیند کی آغوش میں گرے ابھی ساعت بھر ہی گذری ہوگی کہ قلعے میں بغاوت، فرار اور گناہ کے نعرے گونجنے لگے،
جانے کیسے سردار کو پریمیوں کے فرار کی خبر مل گئی تھی، غوغا سنتے ہی قلعے کہ سب مکین افراتفری سے ادھر ادھر بھاگنے لگے،،
مرد، جنگجو جتھےکے ساتھ بھاگنے والوں کی تلاش میں نکل پڑے اور عورتیں دالان میں جمع ہو کر مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی سرگوشیاں کرنے لگیں،،،
نینسی کے دل پر اس وقت غم نے گہرا گھاؤ لگا دیا کہ وہ ایسے نازک وقت میں عبادت چھوڑ کر محو خواب کیوں ہوئی،،،
احساس گناہ اس قدر شدت سے طاری ہوا کہ وہ عبادت کا لباس پہن کر معبد کی طرف دوڑ پڑی معبد پہنچتے ہی اس نے مالا انگلیوں میں پھنسائی اور آنکھیں بھینچ کر چاپ شروع کر دیے،،
پلکیں گرائے چاپ کرتی نینسی کو یوں لگا کے اس کی آنکھیں معبد کے جھروکے پر نصب ہوگئی ہیں،،،
اس نے دیکھا کہ معبد کے درودیوار فاختہ کے بت کے قدموں میں جلتی شمعوں سے روشن ہیں،،،
راہب کا تخت بھی ویران، امرا کے تکیے بھی ویران اور بھگتوں کی نشستیں بھی ویران،،،
بس مرمر کے سفید فرش پر عبادت میں مستغرق، سر جھکائے ایک بے بس لڑکی ہے جو بھاشن کے چبوترے تلے فاختہ کے بت کے قدموں میں کھڑی ہے اور اس کا سیاہ لباس سے امڈتا ہوا چہرہ چاند سے زیادہ دمک رہا ہے،
اس کے سفید ہاتھوں کی نازک انگلیوں میں تڑپتی مالا کے منکے ایک دوسرے کو یوں تیزی سے دھکیل رہے ہیں کہ گویا بدنصیبی کے لمحے کا بوجھ اٹھانے سے بھاگ رہے ہوں،،
لو بان کی بھٹی سے اٹھتا معطر دھواں معبد کی فضا میں تیر رہا ہے،،
دو پتنگے راہب کے تخت پر اٹھکھیلیاں کر رہے ہیں،
مگر خدا کہیں نظر نہیں آ رہا،،،
اس تصور سے نڈھال ہوکر نینسی دو زانو ہو گئی،
دعا میں شدت لاتے ہوئے اس نے گمان کی نظر معبد کے جھروکے سے باہر دوڑائی تو سردار کو اپنے محافظوں اور جنگجو جتھے سمیت مشعلیں اٹھائے پریمیوں کی ہوئی کٹیا کی طرف بھاگتے دیکھا،،
نینسی نے دعا کی کہ ان کے قدم وہیں جم جائیں مگر اسے یوں لگا کہ خدا طاقت بن کر ان کے بدن اڑا رہا ہے،،
ادھر تازہ آباد ہوئی کٹیا میں دو بدنوں کی خوشبو نے ابھی اپنی انفرادیت بھی نہیں کھوئی تھی کہ ایک روزن سے سردار کی مشعل کی روشنی ان کے مقدر میں اندھیرا لکھنے پہنچ بھی گئی،،،،
ایسا نینسی نے اپنے تصور میں دیکھا مگر حقیقت میں بھی یہ سب ہی ہو رہا تھا،،،
سردار نے اپنے جنگجوؤں کی مدد سے جیروم کو کیلیا کے پہلو سے کھینچ کر کٹیا کے باہر گھسیٹا اور شمشان کی جانب بڑھنے لگے،،،
کیلیا تڑپ کر سردار کے قدموں سے لپٹی اور گڑگڑائی،،
خدا کے لئے بابا رحم کرو،،،
چپ کر گستاخ، یہ وقت باپ کی محبت کا نہیں سردار کی غیرت ظاہر کرنے کا ہے، اس وقت میں صرف ایک سردار ہوں، دوبارہ بلانے کی کوشش مت کرنا،،،
سردار جولیس نے غضب ناک لہجے میں جواب دے کر اپنے پیر کیلیا کے ہاتھوں سے جھٹکے اور جیروم کو گھسیٹتے ہوئے جتھے کے پیچھے چل پڑا،،،
یا خدا رحم، ہمارے حق میں فیصلہ کیجئے،،،
کیچڑ میں گھٹنوں کے پل بیٹھی کیلیا آسمان کی جانب دیکھ کر چلائی، پھر پل بھر میں ہی بے صبر ہوکر دوڑی اور دوبارہ باپ کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگی،،،،
سردار نے چٹیا کھینچ کر کیلیا کا سر اپنے چہرے کے قریب کیا اور اور سفاکانہ لہجے میں بولا،،،
آج خدا کا فیصلہ بیٹی کے گناہ کی بجائے سردار کی غیرت کے حق میں ہے اور تمہیں بھی یہ فیصلہ بھگتنا پڑے گا،،،
اتنا کہہ کر سردار نے کیلیا کوبھی جنگجوؤں کی جانب اچھال دیا،،،
پھر دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لٹکا دیا گیا اور لاشیں جلادی گئیں،،،
ان سب مناظر کو تصور میں دیکھتے جب نینسی کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ دعائیں مانگنے والی کی التجائیں رد کرتا ہوا بن مانگے ہی سردار کی انا کے حق میں ہو گیا ہے تو اس کی روح اس کے دل سے دھڑکن چھین کر فرار ہو گئی،،،
نینسی کے معبد کے فرش پر گرتے ہی اس کی مالا بھی ٹوٹ کر بکھر گئی،،،،
لافانی اندھیروں میں کھونے سے قبل زندگی بھر کی یادوں کے ساتھ نینسی کو یہ منظر بھی دکھایا گیا کہ اس بار دریا میں مفلوج فاختاؤں کے ساتھ ساتھ ایک گونگی کوئل کی لاش بھی تیر رہی ہے،،،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...