(Last Updated On: )
آشا نگر کی یہ چال جس میں کئی خاندان آباد تھے ۔ ایک چھوٹی سی کالونی ہی تھی ۔ یہاں خوشیاں ہو یا غم سب مشترک تھا ۔ کوئی بھید بھاؤ نہیں ، کوئی ذات پات نہیں ، جو بھی تھے سب ایک دوسرے کے تھے ۔ چنانچہ بوڑھے سید میاں کے دونوں جوان بیٹے امریکہ میں شہریت حاصل کر چکے تھے ۔ لیکن اُنھیں کبھی اولاد کی جدائی کا احساس نہیں ہوا ۔ شنکر کوچوان جو دن تمام تانگہ چلاتا ، اور شام کو دارو پی کر آجاتا ، لیکن کیا مجال جو اُس نے کبھی چال کے کسی آدمی کے ساتھ بد تمیزی کی ہو ، یہی وجہ تھی کہ اُس کا اپنا کوئی نہ ہونے کے باوجود ہرنام سنگھ کی بیٹی اندر کور اُس کا کھانا اتنے ہی چاؤ سے پکاتی تھی جتنا ہر نام سنگھ کا ۔۔۔ محمد خان اور موہن کمار جیسے دو جوان جوڑے بھی اسی چال کے مکیں تھے ۔ جن کے گھر دس بجے کے بعد کوئی نہ ہوتا تھا اور اُن کے قفلوں کی چابیاں آس پڑوس کے پڑوسیوں کے پاس پڑی رہتیں تھیں ۔
پوری چال میں ایک نل، ایک سنڈاس اور ایک ہی باتھ روم تھا لیکن کبھی کسی میں اختلاف نہیں ہوا ۔ کبھی کبئی جھگڑا نہیں ہوا ۔ کبھی کسی نے حجت نہیں کی ، البتہ سب کے اوقات مقرر تھے ۔ اور وہ اپنے اپنے وقتوں ہی میں اپنے اپنے کام انجام دیا کرتے تھے ۔
جونہی چال کی چوکھٹ پر اندھیر ے کا پردہ لہراتا ، سید میاں کی کھولی آباد ہوجاتی ۔۔۔ سیدانی ماں پان کٹّی میں پان کوٹنا شروع کرتیں، سید میاں فرمائشی کہانی شروع کر دیتے ۔۔۔ قصئہ چہار درویش میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ تھا ، بڑا ہی خدا ترس ، بغا ہی نیک اور رعایا پرور ۔ اُس کی سلطنت بہت بڑی تھی ۔ سبھی لوگ خوش حال زندگی گزار رہے تھے ، لیکن بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی ۔۔۔
’’ دادی اماں جیسے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہے ۔۔۔ ؟ ‘‘ محمدخان کی دس سالہ بیٹی ثریا نے اچانک سوال کیا ۔
’’ نہیں بیٹی ۔۔۔ دادی اماں کے تو دو بیٹے بھی ہیں اور تمہاری طرح پوتی پوتے بھی ۔۔۔ لیکن وہ سب لوگ یہاں نہیں رہتے ۔ ‘‘ موہن کمار کی بیوی مادھوری نے اُسے سمجھایا ۔
ایک لمحے کے لیے سید میاں کی کہا نی اُن کے دماغ میں بکھر کر رہ گئیں اور پھر اُنھوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی ، ’’ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا ۔ ‘‘
’’ دادا جی آپ کو کبھی اُن کی یاد نہیں آتی ؟ ‘‘ آٹھ سالہ کرپال سنگھ کے منہ سے نکلا ۔
’’ یاد کیوں نہیں آتی بیٹے ۔ ‘‘ سید میاں کی آنکھوں میں پورا امریکہ گردش کرنے لگا ۔ اُنھوں نے کرپال کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا گویا کہہ رہے ہوں ، ’’ بیٹا یہی سوال کوئی اُن لوگوں سے کیوں نہیں پوچھتا ۔ ‘‘
’’ پھر۔۔۔ ‘‘ ثریا نے سید میاں کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا ۔ سید میاں کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ اُن کا کلیجہ کوئی برچھی سے چھید رہا تھا ۔ اُنھوں نے بات سنی ان سنی کردی اور کہانی کو آگے بڑھانا چاہا تو الفاظ حلق میں اٹک کر رہ گئے ۔
’’ دادا جی ۔۔۔ اولاد ہوئی پھر بادشاہ کو ؟ ‘‘
’’ بیٹا ۔۔۔ وہ درگاہوں پر حاضری دینے لگا ۔
’’ کیا ۔۔۔ ؟ ‘‘ اندر کور نے سوالیہ نظروں سے سید میاں کی طرف دیکھا ۔
’’ نہیں نہیں ۔۔۔ وہ شاید ایک قبرستان میں پہنچا اور چہار دعویشوں کی آپ بیتی باری باری سننے لگا ۔ ‘‘
’’ آپ بیتی سننے لگا ؟؟؟ ‘‘
سید میاں نے ثریا کی طرف گھور کر دیکھا ، ’’ نہیں شاید کسی بزرگ کی اُسے ایسی دعا لگی کہ ایک کے بعد ایک اُسے دو بیٹے ہوئے۔‘‘
’’ دو بیٹے ۔۔ ‘ ‘‘
’’ آں ہاں ۔۔۔ بادشاہ کو ایک ہی بیٹے ہوا تھا ۔ دو نہیں ۔ ‘‘
’’ دادا جی ۔۔۔ آج آپ کہانی میں کس قدر غلطیاں کر رہے ہیں ۔۔۔ ‘‘ ثریا کی روہانسی آواز نکلی ۔
غلطی میں کر رہا ہوں ۔۔۔ سید میاں نے اپنے آپ سے پوچھا ۔۔۔ ساری کہانی ہی غلط ہو گئی اور میں دیکھتا رہ گیا ۔ وہ سب کو نظر انداز کرکے زمین کو گھورنے لگے ۔
’’ دادا جی ۔۔۔ ‘‘
سید میاں ایک دم چونکے ۔
’’ چلیے بادشاہ کو بیٹا ہوگیا ، تو وہ پھر اُس کے پاس ہی رہا ؟ ‘‘
سید میاں کے لبوں سے ایک اور سرد آہ نکلی ، ’’ نہیں بیٹی ! جب وہ بڑا ہوا تو افسے پریاں اپنے ساتھ لے کر چلی گئیں ۔ ‘‘
’’ پریاں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ سید میاں کھڑکی کے باہر اندھیرے میں بہت دور کہیں دیکھنے لگے ۔ ،’’ پتہ نہیں کیوں ہمارے نوجواناپنا مستقبل اپنے ہی ملک میں تاریک سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
’’ یہ آل آپ کو کیا ہو گیا ہے ۔۔۔؟ سیدانی اماں نے کوٹا ہوا پان اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے سوال کیا ۔ سید میاں نے اپنے بیوی کے چہرے کی طرف دیکھا ، ’’ کیایہ کہانی نہیں ہے ۔۔۔ ؟ ایک سچی کہانی ۔۔۔ ‘‘ لیکن اُن کے یہ الفاظ کسی کو سنائی نہیں دئیے ۔
’’ بچو ! اب جاؤ اپنے اپنے گھر ۔ آج اِن کی طبیعت ٹھیک نییں ہے ۔ کل آنا اور کہانی ضرور سننا ۔ ‘‘
سب کے سب مایوس لوٹ گئے ۔
چھوٹے سے کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی ، اور دو مایوس بوڑھی سانسیں اپنی اپنی کہانیاں چھپانے کی ناکام کوششیں کر رہی تھیں ، لیکن چہروں پر لکھی ہوئی جھریوں کی عبارت آنکھیں اپنے آپ ہی پڑھتی جا رہی تھیں ۔
’’ دادا جی ۔۔۔ ‘‘ ثریا کی آواز اُن کے کانوں میں ایسی پہنچی جیسے کسی نے کانچ کے برتن پر کنکری ماری ہو اور وہ ٹن کی آواز کے ساتھ ہی اپنے وجود سے آزاد ہو گیا ہو ۔۔۔
’’ کہو بیٹی کیا بات ہے ؟ ‘ ‘ سیدانی اماں نے پیار سے پوچھا ۔
’’ دا دا جی کے لیے میں یہ گولی لے کر آئی ہوں ۔ میرے ابّو کہتے ہیں کہ اس گولی سے ہر قسم کا درد مٹ جاتا ہے ۔ ‘‘
سید میاں کے سینے میں ایک بار بر چھی پھر ترازو ہو گئی ۔ اُنھوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر ثریا کو لپٹا لیا اور اُسے دیوانہ وار پیار کرنے لگے ۔ سیدانی اماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ۔
پھر سید میاں نے اُس گولی کو سچ مچ اپنے حلق سے نیچے اُتار لیا جیسے واقعی اُنھیں آرام ہو جائے گا ۔ وہ بستر پر دراز ہو گئے لیکن مسلسل کروٹیں بدلتے رہے ۔ سیدانی اماں بار بار پوچھتیں ، ’ ’ کیوں نیند نہیں آرہی ہے ؟ ‘‘ اور وہ جواب دیتے ، ’’ کیا بات کر رہی ہو ۔۔۔ میں تو کب سے سو رہا ہوں ۔ ‘‘
شاید رات تمام یہی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا ۔
صبح نل پر برتن کھڑکھڑا رہے تھے ۔
چال کے باہر شنکر کوچوان اپنا تانگہ کس رہا تھا اور بچے تانگے میں سوار ہو رہے تھے ۔ یہ اُس کی ڈیوٹی تھی یا بچوں سے محبت ؟ پتہ نہیں کیا تھا لیکن وہ چال کے تمام بچوں کو اپنے تانگے میں اسکول لے جاتا بھی تھا اور لاتا بھی تھا ۔ شمکر کوچوان کے چابک کو لہراتے ہی گھوڑے نے قدم اُٹھایا اور بچوں نے کورس میں گانا شروع کیا :
Are you sleeping brother John
Morning bells are ringing
Morning bells are ringing
Ding dong bell ding dong bells
مادھوی کھڑکی سے لگی سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب سی حسرت تھی ۔ تانگہ رفتہ رفتہ نظروں سے دور ہوتا جاریا تھا بچوں کے گانے بجانے کی آوازیں بھی بتدریج دور ہوتی جارہی تھی ، یہاں تک کہ سارا منظر بدل گیا اور سڑک سنسان ہو گئی ۔
’’ مادھوی ۔۔۔ اے مادھوی ۔۔۔ ! ‘‘
وہ آواز پر چونکی پئٹ کر دیکھا تو موہن کمار تولیہ سے اپنے بالوں کو خشک کر رہا تھا ، ’’ ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔ ؟ اُس نے شوخی سے پوچھا۔
’’ میں کب تلک آخر خود کو بہلاؤں ؟ ‘‘ اُس نے آنکھوں سے کھلونوں کی طرف اشارہ کیا ، اور پھر سسکنے لگی ۔
’’ یہ تو مقدرات کے فیصلے ہیں مادھوی ۔ ۔۔ اور میں ۔۔۔ دیکھو اس طرح مایوس نہیں ہوتے ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے ہمیں اولاد ہو گی اور ضرور ہو گی ۔ ‘‘
’’ لیکن کب ۔۔۔ ‘‘ وہ زور زور سے ہچکیاں لینے لگی ۔
ٹھیک اُسی وقت کسی نے دروازے پر دستک دی ۔ مادھوی نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھ ڈالے اور موہن کمار نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا ۔ ’’ موسی آپ ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ‘‘ ہرنام سنگھ کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی ، ’’ دیکھو بیٹی ، آج میں صبح صبح با با صاحب کی درگاہ گئی تھی ۔۔۔ یہ انار لائی ہوں وہاں سے ۔ اس میں سے رات کو چار دانے سوتے وقت کھا لیا کرنا ۔ دس دنوں تک ۔۔۔ وائے گرو نے چاہا تو با با صاحب کی دعا سے بیٹا ہی ہوگا ۔ ‘‘
مادھوی کا چہرہ ایک دم خوشی سے کِھل اُٹھا۔ اُس نے بڑی عقیدت کے ساتھ اُس انار کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ موہن کمار چپ چاپ کھڑا مسکرا رہا تھا ۔
لیکن یہ دس دن بھی گذشتہ دس برسوں کی طرح گزر گئے ۔
معمول کے مطابق سید میاں کی کھولی آباد تھی اور وہ کہانی سنارہے تھے ، ’’ مہا رانی کوشلیا دیوی کی گود ہری ہو گئی اور انھیں لڑکا ہوا جو بھی بچے کو دیکھتا ، بس دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ ‘‘
’’ دادا جی چھوٹا سا بچہ کیسا ہوتا ہے ؟ ‘‘
’’ چھو ٹا بچہ چھوٹا ہوتا ہے ۔۔۔ تم بھی کبھی ایسے ہی چھوٹے بچے تھے ۔ دو بالشت برابر ۔ ‘‘
’’ دو بالشت برابر ۔ ‘‘ بچوں کے لبوں سے قہقہہ بلند ہو گیا ۔
’’ دادا جی اپنی چال میں اب کوئی دو بالشت براب بچہ کیوں نہیں آتا ؟ ‘‘
’’ دادا جی آپ لے آؤ نا دو بالشت برابر بچہ ۔۔۔ ہم اُسے دیکھیں گے ۔ ‘‘
سید میاں کو ہنسی آگئی پھر وہ شوخی سے بولے ، ’’ بیٹا یہ بات تم اپنے ابّا اور امی سے کہو ، وح ضرور لے آئیں گے تمہارے لیے دو بالشت کا بچہ ۔ ‘‘
اچانک سب کو پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی اُن کی چال میں اب کسی کے یہاں کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے ۔ پھریہ احساس شدید خواہش میں تبدیل ہوگیا ۔۔۔ لیکن بے سود ۔۔۔ مادھوی کے حق میں خوب دعائیں کی جاتی ۔ لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا نوبت یہاں تک آگئی کہ آس پاس کی چال میں کسی کو بچہ ہوتا تو یہ لوگ عجیب سی شرمندگی محسوس کرنے لگتے ۔ سب کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح کہیں سے کوئی چھوما بچے اس چال میں آجائے ۔
ایک روز شنکر کوچوان اپنے ساتھ ایک جوڑے کو لیے چال میں داخل ہوا ۔ سب نے اجنبی مرد اور عورت کی طرف دیکھا ، تو وہ بولا ، ’’ آج سے یے لوگ میری کھولی میں رہیں گے ۔ ‘‘
’’ اور تم ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ میں باہر گیلری میں پڑا رہوں گا ۔ ان کا یہاں کوئی نہیں ہے ۔ بہوکے پیر بھاری ہیں ۔ ولاس نگر میں اس کی نوکری بھی ہے ۔ وہیں رہتے تھے یے لوگ ۔ میں ہی اُن کو یہاں تک لے آیا ۔ یہاں یم سب لوگ ہیں نا ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘‘
اچانک سب کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔
’’ ہاں ہاں سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘‘
اب اپنی چال میں بھی ننھا جنم لے گا ۔ سب نے ایک ساتھ سوچا ، اور اُنھیں خوشی خوشی کھولی میں پہنچادیا ۔
شنکر کی کھولی کے مقابل ہی مادھوری کی کھولی تھی ۔ اُس نے بڑی حسرت سے اپنی نئی پڑوسن کو دیکھا اور پھر پتہ نہیں اُس کے دماغ میں کیا آیا ، اُس نے جھٹکے کے ساتھ اپنا دروازہ بند کر دیا اور بستر پر جا گری ۔
’’ بیٹی کیا نام ہے تمہارا ؟ ‘‘
’’ وِملا ۔۔۔ ‘‘
’’ ہاں تو دیکھو وملا میں اندر کور کی ماں ہوں ۔ تم بھی مجھے اپنی ماں ہی سمجھو ۔ ۔۔ بیٹی کل سورج گہن ہے بھولے سے بھی کمرے سے باہر قدم نہ رکھنا ۔ اور سنو ۔۔۔ کھانا بھی نہیں پکانا ، کوئی بھاجی ترکاری بھی نہیں کاٹنا ۔ میں اندر کور کو صبح بھیج دوں گی ۔ وہ کرے گی سارا کام ۔ ‘‘
’’ ماں ۔۔۔ ‘‘ وملا کی زبانسے بے اختیار نکلا اور وہ اُس کے چرنوں میں جھک گئی ۔
پوری چال کے لیے اب موضوع بحث وہی تھی ۔ ہر کوئی اُس کی خدمت میں جٹ ہوا تھا ۔ بوڑھی عورتیں بات بات پر اُسے ٹوکتیں اور بچے ہر دم اُس کی کھولی میں اُدھم مچاتے ۔ ان دنوں شنکر کوچوان نے دارو پینا بھی بند کر دیا تھا ۔
’’ ارے بھا بھی ! پانی سے بھری بالٹی کیوں اُٹھاتی ہو ۔۔۔ ہٹو ہٹو ۔۔۔ میں اوپر پہنچادیتا ہوں ۔ ‘‘ محمد خان نے اُس کے ہاتھوں میں سے بالٹی چھین لی ۔ وہ جھینپ کر رہ گئی ۔ اور پھر جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنی کھولی کی طرف بڑھی ۔
’’ دیکھو بہو ۔۔۔ اب اس طعح دن دن سیڑھیاں چڑھنا اور اُترنا بند کرو ۔ ہم لوگ ہیں نا ۔۔۔ کیا چاہیے تمھیں وہ کہہ دیا کرو ۔ ہوجایا کرے گا ۔۔۔ سیدانی اماں نے پیار سے ڈانٹا ۔ وہ شرم کے مارے دوہری ہوگئی اور جیسے ہی اپنی کھولی میں پہنچی مادھوری کو وہاں پہلے ہی سے موجود پایا ۔
’’ بھا بھی سچ مچ تم بڑے نصیب والی ہو ۔۔۔ ‘‘
’’ ارے نصیب تو بہنا تمہارے بھی بہت اچھے ہیں ۔ ‘‘ وِملا نے اٹھلا کر جواب دیا ۔
’’ میرے نصیب اچھے ہوتے تو کیا میری گود سونی رہتی ۔۔۔؟ ‘‘ مادھوری کی آواز بھرا گئی ۔ وملا تڑپ کر رہ گئی ، ’’ ایسا کیوں تم سوچتی ہو مادھوری ۔۔۔ بھگوان نے چاہا تو ۔۔۔
لیکن وہ اُس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی بھاگ گئی ۔ وملا اُسے پکارتی رہ گئی ۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔ چال کے مکیں ننھے کی کلکاریاں سننے کے لیے بیتاب تھے ۔ جسے دیکھو وہ خوش و خرم نظر آنے لگا تھا ۔ ہر گھر میں بس یہی باتیں ہوتیں ۔
’’ کرپال کچھ پتہ ہے تمھیں ۔۔۔؟ ‘‘
’’ کیا ثریا باجی ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ارے اب اپنی چال میں بھی ننھا منا آرہا ہے ۔ دو بالشت برابر ۔ ‘‘
’’ سچ ۔۔۔ تمھیں کیسے معلوم ۔ ‘‘
’’ میری ممی کہہ رہی تھیں ۔ وہ ۔۔۔ وہ وملا چاچی ہے نا ۔۔۔ وہ لے آئیں گی ۔ ‘‘
’’ کب لے آئیں گی ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ آں ۔۔۔ چلو وملا چاچی کے پاس ۔ اُن سے ہی پوچھتے ہیں ۔ ‘‘
شنکر کوچوان کا تانگہ مقععہ راستوں کی مسافت طئے کرکے چال کی طرف لوٹ رہا تھا ۔ قریب کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہو رہی تھی اور مادھوری کی نظریں سڑک پر پھیلی ہوئی تھیں ۔ دور لائٹ کے پول پر بلب جگمگا رہا تھا ۔ پروانوں کی صورت لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ بس اب کچھ ہی دیر بعد معمول کے مطابق سید میاں کی کھولی آباد یو جائے گی ۔ اور پھر کہانیوں کے شہزادے زندہ ہو جائیں گے ۔
لیکن آج سید میاں کی کھولی میں کوئی بھی کہانی سننے نہیں آیا تھا۔ بلکہ سب کے سب اوپر ہاتھ اُٹھائے دعائیں مانگ رہے تھے ۔ سید میاں خود بھی دو زانوں بیٹھے گڑگڑا رہے تھے ۔ رات کا سنا ٹا سائیں سائیں کر رہا تھا ۔ پوری چال میں ایک بھی عورت موجود نہ تھی ۔ ذرا سی آہٹ بھی ہوتی تو گمان ہوتا کوئی آیا ہو ۔۔۔ رات کا ایک ایک پہر آہستہ آہستہ گزر رہا تھا ۔
آخر ڈاکٹر جان کے ہاسپٹل میں ننھے کے رونے بلبلانے کی آوازیں بلند ہوئیں ۔ چال کے مکینوں کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھے ۔ سید میاں نومولود کو درازی عمر کی دعائیں دینے لگے ۔ ہر نام سنگھ واہے گرو کے چرنوں میں جھک گیا ۔ شنکر کوچوان چال کے دیگر بچوں کے ساتھ ناچنے لگا ۔ موہن کمار اور محمد خان وجئے کی تلاش میں دوڑے ۔ مٹھائیاں تقسیم ہونے لگیں اور پھر پوری چال دواخانے میں سما گئی ۔
تین دن کے بعد بچہ چال میں داخل ہوا تو پوری چال برقی قمقموں سے جگمگانے لگی ۔شنکر کوچوان ضرورت سے زیادہ شراب پی کر آگیا تھا ۔ پہلی بار لوگوں نے دیکھا اُس کے جسم پر نقلی بنارس کی دھوتی تھی۔ ماتھے پر بڑا سا ٹیکہ تھا اور پھر اُس نے وجئے کو پکڑ لیا اور تھرکنا شروع کر دیا ۔ موہن کمار ہولی کے رنگوں کی بچی ہوئی پُڑیوں کو اُٹھا لایا ۔ محمف خان نے اپنی ڈھولکی سنبھالی ، ہر نام سنگھ ہاتھوں میں رنگین دستیوں کو باندھ کر زور سے چلایا ۔۔۔ بلّے بلے ۔۔مادھوری، اندر کور اور دوسری عورتوں نے گانا شروع کیا ۔ تمام رات رنگ و گلال اُڑتا رہا ۔ ہر نام سنگھ کے کندھے اُچکتے رہے اور دھرتی پر شنکر کوچوان کے نشے میں دُھت پاؤں تھرکتے رہے ، پٹاخے پھوٹتے رہے ، انار چھوٹتے رہے ، تالیاں بجتی رہیں اور تمام رات خوشیوں میں ڈوب گئی ۔
چال کے باسیوں کی خواہش پوری ہو چکی تھی ۔ بچے دو بالشت بھر کے بچے سے واقف ہو چکے تھے ۔ اُن کے نزدیک اُس کی حقیقت کسی کھونے سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی ۔ رفتہ رفتہ چال اپنے معمول پر لوٹ آئی تھی ۔ پھر سے ایک بار سید میاں کی کھولی آباد ہونے لگی ۔ شنکر کوچوان حسب معمول دارو پینے لگا تھا ۔ محمد خان اور موہن کمار کے دروازوں پر دس بجے دن سے ہی تالے پڑنا شروع ہو گئے ۔ اندر کور اپنے ہی کاموں میں مشغول رہنے لگی ۔ البتہ پوری چال میں بس ایک مادھوری تھی جو دن دن بھر منّے کو سنبھالتی تھی ، افس کے ساتھ باتیں کرتی تھی وہ اپنا غم بھول گئی تھی بلکہ اب اُس نے تقریباً خوش رہنا سیکھ لیا تھا ۔
موسم گرما کے دن تھے ۔ وہ لوگ جو ٹین کی چھوٹی چھوٹی کھولیوں میں زندگی گزارتے ہیں اس حقیقت سے خوب واقف ہوتے ہیں کہ ان کھولیوں کے دن اور رات کس قیامت کے ہوتے ہیں ۔ نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی ہے ۔ بے چینی ہونے لگتی ہے ۔ تمام بدن پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور بدبو کے مارے سر میں درد ہونے لگتا ہے ۔ ایسی ہی ایک رات تھی اور منّے نے رونا بلبلانا شروع کیا ۔اُس کی آوامیں سن کر سیدانی اماں اور ہرنام سنگپ کی بیوی پریشان ہوکر وِملا کے پاس پہنچیں ، ’’ کیا بات ہے بہو اتنی رات گئے بچہ کیوں رو رہا ہے ۔ ‘‘
’’ گرمی کے مارے تڑپ رہا ہے ماں جی ۔ ‘‘ وملا نے جواب دیا اور ساڑی کے پلو سے اُسے ہوا کرنے لگی ۔ وجئے ہمیشہ کی طرح نائٹ شفٹ میں کام کر رہا تھا ۔ وہ دونوں کچھ دیر تک بچے کو بہلاتی رہیں اور پھر جونہی باہر نکلیں اُس نے پھر رونا شروع کر دیا ۔
’’ بہو ۔۔۔ بچہ کی طبیعت خراب ہے کیا ۔۔۔ ؟ ‘‘ شنکر کوچوان کو نیند سے ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا ۔
’’ نہیںبا باجی ۔۔۔ گرمی کے مارے بُرا حال ہے اُس کا ۔‘‘
’’ اری تو پھر رُلاتی کیوں ہے ۔۔۔ پنکھا جھل اُسے ۔ ‘‘
وہ جلدی جلدی ساڑی کا پلو ہلانے لگی ، لیکن منّا رابر روئے جا رہا تھا ۔ اُس کے چلانے کی آوازیں نشتر بن کر مادھوری کے سینے میں ہیوست ہوتی جارہی تھیں ۔ وہ بیتابانہ دوڑتی ہوئی وملا کے پاس پہنچی اور بچے کو اپنی چھاتی سے لگا لیا لیکن بے سود ۔ وہ بس روئے جا رہا تھا ۔
ساری رات آنکھوں میں بیت گئی ۔
پھر یہ روز کا معمول نم گیا ۔ بچہ دن تمام سوتا رہتا اور رات تمام روتا رہتا ۔ وہ لوگ جو کبھی اُس کی خواہش میں تڑپتے رہتے تھے ۔ جو کبھی اُس کے رونے کی آواز پر پریشان ہوجایا کرتے تھے ۔ اب اُس کے رونے سے بیزار سے رہنے لگے تھے ۔ اُنھیںمحسوس ہونے لگا جیسے منا اُن کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے ۔ اور پھر چال میں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں ۔
’’ یہ بچہ اگر ہر رات اسی طرح روتا رہے گا ، تو ہم لوگوں کا آرام کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ‘‘
’’ ہوجائے گا کیا ۔۔۔ بھئی ہو ہی گیا ۔ ‘‘
’’ کچھ نہ کچھ انتظام ہونا ہی چاہیے ۔ ‘‘
’’ لیکن کیا ۔۔۔ ؟؟؟ ‘‘
’’ ارے اب دیکھنا کیسا انتظام ہوتا ہے ۔ ‘‘ اور پھر ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا ۔
’’ بیٹا یہ کیا بات کہہ رہے ہو ؟ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔ قصہ چہار درویش میں لکھا ہے ۔۔۔ ‘‘
لیکن قصہ سننے کو کوئی بھی شخص ٹھہرا نہیں ۔ سب کے سب اپنی اپنی کھولیوں کی طرف بڑھ گئے ۔
دوسرے دن وہ نل پر بیٹھی مُنے کے کپڑے دھو رہی تھی کہ محمد خان کی آواز اُبھری ، ’’ بھا بھی اگر تم اس طرح نل پر بیٹھ کر گندے کپڑے دھویا کرو گی تو ہم پینے کا پانی کیسے بھریں گے ۔ ‘‘
وملا نے لاچاری سے اُس کی طرف دیکھا لیکن محمد خان کے چہرے پر شدید بیزاری کے آثار تھے ۔ اُس مے فوراً کپڑوں کو ایک طرف سمیٹ لیا اور بولی ، ’’ اچھا بھائی صاحب آپ پانی بھر لیجیے ۔۔۔ میں عد میں دھو لوں گی ۔ ‘‘
’’ لیکن بعد میں کیسے ۔۔۔ ؟ کیا ہمیں پانی بھرنا نہیں ہے ۔ ‘‘ موہن کمار بھی قدرے غصے جے لہجے میں بولا ۔
’’ تو ٹھیک ہے میں آپ کے ۔۔۔‘‘
’’ دیکھو بہو نل پر تمھیں کوئی بھی ایسے کپڑے دھومے مہیں دے گا ۔ ‘‘
اُس لا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی سیدانی اماں نے اُسے سمجھایا ، ’’ تم ان کہڑوں کی دھلائی کا اانتظام الگ سے کرلو ۔ ‘‘
’’ لیکن اماں جی کہاں کروں۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ بیٹی یہ تو تمھیں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ ‘‘ ہرنا م سنگھ کی بیوی نے بھی آہستہ سے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔
وہ اُن کپڑوں کو وہیں پر چھوڑ کر اپنی کھولی میں آگئی ۔ اُس کا دل بے اختیار چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے ، لیکن منّا فرش پر لیٹا مسکرا رہا تھا ۔ اور تیز تیز ہاتھ پاؤں مار رہا تھا ۔ اُس نے وجئے کی طرف دیکھا جو چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا سگریٹ پھونک ریا تھا ، وہ بولا ،
’’ میں سب کچھ سن چکا ہوں ، لیکن میں بھی مجبور ہوں ۔ اگر اس چال میں ہمیں اپنے بچے کی پرورش کرنا ہے تو یہ سب کچھ برداشت کرنا ہی پڑے گا ۔ ‘‘
وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو گئی اور نل کی طرف دیکھنے لگی ۔ چال کے تمام لوگ ایک کے بعد ایک پانی بھر رہے تھے ۔ جب سب لوگ پانی بھر چکے اور کافی دیر کے بعد بھی کوئی نہیں آیا تو وہ نل پر پہنچی اور جلدی جلدی کپڑے دھومے لگی ۔ چال کی کھڑکیوں سے جانے کتنی ہی آنکھیں اُسے جھانک جھانک کر دیکھتی رہیں ۔ کپڑوں کی دھلائی کے بعد اُس نے اُنھیںسکھانے کی خاطر گیلری میں پھیلا دیا ۔
رات تمام گرمی کے باعث منّا روتا رہا ۔ چال کے مکیں جاگتے رہے اور بڑبڑاتے رہے ۔ گیلری میں کپڑے سوکھتے رہے اور مادھوری وقفے وقفے سے آتی رہی اور منّا کو بہلاتی رہی ۔ صبح جب شنکر کوچوان نیند سے بیدار ہوا تو اُس نے دیکھا اُس کے بستر پر جا بجا منّے کی چڈیاں ، بنیان اور پھالیاں بکھری پڑی تھیں ۔ اُس کے دماغ میںعجیب سی تڑخ پیدا ہوئی اور پھر وہ غصے سے پھنکارہ ، ’’ بہو ۔۔۔ تمہارے بچے کے یہ گندے کپڑے یمھیں بے حد پسند ہوں گے لیکن اُن کو دیکھ کر مجھے گِھن آتی ہے ۔ ‘‘
’’ با با جی یہ کپڑے گندے نہیں ہیں سکھانے کی خاطر رسی پر ڈالی تھی ۔ ہوا سے ؤپ کے بستر پر گر گئے ہیں ۔ ‘‘ وہ جلدی جلدی اُنھیں اُٹھانے لگی ۔‘‘
’’ تو پھرکل سے یہاں سکھانے مت ڈالا کرو سمجھیں ۔ ‘‘
’’ با با جی ۔۔۔ اور کہیں جگہ بھی تو نہیں ہے ۔ ‘‘ وملا نے عاجزی سے کہا ۔
’’ تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں ؟ یہ بات تم وجئے سے کیوں نہیں کہتیں ؟ وہ دیکھے گا اب کوئی مناسب جگہ ۔۔۔ ہونہہ ۔ ‘‘
اُسے شنکر کوچوان سے اس قسم کے جملوں کی ا ُمید نہیں تھی ۔ اُس نے بڑی بے بسی سے کہا ، ’’ جی کہوں گی ۔ ‘‘
’’ اور سنو ۔۔۔ آج ہی کہہ دینا کہ دیکھ لے کوئی اور جگہ ، یہاں یہ سب کچھ اب نہیں چلے گا ۔ ‘‘
’’ شنکر کوچوان جھٹکے کے ساتھ بستر سے اُٹھا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا چال سے باہر نکل گیا ۔ وہ اُسے دیکھتی رہ گئی ۔ اُسے وہ رات شدت سے یاد آئی جب منّا پہلی بار چال میں آیا تھا ۔ اُسے محسوس ہوا ، جیسے وہ خوشیاں ، وہ تھرکنے والے قدم ، وہ رنگ و گلال ، وہ پٹاخے ، وہ انار ، ایک دھوکا تھا ۔ اُس نے مصمم ارادہ کرلیا کہ وہ اب اس چال میں نہیں رہے گی ، لیکن ٹھیک اُسی وقت اُس کے کانوں میں مادھوری کے اُبکائی آوازیں پہنچی ۔ وہ تیزی سے اُس کی کھولی میں داخل ہوئی ، مادھوری بے حال تھی ۔ اُسے اس حال میں دیکھ کر وملا کو عجیب سی مسرت محسوس ہوئی ۔ اُس نے بڑھ کر اُسے اپنی بانہوں میں لے لیا اور پھر بڑے پیار سے بولی ، ’’ مادھوری ۔ ۔۔‘‘
اور مادھوری خو شی کے نشے میں مست اّس کے سینے سے چمٹ گئی لیکن دوسرے ہی لمحے اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔ منا کی چڈی، بنیان اور پھالیاں ہواؤں میں بکھرنے لگے اُس کے کانوں میں عجیب سی آوامیں آنے لگیں ۔ وہ گھبرا کر اُس کے سینے سے الگ ہو گئی ۔وملا نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا ، اُس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا ۔وہ بولی ، ’’ مادھوی تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ تم تو اسی چال کا ایک حصہ ہو اور پھر وہ تیزی سے واپس ہوئی اور شنکر کوچوان کے بستر پر سے منے کے کپڑے سمیٹنے لگی ۔
دوسرے دن جب وجئے اور وملا اپنے منے کو لیے چال سے جانے لگے تو کھولیوں کے دروازوں پر کھڑے لوگ اُنھیں خاموشی سے تک رہے تھے ۔ سید میاں اُس کے قریب پہنچے ۔ اُن کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں ۔ اُنھوں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ، ’’ بٹیا یہ اولاد بہت دکھ دیتی ہے ۔ یہ تو تمھارا پہلا موقعہ ہے ۔ خدا تمھیں خوش و خرم رکھے ۔۔۔ ‘‘ اُس کے بعد وہ کچھ نہ کہہ سکے ۔ اُن کا پورا بدن جذبات سے کانپ رہا تھا ۔
وملا منّے کو لیے سیڑھیاں اُترنے لگی تو اُسے محسوس ہوا جیسے پوری چال افس کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اُتر رہی ہے ۔
چال سے باہر سڑک پر شنکر کوچوان اپنا تانگہ کس رہا تھا ۔ اُس کے اطراف کتابوں کے بوجھ سے لدے ہوئے بچے کھڑے تھے ۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئی چال سے دور نکل گئی ، لیکن چال کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اُس کے قدموں کو روک رہا تھا ۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر گئی ، پیچھے پلٹ کر دیکھا ، دور چال کی کھڑکی سے لگی مادھوری کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی ۔ اُس کے اپنے ہاتھوںمیں منّا میٹھی نیند سورہا تھااور تانگے میں سوار بچے گا رہے تھے۔
Are you sleeping brother john
Morning bells are ringing
٭٭٭