وہ شخص اپنے ملک کا بہت بڑا افسر تھا۔وہ بہت سخت اور اپنے اصولوں کا پابند تھا۔وہ ملک کے ایسے محکمہ کا سب سے بڑا افسر تھا جہاں اس پر صدرمملکت یا ملک کی عدالت عالیہ کا ہی حکم چلتا تھا یا یہ کہا جائے کہ وہ ان کے ماتحت یا جواب دہ تھا۔ملک کا وزیراعظم بھی اس پر اس کے آزاد ادارے کا سربراہ ہونے کے ناطے اپنی مرضی نہیں تھونپ سکتا تھا لیکن اس کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو ملک کا ایک عام شہری سمجھتا تھا اور ملک کے قانون کی عزت و احترام کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا تھا۔
ایک بار وہ افسر اپنے عملے کے ساتھ اپنے کسی رشتہ دار کے شہر شادی میں جارہا تھا۔اس کے ہمراہ اس کی بیوی بھی تھی۔وہ جس راستے سے گذر رہے تھے وہ بہت خوبصورت تھا شاہراہ کے دونوں جانب پیڑوں اور سبزہ تھا جو بہت خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔اس افسر کی بیوی گاوءں کی رہنے والی تھی اتنے طویل راستے پر پیڑوں،ہریالی چھوٹے چھوٹے گاوءں اور بستیوں کو دیکھ کر اسے اپنے گاوءں کی یاد آگئی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا کتنی اچھی قدرتی اور پرسکون زندگی ہے ان گاوءنوں کی۔اس کے شوہر نے جواب دیا ہاں تم بالکل صحیح کہہ رہی ہو میں بھی سوچتا ہوں سبک دوش ہونے کے بعد اپنے گاوءں میں ہی چل کر رہیں گے۔
ان کا سفر جاری تھا۔وہ خوبصورت راستے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بڑھ رہے تھے۔جبھی سڑک کے کنارے ایک بڑا سا باغ پڑا جو آم کا تھا۔آم کے پیڑوں کے بیچ میں کچھ اور بھی پیڑ تھے جن پر صراحی نما یا لمبی بوتل نما گھانس پوس اور تنکوں کے بنے بیا کے گھونسلے لٹک رہے تھے۔افسر کی بیوی نے اپنے شوہر سے گھونسلہ کو ساتھ لیکر چلنے کی خواہش ظاہر کی،کیا کروگی تم اس گھونسلہ کا۔میں اس کو اپنی بالکنی پر لگاوءں گی۔
افسر نے اپنی گاڑی رکوائ اس کا پورا عملہ بھی رک گیا۔افسر نے دیکھا آم کے باغ کی رکھوالی ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ کر رہا ہے۔اس نے اپنے ڈرائیور کو پیسے دیکر کہا یہ دس روپئے اس لڑکے کو دینا اور اس سے وہ سامنے جو گھونسلا شاخ پر لٹک رہا ہے وہ اترواکر لے آو ۔
ڈرائیور لڑکے کے پاس گیا اور اس کو دس کا نوٹ دیتے ہوئے گھونسلہ لانے کے لئے کہا۔لڑکے نے نوٹ واپس کرتے ہوئے گھونسلہ اتارنے سے منع کر دیا۔ڈرائیور افسر کے پاس واپس آتے ہوئے بولا صاحب لڑکا پیسے نہیں لے رہاہے اور گھونسلہ اتارنے سے منع کر رہا ہے۔افسر نے اس کو ایک اور دس کا نوٹ دیتے ہوئے کہا اب دوبارہ اس سے کہو،ڈرائیور دوبارہ اس کے پاس گیااور بیس روپئے دیتے ہوئے پھر گھونسلہ کے لیے کہا۔اس بار لڑکا تھوڑا ناراض ہوتے ہوئے بولا ہم گھونسلہ نہیں اتاریں گے۔
ڈرائیور ناامید ہوکر افسر کی جانب دیکھنے لگا۔افسر لڑکے کا ناراض ہونا دیکھ رہا تھا۔اس کو لڑکا مضبوط ارادہ کا اور نڈر لگا وہ کار سے نیچے اتر گیا اور لڑکے کے پاس پہنچا اور نرمی سے پوچھا کیا بات ہے بیٹا تمہیں اور پیسے چاہئے ناراض کیوں ہوتے ہو،ایک گھونسلہ ہی تو ہے۔
لڑکے نے جواب دیا صاحب یہ پاپ ہم نہیں کرسکتے۔ارے اس میں پاپ کی کیا بات ہے یہ پیڑ میں لٹک رہے ہیں۔صاحب یہ پیڑ میں لٹک رہے ہیں مگر آپ کو معلوم ہے اس میں بیا کے بچے ہیں ان کے ماں باپ انھیں چھوڑکر دانہ دنکا لانے گئے ہیں۔جب وہ واپس آئیں گے اپنے بچوں کو اور گھونسلہ کو نہیں دیکھیں گے تو کیا ہوگا سوچئے صاحب آپ بھی کہیں جارہے ہیں اپنے بچوں کو اپنے گھر چھوڑ کر آئے ہیں بھگوان نہ کرے واپس ہونے پر آپ کو اپنے بچے نہ ملیں تو آپ کا کیا حال ہوگا۔افسر اس بچہ کی اتنی سچی اور کڑوی حقیقت سن کر دنگ رہ گیا۔اس نے بچے کو سینے سے لگا لیا۔اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوا نم آنکھوں سے بولا بیٹا میں اتنا پڑھنے لکھنے اور بڑا افسر بننے کے بعد بھی انسانیت نہیں سیکھ پایا تم نے مجھے میرے جیون کا بہت بڑا سبق دیا ہے۔لڑکا بولا صاحب جیون میں رحم اور ہر انسان کے جیون کی رکھشا کرنا ہمارا دھرم ہونا چاہئے صاحب بتائے کیا کسی کا گھر اجاڑنا ادھرم نہیں۔افسر بہت خاموشی سے لڑکے کی باتیں سن رہا تھا۔اس نے لڑکے کو ایک ہزار روپئے دیتے ہوئے کہا یہ تمہارے انعام کے ہیں یہ تو لوگے۔بیٹا زندگی میں کبھی انسانیت اور سچائ کا دامن مت چھوڑنا۔یہ کہہ کر اس افسر نے بچے کے ساتھ بہت سے فوٹو کھنچوائے اور اپنے اس واقع کا ذکر اپنی کتاب میں کیا۔جانتے ہیں یہ افسر کون تھا ہمارے ملک کے سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...