رحیم نے جب گھر میں قدم رکھا تو اس کی بےپناہ حیرت بجا تھی کہ صورت حال اس کی توقع کے عین برعکس۔ میز پر بھاپ اڑاتے اشتہا انگیز کھانے، صاف ستھرا ، قرینے سے سجا بنا نکھرا گھر اور نک سک سے درست میں۔
کوئی تبصرہ کیے بغیر وہ سیدھے بیڈ روم میں چلا گیا، جو اس بات کا مظہر تھا کہ موصوف کھانا باہر ہی سے کھا آئے ہیں۔ میں نے اطمینان سے کھانا کھایا، برتن سمیٹے اور پھر معمول کے مطابق اس کے لیے گرم دودھ کا گلاس لے کر بیڈ روم میں آئی۔ میرے سجے بنے سراپے اور دودھ کے گلاس کی طرف اس نے غور سے دیکھا، اب اس کی آنکھوں میں الجھن کے ساتھ ساتھ شک بھی نمایاں تھا۔
بےفکر رہو دودھ میں زہر نہیں ملایا ہے۔ میں نے ایک سانس میں آدھا گلاس خالی کر کے، گلاس بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے کوسٹر پر رکھتے ہوئے کہا۔ رحیم نے آنکھ اٹھا کر گلاس کی طرف دیکھا تک نہیں، اس کی نظریں بدستور مجھ پر جمی تھیں، پھر کمرے میں اس کی سرد اور پتھریلی آواز گونجی،
” تم کچھ بھی حربے آزما لو ! میرا فیصلہ اٹل ہے۔ ”
میں تمہارے فیصلے بدلے جانے کی خواہشمند بھی نہیں، بلکہ میں تمہیں اپنا فیصلہ سنانے کی متمنی ہوں۔
میں نہایت سرد اور قطعی لہجے میں گویا ہوئی اور رحیم کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح ہی ناشتا کرتے ہوئے رحیم نے نہایت بے رحمی کے ساتھ میرے سراپے اور خدو خال میں موجود بد صورتیوں سے نہ صرف مجھے نئے سرے سے آگاہ کیا تھا بلکہ میری فطرت میں رچے بسے وہ تمام نا دیدہ عیوب جنہیں میں ہمیشہ ڈھونڈنے میں نا کام رہی تھی، ان سے بھی از سرِ نوجانکاری دی۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے نہایت قطعیت کے ساتھ مجھے اپنا آخری اور حتمی فیصلہ بھی سنا دیا تھا۔
میں وہ ہوں ، جس کی زندگی کے توانا انیس سال، اس شخص کی ٹہل سیوا اور اس کی اولاد کی خدمت میں بسر گئے۔ گھر کی بھٹی میں جل کر میری انمول جوانی خاک ہوئی اور میں کھرے سونے کی ڈلی،کندن تو کیا مول کے تول میں پیتل بھی نہ ٹھہری۔
گزشتہ بیس منٹ سے میں، لوہے کی الماری میں جڑے بھدے آئینے میں، اپنے آپ کو ہر رخ اور زاویے سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنا حقیقی تجزیہ بھی کر رہی تھی۔
ہائے ! چہرے کی ملائمت کیا ہوئی؟
خشک جلد کے پیچھے کہیں دبکی چھپی ہوگی۔
چہرے پر تتلی شکل کی چھائیاں، مگر تتلی شکل کیسے؟ تتلی تو خوشی و خوش رنگی کا استعارہ ہے۔ ہاں البتہ موتھ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔ موتھ کے سیاہ پر، بالکل ماتمی جیسے میری زندگی۔ ہونٹ بے رس و رنگ اور دونوں کناروں پر نمایاں ہوتی لکیریں۔ ماضی کی ستارہ ساز آنکھیں، اب جیسے بجھتے ٹمٹماتے دئیے۔ بال !! شکر کہ بال اتنے بھی بے رونق نہیں مگر دو منہ کے سبب ٹرمنگ کے لیے اتاولے۔ ہاتھ، توبہ توبہ ! ریشمی کپڑا ہاتھوں میں پکڑ لوں تو کپڑا لیرو لیر ہو جائے۔ بیشتر انگلیوں کے ناخنوں پر سفید ادھورے ساتویں کے چاند ہویدا۔
سراپا ! اُف سراپا تو پوچھو ہی مت۔
دو سیزیرین اور ایک نارمل ڈیلیوری نے زاویے اور پیمانے سب بدل دیے ہیں۔ زیریں دھڑ پر لمبے لمبے سفید نشانات نمایاں، جیسے ریت پر لہراتے رینگتے روپہلی سانپ۔ جسم کی کساوٹ اور نشیب و فراز، سب گویا قصہ پارینہ کے ابواب۔
شادی کے آٹھویں سال میرے تیسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد سے میرا جسم بے ڈول ہونا شروع ہو گیا تھا، جو باوجود، کڑی ورزش اور فاقوں کے، پھر کبھی اپنی اصل پیمائش پر لوٹا ہی نہیں۔ میری تمام کی تمام کسرت و کوشش بے سود اور جان توڑ مشقت بھی بے ثمر ہی رہی۔ جم جوائن کرنے کا نہ ماحول تھا نہ ہی وسیلہ، مارننگ شوز اور رسائل میں پڑھے گئے تمام حربے ٹوٹکے آزما لیے پر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
شادی کے انیس سالوں نے خواب نگر کی رسیلی، روپہلی بانکی کو نار کیا۔ زندگی میکے میں بھی ست رنگی تو نہ تھی پر آنکھوں میں خواب اور دل میں امید کا دیا روشن تھا۔ کچھ کم عمری، کچھ افسانوں کی فینٹسی کے سبب میں نے بھی کئی ریشمی خواب کاڑھ رکھے تھے۔ وہ خواب جو شادی کی پہلی رات ہی ٹوٹ گئے اور جن کی نوکیلی کرچیاں گزرے انیس برسوں سے مجھے لہو لہان رکھتی آئی ہیں۔
میں نے اپنی زندگی کا بہترین عرصہ، اس گلشن کی آبیاری میں لگایا۔ اس شخص کو تن، من کا سکھ دینے میں اپنی انا اور پسند کو کچل دیا۔
ہر لڑکی کی طرح میرے بھی کئی خواب تھے، مجھے یاد ہے انٹر کے امتحانات کے بعد کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور میرا وہی بور روایتی شغل” النساء سینٹر ” سے سلائی اور فلاور میکنگ کلاسس میں داخلہ، کہ ایک دم سے پڑوسن نادرہ کی وجہ سے زندگی میں بہار کا جھونکا بن کر فلم Legends of the Fallداخل ہوئی۔ اس کے گھر وی سی آر پر دیکھی گئی میری پہلی فلم۔ اس فلم کے سحر میں ایسا گرفتار ہوئی کہ میری کچی عمر کی چنریا ” بریڈ پٹ ” کے خیالوں سے دھنک رنگی گئی۔ انجانے میں میرے ذہن و دل میں اسی کا خاکہ بنتا گیا۔ وہ فلم بھی کمبخت بلا کی رومانوی تھی اور بریڈ پٹ کی بعد کی فلمیں بھی اس فلم کا تاثر ضائع نہ کرسکیں۔
اس سے پہلے کہ میری فکریں، میرے ماں باپ کی آنکھوں کی نیندیں حرام کرتیں، میرے پوسٹ گریجویٹ ہوتے ہی آنے والے دو چار معمولی رشتوں میں سے رحیم کا رشتہ قبول کر لیا گیا۔ رحیم کے پڑھے لکھے اور برسرِ روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس رشتے کی اضافی خوبی اس کا خاندان ہی سے ہونا قرار پایا۔ کوئی دور پار کا رشتہ تھا ابا جان اور رحیم کے ابا کا۔ ہمارے متوسط طبقے میں مردوں کی شاید بس کمائی ہی دیکھی جاتی ہے کہ مجازی ہی سہی خدا جو ٹھہرے، آنے والی کو دانا دنکا وقت پر ملتا رہے، بھلا اور کیا چاہیے ہوتا ہے اس کے علاوہ؟
سو بِنا کسی مزید سوال و جواب یا تحقیق و جستجو کے، مختصر سی بَری اور جہیز میں یہ شادی نمٹ گئی اور یوں چھاتی کا بھاری بوجھ ہلکا کر لیا گیا۔
شادی کے ابتدائی کچھ دن، پُر بہار تو نہیں پر قدرے آسان گزرے۔ گزرتے وقت کے ساتھ جوں جوں رحیم کی زبان کے جوہر کھلتے گئے، توں توں زندگی تلخ سے تلخ تر ہوتی چلی گئی۔ میں بیوی نہیں محض شئے تھی، ایک معمولی برتنے کی چیز۔ تین بیٹوں کی پیدائش نے رحیم کے سر پر گویا کلغی سجا دی تھی، سینہ چوڑا کر کے ہمہ وقت اپنی مردانگی کے زعم میں زمین سے بالش بھر اوپر چلتا۔ میں شاید تھان پہ بندھی گائے تھی جسے چارا بھوسہ تو برابر ملتا مگر پیار کی تھپکی سے اس کی کوئی آشنائی نہ تھی۔ میں بھی ستائش اور محبت کے لمس کو ترسی ہوئی عورت تھی، جس کی من کی بگیا کبھی محبت کی پھوار سے سیراب ہوئی ہی نہیں اور دل سدا تھر کا بے آب و گیاہ صحرا ہی رہا۔ میں پوری دیانت داری سے اپنی ڈیوٹی نبھاتی رہی بلکہ اکثر اوور ٹائم بھی جھیلا۔ گھر، گرہستی میں میری ہستی نابود اور میرا وجود سیم زدہ ہوتا گیا۔ تنہائی اور تلخی کے نمک نے مجھے اندر ہی اندر ڈھا دیا تھا۔
شکل تو خیر اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے سو اس پر کیا تبصرہ پر رحیم اگر ذرا بھی کریم اور مہربان ہوتا تو شاید زندگی اتنی بے زار کن اور تلخ نہ ہوتی۔ میری زندگی یکسانیت کا شکار تھی، مسلسل دائروں کا سفر۔ رحیم نے کبھی مجھے جاننے کی یا کھوجنے کی جستجو ہی نہیں کی، جب بھی میں نے اس مد میں زبان کھولنے کی کوشش کی اس کے ماتھے کے بل میں اضافہ اور زبان کی دھار مزید آب دار ہوئی۔ سو میری چپ ہی میں عافیت اور گھر کا نام نہاد سکون مضمر تھا۔ میں اپنا دل بھلا کس کے آگےکھولتی ؟
رحیم تو میرے خوابوں کے راجکمار کا عشر عشیر بھی نہ تھا، شکل میں اور نہ ہی عملاً۔ رحیم تو جانتا ہی نہیں تھا کہ عورت کو چھوا کیسے جاتا ہے؟ اس کی کوملتا اور نمرتا کو برتا کیسے جاتا ہے؟ یا عورت کے دل تک رسائی کن راہوں سے ہوتی ہے ؟
میں نے اپنے کُرلاتے من کو رسنے دیا اور لب حرفِ شکایت سے یکسر نا آشنا رہے۔ زبان تو دور رہی آنکھوں اور اپنے سلوک پر بھی کبھی دل کی سلگتی آنچ کی تاپ نہیں آنے دی ۔ کبھی اشارتاً بھی اپنی ناپسندیدگی و نا آسودگی کا اظہار نہیں کیا اور ہمیشہ ماں باپ کا لحاظ اور نکاح کے مقدس بولوں کا مان رکھا۔
کرونا کی ابتداء سے ذرا ہی پہلے، ہم لوگ اس متوسط محلے میں بنے ایک سو بیس گز کے مکان میں منتقل ہوئے تھے۔ یہ مکان دراصل رحیم کا خواب تھا جیسے اس کی خوشی کی خاطِر میں نے بھی اپنی آنکھوں میں بھر لیا تھا۔ ویسے بھی اپنے گھر کی چاہ تو شاید عورت کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے سو یہ مکان اب مکان نہیں بلکہ میرا من پسند سپنا تھا۔ جو سچ پوچھو تو یہی خواب میری بے سوادی ازدواجی زندگی کا جائے فرار و قرار بھی۔ جانے کیوں مجھے یہ خؤش گمانی تھی کہ شاید” اپنا گھر” ہی وہ پل ہے جیسے پار کرتے ہی مجھے رحیم کے دل میں مکمل رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس مکان کے حصول اور اسے گھر بنانے کے جنون نے مجھے پچھلے نو سالوں سے دانتوں سے پیسہ پکڑنے کے اصول پر کار بند رکھا تھا۔ اس گھر کی چاہ نے نہ صرف مجھے بےانتہا محنت پر کمر بستہ و آمادہ رکھا بلکہ بچت کے نت نئے طریقوں سے بھی روشناس کروایا۔ اس گھر کی خرید میں اپنا حصہ میں نے یوں ڈالا کہ اپنی ذات کو پس پشت رکھ کر اپنی سدھ بدھ ہی بھلا دی ۔ کفایت کے چلتے، میں نے نہ صرف ماسی ہٹا دی بلکہ دروازے پر سبزیاں خریدنے کے بجائے پیدل بدھ بازار کا رخ کیا۔ لان کے سوٹ سے وائل پر آ گئی ۔ کہیں آنا جانا ممکنہ حد تک کم کر دیا کہ اس میں خرچ بہت اور مہمانداری کے لیے بھی بیکری سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنی ہڈی ہی گھسائی۔ میں نے ہر ممکن طریقے سے بچت کی اور خوشی خوشی اپنے میکے کا زیور اور بچت کی کُل رقم رحیم کے آگے ڈھیر کر دی۔ اس گھر کی کُل مالیت میں کم از کم بھی چوتھائی حصہ تو میرا ہی تھا کہ میں نے اپنے ذہنی و جسمانی آرام کو تج کر اور کڑی مشقت جھیل کر یہ بچت کی تھی۔ اپنی چھت کے نیچے میں سکون کی چار سانسیں بھی بھر نہیں پائی تھی کہ پھانسی گھاٹ کے مجرم کے پیروں تلے تختہ کھینچے جانے کی مانند، میرے سر کے سائیں نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی۔ رحیم کا بے رحمانہ فیصلہ سن کر بڑی مشکلوں سے میں اپنا توازن برقرار رکھ پائی تھی اس بے درد نے اپنی زندگی اور گھر دونوں ہی سے مجھے یکلخت بدر کر دیا تھا۔
یہ بھی کیسا دستور ہے کہ عورت اپنی جان مار کر مکان کو گھر بنائے، بچے پیدا کرتے ہوئے ہر بار جان پہ بن آئے۔ شریک سفر کو تن من کا سکھ دیتے دیتے جب خود پھوک رہ جائے تو آخ تھو کے ساتھ تھتھکاری اور دھتکاری جائے۔ اب بھلا آدھی سے زیادہ عمر تک تمہاری خدمت گزاری اور دہلیز کی پاسبانی کے بعد اب یہ مورکھ کہاں جائے؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟
کس پناہ گاہ یا آشرم میں منہ چھپائے؟
ساری حیاتی تمہارے نام کی سنگلی خوشی خوشی پہنے رہنے کے بعد جب اس سے اپنی شناخت کی تختی چھین کر گھر اور دل میں دوسری کو لا بساتے ہو تو وہ غریب باولی نہ ہو تو اور کیا کرے؟
بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے؟
دیے بام و در کسی اور نے، تو رہا بسا کوئی اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی رات ہی سے رحیم کا مزاج بہت بگڑا ہوا تھا، اس حد تک کہ قربت کی ادھوری مسافت ہی میں مجھے بے دردی سے دھکیل کر خود سے پرے کیا اور بستر سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا کہ کیا
” ٹھنڈی عورت “ملی ہے۔انتہائی حقارت سے ادا کیے گئے اس جملے نے رات بھر مجھ پر سنگ باری کی، یہ اصطلاح میرے لیے نئی ضرور تھی مگر قربت کے لمحات میں بھی میری تضحیک کوئی نیا عمل نہیں۔ عرصے دس گیارہ سالوں سے اب اکثر و بیشتر ان نازک لمحات میں بھی میرا جسم اور سراپا طنزیہ جملوں کے نشتر سے گودا جاتا تھا۔
انیس سال! انیس سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے اور میں شاید اب ان طنزیہ آتشیں جملوں اور تحقیر آمیز رویوں کے سبب بےحس ہو چکی تھی۔ میں اپنے بھانوے ان بریک ایبل شیشے میں ڈھل چکی تھی، مگر گزشتہ شب شاید احساسات کو کسی خاص زاویہ سے چوٹ لگی تھی کہ میری سوئی ہوئی انا جاگ اٹھی تھی۔
اب بس ! کہ بہت ہوا۔
رحیم کا خیال ہے کہ تین بیٹے پیدا کر کے ان کے پاس مردانگی کا صداقت نامہ ہے مگر میرے سر تاج تجھے کیا پتہ کہ ان طویل اور صبر آزما سالوں میں میرے سوکھے کھال جیسے تڑختے بدن میں تمہاری طرف سے کبھی کاملیت کی بوند ٹپکی ہی نہیں۔ میں ابھاگن سہاگن انتہائی قربت میں بھی نہ کبھی محظوظ ہوئی اور نہ ہی سیراب۔ میرے حصے میں ازل کی تشنگی کیوں؟
اب بتاؤ !! کہ میں اپنے مقتول جذبات کی منصفی کس سے طلب کروں؟
اپنے نا آسودہ بدن کا مقدمہ کس عدالت میں دائر کروں؟
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
مرے قاتل۔۔ ۔حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
تو ایسا ہے رحیم کہ تم اس ” ٹھنڈی عورت ” کو طلاق نہیں دو گے بلکہ میں ہی گھگھو گھوڑے کو چھوڑتی ہوں۔