اس صبح جاگنے کے بعد اس نے دیکھنے کی کوشش کی مگر اس کے حلق سے ایک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اس کی آنکھیں موجود نہیں تھیں۔ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے وہاں آنکھ نامی کوئی شے موجود ہی نہ ہو۔ "کیا میں اندھا ہوچکا ہوں یا پھر میری آنکھیں کوئی لے گیا ہے۔ ” اس نے گھبرائے ہوئے خود سے سوال کیا دوبارہ سے ڈرتے ہوئے اس نے اپنے چہرے کو ٹٹولا مگروہاں ایسا کچھ نہیں تھا جسے وہ آنکھ کہہ سکتا تھا۔ ہڑبڑاہٹ میں اس نے زمیں سے اٹھتے ہوئے آگے کی جانب بڑھنے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمحے کسی بھاری سی چیز سے ٹکرا کر وہ بری طرح زمین پر گر گیا۔ "آہ! میں کہاں ہوں؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ ” زخم کو سہلاتےہوئے اس نے کہا لیکن اس کی آواز سننے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ "اندھیروں میں لگی ٹھوکر کرب کے ساتھ ذہن پر بھی وار کرتی ہے۔ ” اس نے گہری سانسیں لیں اور خود سے باتیں کرنے لگا۔ "یہ کم از کم میرا کمرہ نہیں ہے۔ میرا کمرہ انتہائی خوب صورت تھا۔ میں نے ہمیشہ چیزیں سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف ایک رات میں ہر چیز نے اپنی جگہ بدل لی ہو۔ آنکھیں ، کمرہ اور میری ذات کیا سب کچھ ہی ایک رات میں تبدیل ہوگیا۔ میرا کمرا آہ۔۔۔۔”” کرب کے ساتھ اس نے گردن ہلائی مگر اندھیرے کے سوا کسی کو اپنا ہمنوا نہ پایا۔ وہ جیسے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تبھی کسی چیز سے ٹکرا جاتا۔ وہ اپنے کمرے کی ترتیب تک بھول چکا تھا۔ بالاخر اس کے ہاتھ میں لکڑی نما کوئی شے آئی۔ اسے تھامتے ہوئے اس نے دوبارہ سے اٹھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن اگلے ہی لمحے بری طرح ٹھوکر کھا کر زمیں پہ گرگیا۔ تکلیف کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکلی جسے شاید وہاں کوئی نہیں سن سکا۔ کافی دیر بعد جب اس کی طبعیت بحال ہوئی تو اس نے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی۔ کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہر طرف گہری خاموشی ہو۔ "کیا میں ساری زندگی یہیں پڑا رہوں گا؟ ” ڈر کی ایک لہر اس کے جسم میں سرایت کرگئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ اکیلا ہی وہاں ہے اور دنیا کا کوئی انسان اس کے ساتھ نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد اس کے اوسان بحال ہوئے تب اسے یاد آنے لگا کہ وہ اس دنیا میں اکیلا تھا۔ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا جو سڑک کے کنارے واقع تھا۔ گھر کے باہر اس نے کچھ گملے اگائے ہوئے تھے۔ وہ پودوں اور پھولوں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ اس کے ماں باپ بچپن میں ہی وفات پاچکے تھے اور ساری زندگی اس نے یتیمی میں ہی گزارا تھا۔ "آہ میرے پودے ، میں انہیں کیسے دیکھ سکوں گا۔ ” اس نے ایک گہری آہ بھری۔ کافی جدوجہد کے بعد بالاخر وہ بیرونی دروازے کے پاس پہنچا اور ہاتھ میں آئی لکڑی کے سہارے باہر کی جانب نکل گیا۔ دھیرے دھیرے وہ سڑک پر پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے کئی دفعہ ٹھوکریں کھائیں مگر وہ کسی طور ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا۔ اگر لکڑی کا سہارا نہ ہوتا تو شاید وہ کبھی پہہنچ ہی نہیں پاتا۔ ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورےشہر نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی ہو۔ "کہاں جارہے ہو؟” تبھی ایک غیر مانوس آواز سن کر وہ چونکا۔ "کون ہے ۔ کیا کوئی ہے ؟” اس نے چلاتے ہوئے کہا ۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ایک طویل قید کے بعد رہا ہوا ہو اور کسی قریبی سے ملا ہو۔ تبھی وہ شخص اس کی جانب بڑھااور اس کا ہاتھ پیار سے تھاما۔ "تمھاری آنکھیں کہاں گئیں۔” حیرت سے دوسرے شخص نے پہلا سوال ہی یہی کیا ۔ "میرے دوست! میں کچھ نہیں جانتا۔ آج صبح جب اٹھا تو میری آنکھیں موجود نہیں تھیں۔ کیا تم تصور کرسکتے ہو کہ انسان صبح اٹھے اوراسے علم ہو کہ وہ دیکھ ہی نہیں سکتا۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ میں اس وقت کہاں ہوں۔ ” اس نے چلاتے ہوئے کہا۔ "چلاؤ مت، میں تمھیں آسانی سے سن سکتا ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تمھاری آنکھیں لے گئے ہیں۔ ” اس شخص نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ ” میری آنکھیں کون لے گیا ہے؟ تم کیسی باتیں کررہے ہو۔ کیا تم ہوش میں ہو۔ تمھارا نام کیا ہے؟” اس نے حیرانی کے ساتھ ساتھ مختلف سوال ایک ساتھ ہی کردئے۔ "دوست! میرا نام جوزف ہے۔ وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ تم نے شاید ان کی بات نہیں مانی ہوگی تبھی وہ لے گئے ہوں۔ تم حیرت زدہ کیوں ہو؟ یہ تو یہاں کا معمول ہے۔ انہیں کسی سےمسئلہ ہو جائے تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ” اس کے کندھے کو تھپتھاتے ہوئے جوزف بولا۔ غصے سے اس نے دوسرے شخص کا ہاتھ کندھے سے ہٹا کر دوبارہ دیکھنے کی کوشش کی مگر اسے صرف اندھیرا ہی نظر آیا۔ "سنو جوزف! میں مائیکل ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ بھلا میرے ساتھ ایسا مزاق کس نے کیا ہوگا۔ میں کچھ دیکھ نہیں پارہا۔ تم کیسی بہکی باتیں کررہے ہو۔ خدا کے لیے ایسا مزاق نہ کرو۔ ” اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ "مائیکل! جب چہرے پر آنکھیں نہ ہوں نہ تو انسان کے تاثرات کا کہاں پتا چلتا ہے۔ ہم سب آنکھوں کی دنیا میں ہی جیتے ہیں اور جب آنکھیں بند کرتے ہیں تو ساری حقیقتیں بھی ہم سے روپوشی اختیار کرلیتی ہیں۔ نہ تم رو سکتے ہو نہ تمھارے آنسو کوئی دیکھ پائے گا۔ میں تم سے کیوں مزاق کروں گا۔ جب تم خود اپنی آنکھیں نہیں محسوس کررہے تو میری بات کو کیسے مزاق کہہ سکتے ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے انہوں نے تمھاری یاداشت کے کچھ حصے مٹا دئے ہیں اسی لیے تم بہت کچھ بھول بیٹھے ہو وہ بہت ظالم ہیں۔ وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ” جوزف کی باتیں سن کر اس کا ہوش وحواس اڑچکا تھا۔ وہ اسے ڈرا رہا تھا اور کسی طور اس بات کا یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ تبھی جوزف سے درخواست کرکے وہ ایک جانب زمین پربیٹھ گیا۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی مگر اسے ایسا کچھ یاد نہیں آرہا تھا جس کی وجہ سے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیاجاتا۔ اسے بس اتنا یاد تھا کہ وہ شہر کے ایک چھوٹے سے سٹور میں بطور کیشیرکام کررہا تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے ولا انسان تھا اور سوائے چند دوستوں کے اس کا کوئی دوست بھی نہیں تھا۔ اس کی سب سے قریبی دوست عینا تھی۔ عینا ایک ڈیپاڑمنٹل سٹور میں جنرل منیجر تھی ۔ چند سال پہلے جارج کے توسط سے ہی ایک پارٹی میں عینا اور اس کی ملاقات ہوئی تھی جو کہ بڑھتے بڑھتے اب کسی حد تک یکطرفہ محبت میں تبدیل ہوچکی تھی ۔ وہ خود کو عینا کے قابل نہیں سمجھتا تھا کیوں کہ وہ شہر کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک شخص کی بیٹی تھی۔ "آہ میری عینا! مجھے اس حالت میں دیکھے گی تو تڑپ جائے گی۔” عینا کا سوچتے ہی اس نے تاسف کے ساتھ ایک لمبی آہ بھری۔ "جوزف! میرے دوست کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے ۔ جو کچھ اس وقت ہورہا ہے کیا اس واقعے کی تفصیل بتا سکتے ہو۔ ” کافی دیر بعد پرسکون ہوکر اس نے سوال کیا۔ "مائیکل! وہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کل ہی وہ ایک شخص کی زبان لے گئے تھے۔ وہ اب گونگا بن کر شہر میں پھر رہا ہے۔ چند دن پہلے ہی ایک شخص کے کان اتارلیے گئے تھے۔ وہ اتنے ہی ظالم ہیں۔ جو ان کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں اور بعد میں یاداشت سے ہر چیز مٹا بھی دیتے ہیں۔ تمھارے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہوا ہے۔” جوزف نے اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے کہا۔ "تمھارے پاس سگریٹ ہوگا۔ مجھے شدید طلب ہورہی ہے۔ ” اس کی عجیب باتیں سن کر اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھااور اس وقت سگریٹ کی شدید طلب ہورہی تھی۔ ساری باتیں اب بھی اس کے سر کے اوپر سے ہی گزرر ہی تھیں۔ تبھی جوزف نے دوسگریٹ جلائے اور ایک اس کی طرف بڑھادیا۔ کتنی دیر ہوا میں وہ دھویں کے مرغولے بناتا رہا جسے وہ خود دیکھ نہیں سکتا تھا۔ "چلو میں تمھیں شہر گھماتا ہوں۔ ” سگریٹ پینے کے بعد جوزف نے اس کا ہاتھ پکڑا اور شہر کی سڑکوں اور عمارتوں کے بارے آگاہی دیتے ہوئے آگے کی جانب برھنے لگا۔ اگرچہ وہ یہ سب پہلے سے جانتا تھا مگر آنکھیں کھونے کے بعد اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس نے شہر کو کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ کتنی دلچسپی سے وہ ایک ایک عمارت کے بارے سن رہا تھا۔ ہر رستہ اسے دل میں اترتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ "میری عینا!” اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور اگلے ہی لمحے دکھ کی ایک گہری لکیر دل میں پھیل گئی۔ وہ سارا دن جوزف کے ساتھ گھومتا رہا جو اسے گائیڈ کی طرح شہر کی معلومات دیتا رہا ۔ وہ اسے بتاتا رہا کہ شہر کے بڑے پارک میں موجود مجسمہ اورپانی کا فوارا آج کچھ زیادہ دلکش لگ رہے ہیں اورپارک کے سامنے موجود پلازے کی دیوار پر دو دیو قامت مارکیٹنگ کے اشتہار نصب کئے گئے ہیں جب پر واضح الفاظ میں ” زیر تعمیرخوب صورت شہر” لکھا ہے۔ شہر کی مصروف شاہراہ پر موجود فقیر کہیں چلے گئے ہیں اور مشہور عجائب خانے میں کئی نئی چیزوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ حیران تھا کہ ایک رات میں شہر نے کتنی ترقی کرلی تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس نے شہر کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اگرچہ وہ بہتے ہوئے پانیوں کا شور سن سکتا تھا۔ وہ ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرسکتا تھا اور پارک میں نرم گھاس کو ادھیڑتے کتنی دیر وہ بغیر آنکھوں کے شہر کو دیکھتا رہا تھا جہاں تاریکی میں کتنی جھلمل ہوتی یادیں اسے دل کے نہاں خانوں میں گھومتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ "جوزف! پیدائشی اندھا شاید اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتا جتنا ایسا شخص محسوس کرتا ہے جس نے حال میں اپنی آنکھیں کھوئی ہیں۔ اس کے سارے خواب مر جاتے ہیں۔” اس نے سگریٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے کہا۔ "مائیکل! دکھ تو دکھ ہی ہوتے ہیں۔ جب تمھاری آنکھیں تھیں تب بھلا تم کہاں شہر دیکھ پائے ہوگے۔ وہ شخص جس کی زبان کاٹ لی گئی اس نے پہلے کہاں زبان سے محبت کی ہوگی اور جو شخص کانوں سے محروم ہوا ہوگا اس نے محبت کے نغموں کا اثر پہلے کہاں قبول کیا ہوگا۔ چھوڑو یہ باتیں! چلو گھر لوٹ چلتے ہیں۔ میں بھی اس دنیا میں تنہا ہوں۔ تمھارے پاس آنکھیں نہیں ہیں اور میں نے اپنوں کو کچھ عرصہ قبل کھویا ہے۔ تم مجھے اپنا وقت دے دینا میں تمھیں اپنی آنکھوں سے دنیا دکھادوں گا۔” جوزف نے اس کا ہاتھ تھاما اور دھیرے دھیرے اس کے ساتھ گھر کی جانب چل دیا۔ وہ جوزف کا شکر گزار تھا جس نے مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا جو اس وقت اسے کسی مسیحا کی طرح لگ رہا تھا اور اپنا خاندان کھونے کے بعد شاید اس کے پاس بھی خوشی کے احساس کے لیے کوئی جذبہ نہیں بچا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے شکریہ ادا کرنے کے لیے جیسے ہی منہ کھولا جوزف نے سختی سے روک دیا۔ آدھی رات تک وہ عینا کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس نے سوچا تھا کہ اگلی صبح وہ لازما عینا سے ملے گا۔ اس نے آج تک عینا کا فون نمبر تک نہیں لیا تھا۔ صبح جوزف نے اسے ناشتے کے لیے اٹھایا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے لیے ناشتہ بنایا تھا۔ شکریہ ادا کرتے ہوئے ناشتہ کرنے کے بعد وہ اس کے ساتھ پھر سے شہر کی جانب نکل کھڑا ہوا۔ اس نے آج ہر صورت عینا سے ملنا تھا۔ "اس شہر میں اتنی خاموشی کیوں ہے۔ سارے لوگ کہاں ہیں۔” اس نے پریشانی میں پوچھا۔ "مائیکل! شاید اس بابت میں بھی نہیں جانتا۔ ہم سب اپنی یاداشت کا ایک حصہ کھو بیٹھے ہیں۔ ” جوزف کی بات سن کر وہ شدید پریشان ہوگیا۔ "مجھے عینا سے ملنا ہے ۔ کیا تم مجھے اس کے پاس لے کر جاسکتے ہو۔ ” اس نے دردمندانہ لہجے میں درخواست کرتے ہوئے کہا۔ "کچھ لمحوں بعد اس کی منت سماجت دیکھتے ہوئے وہ مان گیا اور عینا کا پتا پوچھا۔” اس نے جوزف کو عینا کا پتا بتایا۔ جب دونوں مذکورہ جگہ پہنچے تو وہاں کوئی انسان موجود نہیں تھا۔ ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ مائیکل! کیا یہاں پہلے انسان ہوتے تھے۔ یہاں ابھی کوئی نہیں ہے۔ میں نے تمھیں بتایا نا کہ ہم سب اپنی یاداشت کا ایک حصہ کھو بیٹھے ہیں۔ ” شدید پریشانی کے عالم میں اس نے جوزف کی بات سنی۔ اس کا دل بھرا گیا۔ ایک رات میں کتنا کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ شہر میں صرف دو لوگ پھر رہے تھے۔ شہر انسانوں سے خالی ہوچکا تھا۔ اس کی عینا کہیں موجود نہیں تھی۔ اس کے ساتھ جو شخص تھا وہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس نے اپنی یاداشت کھودی ہے اور وہ ساری ذمہ داری کسی دوسرے شخص پر ڈال رہا تھا جو اس کی آنکھیں لے گیا تھا مگر وہ ان لوگوں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ عینا کو کھونے کے بعد اب وہ جوزف کو کسی صورت نہیں کھونا چاہتا تھا۔ جوزف کے ساتھ اس نے کئی دن وہاں گزارے۔ وہ دونوں شہر کی باتیں کرتے اورایک دوسرے کو ہنساتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ بانٹتےہوئے دونوں بہت اچھے دوست بن چکے تھے۔ وہ اسے پورے شہر کا حال بتاتا۔عینا کی جھیل سی آنکھوں کے بارے بتاتااور کبھی اس کے سنہری بالوں کو سورج سے تشبیہ دیتا۔ اس کی باتیں سن کر دونوں ہنستے۔ ایک دن جوزف نے گھبرائے ہوئے انداز میں اسے بتایا کہ اس نے شہر میں ایک لڑکی دیکھی ہے۔ یہ بات سن کر اس کا حلق خشک ہوگیا۔ اس کا ذہن عینا کی جانب مڑگیا۔ وہ دونوں پاگلوں کی طرح شہر میں پھرنے لگے مگر جوزف اس جگہ کو یاد نہ رکھ پایا تھا جہاں اس نے لڑکی کو دیکھا تھا۔ اس نے ہر جگہ عینا کو ڈھونڈا مگر ان کے ہاتھوں میں صرف مایوسی آئی۔ اس نے کسی طور ہمت نہیں ہاری اور مسلسل چلتا رہا۔ سورج ڈھلنے سے قبل وہ ایسی جگہ پہچنے جہاں شہر کا داخلی حصہ شروع ہوتا تھا۔ ہر طرف آہنی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ جوزف بہت پرجوش تھا۔ وہ دونوں آگے کی جانب بڑھنے لگے مگردیواروں نے انہیں آگے بڑھنے سے روک لیا۔ انہیں ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی بڑی سی جیل میں مقید ہوں۔ "مائیکل! جوزف چلایا۔ مجھے لگتا ہے انہوں نے ہم دونوں کو ہی شہر میں بند کیا ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے سوا شاید یہاں کوئی موجود ہی نہیں اور وہ لڑکی کوئی پرچھائی ہی تھی۔ میرے دوست میں ہر طرف لوہے کی دیواریں دیکھ رہا ہوں۔ ہم یہاں سے کیسے نکل سکیں گے۔”
جوزف کی بات سن کر وہ مزید خوف زدہ ہوگیا تھا۔ صرف ایک رات میں اتنا کچھ کیسے تبدیل ہوسکتا تھا۔ اس نے شدید تذبذب سے سوچا۔ جوزف وہاں سے نکلنےکے لیے ہر قسم کے جتن کررہا تھا۔ رات آدھی سے زیادہ ڈھل چکی تھی۔ وہ وہیں کونے میں بھوکا سوگیا تھا۔ ساری رات اس نے درد میں ہی گزاری تھی۔ شہر کا موسم قدرے بہتر تھا اس لیے اسے بھوک اور پیاس زیادہ محسوس نہیں ہورہی تھی۔ ساری رات وہ نیند میں بھی عینا ہی بڑبڑاتا رہا تھا۔ اگلی صبح جوزف نے اسے اٹھایا۔ اس نے اسے نوید دی کہ اسے باہر نکلنے کے لیے ایک چھوٹا سا دروازہ مل گیا تھا۔ دونوں دھیرے دھیرے باہر نکلنے لگے۔ "میری عینا! تم نے اسے دیکھا تھا نا، ااگر وہ میری عینا ہوئی تو میں اسے چھوڑ کر کیسے جاپاؤں گا۔” اس نے آگے بڑھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔ "نہیں مائیکل وہ میرا وہم بھی تو ہوسکتا ہے۔ ہمیں یہاں سے نکلنا چاہئیے۔ کیا پتا ہمیں یہ موقع پھر نہ ملے۔ ” جوزف نے اسے تسلی دی اور وہ ٹوٹے دل کے ساتھ آگے کی جانب بڑھنے لگا۔ جیسے ہی اس نے دروازے کے باہر قدم رکھے اس نے خود کو زمین کی جانب گرتا محسوس کیا۔ "جوزف” وہ چلایا مگر اس کی آواز سننے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک کنویں میں گرگیا تھا۔ اس نے ہاتھ پاؤں چلائے اورکافی جدوجہد کے بعد خود کوکنویں کے کنارے کی جانب لے آیا۔ "جوزف! میرے دوست تم کہاں ہو۔ کیا تم بھی یہاں گرے ہو۔ ” وہ چلاتا رہا مگر ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ اسے ہر طرف اپنی ہی آواز گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کتنے لمحے یوں گزر گئے۔ کافی دیر بعد وہ آٹھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی آئی۔ "”کنویں میں لکڑی کیسے آسکتی ہے۔ ” اس نے حیرت سے سوچا۔ یہ بالکل ویسی لکڑی تھی جیسی اسے کمرے میں ملی تھی اور اس کے سہارے وہ آگے کی جانب بڑھنے لگا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہاں کوئی کنواں نہیں تھا۔ اگلے لمحے اس کا سر کسی لکڑی نما چیز سے ٹکرایا ۔ درد سے وہ کراہا۔ اس کی چیخ نکلتے رہ گئی۔ اس کے سامنے ایک لکڑی کا دروازہ تھا۔ "اوہ خدایا! یہ تو میرا کمرہ ہے۔ اس ایک لمحے میں دروازے کوہاتھ لگانے کے بعد اس نے پہچان لیا تھا۔ میں اتنی دیر کہاں تھا۔ یہ سب کیا تھا۔ یہ کنواں۔۔۔میں۔۔۔۔ ” ڈر سے اس کا وجود کانپنے لگا۔ بالاخرڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا۔وہ اب سڑک پہنچ چکا تھا۔ وہ ہذیانی انداز میں جوزف اور عینا کا نام لے کر چلانے لگا۔ "چلاؤ مت! میں تمھیں سن رہا ہوں۔ اوہ خدایا تمھاری آنکھیں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے تمھاری آنکھیں نکال ہی ہیں ۔ وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔” دوسرا شخص اس سے کہہ رہا تھا اور وہ بے یقینی سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ "چلو ہمیں آگے کی جانب بھی بڑھنا ہے۔ ” دوسرا شخص جو خود کو جوزف کہہ رہا تھا ، اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور آگے کی جانب بڑھنے لگا۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...