”ناستا استاخون ۔۔۔۔۔ رونیبی ” (اگلا سٹیشن۔۔۔۔۔ رونیبی)
ٹرین کے مائیک سے آواز ابھری۔ گو کہ زبان اجنبی تھی مگر فوزیہ عبدالرحمان نے جان لیا کہ منزل قریب ہے اور ایک طویل سفر کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ وہ جوسیٹ کی پشت سے سر ٹکاۓ تھکی تھکی سی اونگھ رہی تھیں، ایک دم ہوشیار ہو کر بیٹھ گئیں اورٹرین کے شیشوں کے اس پار باہر کے مناظر دیکھنے لگیں۔ ریلوے لائن کے متوازی چلتی چوڑی سرمئی سڑک کے ساتھ ساتھ بلند و بالا پیڑ اجلی ہریالی اوڑھے ایستادہ تھے جن کے عکس ساتھ بہتی چھوٹی سی ندی کے پانیوں میں تصویر ہوۓ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔! یہ منظراندر ہی اندر فوزیہ عبدالرحمان کے سینے کی گہرائی میں مٹھی سی بھرتا تھا ۔
ٹرین رفتار کم کرتے کرتے ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ رک گئی تھی۔ فوزیہ نے شال اچھی طرح لپیٹ لی، دستی سامان کندھے پر لٹکایا اور بھاری ٹرالی بیگ کھینچتے ہوۓ ٹرین سے باہر آ گئیں۔
صاف ستھرے پلیٹ فارم کے اس پار، جہاں کوئی سوکھا تنکا یا آوارہ اڑتا کاغذ تک دکھائی نہ دیتا تھا، قدرے ڈھلوان سڑک کی اترائی میں وہ دونوں ایک بچہ گاڑی سنبھالتے تیزی سے اترتے چلے آتے تھے۔
فوزیہ نے لمحے کے ہزارویں حصّے میں ان کو پہچان لیا۔ گویا کوئی برقی لہریں تھیں جو ان کے لوں لوں سے پھوٹی تھیں اورسڑک کی ڈھلوان اترتے نفوس سے جا ٹکرائی تھیں۔ وہ اپنا ٹرالی بیگ کھینچتے ہوۓ تیزی سے ان کی جانب بڑھنے لگیں۔ پلیٹ فارم کے متوازی چلتی سڑک پار کر کے وہ بھاگتے ہوۓ آ کر ان سے لپٹ گئے۔
”اسلام وعلیکم امّاں ۔۔۔۔۔ ”ان کی سانسیں بے تحاشا پھولی ہوئی تھیں۔
”وعلیکم السّلام۔۔ ”فوزیہ کی آواز پرجوش خوشی سے لرزتی تھی۔ انہوں نے دونوں کو بانہوں کے حلقے میں لے کر باری باری پیار کیا پھر جھک کر بچہ گاڑی میں سے کمبل میں لپٹی گوری گوری گلابی سی حریم کو اٹھا کر بے تابی سے چومنے لگیں۔
”اللہ ، امّاں کتنی خوشی ہو رہی ہے آپ کو یہاں دیکھ کر۔۔۔ ان کی بیٹی ہانیہ خوشی سے سرشار ہوئی جاتی تھی۔” دیکھا ارسلان میں نہ کہتی تھی کہ ہمیں کوئی مسئلہ ہو اور امّاں موجود نہ ہوں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ دیکھنا اب سب ٹھیک ہو جاۓ گا ۔” وہ ناز بھرے انداز میں ان کے کندھے کو پکڑ کر جھولتی ہوئی اپنے شوہر سے مخاطب تھی۔
” گھر تو پہنچ لینے دو آنٹی کو ، اتنا تھک کر آئی ہیں اور تم ہو کہ ان کے کندھوں پر سوار ہوئی جا رہی ہو” ارسلان نے محبت بھرے انداز میں ڈانٹتے ہوۓ بیگ شانے سے لٹکایا اور ٹرالی بیگ کھینچتے ہوۓ گھر کی جانب قدم بڑھاۓ۔
”ارسلان بیٹا آپ کیسے ہیں؟”
”باالکل ٹھیک ہوں آنٹی، آپ کہیے سفر کیسا گزرا؟”
” سفر تو بے حد تھکا دینے والا تھا ۔ سات گھنٹے کی پرواز اور پھر تین گھنٹے ٹرین کا سفربہرحال تھکا دیتا ہے۔ اور ہاں کل آپ کی مام آئی تھیں۔ یہ بیگ ان تحائف سے بھرا ہے جو انہوں نے تمہارے، ہانیہ اور اس ننھی گڑیا کے لیے بھیجے ہیں۔” انہوں نے محبت پاش نظروں سےحریم کی طرف دیکھتے ہوۓ ارسلان کے شانے سے لٹکتے بیگ کی جانب اشارہ کیا۔
”اچھا ہوا اماں آپ آ گئیں۔ ورنہ آپکی یہ گڑیا ہماری پڑھائی کا کباڑا کرنے جا رہی تھی۔ جب سے یہ صاحبہ تشریف لائی ہیں ہم میں سے ایک یونیورسٹی جاتا ہے اور دوسرا گھر پر رہتا ہے۔ اب آپ تین ماہ ہمارے ساتھ رہیں گی اور ہم اپنا ماسٹرز مکمل کریں گے” ہانیہ ان کے ساتھ ساتھ چلتی پھولی سانسوں کے ساتھ بے تحاشا بولے چلی جاتی تھی۔
شمالی سویڈن کا چھوٹا سا ،نیم پہاڑی سطح کا یہ خوبصورت شہر ”رونیبی” ناقابل یقین حد تک پر سکون تھا۔ کراچی جیسے ہنگامہ پرور شہر میں مصروف زندگی گزارنے والی فوزیہ عبدالرحمان کی کیفیت کچھ ایسی تھی جیسے فیکٹری میں کھٹا کھٹ چلتی مشینوں کی بجلی یکلخت منقطع ہو جاۓ اور بندہ یکدم چھا جانے والی خاموشی میں مبہوت کھڑا رہ جاۓ۔ وہ ایک مصروف طرز زندگی کی عادی تھیں ۔ کراچی میں تین سو بچوں پر مشتمل اپنا سکول چلاتی تھیں۔ ہر روز صبح ہارن بجاتی بسوں، شور مچاتے رکشوں، اور ہر قاعدے قانون سے آزاد موٹر سائیکل سواروں کے بیچ سے گزر کر، جگہ جگہ ٹریفک جام کا سامنا کرتے ہوۓ دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد سکول پہنچتیں۔ پھر دن بھر انتظامی امور سے الجھنا، ٹیچرز کے مسائل، والدین کے ساتھ میٹنگز، مالی معاملات کی دیکھ بھال ،سٹاف کی باہمی آویزش اور چپقلش کو چابکدستی سے ہینڈل کرنا۔۔۔ یہ سب دماغ کی چھاچھ بنانے کو کافی ہوتا۔ اور پھر واپسی پرشور، دھواں،ٹریفک کا اژدہام ساتھ ساتھ چلتے۔
اس کے مقابلے میں رونیبی گویا کوئی گیان دھیان کی جگہ تھی۔ صد رنگ پھول، بلندوبالا پیڑاور انسان خال خال ، وہ بھی کم گو اور شرمیلے۔۔۔۔۔!
یہاں کرنے کو کچھ خاص نہ تھا۔ دنیا کی شکل پچھلے چند برسوں میں جس تیزی سے بدلی تھی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے فاصلوں کو جس ڈھب سمیٹا تھا، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ وہ اپنا سکول چار ہزار میل دور سے بھی چلا رہی تھیں۔ روزانہ سکائپ پر سٹاف سے میٹنگ ہو جاتی اور وہ ضروری ہدایات جاری کر دیتیں۔ارسلان اور ہانیہ کے یونیورسٹی جانے کے بعد چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی معمولی صفائی کرتیں، کھانا بناتیں اور ننھی حریم کے معمول کے کام انجام دیتیں ۔ دن بھر حرکت میں رہنے والی فوزیہ کے یہ کوئی خاص مصروفیت نہ تھی۔
اس شہر کی خاموشی اور تنہائی نے ان کو دوبارہ اسی کیفیت میں لا پھینکا جس سے فرار کے لیے انہوں نے بے تحاشا مصروفیت کا حصار اپنے گرد قائم کیا تھا۔ شہر کی مرکزی سڑک کے متوازی چلتی ندی کے پانیوں میں منعکس ہوتی ہریالی جب سینے میں مٹھی سی بھرتی اور وہ بھولے بسرے خوابیدہ مناظر میں ابھرنے ڈوبنے لگتیں۔ گنگناتی ندیوں کی ہریالی سرزمین۔۔۔۔ ایک خوفزدہ رات میں انگلیوں پر حرف عبادت گنتی بیبیاں۔۔۔۔ غضبناک چہرے۔۔۔۔۔۔ ہنگامہ۔۔۔۔ خون ، چیخیں اور سب ختم۔۔۔۔! وہ تیزی سے چکراتے سر کو تھام کر رہ جاتیں۔ یہ کیا ہے میرے رب ؟؟ اگر یہ خواب ہے تو بھول کیوں نہیں جاتا اور اگر حقیقت ہے تو کھل کیوں نہیں جاتی؟
مگر یہ حقیقت ان پر روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ بخار کی کیفیت میں دیکھے گئے خواب ایسے ان منظروں سے ماضی کا کوئی گوشہ ضرور جڑا ہے۔ وہ آغا جی اور بی جان کی لاڈلی بیٹی تھیں مگر یہ حقیقت ان سے کبھی نہ چھپائی گئی کہ وہ لے پالک تھیں۔ آغا جی اور بی جان جب اپنے ہاں یکے بعد دیگرے مردہ پیدا ہونے والے بچوں کے لاشے دفناتے دفناتے تھک گئے توایک ادارے سے تین سالہ بچی گود لے کر اپنے مرے ہوۓ بچوں کی محبتیں اس پر نچھاور کرنے لگے۔
محبتوں کی بارش میں بھیگتی فوزیہ’کی جاناں میں کون ‘ کی سی کیفیت میں سے کبی نہ نکل پائیں ۔ شاید یہ المیہ تمام شناخت گم کردہ لوگوں پر گزرتا ہے۔ وہ آئینے میں گھنٹوں خود کو دیکھتے ہوۓ اپنے نقوش میں نہ جانے کیا تلاش کرتی رہتیں۔ سیاہ بال اور گندم گوں رنگت تو اسی سرزمین کے باسیوں جیسی تھی جہاں وہ پلی بڑھی تھیں۔ مگر خواب منظروں میں دیکھی گئی دھرتی کے خدوخال مختلف تھے۔ رونیبی جیسے خاموش شہر میں، جہاں انہوں نے شائد ہی کبھی دو گاڑیوں کو آگے پیچھے جاتے دیکھا ہو، ان کا جی چاہتا کہ وہ پیڑوں سے اپنا پتا پوچھیں۔ خوب زور زور سے چلاّئیں کہ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ کیا تمہیں میری جڑوں کا علم ہے؟ کی جاناں میں کون۔۔۔۔ کی جاناں میں کون۔۔۔۔۔ دماغ کے گنبدِ بے در میں یہ صدا یوں گونجتی جیسے خالی کمرے میں پیتل کا برتن گر کر دور تک لڑھکتا چلا جاۓ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سرِ کوۓ ناشنائیاں دن سے رات کرتے کرتے بات کرنے کو بھی کوئی مل ہی گیا ۔ یہ گراؤنڈ فلور پر رہنے والی بڑھیا اگنس تھی جس کو وہ اکثر کمپاؤنڈ میں چہل قدمی کرتے دیکھا کرتیں۔ ایک بوڑھا مرد اس کا ہاتھ تھامے ساتھ ساتھ چلتا۔ پیازی رنگ کی سکوٹی پر ایک نوجوان لڑکی روزانہ شام کو اس سے ملنے آتی۔ آج کل بوڑھا نظر نہیں آرہا تھا تو انہوں نے ہانیہ سے پوچھ لیا
”یہ اگنس کا شوہرکہیں گیا ہوا ہے آج کل؟”
‘’ ارے میری بھولی اماّں !” ہانیہ حسبِ عادت ان کے کندھے سے جھول گئی”وہ دوست ہے اس کا ، شوہر نام کی مخلوق یہاں کم کم ہی پائی جاتی ہے اور ہاں بابے سے میری ملاقات ہوئی تھی کل یونیورسٹی سے واپسی پر راستے میں، بتا رہا تھا کہ وہ آج کل کچھ زیادہ پی رہا ہے تو اگنس نے اسے گھر آنے سے منع کر رکھا ہے۔ وہ جو سکوٹی پر آتی ہے نا اگنس کی بیٹی ایملی، وہ برا مناتی ہے۔” ہانیہ نے تفصیل بتائی۔
اگلے روز ہانیہ نے یونورسٹی جانے سے پہلے ایک فہرست ان کو تھما دی۔ ”امّاں ذرا ولیز(willis) تک جائیے گا ۔ یہ ساری چیزیں لے کر آنا ہے۔ گروسری تقریباۤ ختم ہے ، ویسے بھی اب تو آپ شہر کے راستوں سے واقف ہو گئی ہیں۔”
”اور تمہارا شہر ہے ہی کتنا۔۔ تین منٹ کی پیدل مسافت پر ریلوے سٹیشن ہے ، دس منٹ میں یونیورسٹی اور سات منٹ کی چہل قدمی میں سنٹرم ( شہر کے مرکزی سکوائر) پہنچا جا سکتا ہے”
”درست کہا امّاں” ہانیہ مسکرانے لگی ”اور گاڑی ہو تو دس منٹ کی ڈرائیو میں شہر ختم ہو جاتا ہے۔ فی الحال آپ کا طالبعلم داماد اور بیٹی گاڑی افورڈ نہیں کر سکتے۔”
ارسلان اور ہانیہ کے جانے کے بعد انہوں نے معمول کے کام نمٹاۓ۔ حریم کو اچھی طرح کمبل میں لپیٹ کر بازوؤں میں اٹھایا اور سیڑھیاں اتر کرنیچے لابی میں رکھی پرام میں لٹا دیا۔ پرام دھکیلتے ہوۓ باہر نکلنے کو تھیں کہ اگنس ایک پہیوں والا فولڈنگ تھیلا لیے آتی دکھائ دی ۔
”ہاۓ۔۔ میں اگنس ہوں” اس نے ہاتھ بڑھا دیا
”میں فوزیہ ہوں ۔۔ ہانیہ کی مدر۔” انہوں نے اس کا جھریوں بھرا سفید ہاتھ تھامتے ہوۓ جواب دیا۔
”کہیں جا رہی ہو؟”
”ہاں ، ولیز تک”
”میں بھی ادھر ہی جا رہی ہوں۔ کیا میں تمہارے ساتھ چل سکتی ہوں؟”
”ضرور۔۔۔! مجھےخوشی ہو گی ” یہاں کے لوگ جلد بےتکلف ہونے والے نہ تھے مگر اگنس کا رویہ حیرت انگیز حد تک دوستانہ تھا۔ وہ دونوں باتیں کرتی ہوئی گیٹ سے باہر آ گئیں۔ اگنس نے ذرا جھک کر حریم کو پہناۓ گئے ہاتھ کے بنے سویٹر کو چھوا
”یہ تم نے بنایا ہے؟”
”نہیں اس کی گرینی نے”
”تو کیا تم اس کی گرینی نہیں ہو؟
”یہ ارسلان کی مام نے بنایا ھے۔ وہ بھی تو اس کی گرینی ہے”
”ہاں یہ تو ہے”
گروسری سے فارغ ہو کر نکلیں تو کئی چھوٹے بڑے شاپر حریم کی پرام کے ساتھ لٹک رہے تھے۔اگنس ان سے پہلے فارغ ہو کر بھرا ہوا تھیلا لیے خارجی راستے پر کھڑی مل گئی۔
”اگر تمہیں کہیں اور نہیں جانا تو کہیں بیٹھتے ہیں، آج کا دھوپ بھرا روشن دن لطف اندوز ہونے کے لیے ہے۔”وہ دونوں سنٹرم میں لگے فوارے کے قریب لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گئیں۔
”اگنس تم اتنی اچھی انگریزی کیسے بول لیتی ہو؟” انہوں نے اپنی حیرت اور تجسس کو زبان دی کیونکہ یہاں کے لوگ فرانسیسیوں اور جرمنوں کی طرح انگریزی سے نفرت تو نہ کرتے تھے مگر اچھی انگریزی بولنے والے بھی کم کم ہی تھے۔
” میرے بڑے بیٹے مارٹن کا باپ انگریز تھا۔ ہم دونوں چار سال تک ساتھ رہے۔ مارٹن ایک سال کا تھا
جب اسے انگلستان کی یاد ستانے لگی اور وہ ہمیں چھوڑ کر دفعان ہو گیا”
اگنس کے لہجے میں نفرت در آئی۔
”مارٹن کہاں ہے آج کل؟” انہوں نے جھجھکتے ہوۓ پوچھا۔ ( کہیں ایسا نہ ہو کہ مارٹن بھی اسے چھوڑ کر جا چکا ہو اور میرے پوچھنے پر مشتعل ہو کر اس کو غائبانہ لعنت ملامت کرنے لگے)
”وہ سٹاک ھوم میں ہے ۔ اکثر ملنے آتا ہے ۔ بہت نیک بچہ ہے” اس کے چہرے کی جھریوں میں ممتا لہریں لینے لگی۔
اکتوبر کی شروعات تھیں اور موسم میں ٹھنڈک شدید ہو رہی تھی۔ اجلی چاندی سی دھوپ بھرے شفّاف نیلے آسمان والےدن کم ہو رہے تھے اور اونچے پیڑوں کو کمرسے دہرا کرتی تیز سرد ہواؤں اور بادلوں بھرے آسمان والے نیم تاریک دنوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ ایسے میں ایک اوردھوپ بھرا خوشگواردن تھا جب اگنس نے ان کو اپنے ساتھ باہر چلنے کی پیشکش کی۔ وہ دونوں سنٹرم میں اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھی تھیں جب نیلے شفّاف آسمان کو تکتے ہوے انہوں نے اگنس سے پوچھا تھا
”اگنس، کیا یہ شہر صدیوں سے ایسا ہی پر سکون ہے؟”
اگنس ہنسی اور دیر تک ہنستی رہی۔’’ تم شائد یہاں کی تاریخ سے واقف نہیں ہو ورنہ تمہیں رونیبی بلڈ باتھ کے بارے میں ضرور علم ہوتا۔”
”رونیبی بلڈ باتھ ؟ غسلِ خون؟ ۔۔۔ نہیں اگنس میں اس کے بارے میں نہیں جانتی۔ پلیز مجھے اس بارے میں بتاؤ”
” وہ سامنے دیکھو ذرا !” فوزیہ نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ سامنے بنک کی عمارت کے عقب میں ایک سفید مینار راج ہنس کی مغرور گردن کی صورت بلند ہوتا تھا۔
”یہ چرچ آف ہولی کراس ہے۔ ” اگنس نے بتانا شروع کیا۔ ” سولہویں صدی کے اواخر میں جب رونیبی، ڈنمارک کا حصّہ تھا ، یہاں سات سالہ طویل خونریز طویل جنگ لڑی گئی۔ آخر کار سویڈش فوجوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔ چرچ آف ہولی کراس میں پناہ لینے والے سینکڑوں لوگ بھی قتل کر دئے گئے۔ چرچ کا ایک بڑا چوبی دروازہ جس پر کلہاڑوں کے نشان ہیں، ابھی بھی یہاں محفوظ ہے ۔ کیا تم یکھنا چاہو گی فوزیہ؟
”نہیں نہیں میں نہیں دیکھنا چاہتی ” وہ خوفزدہ سی ہو کر بولیں ۔ خواب منظر ذہن کے پردے پر جھلملانے لگے تھے۔
”غلط کہتے ہیں لوگ کہ زیادہ خونریزی مذہب کے نام پر ہوئی۔” انہوں نے تلخی سے سوچا۔ کیا یہ خونریزی مذہب کے نام پرہوئی تھی۔؟کیا لاکھوں افراد کو لقمہءاجل بنانے والی دو عالمی جنگیں مذہب کے نام پر لڑی گیئں؟کیا وسطی ایشیا سے آنے والے فاتحین مذہب کے نام پر برِّ صغیر کو روندتے رہے۔۔۔۔۔؟ اور کیا یہ انسانی خون کا رنگ ہے جو رونیبی کے لالہ وگل میں نمایاں ہے ؟ کیا تعمیر وترقّی جڑیں تباہی و بربادی سے پھوٹتی ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو یہ کلیہ میرے وطن کی سرزمین پر کیوں لاگو نہ ہوا؟
انیس سو سنتالیس کی خون آشام ہجرت سے لے کر لمحہءموجود تک کتنا لہو دھرتی میں جذب ہو چکا
مگر وطن کے عارضِ بے رنگ گلزار نہ ہوۓ۔۔
خیالات کا ایک ریلا سا چلا آتا تھا جس میں وہ ڈوبتی ابھرتی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈھلوان سڑک پر حریم کی پرام کو لشتم پشتم سنبھالتے ہوۓ وہ خود کو کوس رہی تھیں۔” خواہ مخواہ
سیدھا رستہ چھوڑ کر شارٹ کٹ لیا۔۔۔ اب خود ہی بھگتو بی بی!” انہوں نے خود کو ملامت کی ۔ایک
جگہ سڑک ذرا زیادہ ڈھلوان تھی ، پرام نے رفتار پکڑ لی اورسنبھللتے سنبھلتے آگے جانے والے
شخص کی ٹانگوں سے جا ٹکرائی۔ وہ لڑکھڑایا اور ریلنگ کا سہارا لے کرسنبھل گیا۔
” اوہ معاف کیجیے گا، آپ ٹھیک تو ہیں۔۔ چوٹ تو نہیں آئی؟”
وہ ایک جھریوں بھری گہری سانولی جلد والا آدمی تھا۔ اس کی سفید بھنویں موٹی موٹی آنکھوں پر
جھکی پڑتی تھیں۔ کوئی جواب دینے کے بجائے ایک ٹک فوزیہ کو دیکھے جاتا تھا۔
”ہائے اللہ کہیں سوsue ہی نہ کر دیں بڑے میاں” انہوں نے گھبرا کر سوچا
” دیکھیں اگر آپ کو تکلیف ہے تو میں ایمبولنس کال کروں؟” وہ پریشانی سے پوچھنے لگیں۔
”آپ فکر نہ کریں خاتون، میں بالکل ٹھیک ہوں۔”بوڑھے نےان کے چہرے سے نظر ہٹائے بغیر جواب دیا۔
”بہتر! اپنا خیال رکھیے گا۔” فوزیہ نے وہاں سے جانے میں ہی عا فیّت جانی۔ سڑک کے آخری موڑ پر بنے پارک کی طرف مڑتے ہوئے انہوں نے دیکھا، وہ بوڑھا ابھی تک وہیں کھڑا ان کی طرف تکے جاتا تھا۔ وہ کچھ الجھن سی محسوس کرنے لگیں۔
پارک میں ایک بنچ پر بیٹھ کر انہوں نے حریم کو پرام سے اٹھا کر گود میں لیا اور بیگ سے فیڈر نکال کر اس کے منہ سے لگا دیا۔ چند منٹ میں فیڈر خالی ہو گیا۔ فوزیہ نے حریم کو کندھے سے لگا کر تھپکا اور ڈکار دلا کر پرام میں لٹا دیا۔
” خاتون کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ، میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔” فوزیہ بری طرح چونک گئیں۔ وہی شخص ان کی پشت سے ہوتا ہوا سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔
”جی بیٹھئے پلیز۔ ” وہ پریشان ہو اٹھیں مگر خود کو کمپوز کرتے ہوۓ بنچ پر ایک طرف کھسک کر جگہ بنائی۔
”آپ شاید پاکستانی ہیں، کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟“ بوڑھے نے دو سوال اکٹھے ہی لڑھکا دئیے”
” جی میں یقیناً پاکستانی ہوں اور میرا نام فوزیہ عبدالرحمان ہے“ انہوں نے نہایت رسان سے دونوں سوالوں کے جواب دئیے
” میں شمس الہدیٰ ۔۔۔۔ بنگلہ دیش سے آیا ہوں۔ میرا بیٹا یہاں یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔ اس سے ملنے اکثر آتا رہتا ہوں“ اس کی آنکھیں پھر سے فوزیہ کے چہرے کا جائزہ لینے لگیں۔
”اوہ! آپ ڈاکٹر منّان کے والد ہیں“
”جی ہاں، مگر آپ کو کیسے معلوم ہوا؟“
“میرے بچّے یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ، ان سے ذکر سنا ہے“
بوڑھے کی موٹی موٹی آنکھیں فوزیہ کے چہرے سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ انہیں بے تحاشا کوفت ہونے لگی۔ ”آخر مسئلہ کیا ہے بابے کو” انہوں نے الجھ کر سوچا اور قدرے برہم ہو کر بولیں
” میرا خیال ہے کہ میری شکل آپ کے کسی جاننے والے سے ملتی ہے“
” صحیح کہا آپ نے۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں اپنے یونیورسٹی کے دوست حسن احمد اور اس کی بیوی نصرت آراء کو” وہ جیسے کہیں کھویا ہوا بول رہا تھا۔ حسن احمد کی کشادہ پیشانی اور خمدار بال اور نصرت آراء کی صبیح رنگت اور تیکھی ناک کو آپ کے چہرے پر یکجا دیکھ کر میں مبہوت ہو گیا تھا ۔آپ نے شاید برا مانا ۔۔ معافی چاہتا ہوں”
فوزیہ کا دل جیسے حلق میں دھڑکنے لگا۔ روئیں روئیں میں بے چینی لہریں لینے لگی
”کون تھے وہ لوگ؟ مجھے ان کے بارے میں کچھ بتائیں۔” وہ بے قراری سے گویا ہوئیں جیسے لمحے کے ہزارویں حصّے میں سب کچھ جان لینا چاھتی ہوں۔
”حسن احمد میرا طالب علمی کے زمانے کا دوست تھا” شمس الہدیٰ یوں خلاؤں میں دیکھتا ہوا بولا گویا گئے دنوں کو ڈھونڈتا ہو۔ ”لاہور سے تعلّق رکھنے والا خوش اخلاق، خوش رو اور ذہین نوجوان ، جس کی دوستی پر کوئی بھی فخر کر سکتا تھا۔ ہم دونوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے اکٹھے ہی پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ سِوَل سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد اس کی تعیناتی مغربی پاکستان میں ہو گئی۔ یوں بھی اس کی فیملی لاہور میں تھی۔ وہ چلا گیا مگر دلوں کے فاصلے کم نہ ہو سکے۔ ایک سال کے بعد جب اس کی شادی نصرت آرا سے ہوئی تو میں شرکت کے لیے لاہور گیا تھا۔”
فوزیہ کا وجود سراپا سماعت تھا۔
”اور پھر ستمبر 1970 میں اس کی تعیناتی ڈھاکہ میں کر دی گئی۔ وہ نصرت آراء اور ننھی گڑیا کے ہمراہ ڈھاکہ چلا آیا۔ گو حالات اچھے نہ تھے مگر وہ ہمیشہ کی طرح پرامید تھا۔”
” سب ٹھیک ہو جائے گا دوست ! بجا ہے کہ ہماری جنۤت میں سانپ گھس آئے ہیں مگر ہم ان سانپوں کو چن چن کر نکال باہر کریں گے” وہ سدا کا رجائیت پسند تھا اور ہمیشہ بہتری کی امید رکھتا تھا مگراب کی بار سانپوں نے بہروپ ہی ایسے بھرے تھے کہ پہچانے نہ جاتے تھے ۔ دوست دشمن کی پہچان ختم ہو گئی تھی۔ ایسے میں، میں اس کی سلامتی کے کے لیے متفکّر تھا۔ مجھے کچھ اطلاعات ملی تھیں
کہ اس کا خاندان دشمنوں کی ہٹ لسٹ میں شامل ہے ۔” شمس الہدیٰ نے گہری سانس بھری اور چند
لمحوں کےلیے خاموش ہو گیا۔
”پھر کیا ہوا؟ ” فوزیہ کو لمحوں کی خاموشی بھی کھل رہی تھی
”پھر جو ہوا کاش نہ ہوا ہوتا” اس کی آواز لرزنے لگی ”مجھے سرکاری کام سے دو دن کے لیے سلہٹ جانا پڑا۔ دشمن شاید اسی موقع کی تلاش میں تھے۔ حسن احمد کے گھرپر حملہ ہوا اور اس کو بیوی، والدہ اور دو نوعمر ملازماؤں سمیت بہمیّت کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو کچھ نہ بچا تھا۔ بھوکی پیاسی خوفزدہ گڑیا ایک الماری کے پیچھے چھپی ہوئی مل گئی۔ خوف اور صدمے نے اس کو گنگ کر ڈالا تھا۔ وہ ہر دم مسکرانے والی ایک گڑیا تھی۔ اگر میں کبھی اس کی پسند کا تحفہ نہ لے جاتا تومنہ پھلا کر کہا کرتی”شمسل چچا گڑیا آپ سے ناراض ہے” اب وہ بولتی ہی نہ تھی ۔ خالی خالی اجڑی نگاہوں سے مجھے یوں تکتی گویا کہتی ہو”آپ کہاں اور کیوں چلے گئے تھے شمسل چچا! گڑیا آپ سے ناراض ہے”۔
”گڑیا کا کیا ہوا پھر؟” فوزیہ نے تیز تیز چلتی سانسوں کے درمیان پوچھا۔
”میاں بیوی اورچھ بچوں پر مشتمل ایک خاندان نیپال کے راستےکراچی جا رہا تھا ۔ میں نے ان کو منّت سماجت سے راضی کر لیا کہ گڑیا کو ساتھ لے جائیں اور لاہور میں اس کے عزیزوں کو تلاش کر کے ان کے حوالے کر دیں ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے گڑیا کے خاندان کا پتہ لگانے کی زحمت ہی نہ کی اورکراچی میں لاوارث بچوں کے ادارے کے حوالے کر دیا تھا۔ پتہ نہیں اب وہ کہاں ہو گی۔ شاید وہ آپ جیسی ہو ،آپ ہی کی ہم عمر ہو اور اب تک مجھ سے ناراض ہو۔۔۔۔”
شمس الہدیٰ اٹھ کھڑا ہوا اوردھیرے دھیرے چلتا ہوا پارک سے نکل گیا۔
ہواؤں میں ایک دم تندی اور جما دینے والی ٹھنڈک در آئی تھی۔ گہرے بادلوں نے ماحول کو تاریک کر دیا تھا۔ سحرزدہ کیفیّت میں بیٹھی ہوئی فوزیہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر گیٹ کی طرف بھاگیں۔ گئے دنوں کا سراغ لانے والا مانوس اجنبی سڑک پر شکستہ چال چلا جاتا تھا۔
”شمسل چچا گڑیا آپ سے ناراض نہیں ہے” وہ وہیں کھڑے کھڑے زور سے بولیں۔ شمس الہدیٰ کے قدم تھم گئے۔ وہ انہیں قدموں تیزی سے مڑا اور فوزیہ بھاگ کر اس سے لپٹ گئیں۔
”شمسل چچا آج تک دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کی زندگی میں خون آلود دن نہ آۓ ہوں۔
مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ بلکہ میں آپ کی شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری شناخت کا معمہ حل کر دیا” وہ بہتے آنسوؤں کے درمیان کہ رہی تھیں اوربوڑھا شمس الہدیٰ ان کو سینے سے لگاۓاپنے آنسو روکنے کی کوشش بھی نہ کرتا تھا۔
****
تحریر ۔۔ منزہ نصیر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...