(Last Updated On: )
میں نے گواہوں کی تلاش میں سارا شہر چھان مارا مگر کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ انھیں عدالت میں جھوٹ نہیں بولنا تھا بلکہ سچائی بیان کرنی تھی، پھر بھی کسی کو میرے ساتھ ہمدردی نہ ہوئی۔ شاید عدالت میں سچ بولنا مشکل ہوتا ہو گا۔ نہیں تو سب کے سب انکار کیوں کرتے ؟ ہنسی خوشی میری مدد کرتے۔ کچھ مصلحتیں ضرور رہی ہوں گی کہ سب لوگوں نے انکار کر دیا۔
ہجرت کے ساتھ آدمی اپنی شناخت بھی کھو دیتا ہے اس کا تجربہ مجھے پہلی بار ہوا۔ بات در اصل یوں ہے کہ میں مہاجر ہوں، اپنی دھرتی سے اکھڑا ہوا اور اس نئے انجان شہر میں باقی ماندہ سانسیں مکمل کرنے کے لیے جی رہا ہوں۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ خود اپنا آپ بھی نہیں۔ میں اپنی پہچان پیر پنچال کے اس پار چھوڑ آیا ہوں۔ اس شہر میں میرا پھر سے جنم ہوا ہے۔۔ ۔۔ ۔ دوسرا جنم۔۔ ۔۔ ۔ اب میں کشمیری مائے گرنٹ کہلاتا ہوں۔ کوئی رفیوجی بھی کہتا ہے !
اجنبی۔۔ ۔ ! بے گھر۔۔ ۔ ! بے زمین۔۔ ۔ ! جڑوں کے بغیر۔۔ ۔ ! اب نہ میرا کوئی ماضی ہے اور نہ مورث اعلیٰ۔ اپنی دھرتی سے اکھڑ کر ہر کوئی اپنی شناخت کھوتا ہے اور پھر ایک نئی پہچان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
آبائی وطن کی بات کچھ دوسری تھی۔ وہاں ہر دوسرے موڑ پر کوئی نہ کوئی شخص ایسا ملتا تھا جو ہاتھ ہلا کر سلام کرتا اور خیر خبر پوچھ لیتا۔ یہاں آئے ہوئے پندرہ سال گزر گئے۔ ابھی تک اپنے ہمسائیوں سے پوری واقفیت نہیں ہو سکی، اجنبیوں کی تو بات ہی نہیں۔ چلتے پھرتے کوئی سلام کر بھی لے تو میں رسماً سلام کا جواب دیتا ہوں اور پھر بہت دیر تک سوچتا ہوں کہ وہ شخص جو سلام کر کے چلا گیا، کون تھا؟ شاید قصور میرا ہی ہے۔ میں بذاتہٖ دروں بیں ہوں اور میل جول پسند نہیں کرتا۔ دفتر میں بھی لوگوں سے صرف علیک سلیک ہوتی ہے، انھیں کبھی گھر کا راستہ دکھایا نہ اپنی نجی زندگی میں جھانکنے کی اجازت دی۔ میری دوستی گھر کی ڈیوڑھی پر ختم ہو جاتی ہے۔ گھر میں صرف میرا محو بالذات وجود، میرے مطالعہ کا کمرہ اور میری خود غرض محدود دنیا ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔
شاید وہ دن ہی کچھ منحوس سا تھا۔ میں اپنی طلاق کے بارے میں وکیل سے معلومات حاصل کرنے چلا گیا۔ اس نے کیس کی کامیابی کے لیے شرط رکھی کہ مجھے عدالت میں کم سے کم دو گواہ پیش کرنے پڑیں گے۔ کیس دائر کرنے سے پہلے وکیل نے اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ میں پورے دن فکر و تردّد کے اتھاہ سمندر میں غوطے لگاتا رہا۔
’’ دو گواہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ! کہاں سے لے آؤں گا؟ میں اس شہر میں اجنبی ہوں۔ نہ کوئی جان نہ پہچان۔ کون اس بات کی گواہی دے گا کہ میری اور میری بیوی کی آپس میں نہیں بنتی ہے، وہ ازدواجی مطالبات کو نظر انداز کرتی ہے اور اپنی ہی دنیا میں ہمیشہ کھوئی رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے میری زندگی تباہ ہو چکی ہے۔ کسی کو میری ذاتی زندگی سے کیا لینا دینا ؟ اس بارے میں جنھیں معلوم تھا وہ یا تو وادی میں رہ گئے یا پھر ٹوٹی ہوئی مالا کے موتیوں کی مانند بکھر گئے۔ ‘‘
جس سے اپنی طلاق کے بارے میں بات کرتا ہوں وہ کہتا ہے ’’ کیوں مذاق کر رہے ہو؟‘‘ اسے یقین ہی نہیں آتا۔ در اصل ہماری زندگی سراب کی مانند ہے۔ ہم دونوں کو جو کوئی بھی دیکھتا ہے اسے ہم پر رشک آتا ہے۔ اتنا ملن سار جوڑا دیکھ کر ہر کوئی عش عش کرتا ہے۔ شکل و صورت تو قدرت نے دونوں کو اچھی دے رکھی ہے۔ پھر پارٹیوں میں بھی کھلکھلاتے رہتے ہیں۔ باتیں کرنے میں دونوں ہی تیز طراق ہیں۔ کبھی کسی کے چہرے پر کوئی غم کی لکیر نظر نہیں آتی۔ پھر کسی کو کیسے شک ہو سکتا ہے کہ دونوں جذباتی آتش فشاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ چہرے پڑھ کر دل کی کیفیت جاننا کتنا مشکل ہے، اس بات کا احساس مجھے گھر لوٹتے وقت ہوتا ہے یا پھر اس وقت جب کوئی بزرگ ہمیں اکٹھے پا کر آشیر باد دیتا ہے کہ بھگوان نے اتنی حسین جوڑی بنائی ہے، آپ دونوں سلامت رہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب میں نے عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے۔ اس سے پہلے جہاں میری پوسٹنگ تھی وہاں پر بھی میں نے عدالت میں طلاق کی عرضی دائر کی تھی۔ وہ علاقہ جرائم کے لیے کافی بدنام تھا۔ اس لیے لوگوں کے سوچنے کے ڈھنگ میں کجروی ہونا فطری تھا۔ جس وکیل کا میں نے انتخاب کیا، اس کا طریقۂ کار بھی کچھ مشکوک تھا۔ وکیل نے عرضی میں بہت ساری تہمتیں میری بیوی کے اوپر لگا دیں اور پھر اسے عدالت میں داخل کر دیا۔ اس کے بعد مجھ سے کہنے لگا کہ طلاق میں کچھ ٹھوس ثبوت پیش کرنے پڑیں گے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کی بیوی بد چلن اور بد اخلاق ہے اور اس کے تعلقات کسی غیر مرد سے ہیں۔
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے وجود کو جھنجھوڑ دیا ہو۔ میں پریشان ہو گیا۔ جھوٹ بولنا میرے لیے نا ممکن تھا۔ میرے پاس کامنی کی بد چلنی کا کوئی ثبوت نہ تھا۔ پھر کیسے جھوٹے الزام تراش کرا س کو بھری عدالت میں بدنام کرتا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ؟ میں بہت مایوس ہو گیا۔ پھر وکیل نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو میں دو چار غنڈے بھیج کر اس کا جینا حرام کر دوں گا تاکہ وہ خود ہی باہمی طلاق کے لیے آمادہ ہو جائے۔ یہ تجویز تو پہلی تجویز کے مقابلے میں اور بھی زیادہ واہیات تھی اس لیے میں بالکل اتفاق نہ کر سکا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اس کار روائی کے بغیر طلاق لینے میں بہت دشواری ہوتی ہے خاص کر جب دوسری پارٹی طلاق دینا نہیں چاہتی ہو۔ اس نے یہ بھی تنبیہ کی کہ آپ تب تک دوسری شادی نہیں کر سکتے جب تک طلاق منظور نہ ہو گی۔ ان باتوں سے پریشان ہو کر میں نے کیس ہی واپس لے لیا۔
اس کے بعد کئی برس اور گزر گئے۔ حالات میں کہیں کوئی سدھار نہیں ہوا۔ پھر تنگ آ کر دوبارہ طلاق لینے کی ٹھان لی۔ مگر اب عمر ایسے مقام پر پہنچ چکی تھی کہ دوسری شادی کا خیال کرنا بھی عجیب سا لگتا تھا۔ تاہم آزادی سے جی تو سکتے تھے۔ جب شادی ہوئی تھی اس وقت کہاں معلوم تھا کہ ازدواج عمر قید ہوتی ہے جس سے رہائی پانا بہت مشکل ہے۔
یہاں آئے مجھے دو سال ہو گئے۔ چند روز پہلے ایک اچھے وکیل، راج ملہوترا، سے اچانک ملاقات ہوئی۔ پہلی بار جب اس کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ وہ غلط پیشے میں پھنس گیا ہے کیونکہ شکل و صورت سے وہ نہایت ہی شریف اور نیک آدمی لگ رہا تھا۔ البتہ دل میں اس بات کی تسلی ہوئی کہ وہ میرے ساتھ کوئی ہیرا پھیری نہیں کرے گا۔ میں نے سنا تھا کہ وکیلوں میں دو رخا پن اور ریاکاری ہوتی ہے۔ ایک جانب اپنے موکل کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اس کا کیس جی جان سے لڑ رہے ہیں اور دوسری جانب کیس کو مسلسل التوا میں ڈال کر فریق مخالف کی مدد کرتے ہیں تاکہ اسے پیسے کی اگاہی ہوتی رہے۔ کچھ پیشے ہوتے ہی ایسے ہیں جہاں بے ایمانی اور بددیانتی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
اس روز راج ملہوترا سے کیس کے بارے میں سرسری گفتگو ہوئی۔ پھر دوسرے روز میں نے ان کو اپنی کیس ہسٹری کی پوری فائیل بھیج دی۔ اس نے ٹیلی فون پر مجھے اگلے سوموار کو آفس بلایا۔ مقر رہ وقت پر میں راج ملہوترہ کے دفتر میں حاضر ہوا۔ اس نے گفتگو کا آغاز بڑے مہمان نواز لہجے سے کر لیا۔ ’’آپ چائے پئیں گے یا کوفی؟‘‘
’’میں چائے پی کر آیا ہوں۔ آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’اس میں تکلف کی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ تو چائے کا ٹائم ہے۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ پھر چائے چلے گی۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔
اس نے ایک آدمی کو چائے منگوانے کے لیے بھیج دیا۔ پھر میری فائیل کھولی اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’ آپ نے اپنے کیس کے بارے میں جو معلومات لکھ کر دی ہیں وہ میں پڑھ چکا ہوں۔ اور آپ کا کیس تیار کر چکا ہوں۔ کل پرسوں تک عدالت میں دائر کر لوں گا۔ ‘‘
’’ جی بہت اچھا۔ اس میں جتنی جلدی ہو سکے اتنا اچھا ہے۔ ‘‘
’’ اب آپ کو جلدی پڑ رہی ہے۔ جوانی کے بائیس سال یوں ہی ضائع کر لیے۔ یہ کام تو بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ در اصل ہماری شادی کی شروعات ہی غلط ہو گئی تھی۔ مجھے شادی کے فوراً بعد طلاق لینی چاہیے تھی۔ مگر نہ جانے کیوں اپنے والدین کی باتوں میں آ گیا۔ انھوں نے بہت کوشش کی کہ یہ شادی بنی رہے۔ مجھے بعد میں یہ احساس ہوا کہ ایک آدمی کتنی بھی یک طرفہ کوشش کرے کہ رشتہ بنا رہے، تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے فریق میں بھی اس بات کا احساس نہ جاگ اٹھے۔ کہتے ہیں نا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ‘‘
’’ ہاں کچھ بزرگوں کی عادت ہوتی ہے۔ وہ نئی نسل کی مجبوریاں نہیں سمجھتے۔ انھیں بدلے ہوئے حالات کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ‘‘
’’ در اصل ہر گھر کی اپنی ایک پرمپرا ہوتی ہے، کچھ سنسکار ہوتے ہیں، جن سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بچہ جنم لیتے وقت اپنے والدین سے نہ صرف حیاتیاتی اور جینیاتی ورثہ پاتا ہے بلکہ کئی ہزار سال کی ثقافتی اور تہذیبی میراث بھی حاصل کرتا ہے۔ میں نے کئی گھرانوں میں دیکھا ہے کہ آدمی عمر بھر گھٹتا رہے مگر کیا مجال کہ وہ اپنے والدین کی بات سے انکار یا احتجاج کرے۔ یہ اس کی تربیت اور سنسکار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ‘‘
’’ بات تو صحیح ہے۔ ہماری سبھیتا کچھ ایسی ہے کہ ہمارے بزرگ شادی کو ایک ادارہ مانتے رہے ہیں مگر جب سے نئی روشنی آئی ہے اور کنبے ٹوٹ رہے ہیں، شادی خانہ آبادی کے معنی بدل گئے ہیں جو ہمارے بزرگ نہیں سمجھ پاتے۔ ‘‘
’’ہماری برادری کی پرابلم کچھ اسی نوعیت کی ہے۔ جب تک آبائی وطن میں تھے رسم و رواج، رشتے ناتے، بڑے چھوٹے، مان مریادا اور صحیح و غلط کا پاس رہتا تھا مگر جب سے ہجرت کر لی یہ سارے قید و بند جیسے چھناکے سے ٹوٹ گئے۔ برادری کے لوگ ٹوٹی ہوئی مالا کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ قیدی پرندوں کو پنجرے سے رہا کر دو تو وہ آسمانوں میں بے تحاشہ اور بے سمت اڑتے ہیں۔ اسی طرح ہم لوگ وہ ساری اڑانیں اس تھوڑے سے وقفے میں پوری کرنا چاہتے ہیں جن سے ہم ماضی میں محروم رہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے ’’ رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا۔ ‘‘ شاید ہمارے بارے میں ہی پیش گوئی کی تھی۔ ہماری لڑکیوں نے خود کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ کوئی ایم ایس ہے، کوئی ایم ٹیک ہے اور کوئی ایم بی اے۔ انھوں نے ایک نئی، وسیع اور ترقی یافتہ دنیا دیکھی ہے۔ وہ گائے کی مانند حلیم، تابع دار اور ایذا پسند عورت بننے سے انکار کرتی ہیں اور زندگی میں برابر کا درجہ مانگ رہی ہیں۔ جو لوگ ان بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتا نہیں کر پاتے ہیں ان کی ازدواجی زندگی ڈانوا ڈول ہو رہی ہے۔ ‘‘
’’ ہاں میں نے بھی یہی محسوس کیا ہے کہ نقل مکانی کے بعد کشمیری پنڈتوں کے طلاق کیسز کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ یہاں جموں کے فیملی کورٹ میں ہر دوسرا کیس کشمیری پنڈتوں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’ وادی میں ایسا نہیں تھا۔ بے گھری قدروں کی شکست و ریخت میں بہت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ وہاں یہ اندیشہ رہتا تھا کہ اگر کوئی بھی غلط قدم اٹھایا تو سماج کی نظر پڑے گی، بدنامی ہو گی اور حقہ پانی بند ہو جائے گا۔ مگر ہجرت کے بعد یہ قصہ ہی ختم ہو گیا۔ نہ وہ نگہباں آنکھیں رہیں اور نہ ہی وہ چوکس سماج۔ نہ صرف شادیاں ٹوٹنے لگیں بلکہ قدروں میں بھی گراوٹ آ گئی۔ کھلے عام گھومنا پھرنا، جسمانی نمائش اور پہناوے میں انقلاب، سب کچھ گردباد کی طرح پھیل گیا۔ شناخت جب مٹ جاتی ہے تو قدریں بھی خود بخود مٹ جاتی ہیں۔ ‘‘
میری نظر کلائی پر بندھی گھڑی پر پڑی۔ بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس لیے وکیل سے اجازت مانگ کر میں وہاں سے چل پڑا۔ پیچھے سے آواز آئی۔ ’’ بھولیے گا نہیں۔ کم سے کم دو گواہوں کی ضرورت پڑے گی۔ جب مل جائیں گے تو ایک بار میرے پاس لے آئیے تاکہ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے میں ان کو کچھ ہدایات دے دوں۔ ‘‘
اس کے بعد میں گواہ ڈھونڈتا رہا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس سے کہوں اور کون مان لے گا۔ دفتر میں کسی سے بات کرنا مناسب نہ تھا۔ وہ میرے ماتحت تھے اور میری عزت کرتے تھے اس لیے ان کو اپنی ذاتی زندگی کی غلاظتوں میں شامل کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔ اور پھر یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ کسی سے کہوں اور وہ نا کہے یا پھر پہلو تہی کرے تو میری کوئی عزت نہیں رہے گی۔ اس لیے اس بارے میں سوچنا ہی فضول تھا۔
رہی رشتے داروں کی بات۔ ان میں سے بالراست کسی سے التماس نہیں کی البتہ سب کو اشارتاً یہ کہا کہ مجھے دو گواہوں کی ضرورت ہے۔ سوچا کہ اگر کسی کو مجھ سے ہمدردی ہو گی تو وہ رضاکارانہ طور پر خود ہی سامنے آئے گا۔ بات شروع کرنے سے پہلے لمبی چوڑی تمہید باندھ لیتا، کیس کے بارے میں ساری جانکاری دیتا اور آخر میں کہتا کہ اب کیس اس سٹیج پر پہنچا ہے کہ مجھے دو گواہ چاہئیں جو عدالت میں میری بیوی کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں۔ اس مرحلے پر سب نے سنی ان سنی کر کے منہ پھیر دیا۔ ایک قریبی رشتے دار سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا وہ کسی کے پھٹے میں پاؤں نہیں دیتا۔ تاہم کہنے میں کیا ہرج تھا، زیادہ سے زیادہ ’ناں ‘ کہہ دیتا۔ اور ہوا بھی ویسا ہی، اس نے ساری کہانی سن لی، میرے ساتھ پوری ہمدردی جتائی مگر گواہی کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔ پھر ایک اور رشتے دار کے پاس حاضری دی۔ اس سے بہت امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ اسی نے مجھے عدالت میں کیس کرنے کے لیے نہ صرف اکسایا تھا بلکہ ایک جانے پہچانے وکیل سے بھی ملوایا تھا۔ بعد میں اپنی حرکت پر نظر ثانی کر کے وہ بھی مُکر گیا۔ شاید اسے احساس ہوا کہ اسے اسی بہو کے خلاف گواہی دینے پڑے گی جو اس کی خاطر تواضع کیا کرتی تھی اور اگر کل کو میاں بیوی کاسمجھوتا ہو گیا تووہ خواہ مخواہ دشمن بن جائے گا۔ اسی خود غرضی نے اسے باز رکھا۔
جب اور کوئی رشتے دار نظر نہیں آیا تو دوستوں کی طرف رخ کر لیا۔ آبائی وطن میں ہوتا تو دوستوں کی کوئی کمی نہ تھی مگر یہاں تو چند ہی ایسے دوست تھے جو قریبی کہلانے کے لائق تو نہ تھے مگر فہرست میں شامل تھے۔ منوہر لال کے ساتھ میرے بہت پرانے مراسم تھے۔ جا کر اسے گھر پر ملا اور اپنی پرابلم سے آگاہ کیا۔ پھر اس سے براہ راست التجا کی: ’’ یار میری خواہش ہے کہ تم میری جانب سے عدالت میں شہادت دو۔ وہاں تمھیں زیادہ کچھ نہیں بولنا پڑے گا۔ بس میری ازدواجی زندگی سے متعلق دو تین سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔ چونکہ تم میری ذاتی زندگی سے بخوبی واقف ہو اس لیے تمھیں یہ کام کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ‘‘
منوہر لال کچھ دیر کے لیے چُپ رہا اور پھر بول اٹھا۔ ’’ اس بارے میں مجھے سوچنا پڑے گا۔ میں کل تک تمھیں جواب دوں گا۔ ‘‘
اس وقت منوہر لال کا جواب نہ دینا انکار کے برابر تھا۔ دونوں کو احساس تھا کہ وہ کل کبھی نہیں آئے گا۔ میں زیادہ کچھ کہے بغیر وہاں سے چل پڑا۔
نراش ہو کر میں وکیل سے ملنے چلا گیا۔ وہ میرا انتظار کر رہا تھا کیونکہ کیس عدالت میں داخل کر دیا گیا تھا اور اب اس کی پیشی لگنے والی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں ان دونوں گواہوں کی ضرورت پڑتی۔ وکیل نے سب سے پہلے یہی پوچھا کہ گواہوں کا انتظام ہوا یا نہیں۔ میں نے نفی میں جواب دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اگر گواہوں کے بغیر کوئی اڑچن آتی ہے تو کیس واپس لے لیں۔ لاچاری کے سبب میں پوری طرح نا امید ہو چکا تھا۔ مگر وکیل صاحب نے ہمت بندھائی اور کہنے لگے۔ ’’ آپ اس بات کی فکر نہ کیجیے۔ آپ کو گواہ نہ ملے، مجھے تو مل جائیں گے۔ گواہوں کا کیا ہے عدالت کے باہر کتنے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ کیا مطلب ؟ میں سمجھا نہیں۔ ‘‘
’’ گواہ تلاشے نہیں جاتے بلکہ خریدے جاتے ہیں۔ تھوڑا اور روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ ‘‘
’’ آپ کا مطلب کہ گواہ بکاؤ ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’ جی ہاں، زندگی کا ہر شعبہ بکاؤ ہے۔ انتظامیہ۔۔ ۔ قانون سازیہ۔۔ ۔ عدلیہ۔۔ ۔ !سب کچھ۔
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے نئی آشا کی کرن دکھائی ہو۔ میں نے پوچھا۔ ’’ وہ کیسے ؟‘‘
’’ ارے صاحب یہ کورٹ کچہری ہے۔ یہاں تو ایسی گواہیاں ہر روز دی جاتی ہیں۔ آپ چنتا نہ کریں۔ میں دو پیشہ ور گواہوں سے بات کر لوں گا۔ یہ تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ تو فوجداری مقدموں میں گواہیاں دیتے ہیں، دیوانی مقدموں کی تو بات ہی نہیں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ آپ جو مناسب سمجھیں، کر لیجیے۔ ‘‘
’’ ہر ایک گواہ کو پانچ ہزار روپے دینے پڑیں گے۔ ‘‘
میری جان میں جان آئی۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ نہ جانے چالیس پچاس ہزار کا چونا لگ جائے گا۔ تاہم میں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا اور رسماً بول اٹھا۔ ’’ ہو سکے تو اس سے کم کروانے کی کوشش کر لیجیے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میری کوئی بالائی آمدنی نہیں ہے۔ سب کچھ تنخواہ پرہی نربھر ہے۔ ‘‘
’’ آپ فکر مت کیجیے، مجھ سے جتنا ہو سکے گا، کم کرا دوں گا۔ ‘‘
اور میں وہاں سے نچنت ہو کر واپس چلا آیا۔
مہینے بھر کے بعد دونوں گواہوں کو کورٹ میں پیش کیا گیا۔ میں بھی وہیں پر موجود تھا۔ ان سے میری نجی زندگی کے بارے میں کئی سوالات پوچھے گئے جن کے بارے میں انھیں پہلے سے جانکاری مہیا کی گئی تھی۔ انھوں نے بلا روک ٹوک جواب دے دیے اوراس طرح دونوں کی گواہی ریکارڈ کر لی گئی۔
اس کے بعد بھی مجھے کئی بار عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ میری بیوی ہندستان چھوڑ کر دبئی چلی گئی تھی۔ عدالت کا نوٹس اس کے پچھلے ایڈریس پر دو تین بار بھیج دیا گیا مگر وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئی۔
انجام کار کیس یک طرفہ سنا گیا اور میرے حق میں فیصلہ صادر ہوا۔ اور وہ بھی ان دو گواہوں کی گواہی پر جنھوں نے مجھے اس روزسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔
****
دیپک بدکی
دیپک بدکی