(Last Updated On: )
کالے خان کا جواب سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ اُس نے پھر ایک بار کالے خان کی طرف دیکھا ، لیکن وہ اپنے کام میں مصروف ہو چکا تھا اور اُس کی اُنگلیاں نئے ٹریکٹر کے اسٹیرنگ سے کھیل رہی تھیں ۔ وہ تیزی سے پلٹا لیکن اُس کے قدموں کی رفتار بہت دھیمی تھی ۔ جیسے اُسے اُمید تھی کہ کالے خان اُسے پھر آواز دے گا ۔
وہ اُسی طرح چلتا رہا اور اُس کے کانوں سے کوئی آواز ٹکرائی نہیں ۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے لہلہاتی فصل تھی اور وہ پگڈنڈی پر دھیرے دھیرے قدم اُٹھا رہا تھا ۔ دور کھڑا بجو کا اُسے منہ چڑھا نے لگا ۔ اُس نے مٹی کا ایک ڈھیلا اُٹھایا اور چاہتا تھا کہ اُسے دے مارے ۔ تب ہی کسی نے کہا ، ’’ رحیمو ۔۔۔ اسے مارنے سے پھائدہ ؟ ‘‘
اُس کا ہاتھ رک گیا ۔ اُس نے حقارت سے بجوکا کی طرف دیکھا ، لیکن اس بار بجوکا وہاں نہیں موجود تھا ، بلکہ اُس کی جگہ وہ خود دانت اِچکے کھڑا تھا ۔
’’ مارو ۔۔۔ مارو ۔۔۔ رک کیوں گئے ؟ تم میں اور مجھ میں پھرک ہی کیا ہے ؟ میں ایک جگہ کھڑا ہوں اور تم چل پھر سکتے ہو ۔۔یہی نا ۔۔؟ مگر تمہاری حیثیت کیا ہے ؟ وہی بجوکا ؟ ‘‘
اور پھر اُس کے کانوں میں گردان شروع ہوگئی ، بجوکا ، بجوکا ، بجوکا۔۔ بجو ۔۔۔کا ۔۔۔ وہ بے تحاشہ بھاگنے لگا ، آوازیں اُس کا پیچھا کرنے لگیں ۔ اُس نے اپنی رفتار بڑھالی ، آوازوں کا حصار اور تنگ ہوگیا ۔ وہ بھاگتا رہا ۔۔۔ بھاگتا رہا ۔۔ یہاں تک کہ سرجے راو کے کھیتوں میں داخل ہوگیا ۔ دور بندھارے کے نیچے ندی بہہ رہی تھی ، اور املی کے قدآور پیڑ تلے فاطمہ خالہ آرام کر رہی تھیں ۔ اُس کا دل بے اختیار چاہا کہ اُن کے پاس پہنچے اور اُن کی گٹھڑی کو اُٹھا کر ندی میں پھینک دے ، کیونکہ وہ جب جب بھی اُسے کھولتی ہیں ،پرانے قصے اُن کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں ۔ ۔ پتہ نہیں کیاکیاباندھ رکھا ہے اپنی گٹھڑی میں ۔۔۔ وہ اُن کے پاس پہنچا اور چاہتا تھا کہ جلدی سے وہاں سے گزر جائے ، لیکن بوڑھی نے اُسے دیکھ لیا، ’’ رحیمو ۔۔۔ اے چھوکرے کدھر سے آرہا ہے ۔ ؟ ‘‘
وہ پلٹا اور بولا ، ’’ فاطمہ خالہ تمہاری گٹھڑی میں باندھنے جیسی کوئی بات میرے پاس نہیں ہے ۔ ‘‘
بڑھیا نے برا سا منہ بنایا اور گٹھڑی کو اپنی گود میں اُٹھالیا ۔ رحیمو کے دل کی بات اُس کے دماغ میں آگئی اور اُس نے بڑھیا کی گٹھڑی کو چھیننا چاہا ، دونوں میں چھینا جھپٹی شروع ہو گئی ۔ بڑھیا اُسے ڈانٹ بھی رہی تھی اور التجائیں بھی کر رہی تھیں کہ اُسے چھوڑ دے ۔۔۔ یہ کھل جائے گی تو سب کچھ بکھر جائے گا ۔ ۔۔ لیکن وہ اُسی طرح ستاتا رہا ، یہاں تک کہ اُس میں سے ایک کارتوس نیچے گر پڑا ۔ اُس نے گٹھڑی کو چھوڑ دیا اور کارتوس کو اُٹھالیا اور پوچھا ، ’’ فاطمہ خالہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ کیا ہے ؟ ‘‘
’’ بندوق کی گولی ۔ تیرے ماموں کریم الدین کی ہے ۔ ‘‘
’’ کیا ۔۔۔ ؟ ‘‘ اُس کے کانوں میں تیتروں کی آوازیں گونجنے لگیں، ’’ کِڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ بڑے ماموں ۔۔۔ بندوق ۔۔۔ ‘‘ اُس نے حیرت سے فاطمہ خالہ کی طرف دیکھا ، اور پھر خود بھی اُن کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ، ’’ خالہ ۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہو تم ۔۔۔ ؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ پہلے وہ اس طرح تیتر بٹیر کا دیوانہ نہیں تھا ۔ بڑا شکاری تھی ۔ شیر کا شکاری ۔۔۔ جب وہ کاندھے پر بندوق لٹکا کر گڑھی سے باہر نکلتا تو کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اُسے آنکھ اُٹھاکر دیکھے ۔۔۔ بڑا بانکا جوان تھا تیرا ماموں ۔۔ ‘‘
بڑے ماموں کے بارے میں کہی جانے والی یہ باتیں اُسے بہت اچھی لگ رہی تھیں ، کیونکہ اُسے تو اُن کا بس ایک ہی روپ معلوم تھا ۔ وہ اور تیتر ۔۔۔ ان پرندوں کی خاطر اُنھوں نے سب سے ناطہ توڑ لیا تھا ، اور لوگ اُنھیں محض اسی شوق کے باعث برا بھلا کہتے تھے ۔
’’ فاطمہ خالہ میرے ماموں شیر کا شکار کرتے تھے ۔ ؟ ‘‘
’’ ارے وہ خود پہلے سچ مچ کا شیر تھا ۔۔۔ ! ‘‘ بوڑھیا کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ، لیکن جب اُس نے رحیمو کو شش و پنج میں ڈوبتا اُبھرتا دیکھا تو بولی ، ’’ کیوں رے ۔۔۔ تجھے میری باتوں پر یقین نہیں آرہا ہے ؟ ‘‘
رحیمو نے دیدے مٹکائے ۔ وہ پوری کوشش کے ساتھ یقین کی منزل تک پہنچتا ، لیکن اُسی وقت اُس کے دماغ پر ماموں کا کوئی تیتر چونچ مارتا ، اور اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتیں ۔ وہ یقین کرتا بھی تو کیسے ؟ ساری زندگی پیٹھ پر پھانج ( تیتروں کے پکڑنے کا جالا ) لادے ماموں کے ساتھ تیتروں کے شکار پر جانے والا رحیمو سخت تدبذب کا شکار ہو گیا تھا ۔
’’ ارے ایک نہیں ۔۔۔ اُس نے تو کئی شیر مارے تھے ۔ ۔۔ وہ زمانہ تیرے نا نا کا تھا ۔ بہت بڑی کھیتی تھی ، روپیہ ، پیسہ تھا ۔ کریم الدین نے جوانی میں قدم رکھا تھا ۔ ایک دن مچل گیا کہ بس بندوق دلادو ۔۔۔ باپ نے سمجھانا چاہا تو وہ غصے سے بپھر گیا ۔ گاوں کے بڑے بڑے لوگ اُسے سمجھانے آئے ، مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا ۔۔۔ ‘‘
’’ میرا ماموں ضدی بھی تھا ؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ بڑا ضدی تھا ۔ گاوں کے سر پہنچ، بدری سیٹھ، اوپند راؤ وکیل ، اور نہ جانے کون کون اُسے سمجھانے آئے تھے ۔ ‘‘
’’ اتنے بڑے بڑے لوگ ہماری گڑھی میں آتے تھے ؟ ‘‘ اُس کی آنکھیں پھر حیرت سے پھیل گئیں ۔ ۔ فاطمہ خالہ کی زبان اُسی طرح چل رہی تھی ۔ ، لیکن وہ وہاں پر ہوتے ہوئے بھی کہیں اور تھا ۔
بھیرو با کے مندر کے ایک طرف گھسڑی لوگ اُترے تھے ۔ اور دوسری طرف پھانس پاردیوں کی جوان عورتیں ننگ دھڑنگ نہانے دھونے میں مگن تھیں ۔ پھٹے پرانے کپڑوں سے بنے ہوئے خیموں کے باہر چولھے گرم تھے ۔ بوڑھی عورتیں کھانا پکارہی تھیں ۔ اُن کے سامنے نو عمر بچے جرمن کی رکابیاں بجا رہے تھے ۔ دونوں قبیلوں کے درمیان بچی ہوئی زمین پر بڑے ماموں، گھسڑی اور پھانس پاردیوں کے در میان بیٹھے ہوئے تھے ۔ پنجرے کھلے ہوئے تھے اور تیتروں کے درمیان زبردست لڑائی جاری تھی ۔ پنجروں کے دوسرے حصوں میں قید اُن کی مادائیں لڑتے ہوئے تیتروں کی ڈھارس بندھا رہی تھیں ۔۔۔ کِڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔کڑک کا کا کا ۔۔ ۔ اور ان آوازوں میں کبھی کبھار بازیگروں کی آوامیں بھی اُ بھر جاتیں
’’ واہ میاں شیرو ۔۔۔
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔
’’ چھوڑنا مت پٹھے ۔ ۔۔‘‘
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا
’’ راجو پیچھو سے ہٹنے کا نہیں ۔ اور جور لگا کے ۔۔۔ راجو ۔۔۔
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا
’’ ارے راجا جیسے پرندے کبھی میریے شیرو کے مقابل ٹھہرے بھی ؟ چل شیرو ۔۔۔۔
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا
’’ اور جب اُس کے بندوق کی گولی چلی ، شیر وہیں ڈھیر ہوگیا ۔ ۔۔ ‘‘
’’ ایسا نہیں ہو سکتا فاطمہ خالہ ۔۔۔ ‘‘ رحیمو اپنے آپ میں واپس آگیا تھا ، ’’ ماموں کا شیرو کبھی ڈھیر نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘
’’ ماموں کا شیرو ؟ ‘‘ فاطمہ خالہ نے اُس کی طرف حیرت سے دیکھا ، ’’ ارے چھوکرے کیسے کیسے خطرناک شیروں کا شکار کیا تھا اُس نے ۔ ‘‘
’’ میں تو اُن کے تیتر ، شیرو کی بات کر رہا تھا ۔ ‘‘ رحیمو اپنے آپ میں شرمندگی سی محسوس کر رہا تھا ۔
’’ خدا غارت کرے ان تیتروں کو ۔۔۔ ان کا شوق تو اُسے اُس وقت ہوا جب پولیس ایکشن میں اُس کی بندوق چھین لی گئی تھی ۔ اور بندوق کیا چھینی گئی ، گڑھی رئیسوں سے خالی ہو گئی اور اُن کی جگہ پہنچے یہ لچے ، گھسڑی، گونڈ ، پھانس پاردی ، کیکاڑی اور نہ جانے کون کون ۔۔۔ مگر معلوم ایک بار تو ۔۔۔ ‘‘
’’ بس رہنے دو خالہ ۔۔۔ ‘‘ اُس نے بات کاٹی اور بندوق کی گولی واپس کرتے ہوئے بولا ، ’’ اسے پھر سے اپنی گٹھڑی میں رکھ لو ۔۔ ۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ ‘‘
’’ پاگل ہو گیا کیا ؟ ‘‘
’’ کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔ ‘‘ وہ وہاں سے بھاگ نکلا ۔
’’ مگر سن تو سہی ۔۔۔ ‘‘
اُس نے بھاگتے بھاگتے انکار میں گردن ہلائی ، دائیں بائیں لہلہاتی فصلوں سے شڑ شڑ شڑ کی آوازیں اُبھر رہی تھیں ۔ اور کھیتوں کے درمیان کھڑے ہوئے بجوکے اُس سے دور ہوتے جا رہے تھے ۔ وہ بھاگتے بھاگتے ندی کے دوسرے کنارے کی طرف نکل گیا ۔ اُس کی سانس پھولنے لگی ۔ سیندھی کے اونچے اونچے درختوں کے اُس طرف گنّے کے کھیت تھے ۔ اُس کے نتھنوں میں گڑ کی مٹھاس مہکنے لگی ۔ اُس نے نظریں اُٹھائیں ، دھویں کے بادل ہواوں کے دوش پر تھرک رہے تھے ۔ اور لوگ نعرے لگا رہے تھے ، ’’ بولو نول گیر مہاراج کی جئے ۔ ‘‘ گُڑ کی تازہ کڑھائی اُتر گئی شاید۔۔ اُس کے منہ میں پانی بھر آیا اور پھر وہ اپنی راہ کو چھوڑ کر گڑ کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف بڑھنے لگا ۔
’’ آو رحیمو ۔۔۔ کھاؤ باپ کا مال ہے ۔ ۔۔۔ ‘‘
اُس نے گرم گرم کڑھائی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۔
’’ گدھے کی اولاد ۔۔۔ ! ‘‘ زمین دار کی گرج دار آواز سنائی دی ، ’’ پتہ نہیں کیسے پہنچ جاتے ہیں یہ لوگ ۔۔۔ کیوں رے ۔۔ تمہارے کانوں میں کوئی اذان دیتا ہے کیا ۔۔۔ ؟ ‘‘
اُس نے گردن اُٹھائی اور اُس کے ذہن نے کہا ۔۔۔ بجوکا ۔۔۔
’’ اب سوچ کیا رہا ہے ۔۔۔ آگیا تو کھالے ۔ ‘’
اُس نے جلدی سے گرم گرم گڑ کا ایک لنڈا بنایا اور اُسے فوراً منہ میں ڈال دیا ، زبان پر تڑاخہ بیٹھا ، لیکن گڑ کی مٹھاس سے حلق بھیگ گیا ۔ اُسے عجیب سا مزہ محسوس ہوا ، اور پھر وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا ۔
’’ رحیمو ۔۔۔ وہ تیرا تیتر باز ماموں کبھی گڑھی سے باہر بھی نکلتا ہے ؟ ‘‘
رحیمو کو اپنے ماموں کے بارے میں کہے جانے والے یہ الفاظ بہت گراں گزرے ۔ اُس کی طبیعت بے اختیار چاہی کہ بوڑھے زمیندار کو کرارا جواب دے دے ۔ اُس نے اِدھراُدھر پھیلے ہوئے وسیع کھیتوں کی طرف دیکھا ۔۔۔ فاطمہ خالہ تم جھوٹی ہو ، ماموں کی بندوق کی گولی سے کوئی شیر ڈھیر نہیں ہوا ، ورنہ میرے ہی ماموں کی جائداد پر نا جائز قبضہ کرنے والا یہ بھیڑیا کبھی اس طرح کھلے عام دندناتا ہوا نہ پھرتا ۔۔۔ وہ زہر کا گھونٹ پی کر چپ چاپ وہاں سے اُٹھ گیا ۔
’’ کیوں رے گدھے کی اولاد ۔۔۔ پیٹ بھر گیا ۔ ؟ ‘‘
وہ انجان بن گیا اور پانی کے کنویں کی طرف قدم اُٹھانے لگا اور زمیندار اپنے کسی مزدور سے کہہ رہا تھا ، ’’ ان لوگوں کا پیٹ تو بھر جاتا ہے ۔۔۔ مگر نیت نہیں بھرتی ۔ ‘‘
اُس نے پلٹ کر دیکھا وہ گڑ کی بھیلیوں کے انبار پر ہاتھ رکھے اگلی کڑھائی کے چڑھانے کا حکم دے رہا تھا ، اور اُس کی زبان مغلظات بک رہی تھی ۔ رحیمو نے اندر جھانک کر دیکھا ، پانی ساکت تھا اور اُس کی اپنی شبیہ اُسے منہ چڑھا رہی تھی ۔ ۔۔ گدھے کی اولاد پانی پی اور گڑھی کی طرف بھاگ ۔ ۔۔۔
وہ پھر ایک بار کچی پکی پگڈنڈیوں سے گزر رہا تھا ۔ اب اُس کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ وہ ماموں کو کیا جواب دے ۔ وہی بات جو کالے خان نے کہی تھی ،یا پھر ماموں کے اطمینان کے کمبل کو اُسی طرح عزت سے ڈھکا رہنے دے ۔ ۔۔ یہی تو ماموں کا سب سے بڑا غرور تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ لوگ اب بھی اُنھیں بنا بندوق اور گولیوں کے بڑا شکاری سمجھتے ہیں ۔ اُن کی بات کو کوئی ٹال نہیں سکتا ، لیکن ماموں کو کون سمجھائے کہ اب انسانوں کے چہروں پر ایسی آنکھیں آگئی ہیں جو گڑھی کے باہر کھڑے رہ کر بھی اندر کا حال دیکھ لیتی ہیں ۔۔۔ وہ بوجھل قدموں سے چل رہا تھا ۔
گڑھی کے باہر کنویں پر محلے کی عورتیں لٹکی ہوئی پانی کھینچ رہی تھیں ، اور چر خی عروج و زوال لی دھن بجاتے بجاتے اب بے سُری ہوچکی تھی ۔ وہ جونہی گڑھی میں داخل ہوا ماموں کو چارپائی پر آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا پایا ۔ سامنے کی دیوار پر لٹکے ہوئے پنجرے میں بند تیتروں کا جوڑا اُنھیں ٹکٹکی باندھے گھور رہا تھا ۔ اُس کی آہٹ پاتے ہی اُنھوں نے شور مچانا شروع کر دیا ۔
ماموں اُٹھ بیٹھے ۔ پلٹ کر دیکھا تو رحیمو کھڑا تھا ۔ اُس کے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر اُنھوں نے کوئی سوال نہیں کیا ، لیکن تیتروں کے بھڑکنے پر وہ غصہ ضرور ہوئے ، ’’ کم بخت ہزار مرتبہ تجھ سے کہا ہے کہ تیتروں کے سامنے ایک دم مت آیا کر ، مگر تیری سمجھ میںنہیں آتا ۔ ‘‘
’’ ماموں گھسڑی کے تیتر سے اپنا یہی پٹھا لڑے گا کیا ؟ ‘‘
ماموں کی نظریں بے اختیار گڑھی کی دیواروں کا جائزہ لینے لگی ۔ مٹی کی اونچی اونچی دیواروں پر اب صرف کھونٹیاں ہی رہ گئی تھیں ۔ اُن کے منہ سے ایک ٹھنڈی آہ نکلی ، ’’ ہاں ۔۔۔ یہی ایک جوڑا تو رہ گیا ہے اب میرے پاس ۔۔۔ ‘‘
’’ ماموں اُس کے تیتروں کو میں دیکھ کر آرہا ہوں ۔ ۔۔ اپنا پٹھا تو اُن کے سامنے بالکل بچہ نظر آتا ہے ۔ ‘‘
’’ ہاں۔۔۔ میں نے بھی دیکھا ہے ۔۔۔‘‘ ماموں کی نظریں زمین میں گڑ گئیں ، ’’ بہت تگڑے پرندے ہیں اُس کے پاس ۔ ‘‘
’’ گھسڑی کے سارے ہی تیتر جھاپی نسل کے ہیں اور اپنا کنتری ہے ، کوئی جوڑ نہیں ہے ماموں ۔ ۔۔ بس چونچ ملاتے ہی بِدک کر اُڑ جائے گا اپنا پٹھا ۔ ‘‘
ماموں نے قہر آلود نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تو وہ گھبراگیا ، اور ڈرتے ڈرتے بولا ، ’’ ایسا وہ بولتا تھا ماموں ۔۔۔ وہ شرفو کا بچہ۔۔۔ باغبان کی اولاد ۔۔۔ ‘‘
رحیمو ماموں کے غصے سے واقف تھا ۔ اُس نے ہمت کرکے اُن کی آنکھوں میں جھانکا ، تو اُسے محسوس ہوا جیسے تیتروں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی ہے اور پٹھا جوش میں اپنی آنکھوں کو گول گول گھما رہا ہے ۔ ڈر کے مارے اُس نے اپنی نظریں نیچی کرلیں ۔ ماموں نے زور سے اپنے ہی ہاتھ پر گھونسہ مارا اور وہ وہاں سے بھاگ نکلا ،
وہ گاوں کی گلیوں میں بے مقصد گھومنے لگا ۔ اُس کے دماغ میں اب بھی فاطمہ خالہ کی باتیں ، گھسڑی کے تیتر ، کالے خان کے الفاظ اور زمیندار کی گرکیاں گردش کر رہی تھیں ۔ ایک لمحے کے لیے اُس کے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ کسی طرح ماموں کی بندوق حاصل کرلے اور پل بھر میں سارا نقشہ ہی بدل دے ۔ ۔۔لیکن تب ہی اُس کی آنکھوں میں بجوکا آکر کھڑا ہوگیا ، گدھے کی اولاد کیا کیا سوچ رہا ہے ؟ اور وہ خاموشی سے قدم اُٹھانے لگا ۔
’’ اے رحیمو ۔۔۔ ادھر آ ۔ ‘‘ اُس نے آواز کی طرف پلٹ کر دیکھا، کاشی ناتھ حجام پیڑ کے نیچے اپنی ڈھوپٹی کھولے بیٹھا تھی ، ’’ کیوں رے ۔۔۔ بہت دنوں سے بال نہیں کٹوایا ۔۔۔ جرا آئینہ دیکھ کتنی بڑھ گئیں ہیں تیری ببریاں ۔ ‘‘
اُس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھی ، واقعی اُس کے بال ٹوپی سے باہر لٹک رہے تھے ، ’’ بنائیں گے مہاراج ، بنائیں گے ۔ ‘‘
’’ ابے گدھے کی اولاد ۔۔۔ تو کیا بال کٹوائے گا ۔؟ ‘‘
اُس نے نظریں سامنے کیں ، پنساری کا پوتا خورشید اُس کے قریب پہنچ گیا ، ’’ بیٹے بال کٹوانے لگتے ہیں پیسے ۔ ‘‘
رحیمو کو خورشید کا یہ طنز بہت بُرا لگا ۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دے ، لیکن اُس کے اونچے پورے قد کو دیکھ کر وہ بے بس ہوگیا ، مگر بندوق کی گولی کی طرح اُس کی زبان سے نکلا ، ’’ معلوم ہے میرے کو۔۔۔ ارے ماموں ہے تو کیا کمی ہے میرے کو ۔ ‘‘
’’ کیا بولا ۔۔۔ ؟ ذرا پھر سے بول ۔ ‘‘ خورشید نے قہقہہ لگایا ، ’’ سن رہا ہے نا تو کاشی ناتھ ۔۔۔ یہ گدھے کی اولاد ، اُس تیتر باز پر ناز کر رہا ہے ۔ جس نے اپنی اولاد کے لیے بھی کبھی کچھ نہیں کیا ۔ ۔۔ ابے ہوش کے ناخن لے ، کہاں اُس کے پیچھے اپنی زندگی برباد کر رہا ہے ۔ ۔۔۔ کون ہے اب اُس کے پاس ؟ ‘‘
’’ نہیں ہے تو نہیں ہے ۔۔۔ میں تو ہوں ۔۔۔ تیرے کو کیا معلوم وہ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔ ‘‘ رحیمو کی آنکھوں میں اُس کا پورا بچپن اور ماموں کی محبت کے ان کہے کتنے ہی جذبے گزر گئے ۔ اُسے سچ مچ اپنے ماموں پر فخر ہونے لگا ۔
’’ ابے گدھے کی اولاد ۔۔۔ معلوم ہے کتنی محبت ہے تجھ سے اُسے ؟ باپ نے تیری ماں کو نکال دیا تھا اور اُس نے مرنے سے پہلے تجھے گڑھی میں چھوڑ دیا تھا ، اور تیرے ماموں نے تجھے ایسا ہی پال لیا تھا جیسے وہ تیتر پالتا ہے ۔ ۔۔ سمجھا ؟ ارے اگر اُسے تجھ سے محبت ہوتی تو کیا تجھے بھی پڑھا لکھا کر کام کا آدمی نہیں بناتا ؟ مگر اُسے دلچسپی تو تھی اپنے تیتروں سے اور آج بھی اُسے محبت ہے تو اپنے تیتروں سے ۔ ورنہ سوچ تیرے ماموں کو اُس کے بیٹے اس طرح گڑھی میں اکیلا چھوڑ کر شہر بساتے ۔۔۔؟ ‘‘
رحیمو کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ اب بھی نہیں سمجھ رہا تھا کہ آخر وہ کس بات پر رو رہا ہے ؟ اپنی پرورش پر یا اپنے ماموں کی تنہائی پر یا اپنہ ماموں زاد بھائیوں کی بے رُخی پر ، اُس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے کاشی ناتھ کی طرف دیکھا ، جس کے سامنے خورشید بال بنانے بیٹھ چکا تھا ۔
’’ ابے روتا کیوں ہے ۔۔۔؟ جا اور جاکر اپنے ماموں سے پوچھ لے ۔۔۔ اور سن اُن سے یہ بھی کہدینا کہ ماموں میرے سر کے بال بہت بڑھ گئے ہیں ۔ ان کا کیا کروں ؟ ‘‘ کاشی ناتھ نے ایک ہاتھ سے خورشید کی گردن جھکائی اور دوسرے ہاتھ سے اُسترا چلانے لگا ۔
رحیمو وہاں سے پھر ایک بار گڑھی کی طرف بڑھا ۔ اُسے اپنے وجود سے نفرت سی ہونے لگی ۔ ساری زندگی لوگوں کی گالیاں کھانے والے رحیمو کو پہلی بار اپنے حقیر ہونے کا احساس شدت سے ہونے لگا ۔ اُسے اپنے باپ پر بھی بہت غصہ آیا لیکن اُسے تو اُس کا چہرہ تک یاد نہیں رہا تھا ، ہاں البتہ آبادگڑھی کے ڈھیر سارے برتن مانجنے والے اور اُسے جھوٹن کھلانے والے ماں کے ہاتھ یاد آگئے ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
جس وقت وہ گڑھی میں داخل ہوا ، قندیل کی روشنی پھیل چکی تھی ۔ تیتروں کے پنجرے پر خلاف چڑھ چکا تھا ، اور ماموں مصلا بچھائے خدا کے حضور جھکے ہوئے تھے ۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔ اُس کی نظریں کبھی تیتروں کے پنجرے پر ٹھہرتیں اور کبھی ماموں کی طرف اُٹھ جاتیں، اور کبھی وہ چھت کو گھورنے لگتا ۔
نماز سے فارغ ہوکر ماموں نے رحیمو کی طرف دیکھا ، تو اُس نے نظریں جھلا لیں ۔ ماموں کو اُس کی سعادت مندی پر بڑا پیار آیا ۔ وہ اُس کے پاس پہنچے اور پوچھا ، ’’ کیا بات ہے رحیمو ۔۔۔ با با تیری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ ‘‘
ماموں کے محبت بھرے الفاظ سن کر اُس کے صبر کا دامن تار تار ہوگیا ،اور وہ بے اختیار ماموں سے لپٹ کر زور زور سے رونے لگا ، ’’ ماموں ۔۔۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم نے مجھے کسی تیتر کی طرح پالا ہے ۔۔۔؟ ماموں کیا تم کو مجھ سے کوئی محبت نہیں ہے ۔ ۔۔ ماموں ۔۔۔ میں کیا تمہارے لیے ایک بوجھ ہوں ۔۔۔ ‘‘ وہ سوالات پر سوالات کیے جا رہا تھا اور کریم الدین اُسے اپنے سینے سے چمٹائے آس کی پیٹھ پر شفقت س اور محبت سے ہاتھ پھیر رہے تھے ۔ جب اُس کے سارے ہی سوالات ختم ہو گئے تو اُنھوں نے اُسے اپنے سے علیحدہ کیا ۔ وہ اب بھی ہچکیاں لے رہا تھا ۔
’’ پگلے ۔۔۔ یہ سب تجھ سے کس نے کہا ؟ ‘‘ ماموں کے لہجے میں اب بھی وہی شفقت تھی ۔۔۔ ’’ تو تو میری بہن کی نشانی ہے ۔ بھلا مجھے تجھ سے کیسے محبت نہیں ہوسکتی ، ہاں یہ سچ ہے ، میں تجھے اپنے تیتروں کی طرح پیار کرتا ہوں ،اور تو تو جانتا ہے کہ میں اپنے تیتروں پر کیسی جان نچھاور کرتا ہوں ، ارے دیوانے ان کی خاطر تو میں نے ساری دنیا کو چھوڑ دیا ۔۔۔ اور تو ۔۔۔ ؟ ‘‘
رحیمو کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ، اور اُس کا دل بے اختیار چاہا کہ وہ بھی تیتر کی طرح چلائے۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ ہاں میں تیتر ہوں ، اپنے ماموں کا تیتر ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔۔
دوسرے دن صبح ہی صبح کریم الدین بھیروبا کے مندر کے پاس پہنچ گئے ۔ اُن کے ساتھ رحیمو بھی تھا ۔ اُس کی پیٹھ پر پھانج بندھی ہوئی تھی ۔ گھسڑیوں نے جو اُنھیں دیکھا تو پلک جھپکتے سب کے سب مندر کی سیڑھیوں کے سامنے جمع ہو گئے ۔ کریم الدین ایک اونچی سیڑھی پر بیٹھ گئے ۔ اُن کے پیچھے رحیمو ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑاتھا ۔ سگریٹ اور بیڑیوں کا دھواں فضاء میں پھیل رہا تھا ۔ بوڑطے گھسڑی نے کریم الدین کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی اور وہ سب کچھ پڑھ لیا جو اُس کی تجربہ کار آنکھیں پڑھ سکتی تھیں ۔ اس نے اپنی بیڑی کو پیروں تلے مسلتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے، ’’ میں کاجی صاحب سے چھما مانگتا ہوں ، ان کے پٹھے کی برابری ہمارا کوئی تیتر نہیں کر سکتا ۔ اس واسطے اس بار کوئی بازی نہیں لگے گی ۔ ‘‘
اُس کا یہ اعلان سنتے ہی اُس کے ساتھیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ، اور اُن کی بیڑیوں سے بے حساب دھواں نکلنے لگا ۔ رحیمو کے چپرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اُس نے اپنے ماموں کو وہاں سے فوراً اُٹھ جانے کا اشارہ کیا ، لیکن کریم الدین اپنی جگہ سے اُٹھے نہیں ۔ اُنھوں نے اپنے اطراف اُٹھنے والی سرگوشیوں کو بھی سنا ، اور پھر نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئے ، ’’ بنا بازی لگائے آج تک یہاں سے کوئی بھی گونڈ ، بھیل ، پھانس پاردی ،گھسڑی یا مسان جوگی نہیں گزرا ، یہ اب اس گاوں کی ریت بن چکی ہے ۔ مہاراج تیتروں میں مقابلہ ضرور ہوگا ۔ ‘‘
بوڑھے گھسڑی کا چہرہ ایک دم اُتر گیا ۔
’’ دادا میں کاجی صاحب کے پٹھے کو دیکھ کر آیا ہوں ، اُس میں کوئی دم نہیں ہے ۔ ‘‘ ایک نوجوان نے اپنے سردار کے کانوں میں سرگوشی کی ۔
’’ وکھت وکھت کی بات رہتی ہے سردار ۔۔۔ آج کاجی صاحب کا پٹھا ہمارے تیتروں کو نیچا نہیں دکھا سکتا ۔ ‘‘ دوسرا نوجوان قدرے زور سے بولا ۔
’’ کاجی صاحب کے گاوں کی ریت ہے تو مکابلہ ہوگا ۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں ضرورہوگا ۔ ‘‘
بوڑھا گھسڑی ساری باتیں سن رہا تھا ۔
’’ دادا ۔۔۔ تم کوئی بھی بڑی سرط لگا لو ، اپنا تیتر ہی جیتنے والا ہے ۔ ‘‘
’’ آج بھگوان کے آسرباد سے جیتنے کا اوسر ملا ہے ، پھر ڈر کا ہے کا ، ‘‘
بوڑھا شش و پنج میں مبتلا تھا ۔ موقع ملنے پر ساری زندگی ہاری ہوئی بازیوں کا بدلہ لینا بہت آسان ہے ، لیکن کسی عزت دار کے آبرو کا پانی اُترتے دیکھنا برابری کے دشمن کے لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔ ۔۔ لیکن ہم لوگ کیا ہیں ؟ سدا کے بے آبرو ، ہاتھ پھیلانے والے، ۔۔۔ بازی جیت کر بھی کیا پائیں گے ؟ وہی پیسہ ؟ جو ہماری عورتیں ویسے بھی کمالیتی ہیں ۔ ۔۔۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کے حوصلو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، پھر ہاتھ جوڑے، ’’ کاجی صاحب ۔۔۔ ریت ہے تو بازی لگ جائے گی ۔۔۔ پن ہمیشہ ہی بازی ہارنے والے تیتروں کو ایک بار اور ہارتا ہوا دیکھ کر آپ کو کیا ملے گا ؟ ‘‘
’’ دیکھو مہاراج ۔۔۔ یا تو تم غلط اندازہ لگا رہے ہو ، یا پھر کریم الدین کی عزت سے کھیلنا چاہتے ہو ؟ ‘‘
بوڑھا پیروں پر گر گیا ، ’’ مائی باپ ۔۔۔ آپ کی عجّت ہمارا آدرش ہے ۔ مگر ۔۔۔۔ ‘‘ بوڑھا اپنا جملہ مکمل نہ کر سکا ۔ کریم الدین کو محسوس ہوا جیسے کسی نے اُنھیں آسمان سے زمین پر پھینک دیا ہو ، کیا اُن کی عزت کا معیار اب اتنا گر گیا ہے کہ معمولی دو کوڑی کے لوگ بھی اُن پر ترس کھائیں ؟ وہ غصے سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے ، اور پورے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا ، ’’ مہاراج ۔۔۔ بازی ضرور لگے گی ، اور سن لو ، اگر تمہارا تیتر جیت گیا تو تم کو اختیار ہوگا کہ مجھ سے جو چاہو مانگ لو ، اور اگر میرا تیتر جیت گیا تو بدلے میں تم سے کچھ نہیں لیا جائے گا ۔ ۔۔ یہ بازی اگلے جمعہ کو میری گڑھی کے پٹاگن میں ہوگی ۔ ‘‘
بوڑھے گھسڑی نے پھر ایک بار ہاتھ جوڑے ، اور کریم الدین معہ بھانجے کے وہاں سے رخصت ہو گئے ۔
مقابلہ آرائی کے لیے پورا ایک ہفتہ باقی تھا ۔ کریم الدین نے اپنے پٹھے کو ہر طرح سے تیار کرنا شروع کردیا ۔ وہ اُسے بڑی پابندی سے دیمک کھلانے جنگل لے جاتے ، مٹی میں جی بھر کر گھولن کرواتے ۔ اُس کی خوراک پر پورا دھیان دیتے ۔ پھانج لگا کر جنگلی تیتروں کا شکار کرتے ، اور اس دوران سیٹیاں بجا بجا کر دیکھتے کہ اُن کا پٹھا جنگلی تیتروں سے کس طرح مقابلہ کر رہا ہے ۔ وہ اُس کی پوری طرح پھر ایک بار تربیت کر رہے تھے ۔ لیکن ساتھ ہی اُنھیں ایک خوف بھی تھا کہ پٹھا ذات کا کنتری ہے اور مقابل جھابی ۔۔۔ دوغلی نسل کا مضبوط اور قد آور ہے ۔ اگر میرا پٹھا ہار گیا تو ۔۔۔؟ برسوں کی جیت کی تاریخ داغ دار ہو جائے گی ۔ گاوں والے الگ اُنگلیاں اُٹھائیں گے ۔ کبھی کبھی اُن کا دل کہتا کہ اس بازی کو خوبصورتی سے ٹال دیا جائے ۔ لیکن یہ بات اُن کے آن بان کے خلاف تھی ۔
ایسے ہی معمول کے مطابق کریم الدین چارپائی پر لیٹے خاموشی سے اپنے پٹھے کا جائزہ لے رہے تھے ۔ قریب ہی ر حیمو بیٹھا پھانج کے جالے درست کر رہا تھا ۔ اُس نے ایک نگاہ اپنے ماموں پر ڈالی اور پھر گویا ہوا ، ’’ ماموں ۔۔۔ کل جمع ہے ۔ ‘‘
’’ ہوں ۔ ۔۔‘‘ ماموں نے اُس کی طرف بنا دیکھے ہنکاری بھری ۔
’’ کل اپنے پٹاگن میں پورا گاوں جمع ہوگا ، اور اپنے پٹھے کا امتحان ہوگا ۔ ‘‘
’’ ہوں ۔۔۔ ‘‘ ماموں کی آواز کہیں دور سے آرہی تھی ۔
’’ ماموں ۔۔۔ سنا ہے قیامت بھی جمعہ کے دن ہی آئے گی ، ‘‘
’’ ہوں ۔۔۔ ‘’
’’ ماموں ۔۔۔ مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے ۔ مقابل دوغلی نسل کا ہے ۔ ‘‘
’’ چپ رہے کم بخت ۔۔۔ ‘‘ کریم الدین نے اُسے ڈانٹا ، ’’ اب میرے پاس ہے ہی کیا جس کے لیے تو ڈر رہا ہے ؟ ارے اس گاوں میں جس دوست پر مجھے پورا بھروسہ تھا ۔۔۔وہ ۔۔۔ وہ کالے خان بھی تو بدل گیا ہے ۔ پگلے اب کچھ نہیں ہے ہمارے پاس ۔۔۔ نہ اعتماد ، نا ہی اطمینان ۔۔۔ میرا جہاں تو اُسی وقت لٹ گیا تھا جب میری بندوق مجھ سے چھین لی گئی تھی ۔ ۔۔ میری بساط پر بچھی ہوئی یہ بازیاں تو محض دھوکا ہیں ، اس سے اب کیسا ڈرنا ؟ ۔۔۔ اور سن ۔۔۔ ویسے بھی یہ مقابلہ میری زندگی کا آخری مقابلہ ہوگا ، اور اگر اس میں اپنا پٹھا جیت جاتا ہے تو میں اُسے آزاد کردوں گا ۔ ۔۔اور اس کے بعد پھر کوئی تیتر نہیں پالوں گا ۔ ۔۔ سمجھا ۔۔؟ ‘‘ ماموں کا گلا بھر آیا ، اُنھوں نے رحیمو کی طرف دیکھا تو اُن کے کانوں میں آواز گونجی۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ اُنھوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ، دو موٹے موٹے آنسووں کے قطرے اُن کے گالوں پر لڑھک آئے ، ’’ رحیمو ۔۔۔ کل تو بھی تیتر کے ساتھ اپنے آپ کو آزاد سمجھ ، بہت خدمت کی ہے تو نے ، میں تیرا بھی احسان مند ہوں ۔۔۔ مگر اب چلے جانا ۔۔۔ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔۔۔تو بھی چلے جانا ۔ ‘‘
رحیمو نے اپنے بے بس ماموں کی طرف دیکھا ، اُس کی آنکھوں میں اندھیری سی آگئی ، وہ بولا ، ’’ ماموں پٹھے کو تو پنکھ ہیں ۔ وہ آزاد ہو کر بھی جی سکتا ہے دانہ دنکا چگنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے ۔ مگر میں کیا کروں گا ماموں ؟ کہاں جاوں گا ؟ مجھے تو پنکھ بھی نہیں ہیں ۔ ‘‘
’’ وہ میں نہیں جانتا ۔۔۔ بس یہ میرا آخری فیصلہ ہے ۔ ‘‘ کریم الدین نے فیصلہ کن انداز میں کہا، اور پھر وہاں سے چپ چاپ نکل گئے ۔ رحیمو نے پنجرے میں بند تیتروں کی طرف دیکھا ، دونوں کی نظریں ٹکرائیں اور پھر آپ ہی آپ جھک گئیں ۔
جمعہ کا اعلان پہلے درختوں پر بیٹھے ہوئے آزاد پرندوں نے چہچہا کر کیا ، پھر موذن کی آواز گونجی ، اور پھر پٹھے نے چلانا شروع کر دیا ۔ ماموں نے تسبیح کو جیب میں رکھا اور دالان میں ٹہلنے لگے ۔ پٹاگن میں رحیمو مصروف تھا ۔ ماموں نے پٹھے کو آٹے کی گولیاں کھلانا شروع کیا ، ’’ پٹھے عزت کی خاطر غیرت مند اپنی جان تک دے دیتے ہیں ۔ ‘‘ بے اختیار ماموں کی زبان سے نکلا ، اور پٹھے نے زور سے چلا کر حامی بھری ۔۔۔ سچ ہے ۔ ۔۔سچ ہے ۔۔۔ سچ ہے ۔
’’ ماموں پٹانگن تیار ہو گیا ۔ ‘‘
’’ تونے ساری تیاریاں کرلیں نا ؟ ٹھیک ہے ۔۔۔ میں آتا ہوں ۔۔تو وہیں رہ ۔ ‘‘
ماموں پھر ایک بار اپنے پٹھے کی طرف رجوع ہوئے ۔
لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا پٹانگن بھر گیا ۔ سارے ہی تیتر باز ، گھسڑی، پھانس پاردی، گونڈ ، بھیل ، کیکاڑی تھیلوں کے فرش پر بیٹھے تھے ۔ رحیمو نے پٹھے کے پنجرے کو مقابل کے پنجرے کے سامنے رکھ دیا ۔ مادائیں چہکنے لگیں ، اور تیتر پہلوانوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر سینے پھلا رہے تھے ۔ گردنیں اونچی کر رہے تھے اور عجیب سی آوازیں نکال رہے تھے ۔ بوڑھا گھسڑی اپنے جھاپی کے پنجرے کے پاس بیٹھا کریم الدین کا انتظار کر رہا تھا ۔ رحیمو دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا ، اور مقابل کے تیتر باز چھوٹے سے پٹھے کو دیکھ کر اندر ہی اندر اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے ۔
نپے تلے قدموں کے ساتھ کریم الدین پٹانگن میں داخل ہوئے ۔گھسڑی نے اُنھیں دیکھتے ہی اپنے ہاتھ جوڑے ۔ رحیمو کی آنکھیں پلک مارنا بھول گئیں ۔ کریم الدین تیزی سے اپنے پٹھے کے پنجرے کے پاس پہنچے ۔ چاروں طرف نظریں دوڑائیں ، اور پھر آہستہ سے بیٹھ گئے ۔ جیب میں سے اپنی سیٹی نکالی ، اپنے پٹھے کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا ، ’’ پٹھے ۔۔۔ تمہاری یہ جیت تمہاری آزادی کا پروانہ ثابت ہو گی ۔‘‘ پٹھا زور سے چلایا ، اور پھر جوش و جلال کے ساتھ پنجرے میں ٹہلنے لگا ۔ پھر اُنھوں نے مقابل کے جھاپی کو دیکھا جس کے چت کبرے پر غصے سے پھولے ہوئے تھے ۔ دونوں بازیگروںکے ہاتھ آہستہ آہستہ پنجروں کے دروازوں کی طرف بڑھے ، مادائیں چیخنے لگیں اور پھر دروازے کھل گئے ۔ ۔۔ دونوں تیتر اپنی اپنی چونچیں آگے کیے ایک دوسرے کی طرف بڑھے ۔ مادائیں زور سے چلائیں، کڑک کا کا کا ۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ اور دونوں تیتر ایک دوسرے سے گتم گتھا ہو گئے ۔
’’ شاباش پٹھے ۔۔۔ ‘‘
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔
’’ منا جور لگا کے ۔۔۔ آری سے ۔۔۔ ہاں ۔۔۔‘‘
کڑک کا کا کا۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔۔۔
’’ واہ پڈھے واہ ۔۔۔ ‘‘
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔۔
پٹھے نے اُچھل کر جھاپی کی گردن کے پر پکڑ لیے اور اُسے رگیدتا ہوا ایک کونے کی طرف بڑھا ۔ رحیمو کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ کریم الدین کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ سارا مجمع سانس روکے اس بے جوڑ مقابلے کو دیکھ رہا تھا ۔ کہ اچانک جھاپی کی مادہ پورے جوش کے ساتھ چیخی ، کڑک کا کا کا ۔۔۔ کرک کا کا کا ۔۔۔۔
اور دوسرے ہی لمحے جھاپی نے اپنی گردن چھڑا لی اور پٹھے کو اپنے دونوں پیروں تلے دبالیا اور چونچ سے اُس کے سر کے پر نوچنے لگا۔ گھمسان کا رن پڑا ۔ تیتروں کی چونچیں اور پیروں کی آریاں ایسی چل رہی تھیں جیسے سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں چلتی ہیں ۔ پٹانگن کڑک کا کا کا ۔۔ کڑک کا کا کا کی آوازوں سے گونج رہا تھا ۔ پٹھے کو جھاپی کا مقابلہ سخت دشوار ہو گیا تھا ۔ کریم الدین کی آنکھوں میں اندھیری سی چھا گئی ۔ اُن کا دل وہاں سے اُٹھ جانے کو کہہ رہا تھا ۔ اور رحیمو دل ہی دل میں یاعلی مدد کی صدائیں لگا رہا تھا ۔
اچانل پٹھے نے جھاپی کے کوٹھے پر ایسی چونچ ماری کہ خون کی دھار لگ گئی ، اور جھاپی بلبلا کر ایک طرف بھاگا ۔ پٹھا اُس پر جھپٹ پڑا اور اُس کے سر اور گردن کے پر ہوا میں منتشر ہونے لگے ۔ جھاپی بری طرح بھاگ رہا تھا ، اور پٹھا حملے پر حملہ کیے جا رہا تھا ۔ یہاں تک کہ جھاپی نے اُڑان بھری اور قریب کے درخت کی ایک ٹہنی پر بیٹھ گیا ۔ پٹھے نے گردن اُٹھا کر بھاگے ہوئے مقابل کی طرف دیکھا اور وہ بھی بس اُڑان بھرنے ہی والا تھا کہ کریم الدین نے آگے بڑھ کر اُسے اُٹھا لیا ، اور اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔ پورا مجمع مبارک سلامت کے شور میں ڈوب گیا ۔ رحیمو خوشی سے ناچنے لگا ۔ اور کریم الدین کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ بوڑھا گھسڑی ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔ کریم الدین نے اُس کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھا تو وہ بولا ، ’’ مالک یہ تو ہونا ہی تھا ، ہم آپ کے بندے ہیں۔۔ بولو۔۔ ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ ‘‘
’’ حکم۔۔۔ ؟ ‘‘ کریم الدین نے اُس کی طرف مسکراکر دیکھا ، ’’ تم اب اس گاوں سے جب بھی چاہو ، جاسکتے ہو ۔۔۔ اب تم پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ ‘‘
اور پھر سارے ہی لوگ پٹھے کی شجاعت کی داد دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے ۔
کریم الدین کے ہاتھوں میں اب بھی پٹھا اُسی طرح موجود تھا ۔ جب اُنھوں نے اپنی خوشیوں پر قابو پایا تو اُنھیں احساس ہوا کہ پٹھے کی سانسیں ابھی تک ویسی ہی چل رہی ہے ۔اُنھوں نے اُسے پھر ایک بار چوم لیا اور نظریں سامنے کیں تو دیکھا ، رحیمو پنجرہ اُٹھائے آہستہ آہستہ اُن کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ وہ اُسے اُسی طرح دیکھتے رہے ۔ اُن کے کانوں میں اُن کے اپنے کہے ہوئے الفاظ گونج رہے تھے ۔ اُنھوں نے بے بسی سے پٹھے کی طرف دیکھا تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ زندگی میں یہی تو وہ پرندے تھے جنھوں نے اُن کے سارے دکھوں کا زہر خود پیا تھا ۔ اُن کی خاطر اپنی جان کی بازی لگانے والے یہ بے زبان پرندے جانے کتنی تعداد میں اُن کے ہاتھوں میں آئے اور پھر کبھی جنگل کی کھلی آزادی اُنھیں نصیب نہ ہوئی۔ لیکن آج ۔۔۔ ؟
’’ ماموں۔۔۔! ‘‘ پنجرے کو اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے رحیمو کی گلوگیر آواز اُبھری ، پنجرے کا دروازہ کھلا تھا ۔ پٹھا اُن کے ہاتھوں میں مچلنے لگا ۔ ، ’’ بس کچھ ہی دیر کی بات رہ گئی ہے پٹھے ۔۔۔ تھوڑا صبر کرلے ۔۔ ‘‘ اُنھوں نے آہستہ سے اُسے پنجرے کے دروازے کے سامنے چھوڑ دیا ۔ پٹھے نے ایک لمحہ رک کر اُن کی طرف دیکھا اور پھر چپ چاپ پنجرے کے اندر چلا گیا ۔۔۔ مالک یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔۔ ہم آپ کے بندے ہیں ۔۔۔اب بولو ہمارے لیے کیا حکم ہے ۔ ؟
کڑک کا کا کا ۔۔۔ کڑک کا کا کا ۔۔۔ پٹھے کی خاموشی پر شاید اُس کی مادہ احتجاج کرنے لگی تھی ۔ ماموں نے سختی سے پنجرے کا دروازہ بند کیا اور پنجرے کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھالیا اور پھر رحیمو کی طرف دیکھا ، ’’ بابا رحیمو ۔۔۔