فاسٹ کا مطلب ہے تیز اور باؤلر کا مطلب ہے گیند پھینکنے والا۔ سمجھ لیجیے کہ ان دونوں کا مطلب ہوا تیز گیند پھینکنے والا۔ فاسٹ باؤلر وہ انسان ہے جو وکٹوں سے بیس پچیس قدم دور سے یک لخت دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اور وکٹوں کے پاس آ کر اس کی حالت قابلِ رحم اور صورت قابلِ دید ہو جاتی ہے۔ وہ پانچ چھے قدم پرے ہی سے ایک لمبی چھلانگ لگاتا ہے۔ اور بے تحاشا گھما کر گیند کو کھلاڑی کے منہ پر دے مارتا ہے اور پھر کچھ دور تک اپنے ہی زور میں بھاگتا چلا جاتا ہے۔ ادھر یا تو کبھی کبھار وکٹ اڑتی دکھائی دیتی ہے یا دھپ سے گیند کھلاڑی کے لگتی ہے۔ اور یا وہ شاندار باؤنڈری لگتی ہے کہ گیند پورے گیارہ آدمیوں کے روکنے سے بھی نہیں رکتی۔ اننگ کے شروع کے علاوہ فاسٹ باؤلر کو اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب کوئی کھلاڑی اڑ جائے اور آؤٹ ہونے کا نام ہی نہ لے۔ دوسرے الفاظ میں کھلاڑی کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر میدان میں بارش ہو گئی ہو یا وکٹ بے جان ہو چکی ہو تو فاسٹ باؤلر صاحب کا زیادہ بس نہیں چلتا۔
جن دنوں کا یہ قصہ ہے ان دنوں میں بھی خوش قسمتی یا بد قسمتی سے اسی طبقے میں شمار ہوتا تھا جسے فاسٹ باؤلر پکارا جاتا ہے۔ میں ایک سالانہ امتحان میں بیٹھا اور اتفاق سے پاس ہو گیا۔ اب مجھے دوسرے شہر میں بھیجا گیا۔ رہنے کو تو ہوسٹل ہی میں رہتا تھا مگر مجھے ایک صاحب کی نگرانی میں رکھا گیا۔ جن کے ہمارے کنبے سے بڑے پرانے تعلقات تھے۔ انھوں نے بہت سال پہلے مجھے چھوٹا سا دیکھا تھا اور اب مجھے بڑا سا دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہیں خان صاحب کا خطاب ملا تھا۔ کوئی پچاس پچپن سال کی عمر۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، کم از کم آٹھ دس عینکیں استعمال کرتے تھے۔ اور عینکیں بھی ایسی کہ ایک کے اوپر دوسری فٹ ہو چلی جاتی تھی۔ پڑھتے وقت ایک عینک لگی ہوئی ہے۔ کسی نے کوئی بات کی۔ انہوں نے جلدی سے دوسری عینک پہلی والی عینک پر لگائی اور جواب دے دیا۔ کوئی بچہ دور سے چلایا، انہوں نے نمبر دو عینک اتار دی اور کوئی اور عینک لگائی اور اس کی طرف دیکھ کر اسے موقع کے مطابق دھمکایا چمکارا۔ کھانا کھاتے وقت کوئی اور عینک لگتی تھی، سینما میں کوئی اور۔ مجھے ان کے گھر میں ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ حاضری دینی پڑتی تھی اور اتوار کو صبح موٹر میں کنبے کے ساتھ کہیں باہر سیر سپاٹے اور شام کو سینما کے لیے ساتھ جانا ہوتا تھا۔ وقت بہت اچھا کٹ جاتا تھا۔ خان صاحب اور ان کی بیگم مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ بچے بھی پسند کرتے تھے۔ مگر جہاں یہ سب کچھ تھا وہاں میں ایک ہستی سے بہت ڈرتا تھا۔ یہ ان کی بڑی لڑکی تسنیم تھی۔ اگر مجھ سے کچھ بڑی نہیں تو غالباً برابر عمر کی ہو گی۔
اب میرا فرض ہے کہ اس کی شکل بھی بتاؤں۔ سو عرض ہے کہ نہ تو اس کی بھنویں کمان کی طرح تھیں نہ پلکیں تیر کی طرح۔ نہ اس کی گردن کئی فٹ لمبی تھی اور نہ اس کی آنکھیں سحر انگیز تھیں اور نہ ہی چار چار انچ چوڑی تھیں۔ اور ہاں میں شاعر حضرات سے معافی چاہتا ہوں اس کے لب بھی تھے جن پر مجھے نہ تو کبھی مسیحائی نظر آئی نہ کبھی خون دکھائی دیا۔ کئی سال پہلے میں اور وہ ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اتنی مدت بعد جب ان کے ہاں گیا تو اس نے مجھے دیکھا اور میں نے اسے۔ اسے دیکھ کر نہ تو میرا دل بے تحاشہ دھڑکتا ہوا سینے سے باہر آ پڑا اور نہ ہی میری روح آنکھوں میں کھنچ کر آ گئی۔ مگر وہ مجھے اچھی ضرور لگی۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس جذبے کو شاعرانہ طریقے سے بیان کیا جائے کہ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یوں معلوم ہوا کہ زہرہ زمین پر اتر آئی ہے۔ میرا دل تھرتھرایا۔ میں ڈرا کہ کہیں تھم نہ جائے۔ میں اس حسین شعلے کی تاب نہ لا سکا اور بھسم ہو گیا۔ یک لخت محسوس ہوا کہ میرا دل غائب ہو چکا ہے، صرف شریانیں باقی رہ گئی ہیں۔ جگر کو کسی نے دیا سلائی سی دکھا دی ہے۔ پھیپھڑے زخمی ہو چکے ہیں۔ گردوں نے اپنا کام کرنا چھوڑ کر ہڑتال شروع کر دی ہے وغیرہ وغیرہ۔
وہ لڑکیوں کے کالج میں پڑھتی تھی۔ اپنی جماعت میں بڑی لائق تھی۔ ویسے بھی اس میں بہت سی خوبیاں تھیں مگر سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ وہ مجھے ہر وقت چھیڑتی رہتی تھی۔ اس قدر تنگ کرتی کہ میں بسورنے لگتا۔ اس طریقے سے ستاتی کہ اس کی باتیں صرف مجھے ہی چبھتیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں۔ سب لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے۔ میں کوئی دلچسپ بات سناتا۔ جب میں بات ختم کرنے لگتا تو وہ مسکرا کر کہتی۔ ’’اچھا! بس یہی بات تھی؟‘‘ یا ’’افوہ! اب پتہ چلا ہمیں، خوب!‘‘ آپ خود خیال فرمائیے کہ اگر میری جگہ آپ ہوتے تو کس قدر کوفت ہوتی آپ کو۔
کئی مرتبہ یوں ہوا کہ میں کوئی میچ کا کارنامہ سنا رہا ہوں۔ کچھ سچ ہے کچھ جھوٹ۔ خان صاحب غور سے سن رہے ہیں۔ میں سینہ پھلا کر کہتا ہوں۔ ’’اجی! مجھے انہوں نے بالکل آخر میں بھیجا اور ابھی پچاس رنز باقی تھیں۔ ہار سامنے نظر آ رہی تھی۔ میں نے پہلے تو گیندیں روکیں، باؤلرز کو تھکایا اور پھر جو ہٹیں لگانی شروع کی ہیں تو بس!‘‘۔
’’اتنے میں آنکھ کھل گئی!‘‘ وہ بولی۔ خان صاحب نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا، جس سے ان کی بہت سی عینکیں ناک سے پھسل گئیں۔ کنبے کا کنبہ ہنسنے لگا اور میں کھسیانا سا ہو کر رہ گیا۔
جب میں کوئی عقلمندی کی بات شروع کرتا تو وہ میرے بچپن کے واقعات دہراتی اور میری بات فوراً ہنسی میں اڑ جاتی۔ غرضیکہ میں اس لڑکی سے تنگ آ گیا تھا۔ آخر سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ بس ان کے گھر آنا جانا بند کر دیا جائے۔ ابھی چار روز ہی اس طرح گزرے ہوں گے کہ پانچویں روز خاں صاحب مع کار کے ہوسٹل آئے اور مجھے لے گئے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں میچ کھیل کر واپس آیا۔ دیر کافی ہو چکی تھی اور خاں صاحب کے ہاں حاضری بھی دینی تھی۔ بغیر کپڑے تبدیل کیے چلا گیا۔ وہ بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے مجھے دیکھ کر جھٹ عینک بدلی اور بولے۔
’’آؤ برخوردار! تمہارے بارے ہی میں سوچ ساچ رہا تھا میں۔ اور تسنیم بھی تمہارا انتظار انتظور کر رہی تھی۔‘‘
میں نے سلام کیا اور قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے جلدی سے عینک بدلی اور بولے۔
’’آج تم کچھ دبلے ووبلے دکھائی دیتے ہو!‘‘
’’کیا سچ مچ دبلا دکھائی دیتا ہوں؟ بھلا دو روز میں کس طرح دبلا ہو گیا۔‘‘ میں نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں تھکا ہوا ضرور ہوں۔ صبح سے میچ کھیلتا رہا۔ سارا دن بھاگنا پڑا ہے۔‘‘
’’اور ہاں ایک بات تو میں بالکل بھول بھال ہی گیا تھا وہ یہ کہ اس میچ موچ سے فائدہ کیا ہے آخر؟ صبح سے شام تک بھاگتے رہتے ہو۔ سچ پوچھو تو مجھے یہ کرکٹ ورکٹ پسند ہی نہیں۔ دو آدمی کھیل رہے ہیں اور دوسری طرف گیارہ کے گیارہ آدمیوں کا دل بے ایمان ہے۔ وہ دعائیں مانگ رہے ہیں کہ یہ کم بخت آؤٹ واؤٹ ہو تو گھر چلیں۔‘‘
’’اجی برا تو مجھے بھی لگتا ہے۔‘‘
میں نے اوپری دل سے کہا۔ ’’مگر کیا کروں۔ اب ایک دفعہ شروع کر دیا ہے تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’اچھا تو گویا یہ بھی شراب شروب ہوئی کہ کم بخت چھُٹتی ہی نہیں۔ کیوں؟‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا۔ ’’اور ہاں تم یہ تو بتاؤ کہ تم کھیلتے کھولتے کیسے ہو؟‘‘
’’اجی کیا خاک کھیلتا ہوں۔ بس گیند پھینکتا ہوں۔‘‘
’’تو گویا باؤلر ہوئے تم؟ ایں؟‘‘
’’جی ہاں! فاسٹ باؤلر!!‘‘ میں نے ذرا رعب سے کہا۔
’’تو میاں تمھارا میچ ضرور دیکھیں گے کبھی۔ مگر ذرا سٹائل سٹوئل تو دکھاؤ اپنا۔‘‘
’’تو کیا یہیں کمرے میں دکھاؤں؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں اس کمرے میں حرج ہی کیا ہے۔ دیکھیں تو سہی تم کیسے گیند ویند پھینکتے ہو؟‘‘ انہوں نے جلدی سے دوسری عینک بدل لی۔
میں ہنستا ہوا اٹھا اور دروازے تک قدم گنتا ہوا گیا۔
’’دیکھئے جی! فرض کیجیے کہ یہ گیند ہے۔‘‘ میں نے ان کی دیا سلائی کے بکس کو ہاتھ میں لے کر کہا۔ ’’ویسے میں بہت دور سے بھاگ کر آیا کرتا ہوں مگر وکٹوں کے پاس آ کر گیند اس طرح پھینکتا ہوں۔‘‘ میں نے ہاتھ گھمایا اور ماچس کو دوسرے دروازے پر دے مارا۔
’’بہت خوب!‘‘ یہ آواز تسنیم کی تھی۔
’’دیکھا ابّا جان آپ نے! اس کا نام ہے باؤلنگ!‘‘ وہ پردہ اٹھا کر داخل ہوئی۔
میں وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ لاحول ولا قوۃ! گویا یہ ایک دو ہفتے تک کی چھیڑ خانی میں نے خود مول لے لی تھی۔ اگلے روز میرا نام فاسٹ باؤلر رکھ دیا گیا۔ گھر میں بچوں سے بھی کہہ دیا گیا وہ مجھے بھائی جان کے بجائے فاسٹ باؤلر کہا کریں۔ گھر کے طوطے کو پورے ایک ہفتے کی محنت کے بعد ’’فاسٹ باؤلر خوش آمدید‘‘ سکھایا گیا۔ میری جتنی کتابیں ان کے ہاں پڑی تھیں ان سب پر فاسٹ باؤلر لکھ دیا گیا۔
اگلے ہفتے ہمارا کسی دوسرے کالج سے میچ تھا۔ میں نے بہت ٹالنے کی کوشش کی مگر خاں صاحب اپنی بات پر اَڑے رہے کہ میچ میں وہ بھی آئیں گے اور تسنیم بھی ضرور آئے گی۔ میں نے بہت سے دلائل پیش کیے۔ مثلاً
’بھلا لڑکیاں بھی کبھی کرکٹ میچ دیکھنے آئی ہیں؟‘‘
’’جس چیز میں دلچسپی نہیں اسے دیکھنے سے فائدہ!‘‘۔
’’ان کا امتحان نزدیک ہے۔ کیا ضروری ہے خواہ مخواہ ایک دن ضائع کرنا۔‘‘
جس پر جواب ملا۔ ’’ہم دیکھیں گے اور ضرور دیکھیں گے۔ خواہ آپ کھیلیں یا نہ کھیلیں۔ آپ میچ میں کتنی ہی فاسٹ باؤلنگ کیوں نہ کریں آپ کو ایک بھی وکٹ نہ ملے گی۔‘‘
خیر! میچ والا دن آیا۔ میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ ہم ٹاس جیتیں اور ہمارے شروع کے کھلاڑی جم جائیں اور دوپہر تک کھیلتے رہیں خان صاحب وغیرہ آئیں گے ان کا کھیل دیکھ کر چلے جائیں گے۔ نہ میرے کھیل کی باری آئے گی نہ بولنگ کی۔ مگر سارا کام اُلٹ پلٹ ہو گیا۔
ٹاس تو جیتا مگر شروع کے کھلاڑی بہت جلد جلد رحلت فرما گئے۔ اب ہم آخر کے اناڑی رہ گئے۔ مجھے انہوں نے نویں نمبر پر بھیجا۔ میں نے اچھی طرح چاروں طرف دیکھا۔ خان صاحب کی کار کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔ میں نے کھیلنا شروع کیا۔ گیندیں روکتا رہا۔ آدھ پون گھنٹے میں کھیل کا رنگ بدل گیا۔ آہستہ آہستہ رنز بھی ہو رہی تھیں۔ ہم دونوں نے مل کر سکور ساٹھ سے سو تک پہنچا دیا۔ لوگ ہر ہِٹ پر شور مچاتے تھے۔ ہمارے کالج کے لڑکے مارے خوشی کے ناچ رہے تھے۔ یکایک میری نگاہ خان صاحب کی کار پر پڑی جو سامنے سے آ رہی تھی۔
انہوں نے کار کو دور ہی ٹھہرا لیا اور لگے جھانکنے۔ غالباً عینک ضرور بدلی ہو گی پچھلی سیٹ پر کھڑکی میں سے کچھ نیلی نیلی چیز نظر آ رہی تھی۔ یہ تسنیم تھی۔
میں بوکھلا سا گیا۔ پورا یقین تھا کہ ان لوگوں کے سامنے کھیل نہ سکوں گا۔ کیا تو آگے بڑھ بڑھ کر ہٹیں لگا رہا تھا اور کیا ایک دم گیندیں روکنا شروع کر دیں۔ دو گیندیں ہی روکی تھیں کہ تیسری گیند زناٹے سے آئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، وکٹ غائب! لاحول ولا قوۃ! جس بات کا ڈر تھا وہی ہو کر رہی۔ میرے آؤٹ ہونے سے دوسرے ساتھی کی ہمت کچھ ٹوٹ سی گئی۔ گیارہویں صاحب نے جاتے ہی بلا گھمایا اور خود کشی فرما لی۔ یعنی خود ہی بلا وکٹوں میں مار لیا۔ اب اُن کی باری تھی۔ ہمارے کپتان نے میرے ہاتھ میں نئی گیند دی اور کہا۔ ’’بس اب جیت تمھارے ہاتھ میں ہے۔ آج پورا زور لگا دو۔‘‘
میں نے کار کی طرف دیکھا۔ ایک جھرجھری سی آ گئی۔ دل میں خیال آیا کہ اگر یہ کار یونہی نظر آتی رہی تو آج کچھ بھی نہ ہو سکے گا اور سارا کیا کرایا خاک میں مل جائے گا۔ میچ شروع ہوا۔ میرے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ میں نے آیۃ الکرسی پڑھی۔ دل کو تسلی دی اور وکٹوں سے قدم گن کر فاصلہ ناپا۔ بولنگ شروع کی۔ وکٹوں کے پاس آ کر قدم غلط ہو گئے اور ایک عجیب و غریب سٹائل سے گیند پھینکی جو کھلاڑی کے چھ فٹ ادھر سے نکل گئی۔ ’’وائڈ بال۔‘‘ ایمپائر چلایا اور لوگوں نے قہقہے لگانا شروع کر دئیے۔ ’’بہت اچھے۔‘‘ ’’شاباش ایسے ہی گیند پھینکو!”۔
خیر دوسری گیند ذرا ٹھیک پڑی مگر اس پر کھلاڑی نے وہ زناٹے دار ہٹ لگائی ہے کہ گیند درختوں کے اوپر سے گزر گئی۔ ایک شاندار چھکا (Sixer) پڑا۔ لوگوں نے وہ شور مچایا کہ خدا کی پناہ! تیسری گیند پھینکتے پھینکتے میں وکٹوں کے پاس آ کر رک گیا۔ چوتھی پر میرا پاؤں پھسل گیا اور گیند کھلاڑی کے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ غرضیکہ میرے دو اووروں میں سکور تیس ہو گیا۔ کار بدستور کھڑی تھی۔ تیسرے اوور میں، میں نے پہلی گیند ذرا آہستہ پھینکی۔ کھلاڑی اچھی طرح نہ سمجھ سکا۔ گیند سیدھی وکٹوں میں گئی۔ میدان تالیوں سے گونج اٹھا۔ ان کا کپتان آؤٹ ہو گیا تھا۔ میں نے فاتحانہ نگاہوں سے کار کی جانب دیکھا مگر کار غائب تھی۔ وہ لوگ جا چکے تھے۔ جی چاہا خود کشی کر لوں۔ اب جو جھنجھلا کر میں نے باؤلنگ شروع کی ہے تو وکٹوں کا تانتا بندھ گیا۔ دوسرا، تیسرا، چوتھا۔ غرضیکہ ساری ٹیم پچاس رنز میں آؤٹ!
ہم جیت گئے تھے۔ سات وکٹیں میری تھیں مگر یہ سب کچھ فضول تھا۔ اسی افسوس میں اُس روز میں ان کے یہاں نہیں گیا۔ دوسرے روز اتوار کو اٹھا تھا۔ ڈرتے ڈرتے پہنچا۔ سارا کنبہ بیٹھا ریڈیو سن رہا تھا۔ خاں صاحب دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’تم صبح کیوں نہیں آئے۔ آج ہم تمھاری وجہ سے کہیں سیر پر بھی نہیں گئے۔‘‘
’’افوہ! مجھے بڑا افسوس ہے۔ آپ چلے جاتے۔ میرا ناحق انتظار کیا آپ نے‘‘ میں نے بدستور سر جھکائے رکھا۔
’’جب تک کوئی فاسٹ باؤلر ساتھ نہ ہو تب تک سیر کا کیا لطف آ سکتا ہے۔ کیوں ابّا؟‘‘ تسنیم بولی۔
’’تم کچھ سنجیدہ سنجودہ سے معلوم ہوتے ہو۔ کیا ہوا جو ایک میچ میں وکٹیں نہ ملیں۔ میں تو پھر یہی کہوں گا کہ یہ کرکٹ ورکٹ فضول ہے بالکل۔‘‘
جی میں آیا کہ کہہ دوں۔ ’’جناب سات وکٹیں لی ہیں سات۔‘‘ مگر پھر تسنیم سے ڈر لگا کہ سمجھے گی جھوٹ بول رہا ہے اور دگنا مذاق اڑے گا۔
’’ہاں! کیا ہوا جو کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوئے، یہ ان کا قصور تھا۔ ویسے آپ کا سٹائل تو ماشاء اللہ نہایت ہی لاجواب تھا‘‘ وہ بولی۔
’’بس اب چپ بھی کرو، خواہ مخواہ ستا رہی ہے بھولے بھالے بچے کو۔‘‘ اس کی والدہ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’خوب یاد آیا ابّا جان! آج آسٹریلیا اور انگلینڈ کا کرکٹ میچ نشر کیا جا رہا ہے۔ اگر کہیں تو بدلوں سٹیشن۔‘‘
یہ کہہ کر خود ہی سٹیشن بدل دیا۔ آواز آئی۔ ’’ابھی ابھی کچھ بارش ہوئی تھی۔ جس سے زمین گیلی ہے اوریلی اور وریٹی سے لوگوں کو بہت امیدیں ہیں۔ مگر دونوں ٹیموں کے فاسٹ باؤلر آج کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ فاسٹ باؤلر کا نام آتے ہی سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔ ایک بچہ تو ٹھس ٹھس اور ہی ہی کی حد سے باہر نکل گیا اور کھلکھلا کر ہنس دیا۔ غصے سے میرا منہ سرخ ہو گیا۔ اگرچہ اس وقت میں نے اپنا منہ آئینے میں نہیں دیکھا مگر مجھے یقین ہے کہ ضرور سرخ ہو گیا ہو گا۔ میں اٹھ کر چلنے ہی والا تھا کہ اس نے جلدی سے ریڈیو بند کر دیا۔
’’آپ برا مان گئے؟ لو بھئی بچو خبردار جو آج کے بعد کسی نے بھی انہیں فاسٹ باؤلر کہا ہے تو۔‘‘
خان صاحب نے جلدی سے عینک بدلی اور بولے۔ ’’بس تسنیم اب تم اپنے کمرے میں جا کر کپڑے بدلو۔ سینما میں دیر ہو رہی ہے۔‘‘ وہ چلی گئی۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ ’’تم اس کے کہنے کا ذرا بھی خیال خیول نہ کیا کرو۔ دوپہر سے تمھارا انتظار کرتی رہتی ہے۔ گھڑی گھڑی دروازے تک جاتی ہے۔ کئی دفعہ شوفر سے کہتی ہے کہ وہ تمھیں لے آئے اور پھر جب تم آ جاتے ہو تو تمھیں چھیڑتی ہے۔ عجیب لڑکی ہے۔‘‘
’’ہاں عجیب لڑکی ہے!‘‘ میں نے دل میں دہرایا۔
ہم لوگ سینما ذرا دیر سے پہنچے۔ نیوز دکھائی جا رہی تھیں۔ بد قسمتی سے وہاں بھی کسی کرکٹ میچ کا قضیہ تھا۔ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر کو گیند پھینکتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا۔ آواز آئی۔
’’یہ ہیں مسٹر فارنز جو زمانہ حاضرہ کے بہترین فاسٹ باؤلر ہیں۔‘‘ میں چوکنا سا ہو گیا اور کن انکھیوں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کہیں کوئی ہنس تو نہیں رہا۔ پچھلی قطار سے تسنیم نے سر نکال کر میرے کان کے قریب کہا۔ ’’دیکھئے میں نہیں ہنس رہی ہوں، پھر کبھی آپ کہہ دیں۔‘‘ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ خان صاحب نے جلدی سے عینک بدلی اور میری طرف دیکھ کر بولے۔ ’’یہ تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’ابھی آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہاں سے جو دوڑا تو ہوسٹل پہنچ کر دم لیا۔ ساری رات مجھے نیند نہ آئی۔ آخر اس لڑکی کا مطلب کیا ہے؟ اسے مجھ سے نفرت ہے کیا؟ مجھے چھیڑتی ہے دوسروں کے سامنے شرمندہ کر کے خوش ہوتی ہے۔ جانتی ہے کہ فاسٹ باؤلر کے نام سے میں چڑتا ہوں۔ پھر بھی جان بوجھ کر بار بار دہراتی ہے۔ محض اس لیے کہ میں کڑھوں۔ مگر یہ میرا انتظار بھی کرتی ہے۔ آخر کیا معمہ ہے؟ میں بہت دیر تک سوچتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ کل کہہ دوں گا۔ دیکھئے محترمہ! بچہ میں نہیں جس سے آپ کھیلتی رہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے میں بے وقوف بھی نہیں ہوں، اس لیے آپ مجھے معاف کر دیں۔ ورنہ میں آپ کے یہاں آنا جانا بند کر دوں گا۔ مگر پھر مجھے ہنسی آئی لاحول ولا قوۃ! یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ ایک لڑکی سے اس قسم کی باتیں کہوں گا اور پھر ایک ایسی لڑکی سے جو اتنی پیاری ہے، نیلے لباس میں تو سچ مچ گڑیا معلوم ہوتی ہے۔ کتنی بھولی بھالی سی دکھائی دیتی ہے۔ اور جب چھیڑتی ہے تو کیسا شرارت انگیز تبسم لبوں پر ہوتا ہے۔ مجھے غصہ ضرور آتا ہے مگر اس میں پیار بھی ہوتا ہے۔ اگر کئی روز ان کے گھر نہ جاؤں تو اداس سا ہو جاتا ہوں۔ پھر دل میں گدگدی سی اٹھتی ہے کہ کوئی چھیڑے۔ کوئی فاسٹ باؤلر کہے۔ اسے ضرور میرا کچھ خیال ہے۔ تبھی تو وہ انتظار کرتی رہتی ہے۔ مگر یہ بعض اوقات اجنبیوں کی سی باتیں کیا مطلب ہے اس کا؟ واقعی وہ عجیب لڑکی ہے۔ وہاں بچے سے بوڑھے تک سب مجھ پر خوش ہیں اور ادھر میں ہوں کہ ہر تیسرے روز بڑے اطمینان سے وہاں جاتا ہوں۔ پتہ نہیں کب سو گیا۔
ایک ہفتے تک میں ان کے یہاں نہیں گیا۔ خاں صاحب بھی آئے۔ شوفر بھی بار بار موٹر لے کر آیا مگر میں پہلے تو مصروفیت کا بہانہ پیش کرتا رہا اور پھر شام کو ہوسٹل سے ہی غائب رہنے لگا۔
ایک روز علی الصبح نہا کر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ میں نے دیکھا ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کیا تیس نمبر کمرہ یہی ہے؟‘‘
’’ہاں یہی ہے۔‘‘
’’اور ایک چھ فٹ سے لڑکے آپ ہی ہیں نا؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اجی تیس نمبر کمرے میں ایک لمبے گورے سے، مضبوط سے۔‘‘
’’کیا بے ہودہ بکواس ہے؟ آخر کیا نام ہے اس لمبے لڑکے کا؟‘‘
’’اجی نام تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ اتا پتا میں نے بتا ہی دیا ہے۔ انہیں باہر کوئی صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘
’]شاباش! ذرا پھر سے یاد کر کے بتا۔ بڑا اچھا ہے تو۔‘‘ میں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
وہ آہستہ سے دروازے سے نکلا اور یک لخت بھاگ پڑا۔ پیچھے مڑ کر بولا۔ ’’فاسٹ باؤلر۔‘‘
میں اس کے پیچھے پیچھے بھاگا اور سڑک تک بھاگتا ہوا چلا گیا۔ ہوسٹل کے دروازے پر خاں صاحب کی کار کھڑی تھی۔ وہ دوڑ کر اس میں گھس گیا۔ کھڑکی میں سے ایک سفید سی کلائی اور نازک بازو نکلا اور مجھے اشارہ کیا۔ میں آگے بڑھا۔ یہ تسنیم تھی۔ ’’سنیے تو ذرا۔‘‘ میں نے اپنے اوپر نگاہ ڈالی۔ ماشاء اللہ کیا حلیہ تھا۔ ایک ہاتھ میں ٹائی دوسرے میں کالر کا بٹن۔ گریبان کھلا ہوا، بال بکھرے ہوئے۔
’’ذرا ادھر تو آئیے!‘‘ میں کھڑکی کے پاس پہنچ گیا۔
’’آپ اتنے روز سے آئے کیوں نہیں؟‘‘
میں چُپ رہا۔
’’بتائیے نا! دیکھئے ہم سب بہت اداس رہے۔ ارے یہ خون سا کہاں سے آ گیا آپ کے چہرے پر؟‘‘ اس نے اپنے ننھے سے رو مال کو میرے گال پر پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ابھی حجامت کی تھی میں نے۔‘‘
’’حجامت کی تھی؟ کس کی؟‘‘
’’اپنی! اور کس کی؟” میں ہنس پڑا وہ بھی ہنس پڑی۔
’’تو آج آئیں گے نا آپ؟‘‘
’’جی نہیں! میں نہیں آؤں گا۔‘‘
’’جی نہیں! ضرور آئیں گے آپ!‘‘ اس نے بالکل میری نقل اتارتے ہوئے کہا۔ ’’میں کالج جا رہی ہوں، چلیں گے آپ؟‘‘
’’کیا آپ کے کالج چلوں؟‘‘
’’جی نہیں! چلیے آپ کے کالج میں چھوڑتی جاؤں آپ کو۔‘‘
’’مگر میرا حلیہ تو ملاحظہ ہو ذرا۔‘‘ کار چل دی۔ اس نے رو مال ہلایا، میں نے ٹائی ہلا دی۔
میں پہلے کی طرح پھر آنے جانے لگا مگر جلد ہی ایک عجیب سا واقعہ پیش آیا۔
ہوا یہ کہ خاں صاحب کے ہاں اکثر سینما کے فری پاس آیا کرتے تھے۔ یوں تو ہر اتوار کو ان کے ساتھ سینما جایا کرتا تھا مگر دوسرے تیسرے روز ان کے ہاں سے پاس بھی اکٹھے کر لاتا۔ یار دوست بھی خوب ہل گئے تھے۔ ہر روز ان کا یہی تقاضا رہتا تھا کہ ’’پاس لاؤ۔‘‘ ایک بہت اچھی پکچر لگی ہوئی تھی۔ مجھ پر بڑا دباؤ ڈالا گیا کہ پاس لاؤں۔
میں خاں صاحب کے ہاں پہنچا تو وہ باہر گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر باغ میں سے گزر رہا تھا کہ تسنیم نظر آئی۔ وہ گلاب کے قطعے میں کرسی پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔ گلابی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بھی گلاب کا پھول ہو۔ اس نے مجھے روک لیا۔
’’اتنی جلدی واپس کیوں جا رہے ہیں آپ؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک پھول ہاتھ میں لے کر بازو گھمایا اور پھول یوں پھینکا جیسے باؤلنگ کرتے ہیں۔
’’ایک کام تھا خاں صاحب سے!‘‘ میں بولا۔
’’بہت اچھا! جا سکتے ہیں آپ!‘‘ میں حیران رہ گیا۔ یہ کیا بدتمیزی تھی۔ اس طرح بھی کوئی باتیں کرتا ہے میں نے سائیکل سنبھالی۔ پھر خیال آیا کہ اگر پاس نہ لے کر گیا تو وہ جو چار پانچ حضرات انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کیا کہیں گے۔
’’دیکھئے! ذرا مجھے پاس لا دیجیے!‘‘
’’ہمیں پاس واس کا کچھ پتہ نہیں، کہاں پڑا ہے کہاں نہیں۔ آپ زیادہ سینما نہ دیکھا کیجئے۔ دن بھر بولنگ کرتے رہتے ہیں، رات کو پڑھا کیجیے۔ سمجھ گئے آپ! اور پھر بڑوں کا کہنا ضرور ماننا چاہیے چھوٹوں کو۔‘‘
’’افوہ! تو گویا بڑی ہیں آپ، لاحول ولا قوۃ‘‘
’’کیوں اس میں لاحول ولا کی کیا بات ہے۔ سچ کہتی ہوں۔‘‘
’’خیر غور کیا جائے گا اس پر۔ کل سے پڑھا کریں گے۔ ذرا پاس تو لا دیجیے۔‘‘
’’آج ابّا جان بھی سینما جانے کو کہہ رہے تھے۔ اگر انہوں نے پوچھا کہ پاس کہاں ہیں تو پھر؟‘‘
’’مگر ان سے تو سینما میں کوئی پاس نہیں مانگے گا۔ دیکھئے لا دیجیے۔‘‘
’’بہت اچھا مگر!‘ وہ ہنس پڑی اور اندر سے پاس اٹھا لائی۔
میں نے سائیکل چلائی ہی تھی کہ خان صاحب کی کار کوٹھی میں داخل ہوئی۔ انہوں نے مجھے وہیں روک لیا۔
’’چائے وائے پی کر جانا بھئی!‘‘ وہ بولے۔ میں نے جلدی سے ایک پیالی لی اور اٹھا ہی تھا کہ تسنیم بولی۔
’’ابّا جان! نہ معلوم یہ آپ کے سینما کے پاس کون چرا کر لے جاتا ہے ہر روز؟‘‘
’’لے جاتا ہو گا کوئی!‘‘ خان صاحب بولے۔ ’’اور میں کون سا روز سینما وینما دیکھتا ہوں۔‘‘
’’مگر ابّا سوچئے تو سہی۔ آج کسی نے پاس چرایا ہے تو کل دوسری چیزیں چرا لے گا۔‘‘
اِدھر میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف بڑی بے بسی سے دیکھا مگر مجال جو اس پر ذرا سا بھی اثر ہوا ہو۔
’’تو پھر کیا کیا جائے اب؟‘‘ خان صاحب جھنجھلا کر بولے۔
’’جی مناسب بند و بست ہونا چاہیے اس چوری کا۔ آپ آج خود جا کر چور کو پکڑ لیں۔‘‘
’’دیکھا تم نے! یہ لڑکی کیسی جاہلوں واہلوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ بھلا اب میں پاس پوس کی خاطر سینما کا پہرہ وہرہ دوں گا۔‘‘
’’نہیں ابّا! آج ضرور چور کا پتہ نکالیے۔ وہ ضرور آپ کے پاس لے کر سینما آئے گا۔‘‘
’’اچھا تو جناب! مجھے اجازت دیجیے۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہاں سے سیدھا ہوسٹل پہنچا اور دوستوں کو صاف صاف کہہ دیا کہ پاس چرا کر لایا ہوں۔ اگر پتہ چل گیا تو وہاں سے فوراً نکال دیے جائیں گے مگر وہ نہ مانے۔ خیر سینما پہنچ گئے۔ انہیں میں نے اندر بھیج دیا اور خود بڑی شان سے باہر ٹہلنے لگا۔ سامنے سے مینجر سگریٹ پیتا ہوا آ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔
’’معاف کیجئے، کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ خاں صاحب آپ کے کیا لگتے ہیں؟‘‘
’’میرے وہ یعنی میں ان کا میرا مطلب ہے کہ میرے ایک عزیز ہیں۔‘‘
’’جی ہاں! اور یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ وہ آپ کے کون ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی! جی وہ میرے میرے چچا ہیں۔‘‘
’’اچھا تو آپ ٹھہریے، میں ذرا فون لے آؤں ابھی آیا۔‘‘ غالباً وہ خان صاحب سے پوچھنے گیا تھا کہ ان کا کوئی بھتیجا بھی ہے یا نہیں۔ مگر بد قسمتی سے ان کا کوئی بھتیجا تو کیا کوئی بھانجا تک بھی نہیں تھا۔
میں لپک کر اندر پہنچا اور ان حضرات سے کہہ دیا کہ بھانڈا پھوٹ گیا ہے، تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا، مینجر کمبخت میرے پیچھے لگا ہے۔ اب میں دوڑتا ہوں، اتنے میں پکچر شروع ہو گئی۔ گیٹ سے مینجر کی آواز آئی۔ ’’خان صاحب نے کہا جو پاس لایا ہے اسے پکڑ لو۔ ارے وہی لمبا سا لڑکا تو ہے جس سے میں ابھی باتیں کر رہا تھا۔ ابھی ابھی اندر گیا ہے وہ ذرا پکڑو تو سہی اُسے۔‘‘
دو آدمی اندر داخل ہوئے۔ میں جھکتا ہوا دوسری طرف چلا۔
’’بیٹھ جائیے!‘‘ پچھلی قطار سے آواز آئی۔
’’وہ جا رہا ہے!’’ مینجر چلایا میں نے قلانچ بھری اور کئی آدمیوں کے اوپر سے ہائی جمپ کرتا ہوا سیکنڈ کلاس میں جا پہنچا۔
’’لینا پکڑنا! وہ جا رہا ہے!!‘‘ سینما میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔ گیٹ پر ایک خوانچے والا کھڑا تھا۔ میں نے اسے تو گیٹ کیپر کی طرف دھکیلا اور خود دروازہ کھول کر باہر دوڑا۔ میرے پیچھے آٹھ دس آدمی بھاگے آ رہے تھے۔ میں بھی بھاگے گیا۔ نصف میل کی دوڑ کا لطف آ رہا تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تعاقب کرنے والے صرف دو تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔ آخر انہوں نے مجھے آ ہی لیا۔
’’ہمیں بڑا افسوس ہے، مگر ہم مجبور ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ذرا خان صاحب کی کوٹھی تک چلیے۔‘‘ مینجر بولا۔
میں اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
آگے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خان صاحب نے مینجر کو خوب ڈانٹا۔ مجھ سے معافی مانگی سوائے تسنیم کے، جو اس ساری شرارت کی بانی تھی۔
میں ہوسٹل پہنچا اور باہر کی دیوار کے پاس دیر تک کھڑا رہا۔ جب سب لڑکے سو گئے تب اندر گیا۔ رات کو بالکل نہ سو سکا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ کتنا زبردست بیوقوف ہوں۔ اب تک یہی سمجھتا رہا کہ اسے مجھ سے دلچسپی ہے مگر وہ اتنے دنوں تک مجھ سے کھیلتی رہی ہے۔ کیا میں اتنا گیا گزرا تھا کہ میرے جذبات کو اس طرح ٹھکرایا جائے۔
میں نے تہیہ کر لیا کہ اب بھی کچھ نہیں گیا ہے۔ اور زیادہ بے وقوف نہیں بنوں گا۔ اگر اسے اپنے اوپر غرور ہے تو ہوا کرے۔ مجھے بھی غرور ہے۔ اسے مجھ سے نفرت ہے تو میں بھی اس سے نفرت کر سکتا ہوں۔
اگلے ہفتے مجھے بخار چڑھ گیا۔ کئی روز تک اکیلا ہوسٹل میں پڑا رہا۔ خان صاحب باقاعدہ دن میں دو مرتبہ مجھے دیکھنے آتے تھے اور ہر روز گھر لے جانے پر اصرار کرتے۔ آخر وہ مجھے اپنے ہاں لے گئے۔ وہاں جا کر اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ کچھ جی بہل گیا۔ میرے پلنگ کے گرد بچے بیٹھے رہتے۔ ایسے ایسے لوگ مزاج پرسی کے لیے آتے تھے کہ بیماری کا غم آدھا رہ گیا تھا۔ تسنیم بھی دیکھنے آیا کرتی۔ اپنی والدہ کے ساتھ، اکیلی بھی نہیں۔
وہ آتی تو نفرت سے میں منہ پھیر لیتا اور وہ بھی ناک بھوں چڑھاتی۔ میری نبض دیکھتی اور چلی جاتی۔ دن گزرتے چلے جا رہے تھے۔ کم بخت بخار تھا کہ اترنے ہی میں نہ آتا تھا۔ ایک روز بہت بارش ہوئی۔ شام کو موسم نہایت خوش گوار تھا۔ بچے جلد سو گئے۔ خان صاحب، بیگم صاحبہ کے ہمراہ کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے۔ میں اکیلا پڑا بخار میں تپ رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اس وقت کوئی ایسی ہستی ہو جو میرے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کرے، جو میری تکلیف میں شریک ہو۔
مجھے تسنیم یاد آ رہی تھی مگر اسے میری کیا پرواہ تھی؟ اس نے مجھے کس قدر ستایا تھا۔ اگر اسے ذرا سا بھی خیال ہوتا تو ضرور معافی مانگتی۔ اس سے باتیں کیے پورا مہینہ گزر گیا تھا۔ یہاں سب لوگ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگا اگر میں مر بھی جاؤں تو کسے غم ہو گا؟ تسنیم تو الٹا خوش ہو گی۔ بھلا کیوں خوش ہو گی؟ اس کا جواب مجھے بھی معلوم نہیں تھا بیماری میں انسان عجیب عجیب باتیں سوچتا ہے۔
یکایک میں نے اپنے چہرے پر ملائم سے ہاتھ کا لمس محسوس کیا۔ پھر یوں معلوم ہوا جیسے کوئی میرے سرہانے بیٹھ گیا ہے۔ ایک بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی۔ میں نے ایک آنکھ ذرا جھپکی۔ یہ تسنیم تھی۔ وہی نیلا لباس پہن رکھا تھا جسے دیکھ کر میں پاگل ہو جایا کرتا تھا۔
اس کی انگلیاں میرے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔ میں نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ شاید وہ مجھے پھر ستانے آئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اپنی بے بسی پر خوب روؤں۔ کیا وہ مجھے تنگ کرنے آئی تھی۔
ٹپ سے ایک قطرہ میرے چہرے پر گرا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا۔ مجھے آنکھیں کھولنی ہی پڑیں۔ میں نے دو بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو دیکھے وہ رو رہی تھی۔
کیا واقعی اسے میرے جذبات کا احساس تھا؟ کیا واقعی اسے میرا خیال تھا؟
دل سے آواز آئی۔ پگلے! اب بھی نہ سمجھا تو آخر کب سمجھے گا؟ اب یہ معافی مانگ رہی ہے اور تُو یونہی خاموش رہا تو ذرا سی دیر میں تجھے معافی مانگنی پڑے گی۔ میں نے اس کے نازک سے ہاتھ ہر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگایا۔ پتہ نہیں وہ کتنی دیر روتی۔ اس نے میرا ہاتھ آنسوؤں سے تر کر دیا۔ دیر تک ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ دونوں کی زبان سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ مگر خاموشی نے دل کے راز داستان کی طرح سامنے رکھ دیے تھے۔ باہر ٹھنڈی ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ رات کے سناٹے میں دو دل دھڑک رہے تھے۔
٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...