اُٹھ جاؤ لڑکی، چل اُٹھ جا اس کے کانوں میں ایک سخت سی آواز سنائی دے رہی تھی۔
پر زخموں سے چور جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
وہ آنکھیں کھولنا چاہا رہی تھی پر نہ بولنے کی ہمت تھی اور نہ ہی ہلنے کی۔
اتنے میں ایک بڑھیا نے زبردستی بازو سے جھنجھوڑ کر اُٹھایا اور کہا پانی پی۔
پانی کا ایک پرانا گلاس آگے کرتے ہوۓ بولی.
اس نے زبردستی آنکھیں کھولیں۔ ہلکی ہلکی روشنی میں وہ اپنے سامنے بیٹھی غصے بھری نگاہوں سے بولتی بڑھیا کو دیکھنے لگی۔
بڑھیا نے دوبارہ سے کہا چل پانی پی، ہوش میں آ۔ اب یہی تیرا ٹھکانہ ہے۔ دائیں طرف کونے میں بیٹھی عورت کی آواز آئی۔
بڑی پکی ہے،اتنا دیر سے مار کھا کھا کر تین بار بے ہوش ہوئی، پر مجال ہے کہ منہ سے ایک لفظ بھی پھوٹی ہو۔
چل ہمیں یہ بتا کیا جرم کر کے آئی ہے اب وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
میں نے کوئی جرم نہیں کیا وہ آ ہستہ سے بولی۔ تین دن کی جیل میں وہ یہی بات بولی ۔
اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی.
سر یہ کس چیز کی فائل ہے۔ وہ بڑی گھمنڈی،اپنی خوبصورتی کو اپنی کامیابی کا راز سمجھنے والی لڑکی تھی۔
آپ فائل اپنے آ فس لے جائیں تسلی سے چیک کرنے کے بعد سائن کر دیں۔
پر کیسے سائن سر؟
وہ ایک 60 سالہ ،داڑھی ،پینٹ کوٹ میں ملبوس ،انتہائی مذہب پسند اور ہر وقت انسانیت کا درس دیتا نظر آ تا ہے مطلب کہ اس پر بھروسہ کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔
مس شاہینہ یہ آپ کی انتھک محنت اور لگن کا انعام ہے ۔وہ اتراتے ہوۓ میں سمجھی نہیں۔ وہ اس غلط فہمی میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے باس کو دھوکہ دے کر زیادہ مراعات وصول کر رہی ہے۔
درحقیقت وہ اسی شرافت کا لبادہ اُوڑھے شخص کے بچھاۓ جال میں پھنس رہی ہوتی ہے۔ میں نے یہ آفس آپ کے نام کر دیا ہے جیسا کہ ہم کنسلٹینسی اور اوورسیز ویزہ پر کام کر رہے ہیں میں اب بہت جلد سنگاپور چلا جاؤں گا وہاں کا سیٹ اپ میں سنبھالوں گا۔
اور
یہاں پاکستان میں آ پ نے ہینڈل کرنا ہے۔ یہ دن اس کی کامیابی کا دن تھا جیسے وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئی ہو۔
اماں اماں ہمارے باس نے اپنی کمپنی میرے نام کر دی ہے۔اب ذین اور سعد کو باہر بھیجوں گی پڑھنے کے لیے آپ کو حج کرواؤں گی۔
تم ستیا گئی ہو؟
ماں پریشانی ظاہر کرتے ہوۓ بولی۔
کوئ بغیر وجہ کے اپنا کاروبار کیوں دے سکتا ہے۔
شاہینہ تم نے کیا کیا ہے مجھے سچ سچ بتاؤ۔
ماں غریب ان پڑھ جوانی میں شوہر چھوڑ کر چلا گیا ایک بیٹی دو بیٹوں کو مزرودی کرکے پالا پر وہ اس عنایت پر مطمئین نہ ہوئی۔
اماں آپ کی بیٹی بہت قابل اور خوبصورت ہے اور ہمارا باس بوڑھا ،کھوڑوس پاگل ہے۔
مجھ پر اعتبار کر کے کمپنی میرے حوالے کر دی۔ اب میں اسے ایک ٹکہ نہ دوں۔
دیکھنا اماں لاکھوں،کڑوروں کی ڈیل ہوتی ہے ہر ماہ ہم بہت جلد امیر ہو جائیں گے۔
ادھر "علی اختر" لوگوں سے بٹوری تمام رقم لے کر ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔
اس کا یہی کاروبار ہوتا ہے۔
کمپنی بنا کر معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر چند پیسے اور مراعات دے کر آخر میں پیسے لے کر نکل جاتا تھا۔
وہ ہر بار اپنا کاروبار کسی نئے شہر یا علاقے میں کرتا یہ کھیل اس نے کئی سالوں سے رچایا ہوا تھا پر اس بار شاہینہ جیسی ماڈ سکاڈ اور بولڈ لڑکی کو چکما دے گیا۔کسی بھی پارٹی سے وہ ڈائریکٹ نہ ملتا بزی ہونے کا بہانہ کرتا اور شاہینہ سے کہتا کہ وہ ڈیل بھی خود کرے اور یقین دہائی کرواۓ کہ کمپنی بھی اسی کی ہے۔
اب لوگوں کی نظر میں وہی مالک تھی۔
شاندار آفس جہاں ایک ایک گلدان لاکھوں کا تھا۔ بہترین سیٹ اپ فل سٹاف اپ ٹو ڈیٹ اس طرح کا ماحول تھا۔ کہ آنے والی ہر پارٹی ڈیل کئی بغیر رہ نہ پاتی۔
اب اچانک دو ہفتوں بعد شاہینہ پر پہاڑ ٹوٹا جب پولیس اسے فراڈ کے کیس میں پکڑنے آگئی۔
یہ چال بھی "علی اختر" کی تھی جو کسی مصنوعی پارٹی کے ذریعے کیس کرتا اب "شاہینہ" کو سمجھ آیا کہ
وہ شاہینہ چال باز نہ تھی بلکہ
وہ فرشتے صفت نظر آنے والے شخص نے اسے اپنے جال میں پھنسا کر شاہینہ کو باقی زندگی جیل میں گزارنے پر مجبور کر دیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...