اب موسم سرد ہونا شروع ہو چکا تھا-
بس میں میرے اور ماں کے علاوہ 26 کے قریب اور لوگ بھی موجود تھے-
جب ہم لاہور سے نکلے تو جولائی کا گرم ترین دن تھا-
ملکہ کہسار مری میں داخل ہونے کے بعد بھی موسم کچھ خاص خوشگوار نہیں تھا لیکن اب نتھیا گلی کے قریب پہنچنے کے فوراً بعد موسم خوشگوار ہوگیا-
بندر پوائنٹ پر ڈرائیور نے تھوڑی دیر کے لیے گاڑی روکی تو بندروں نے گاڑی کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا۔
اندر موجود کچھ بچوں نے مکئی کے بھٹے اور کیلے انہیں دینے شروع کئے تو بندر چھلانگیں لگا لگا کر پکڑنا شروع ہو گئے۔
سب لوگ بندروں کو دیکھ کر ہنس رہے تھے اور جب میں نے ماں کو دیکھا تو وہ کسی معصوم سی ڈرپوک بچی کی طرح آنکھیں بند کئے۔ ہل ، ہل کر کچھ پڑھ رہی تھیں
کیا ہوا ماں ؟؟
مجھے حیرت ہوئی کیا 50 سال کی خاتون کو بھی ڈر لگ سکتا ہے؟
“کچھ نہیں بیٹا، مجھے ان بندروں سے ڈر لگ رہا ہے،،
“ارے ! آپ تو میری اتنی بہادر ماں ہیں، کیا اپ کو بھی ڈر لگتا ہے؟
مجھے ماں کے جواب سے اچھی خاصی حیرت ہوئی کیونکہ کہ پاپا کی اچانک وفات کے بعد جس طرح ماں نے تایا ابو کے ساتھ ساتھ میرے ننھیال والوں سے بھی اختلاف کر کے جائداد سے اپنا حصہ لیا مجھے پڑھایا اور اب مجھے مزید پڑھنے کے لیے امریکہ بھیجا وہ کسی عام عورت کا حوصلہ نہیں ہو سکتا-
” بیٹا ماں تو ہوں لیکن عورت ہی ہوں نا۔۔بہت ساری چیزوں سے مجھے ڈر لگتا یے،،
“اچھا.. مثلاً ؟؟
میں نے محض ان کے دھیان کو بدلنے کے خیال سے پوچھا
” مجھے بلیوں سے، چھپکلیوں سے ، کتوں سے بندروں سے خوف اتا ہے،،
ماں نے کھڑکی سے منہ پھیر کر اندر کی طرف کر لیا۔
” چلیں آپ سیٹ بدل لیں میرے ساتھ۔۔،،
ماں کو میں نے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا وہ ایک قدم باہر نکلیں تو میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
بس میں موجود بچے ابھی تک بندروں کی شرارتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ عین میری کھڑکی کے سامنے اک بندریا نے اپنے بچے کے سر سے جوویں پکڑتے ہوئے اسے تھپڑ رسید کیا۔۔شائد اسے ڈانٹ رہی تھی کہ کہاں سے یہ تحفے بالوں میں ڈلوا کر لے اتے ہو۔۔۔؟
بے اختیار میرے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
ماں دوسری جگہ بیٹھ کر پرسکون ہوئیں تو اپنی پانی والی بوتل اٹھائی شائد اپنی دوائی لینے کے لئے۔
بوتل کا ڈھکن کھولا تو ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کردی۔ دھکا لگنے سے بوتل کا ڈھکنا دور جا گرا۔
ماں سے پہلے ہی دوسری رو میں بیٹھے ہوئے سفید کپڑوں والے انکل نے جھک کر بوتل کا ڈھکن اٹھا کر ماں کو پکڑا دیا-
ماں نے اس کے چہرے کو دیکھے بغیر ڈھکن لگاتے ہوئے شکریہ کہا-
میں پچھلے چار سال سے امریکہ میں ہوں-مجھے ذاتی طور پر مری جانا پسند نہیں-
لیکن جب سے میں پاکستان آیا ہوں ماں مجھے بہت اداس، کمزور اور بوڑھی نظر آرہی ہیں-
اب امی کی سالگرہ پر انہیں گفٹ دینے کے علاوہ انہیں گھمانے کے لیے اس طرف لے کر جارہا ہوں-
امریکہ میں دائیں ہاتھ ڈرائیونگ کی وجہ سے میں نے لاہور سے براہ راست مری تک کے سفر کے لیے اس بس سروس کا انتخاب کیا-
جب ہوٹل پہنچے تو اچانک موسم بہت رومان پرور اور ٹھنڈا ہو گیا- بادل اتنے نیچے جھکے ہوئے تھے کہ ہاتھ بڑھا کر انہیں پکڑ ہی لیں-
بے اختیار مجھے نورا یاد آگئی-
نورا امریکہ میں میری یونیورسٹی فیلو تھی-
سلم، سمارٹ، اونچی، لمبی نورا کی پیدائش اور تعلیم امریکہ کی تھی- جب کہ اس کے والدین 30 سال پہلے امریکہ شفٹ ہوئے تھے-
پاکستان سے واپس جاکر ہم دونوں نے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانا ہے-
ماں کی بات چیت نورا کے والدین سے ہو چکی ہے ہم دونوں کے بزرگوں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں-
بس ایک چیز جو میرے لیے پریشان کن ہے کہ ماں نے میرے ساتھ امریکہ جانے سے انکار کر دیا البتہ مجھ سے یہ وعدہ کیا کہ جب میں باپ بن جاؤں گا تو تب میرے پاس آئیں گی-
ہوٹل پہنچے تو وہی بس والے انکل ہمیں آتا دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوگئے اور ہمیں اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی-
مجھے لگ رہا تھا کہ ماں بہت تھک گئی ہیں اس لیے ان کی دعوت قبول کر لی اور وہاں پر ہی بیٹھ گئے-
انکل نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے تعارف کروایا
“میرا نام سید سہیل علی ہے،ایک گورنمنٹ ادارے سے ریٹائرڈ ہوں سیر سپاٹے کا بہت شوق ہے-بچے اپنی زندگیوں میں مگن ہیں تو میں کبھی پاکستان سے باہر اور کبھی پاکستان کے اندر گھومتا پھرتا رہتا ہوں-
میں نے بھی اپنا تعارف کروایا
“سر میرا نام احمد جواد ہے، میں نے ابھی ابھی یونیورسٹی آف پنسلوینیا سے تعلیم مکمل کر کے جاب شروع کی ہے،،
میں نے نوٹ کیا کہ محترم اپنی عمر کے حساب سے کافی فٹ تھے، اکہرے بدن کے سید صاحب کی کنپٹیوں کے سفید بال انہیں مزید پرکشش بنارہے تھے-
کچھ دیر کے بعد کھانا کھا کر ہم لوگ اپنے کمروں میں چلے گئے-
ہمارا یہ وزٹ 6 دن پر محیط تھا جس کا پہلا دن تو سفر کی نذر ہو چکا تھا اگلے دن شیڈول کے مطابق یہاں ہی گزارنا تھا-
اس کے بعد مزید جگہیں دیکھتے ہوئے ٹھنڈیانی تک جانے کا پروگرام تھا-
اگلے دن ماں کا ارادہ شاپنگ کا تھا اور میرا فلم دیکھنے کا تھا-
شام کو ماں شاپنگ سے فارغ ہو چکی تھیں تو ہم لوگ ایک مشہور فلم دیکھنے چلے گئے-
فلم بہت اچھی تھی شو ختم ہوا تو میں نے کچھ توقف کیا تا کہ رش کم ہو جائے اور جب ہم نکل رہے تھے تو ہمارے سے آگے وہی انکل تھے-
ہم قریب پہنچے تو وہ گیٹ کھول کر کھڑے ہو گئے ماں اور میں باہر نکل گئے تو پیچھے پیچھے وہ صاحب بھی آگئے-
عجیب ٹھرکی آدمی ہے-اس دن بھی ہمیں اپنے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کیا اور آج پھر میری ماں کے لیے دروازہ پکڑ کر کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی بھلا—
غصے سے میری کنپٹیاں پھٹپھٹانا شروع ہو گئیں-
باقی کا ٹرپ میرا سید سہیل کی موجودگی کی وجہ سے بہت بد مزہ گزرا-
اسے جب بھی ماں نظر آتی وہ ضرور ہمارے پاس آکر ان سے باتیں کرنے لگتا۔
اس دوران ٹھنڈیانی میں بھی سنی بنک کے سامنے ماں کا پاؤں پھسلنے پر اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا سہارا دینے کے لیے لیکن میں نے ان کے ہاتھ کو جھٹک کر دور کیا اور ماں کو خود سہارا دیا-
واپس لاہور پہنچے تو میرے واپسی میں صرف 10 دن رہ چکے تھے۔
ماں کی محبتوں کو سمیٹتے ہوئے ان کے ھاتھ کے کھانے کھاتے ہوئے کسی وقت میں بہت خوش ہوجاتا اور کسی وقت دل اداس ہوجاتا۔
کسی کسی وقت سوچتا کہ شاید مجھے باہر نہیں جانا چاہئے۔
ماں نے میرے لیے اپنے میکے والوں سے بھی تعلقات خراب کر لیے تھے۔
مجھے آج تک یاد ہے جب ماں نے اپنے بھائی سے جائداد میں سے اپنا حصہ مانگا تھا تو
ماموں اور ممانی کارویہ کس طرح بدل گیا تھا ۔۔نانی خود مجبور تھیں۔نانا ابو کے انتقال کے بعد ان کی اپنی بادشاہی ڈھل چکی تھی۔
پھر جب ماموں نے کہا ” دیکھو سمیرا ! ہم نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے ، یہ تمہارا حق ہے اگر تم مانگ لو تو۔۔۔۔! لیکن ہم تمہیں ہر مہینے اچھی خاصی معقول رقم دیتے رہے ہیں اور پھر بھی دیتے رہیں گے۔ دنیا پر عورت کابھرم اور عزت شوہر کے بعد بھائیوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ تم کیوں اس طرح اپنی عزت ختم کررہی ہو؟؟
” لیکن بھائی ! مجھے اپنے بچے کو پڑھانے کے لئے یک مشت رقم کی ضرورت ہے۔اپ مجھے ہر مہینے کچھ رقم دیں گے تو میں اسے کیسے پڑھنے کے لئےباہر بھیجوں گی؟
“تو جب ہر مہینے تمہیں رقم نہیں ملے گی تو گزارا کیسے کرو گی؟
“کوئی مسئلہ نہیں بھائی میں گزارا کر لوں گی۔ بس اپ میرے حصے کی جائداد کی رقم مجھے دے دیں۔۔میں اپ سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی،،
******************
آج رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔
شائد اب پاکستان کی گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی عادت نہیں رہ گئی تھی۔ نیند ایک مرتبہ اچاٹ ہو جاتی تو دوبارہ نہیں آتی تھی۔۔آخر کار فریج میں سے پانی لینے کے لئے ٹی وی لاونج میں داخل ہوا تو سسکیوں کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔
ماں کے کمرے سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔۔شاید ماں کسی سے باتیں کرتے ہوئے رورہی تھی۔
میرا پہلا دھیان سید سہیل کی طرف گیا۔ ماں فون پر اس سے باتیں کررہی ہے۔۔رات کے اس پہر ۔۔اسے روتے ہوئے بتارہی ہے کہ میرا بیٹا اگلے ہفتے چلا جائے گا تو میں کتنی تنہا رہ جاوں گی۔
ہم اپنے والدین سے پیار تو کرتے ہیں لیکن ہماری اپنی شرائط پر۔۔۔۔۔اور اگر ان کے روئیے ہماری شرائط سے ٹکرا رہے ہوں تو پھر ہم بچوں کی کون سی محبت اور کون سا پیار۔۔
میں دبے پاوں چلتا ہوا دروازے کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ ماں واقعی میرے جانے کے لیے رو رہی تھیں اور روتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ اب آپ نے ہی میرا خیال رکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ سب ماں سید سہیل سے نہیں بلکہ اپنے مالک ، اپنے رب سے کہ رہی تھیں۔۔۔
“اے مالک کائنات ۔۔۔آپ کے علاوہ میرا کوئی نہیں , آپ میرا ہاتھ پکڑ لیجئے۔۔آپ میرے دل کو تھام لیجئے۔۔مجھے حوصلہ دے دیجیے کہ میں اپنے بچے کو خوشی خوشی رخصت کر سکوں۔یا رب العزت۔۔آپ نے اس وقت میرا ہاتھ پکڑا تھا جب ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔۔یااللہ مجھے بس آپ کا ساتھ چاہئے ہے۔۔آپ مجھے نہ چھوڑیے گا۔۔۔،،
میں کمرے میں واپس آگیا ۔
ماں کے تڑپ تڑپ کے رونے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
وہ اب پھر جدائی کو سامنے دیکھ رہی تھیں۔۔اس جدائی سے وہ خوف زدہ تھیں، جس میں ان کے پاس بہن بھائی نہیں تھے ۔۔۔۔سسرال والے بھی نہیں تھے۔۔اور جس بیٹے کے لیے ان سب کو ناراض کیا وہ بھی جارہا تھا۔
اگر ماں، میرے باپ کے فوت ہوجانے کے بعد مجھے ایک رات بھی اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی تو کیا میں نے اکیلے نہیں ڈرنا تھا۔
جسے میں بہادر سمجھتا تھا وہ بہادر تھی۔۔لیکن وہ ایک انسان بھی تو تھی۔۔۔ہم اپنے والدین کے بارے میں یہ کیوں سوچ لیتے ہیں کہ ان کی ضروریات نہیں ، ان کی خواہشات نہیں ۔۔۔ان کی بھی تو عام انسان کی طرح زہنی ، جسمانی روحانی جذباتی ضروریات ہوتی ہیں۔
انہیں بھی کسی کمزور لمحے میں اپنوں کا سہارا چاہئے ہوتا ہے۔
ماں نے ساری زندگی ہی اکیلے گزار دی۔
اگر وہ اپنی نئی دنیا بسا لیتیں تو انہیں قانوناً کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ مذہب انہیں اس قدم اٹھانے کی کھلے دل سے اجازت دیتا ہے بلکہ مذہب کہتا ہے کہ تین کاموں میں دیر نہ کرو
ازان ہو جائے تو نماز میں
فوتگی ہو جائے تو جنازے میں
عورت بیوہ ہو تو دوسری شادی میں۔۔
اگلے دن اتور تھا اور صبح تک میں فیصلہ کر چکا تھا۔
مری میں قیام کے دوران جیکٹ کی جیب سے مجھے سید سہیل کا ایڈریس اور فون نمبر مل گئے۔
اس آنے والے ایک ہفتے میں، میں نے کتنے بہت سارے کام کرنے تھے۔
صبح سویرے ناشتے سے پہلے سہیل صاحب کو کال کی کہ میں آپ کی طرف آرہا ہوں ناشتہ آپ کے ساتھ کروں گا آپ مجھے لوکیشن بھیج دیں۔
آدھے گھنٹے کے بعد میں ان کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔
آج اتوار کی چھٹی تھی اور وہ گھر پر ہی تھے۔ ویسے بھی ان کی اب ریٹائرڈ زندگی تھی اور ان کے کام اب ایسے ضروری نہیں تھے۔
ناشتے کے بعد میں پھر ان کے ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گیا۔
” جی تو سہیل صاحب۔۔! اج کل کیا مصروفیات ہیں ؟؟
سید سہیل صاحب مجھے کچھ الجھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔شاید انہیں میرا روکھا رویہ یاد تھا جو مری میں قیام کے دوران میں نے ان کے ساتھ روا رکھا تھا۔
” کچھ خاص نہیں ، میرے دونوں بیٹے پاکستان سے باہر ہیں۔پانچ سال پہلے جب بیگم کی وفات ہوئی تب سے میں یہاں اپنے گھر پر ہی رہتا ہوں، سال میں ایک مرتبہ چند ماہ کے لیے کسی بیٹے کے پاس چلا جاتا ہوں،،
میں نے زندگی میں بڑے بڑے مشکل مرحلے پار کئے لیکن آج کے دن کا مرحلہ سب سے مشکل تھا۔
میں جانتا ہوں اپ لوگ مجھے بے شرم۔۔یا شائد بے غیرت سوچ رہے ہوں گے۔۔یا شاید کہ رہے ہوں گے کہ امریکہ میں حرام کھا کھا کر بے غیرت ہو چکا ہوں۔لیکن میں اپ کے ساتھ کسی بحث میں نہیں پڑوں گا ۔۔میں اللہ کے اگے جواب دہ ہوں
جب ماں ائر پوٹ آئی تو اپنے پسندیدہ موتیا کلر کے لباس میں خوشبو کے ہالے میں لپٹی ہوئی… سید سہیل صاحب کے ساتھ.. بہت عرصے کے بعد ماں کے چہرے پر وہ مسکراہٹ نظر آئی جس میں اعتماد ہوتا ہے، محبت وصولنے کا مان ہوتا ہے۔