دنیا کا نقشہ اپنے سامنے میز پر پھیلائے، انگلیوں میں پنسل تھامے، وہ بہت دیر سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا یا سوچ رہا تھا، کبی کبھی پنسل نقشے پر بنی لکیروں کے اوپر ہی اوپر راستہ ڈھونڈتے بہت دور تک نکل جاتی اور پھر اسے یوں لگتا جیسے پنسل کے ساتھ اس کا ذہن بھی سفر کرتا دور بہت دور صحراؤں، جنگلوں اور بیابانوں میں کہیں کھو گیا ہو، آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ پر چڑھتے اس کی سانس پُھول جاتی اور ترائی میں اترتے ہوئے ایک پتھر سے پھسل کر جب وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا تو لڑھک گیا اور قلابازیاں کھاتے ہوئے، پتھروں سے ٹکراتے ایسی کھائی میں جا گرا جہاں نیچے کالے پتھر کی چٹان تھی ۔
وہ چٹان سے ٹکرایا، چند سیکنڈ تڑپا اور پھر جیسے اس پر رات چھا گئی، تھوڑی دیر بعد نہیں کافی وقت گزر چکا تھا جب وہ حواس میں لَوٹا، بدن کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں، وہ کراہا جیسے کہہ رہا ہو کوئی ہے جو ان کرچیوں کو سمیٹ کر مجھے پھر سے ایک جسم بنا دے، جسم جس میں روح کی طاقت ہو، جس کی رگوں میں دوڑتے خون میں زور شور ہو، جس پر لگی دو آنکھیں جو دیکھنا چاہتی ہیں وہ دیکھ سکیں، کوئی رہبر جو مجھے وہاں لے جائے جہاں سے آیا تھا، اس نے حرکت کرنا چاہی، بازوؤں اور ٹانگوں کے ٹُوٹے جوڑوں کی ٹیسیں جیسے سچ مچ اس کے بدن میں اتر گئیں۔
پنسل والا ہاتھ کانپ گیا، اس نے یوں گردن ہولے ہولے اوپر اٹھائی جیسے یکدم اٹھاتا تو گردن ٹُوٹ ہی جاتی، اس نے پنسل نقشے کے حاشیہ سے باہر رکھی، بازو اور ٹانگوں کو سہلایا اور یقین کیا کہ ٹُوٹے نہیں سلامت ہیں، اس کا جی چاہا نقشے کے پُرزے کر ڈالے لیکن دھیان ہُوا کہ اس نقشہ پر تو وہ جگہ بھی موجود ہے جس پر اس وقت وہ بیٹھا ہُوا ہے، اتنی جگہ چھوڑ کر باقی نقشہ، نہیں، اڑوس پڑوس میں بھی اچھے لوگ ہیں، اد کے علاوہ بھی اس کی خیال گاہ کھچا کھچ تھی، بیشتر تو ناکارہ، گھسے پٹے سے، لیکن کچھ ایسے بھی تھے جو اس کی شریانوں میں ہنگامہ برپا کر رہے تھے، گفتگو کے متقاضی تھے، بحث چاہتے تھے، چاہتے تھے اس سر زمین پر وہ چلے جو انہوں نے اس کے لئے ہموار کی تھی، لیکن ہر وقت سب کچھ کہاں ہو سکتا ہے،، چلو ایک خیال رخصت ہُوا، اس کے شعور میں تھوڑی سی جگہ خالی ہُوئی تو اعصاب بھی جیسے خود بخود ڈھیلے پڑ گئے، اس نے نظر کا چشمہ اتار کر میز پر رکھا تو نگاہ پھر نقشے پر جا ٹِکی، ٹیوب لائٹ کی روشنی میں بھی نقشہ جیسے دھندلا سا گیا تھا، اس نے ایش ٹرے میں پڑا بجھا ہوا سگار اٹھایا اور اس سے قبل کہ وہ لائیٹر کے ننھے سے شعلے کے ساتھ سگار کا دُھواں اپنے پھیپھڑوں میں بھرتا اور پھر ایک پھونک سے اسے خارج بھی کر دیتا، اس کی نظر وال کلاک پر جا رُکی، نصف شب سے زیادہ بیت چکی تھی شاید اسی لئے باہر مکمل خاموشی تھی اور خنکی کمرے کی ادھ کھلی باری سے اندر آ رہی تھی لیکن کوئی کتا کہیں ایک بار بھونکتا تو دوسرا بھی اسے یقین دلانے کے لئے بھونکتا کہ وہ بھی اپنے مالک کی وفاداری میں شب بیدار ہے۔ اس نے اٹھ کر انگڑائی لی، کوٹ پہنا، سر پر گرم ٹوپی رکھی اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی کہ نومبر تھا لیکن بارش نہ ہونے کے باعث سردی پر جوبن نہیں آیا تھا، اس نے کمرے کے باہر کا دروازہ کھولا، جھانک کر دائیں بائیں دیکھا، ماحول پر ایک چُپ مسلط تھی، تھوڑی دور ایک عمارت کے صدر دروازے پر ساٹھ واٹ کا دق زدہ بلب روشن تھا، اس نے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کیا، کُنڈی چڑھائی اور دائیں ہاتھ اگلے دروازے کے پڑوسی کے در پر جا کر ہولے سے دستک دی ۔
اس گھر میں ایک برہمن خاندان رہتا ہے، دراصل یہ دونوں گھر کچھ سال پہلے ایک ہی حویلی تھی، برہمن اور وڑائچ خاندان شیر و شکر تھے۔ عید، شب برات، ہولی، دیوالی اکٹھے مناتے تھے لیکن دونوں کو محسوس ہُوا جیسے کوئی تیسرا شخص ان کی جائیداد پر قابض ہونا چاہتا ہے، وہ شخص کامیاب تو نہ ہو سکا مگر اس نے دونوں خاندانوں کو قائل کر لیا کہ حویلی تقسیم کر دی جائے اور اس میں وہ کامیاب ہُوا، صحن کی بیچ دیوار اٹھا دی گئی لیکن دیوار اٹھا دینے سے تہذیبیں کب بدلتی ہیں، قدریں کب پامال ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر دوستی جیسا رشتہ کب متاثر ہوتا ہے!
اس نے دستک دے کر چند ثانئیے انتظار کیا پھر اطلاعی گھنٹی کا بٹن دبا دیا، گھر میں جیسے کئی گھنٹیاں بج گئیں، بیٹھک کا دروازہ تھوڑا سا کُھلا، کسی نے باہر جھانک کر پھر سر اندر کر لیا، اندر بتی جلا دی گئی جس سے ظاہر ہوتا تھا یہاں سونے والا جاگ چکا ہے۔
اب آ بھی جاؤ! وہ باہر کھڑا اکتا گیا تھا۔
کون ہے بھائ ؟ سوال ہُوا
گنپت مَیں ہُوں ادریس، جواب ملا
کیا ہُوا، خیر تو ہے؟ دھوتی اور بنیان میں گنپت باہر نکل ایا۔
ہاں خیریت ہے تم کوئی ڈھنگ کا لباس پہن کر آؤ !
ڈھنگ کا لباس اور کیا ہو گا، گنپت نکٹائی سمیت تھری پیس سُوٹ اور اس کے علاوہ فلیٹ بھی سر پر رکھ آیا تھا۔ چلو، لیکن یہ بتاؤ جانا کہاں ہے، اس نے ادریس کا بازو پکڑ کر روک لیا۔
کہیں نہیں جانا بس اپنی گلی کے تین چار چکر لگاتے ہیں اور پھر تم اپنے گھر اور مَیں اپنے، ادریس نے بات فورا” ختم کی اور دونوں آگے بڑھ گئے۔
جا اوئے مسلیا میرا تو تراہ ہی نکل گیا تھا، گنپت نے ہولے سے اس کی پیٹھ پر چپت مارا۔ دونوں چلتے رہے لیکن تیسرے چکر کے لئے گلی کے آخر سے مڑتے ہی ایک سفید کُتا تیزی سے دوڑتا ہُوا آیا اور چند قدم کے فاصلے پر رُک کر اُن پر بھونکے لگا، دونوں رُک گئے، گنپت کچھ سہم سا گیا اور کتے کو پچکارنے لگا۔
کیا کر رہے ہو گنپت! اس کی آواز میں ایک رعب سا شامل ہو گیا تھا۔
یار کاٹ لیتا تو پھر، ناف میں ٹیکے لگوانے پڑتے، ہائے رام کتنا درد ہوتا، گنپت نے اندر کی بات کہہ دی۔
یہ کُتا اگر تمہاری طرف ایک قدم بھی اٹھاتا تو مَیں اس کی ٹانگیں توڑ دیتا، ہاں، دیکھو یہ ہم دونوں کا دشمن تھا، اس نے زمین پر زور سے پاؤں مارا تو کتا بھاگ گیا۔
سوگند ہے رام جی کی ادریس، مجھے تم سے یہی امید تھی، چلو واپس چلیں اور دونوں گھر کی طرف چل دئیے۔
گنپت تم جانتے ہو مَیں کیا سوچ رہا ہُوں ؟
نہیں تو !
مَیں دیکھ رہا ہُوں اس کُتے کی باچھیں بھونکتے ہُوئے ٹیڑھی ہو جاتی تھیں اور مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ کسی دوسری گلی کا کُتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...