(Last Updated On: )
‘ڈئیر شبانہ! کل میں چہل قدمی کرنے نکلا تو گلی میں ماسٹر ریاض صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ وہی نکر کے گھر والے۔ سچ پوچھو تو میں کبھی انہیں نہیں سمجھ پایا۔ جب بھی ان سے ملنے ان کے گھر جاتا یوں لگتا جیسے کوئی بے جان پتلا برآمدے میں لیٹا چھت کی کڑیاں گن رہا ہو۔ ہنستا بستا گھر تھا. لیکن دونوں بیٹے شہر جا بسے۔ بیوی کے مرنے کے بعد تو جیسے وہ اپنے خول میں ہی بند سے ہو گئے۔ انسان بھی کیا چیز ہے شبانہ! کبھی اربوں میل دور سیاروں پہ زندگی کا جواز ڈھونڈ لیتا ہے اور کبھی زمین پہ رہ کر بھی جینا بھول جاتا ہے۔ ماسٹر جی بھی زندہ تو رہے لیکن جینا بول گئے. میں ان کی دلجوئی کی خاطر جاتا رہتا تھا لیکن مجھے ان کے اکثر فیصلے لا یعنی لگتے تھے۔ بالکل جیسے ہم دونوں کالج میں لفظوں کے ہجے آگے پیچھے کر کے یا الٹا کر نت نئے لفظ بناتے تھے جنہیں ہم ہی سمجھ سکتے تھے۔ دوسروں کے لیے یہ بے معنی الفاظ ہمارے لیے معنویت کا سمندر تھے۔ ویسے ہی ماسٹر جی کے فیصلے بھی وہی سمجھ سکتے تھے۔
بیٹے چاہتے تھے کہ وہ شہر آ جائیں لیکن انہیں اس گھر سے اپنوں کی خوشبو آتی تھی۔ میں نے بھی کئی بار سونگھ کر دیکھا لیکن مجھے تو بس تنہائی کی بساند محسوس ہوئی۔ لیکن شاید وہ کسی اور دنیا کے باسی تھے اور میں محظ کنارے پہ کھڑا ایک تماشائی۔ میں نے کبھی دوسروں دنیا میں اترنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اس دن مجھے ذرا دیر ہو گئی تھی۔ سامنے والا حارث مجھ سے ملنے آ گیا تھا۔ وہ بھی عجیب ہی انسان ہے۔ بہت پریشان لگ رہا تھا۔
کہنے لگا “ناول لکھ رہا تھا کہ قلم کی روشنائی ختم ہو گئی۔”
میں نے کہا “بھئی روشنائی بھرتے رہا کرو روانی قائم رہتی ہے۔”
“روشنائی کتابوں والی الماری میں تھی۔ آج کافی عرصے بعد جا کر دیکھا تو الماری تو اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کہ اس میں سے کچھ بھی نکال پانا ناممکن ہے۔” اس کے لہجے میں شکستگی تھی۔
آپس کی بات ہے مجھے تو لگا کہ قصور الماری کا نہیں۔ وہی کچھ زیادہ اونچا ہو گیا ہے۔ میں نے اسے کہا “بھئی ذرا سا غور کرو تو حل واضح ہے. تم تھوڑا سا قد گھٹا لو۔”
“کیا؟” وہ چند لمحے مجھے گھورتا رہا اور پھر تن فن کرتا چلا گیا۔ شاید اس کے لیے قد کی بہت اہمیت تھی۔
خیر چھوڑو اسے. تو میں کہہ رہا تھا کہ کل میں گھر سے نکلا تو گلی میں ریاض صاحب کھڑے تھے۔ بیٹے ان کے پاس آئے نہ وہ بیٹوں کے پاس گئے اور کسی ملازم کا وجود بھی انہیں برداشت نہ تھا۔ وہ تو بھلا ہو فائزہ کا جس کا گھر نزدیک ہی تھا۔ کئی سال قبل بھائی کو سہارا دینے کے لیے جو بچی گود لی تھی وہی بڑھاپے میں ان کا سہارا بن گئی۔ وہ روز چھڑی ٹیکتے ادھر جاتے اور کھانا کھا کر آ جاتے۔ فائزہ اپنی جاب اور دو ننھے بچوں کی وجہ سے ان کے گھر نہیں آ سکتی تھی۔ کئی بار ان سے بات ہوئی کہ بیٹوں کی بات مان لیں لیکن وہ کہتے کہ بیٹے جائیداد کے لالج میں انہیں گھر سے لے جانا چاہتے ہیں۔ بھئی آج تو ہر کوئی مال دیکھتا ہے ان کے بیٹوں نے اپنا فائدہ سوچا تو کیا غلط کیا۔ ماسٹر جی کے بعد بھی تو سب انہی کو ملنا تھا نا۔ لیکن ماسٹر جی نجانے کونسے خزانے اس گھر میں چھپائے بیٹھے تھے۔ نہ انہوں نے کبھی بیٹوں کو سمجھنے کی کوشش کی نہ بیٹوں نے ان کو۔ شاید ان کے لیے یہ تصور ہی ناممکن تھا کہ کسی کی کائنات ان سے الگ یا الٹ بھی ہو سکتی ہے۔
چند دن پہلے ان کے بیٹے گھر آئے اور گھر اور باقی زمین کے معاملے پہ خوب تلخ کلامی ہوئی۔ دوسرے دن ماسٹر جی نے مجھے پکڑا اور وکیل کے پاس جا بیٹھے۔ پتہ چلا کہ حضور ساری جائیداد فائزہ کے نام کروانے لگے ہیں۔ میں نے بہت سمجھایا کہ اطمینان سے فیصلہ کیجیے لیکن وہ بھی ایسے ہٹ دھرم کہ ساری کاروائی کر کے اٹھے۔
اف! میں پھر باتوں میں نجانے کدھر نکل گیا۔ کل رات نکلا تو وہ گلی میں کھڑے فائزہ کے دروازے کو گھور رہے تھے۔ میں نے دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔
“کیا بات ہے ماسٹر جی؟ خیریت تو ہے؟ ابھی پرسوں ہی تو آپ کو قبرستان چھوڑ کے آئے تھے۔ کیا وہاں بھی چین نہ آیا؟”
میری بات پہ الجھی ہوئی نظروں سے میری جانب دیکھ کر کہنے لگے۔
“یار سلیم! مجھے ایک بات سمجھ نہ آئی۔”
“کونسی بات؟”
“پرسوں دوپہر میں نے فائزہ کو جائیداد کے کاغذات دیے۔ رات کو کھانا کھانے آیا تو نجانے اس دروازے پہ تالا کیوں تھا؟”
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ “ماسٹر جی آپ کو جو بات سمجھ نہ آئی یقین جانیے مجھے زندگی میں یہی ایک بات سمجھ آئی۔”
وہ ہونقوں کی طرح میرا چہرہ دیکھتے رہے۔
“چلیے آپ کو قبرستان چھوڑ آؤں۔” میں نے ان کا بازو تھاما اور انہیں واپس چھوڑ آیا۔ جو سمجھنا ہی نہ چاہے اسے میں کیا سمجھاتا۔ میں نے گھر آ کر عرفان کو بھی بتایا تو وہ بھی کتنی ہی دیر کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں مجھے دیکھتا رہا۔
جب سمجھنے والے نہ رہیں تو انسان کتنا تنہا ہو جاتا ہے نا ڈئیر شبانہ!’
کھٹکے پہ ڈائری لکھنے میں منہمک سلیم صاحب نے سر اٹھایا تو ان کا بیٹا عرفان میز پہ چائے کا کپ رکھ رہا تھا۔
“عرفان بیٹا! اچھا ہوا تم آ گئے میں تمہیں آواز دینے ہی والا تھا۔”
“خیریت ہے ابا جی؟ کچھ چاہیے تھا۔” عرفان نے استفسار کیا۔
“یہ ڈائری ختم ہونے والی ہے کل بازار جاؤ تو ایک نئی ڈائری لیتے آنا۔”
سلیم صاحب کی بات پہ عرفان نے الماری کی جانب دیکھا جہاں چار پانچ ڈائریاں لایعنی الفاظ سے بھری پڑی تھیں۔ ان کی بیوی شبانہ ڈائری لکھا کرتی تھی اور اس کی وفات کے بعد سلیم صاحب پہ ڈائری لکھنے کا جنون سوار ہو گیا تھا۔ لیکن وہ نجانے کونسی دنیا کے الفاظ لکھتے ریتے تھے۔ اس نے ایک ڈائری اٹھائی اور پہلا صفحہ کھول کر پڑھنے کی کوشش کی۔
“ریئڈ ہنابش” اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور اس کے پاس دوسروں کی دنیا میں اترنے اس کے انوکھے اصول سمجھنے میں سر کھپانے کے لیے زیادہ وقت بھی نہیں تھا. اس نے ڈائری واپس رکھی اور تاسف سے سر ہلاتا باہر نکل گیا۔
****
صبیح الحسن ۔ لاہور ، پاکستان
صبیح الحسن ۔ لاہور ، پاکستان