پومپڑ پیازی لگ بھگ ستھر برس کی عمر کا رہا ہوگا ۔تانتیا سا ۔ لمبا اور پتلا ۔ اُس کے سانولے چہرے پر جُھریوں کا اِک جال سا بُنا ہوا تھا ۔سر پر لمبے اور اُلجھے ہوے بے ترتیب بال، کچھ کچھ جھاڈیوں کے جھُنڈ جیسے، آدھے کالے تو آدھے سفید ۔ پھٹی ہوئی قمیض شلوار اور اوپر سے کالے رنگ کا ایک لمبا سا کوٹ ڈالے وہ بڑا عجیب سا لگتا تھا ۔ آگے کوئی ۔۔ ۔۔ نہ پیچھے ۔ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا، یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔ لوگ اسے پومپڑ پیازی کے نام سے جانتے تھے اور پیازی بابا کے نام سے پکادتے تھے ۔
آوارہ قسم کا ایک دیوانہ شاعر تھا ۔ دن بھر اُوٹ پٹانگ شاعری کرتا ہوا نارنگ چوک کے گردونواح میں پھرتا رہتا تھا ۔ نارنگ چوک کی اگلی نُکڑ پر اس کا رین بسیرا تھا، جہاں وہ ایک گیراج کے کونے میں پڑی ہوئی ایک پرانی گاڑی کے ایک خالی پنجر میں پڑا رہتا تھا اور رات وہیں بسر کرتا تھا ۔یہی پنجر اُس کا گھر اور ٹھکانہ تھا ۔
سّرِ شام وہ میرے گھر کے بیرونی دروازے پر نمودار ہوتا تھا اور ایک لمبی ہانک لگاتے ہوے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتا تھا ۔ "او۔۔۔۔۔۔سر جی ۔۔۔ پیازی بابا "۔ وہ دروازے میں لگی ہوئی کال بیل کو نظر انداز کرتا ہوا لگاتار دروازہ کھٹکھٹاتا رہتا اور پُردر آواز میں کوئی شعر یا گانا بھی گاتا، تبھی میں اپنے بیرونی دروازے پر جاکر دروازہ کھولتا ۔
"کیسے ہو پیازی بابا ۔۔۔؟" کہتے ہوے میں اُس کی جھولی میں پانچ چھ روٹیاں ڈالتا ، نیز اُس کے کٹورے میں دال سبزی بھی ڈال دیتا تھا ۔
" پیازی بابا ۔۔۔۔۔کچھ اور ڈال دوں ۔" میں اسے استفہامیہ نظروں سے دیکھتا ۔
"بس سر جی بس ۔" وہ منع کرتا اور ڈھیر ساری دعائیں دیتا ہوا اور اپنی ہی ترنگ میں کوئی راگ الاپتا ہوا میرے گھر سے رخصت ہوتا تھا ۔
صائمہ اُس سے بہت چِڑتی تھی ۔ اُسے صلواتیں سناتی تھی اور اس بات کو لے کر مجھ سے اُلجھتی بھی رہتی تھی ۔ اسے بابا کا عجیب ڈھنگ سے دروازہ کھٹکھٹانا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔
چرسی کہیں کا ۔۔۔ بے ہودہ دیوانہ ۔۔۔شاعر کا بچہ ۔۔۔"۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ ۔ وہ پیازی بابا کی آواز سنتے ہی شروع ہو جاتی تھی، مگر اس بات کا دھیان بھی رکھتی تھی کہ کہیں یہ الفاظ پیازی بابا کے کانوں تک نہ پہنچ پائیں ۔
" اب بس بھی کرو صائمہ ۔" میں عاجزی کرتا تو وہ خاموش ہو جاتی تھی ۔ صائمہ میری بیگم تھی ۔ تیز و طرار ۔ دل کی بُری نہیں تھی مگر نہ جانے وہ پیازی بابا سے کیوں چِڑتی تھی ۔
کرونا وائرس کی وجہ سے پورے شہر میں لاک ڈاون تھا ۔ شام کا وقت اور ہو کا عالم ۔پورا نارنگ چوک سنسان اور ویران نظر آرہا تھا، البتہ پولیس عملے کے بھاری بھرکم جوتوں کی دھمک بیچ بیچ میں سنائی دے رہی تھی، یا پھر ان کے سڑک پر بے مقصد ڈنڈے مارنے کی آوازیں پردہ سماعت سے ٹکرا رہی تھیں نیز آوارہ کتوں کی بے ہنگم آوازوں نے ماحول کو سوگوار بنا دیا تھا ۔
آسمان ابرآلود تھا اور دیر سویر بارش ہونے کی منادی کررہا تھا ۔ میں اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھا پیازی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ۔ وہ لاک ڈاون کے بعد سے غائب تھا اور کئی روز سے اُس نے میرےگھر کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹایا تھا ۔ میں مُظطرب تھا اور خاصا پریشان بھی ۔ وہ میرے لیے جیسے خاص تھا ۔ اُس کا لباس و حُلیہ بے ہنگم سہی مگر وہ بڑا دلچسپ اور پُراسرار تھا ۔ اُس کے گیت اور اشعار سیدھے دل میں اُتر جاتے تھے اور طلاطم پیدا کر دیتے تھے ۔آواز سحرانگیز تھی اور اس میں سے درد چھلکتا تھا ۔
"بابا زندہ بھی ہے یا بھوک سے مرا ہوگا ۔"
یہ خیال آتے ہی میرے پورے وجود میں سنسنی سی دوڈ گئی ۔ کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں اور ایک انجانے خوف کی وجہ سے دل دھک سے رہ گیا ۔ میں اچانک غیرادادی طور کھڑا ہوگیا، ایسے جیسے سانپ نے ڈسا ہو ۔
" وہ بھوکا ہوگا ۔ میں اسے دیکھنے جاوں گا، چاہے کچھ بھی ہو ۔"
میں بڑبڑایا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اپنے گھر کی سطحی منزل تک چلا آیا، پھر دبے پاوں آگے بڑھتا ہوا رسوئی گھر میں داخل ہوا ۔اِدھر اُدھر دیکھا۔ صائمہ کہیں نظر نہ آئی ۔ میں نے جلدی جلدی خوردونوش کی اشیاء کو جمع کیا اور تھوڑی سی مشقت کے بعد انہیں ایک ڈبے میں پیک کیا ۔دبے پاوں گھر سے باہر آگیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا پیازی بابا کے پنجر نما گھر کی طرف روانہ ہوا ۔راستے میں پولیس عملے کی پوچھ گچھ کے کٹھن مرحلے سے بھی گزرنا پڑا اور دورانِ پوچھ گچھ کئی بار اپنے منہ پر ڈھکا ہوا ماسک بھی سرکانا پڑا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد میں پیازی بابا کے گھر کے نزدیک پہنچا تو پنجر نما گھر خالی نظر آیا ۔ یہاں روشنی کم تھی اور کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا ۔ میں نے ملگجے اندھیرے میں ادھر اُدھر جھانکا، تبھی میں چونک پڑا ۔ پومبڑ پیازی نزدیک کی ہی ایک دوکان کے تھڑے پر نظر آیا ۔وہ اپنے اردگرد جمع درجن بھر کتوں کی طرف روٹیوں کے ٹکڑے پھینک رہا تھا ۔ کتے روٹیوں کے ٹکڑوں پر جھپٹ رہے تھے اور دُم ہلا ہلا کر جیسے پیازی بابا کا شکریہ ادا کر رہے تھے ۔میں آگے بڑھتا ہوا پیازی بابا کے کچھ قریب پہنچا تو چونک پڑا ۔ تھڑے کے قریب ہی ایک خاتون کھڑی نظر آئی جو پردہ نشین تھی اور میں اسے پہچان نہ سکا ۔ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ اچانک بابا کی نظر مجھ پر پڑی، جبھی اس نے ایک لمبی ہانک لگائی ۔
" او۔۔و۔۔و۔۔۔۔ سر جی ۔۔۔ آجاو آجاو ۔"
"کیسے ہو پیازی بابا ۔۔۔۔۔؟" میں نے پوچھا اور قریب جاتے ہوئے اُسے سامان تھمانے لگا ۔
"کرم اُوپر والے کا سر جی ۔ یہ میری بچی نہ ہوتی، تو بھوکا مرگیا ہوتا ۔" اُس نے پاس کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کیا اور سامان سمیٹنے لگا ۔
" اس لاک ڈاون میں تو اسی کے سہارے زندہ رہے ۔ روز ہمارے لیے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتی رہی، ورنہ ہم قسمت کے مارے کہاں جاتے ۔" اُس نے قریب کے کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور زودار قہقہہ لگایا ۔ ہا ہا ہا ہا ۔۔ہا ہا۔۔ " عرض کیا ہے ۔۔"
" چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جاے "۔
اُس نے ایک شعر میری نذر کیا اور پھر اسے جو اپنی سحرانگیز آواز میں گانا شروع کیا تو ہر سُو جیسے درد چھلکنے لگا ۔ آواز میں وہ کرب و سحرتھا کہ سیدھے جگر میں اُترتا چلا گیا ۔اُس کی ویران آنکھوں میں اب آنسو بھی جھلملانے لگے تھے ۔ میرے پورے بدن میں سرسراہٹ سی دوڈ گئی ۔ میں نے ملگجے انھیرے میں پاس کھڑی خاتون کوایک نگاہ دیکھا ۔ وہ مبہوت سی کھڑی تھی اور اُس پر جیسے رعشہ سا طاری ہوگیا تھا۔ اچانک بادل گرجنے لگے اور بوندا باندی شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دفعتا" ایک زوردار بجلی کڑکنے سے پورا علاقہ لرز اُٹھا ۔آواز اتنی خوفناک تھی کہ قریب کھڑی پردہ نشین خاتون گھبرا کر اچانک میری طرف بھاگی اور مجھ سے لپٹ پڑی ۔
" اری ۔۔۔اری ۔۔۔۔" میں بوکھلا گیا ۔
" یہ میں ہوں جی ۔" وہ گبھرائی ہوئی آواز میں بولی ۔ " میں ۔۔۔۔۔۔۔۔صائمہ ۔" وہ بولی تو میں حیران رہ گیا ۔
" او مائی گاڈ ۔۔۔۔ یہ تم ہو ۔" کہتے ہوے میں نے اسے سینے سے لگا لیا ۔
" بابا کےلیے سامان لے کر آ ئی تھی "۔
" اوہ۔۔۔۔۔ بہت اچھا ۔ دو قدم مجھ سے بھی آگے ۔" میں بہت خوش ہوا اور اس کے شانے سہلانے لگا ۔
" ہاں سر جی ۔ صائمہ بیٹی نہ ہوتی تو مر گئے ہوتے ۔" وہ اپنی بھاری آواز میں بولا اور بارش کی طرف اشارہ کرنے لگا ۔
" اب آپ لوگ جاو ۔ بارش تیز ہو رہی ہے ۔ اوپر والا سلامت رکھے ۔" وہ دعائیں دینے لگا ۔
" ٹھیک ہے بابا ۔" میں نے جواب دیا اور صائمہ کا ہاتھ تھام کر گھر کی طرف روانہ ہوا ۔
بارش اور تیز ہونے لگی تھی ۔بجلیاں کوند رہی تھیں ۔بادلوں کی گھن گرج جاری تھی۔میں صائمہ کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف جارہا تھا ۔صائمہ شاید مجھ سے بھی تیز تھی ۔دو قدم آگے ۔وہ خاموش تھی اور میں اُسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔بارش جاری تھی ۔ہم بھیگ رہے تھے اور آگے بڑھتے جارہے تھے۔پیازی بابا کا سحرانگیز الاپ اب اپنے عروج پر تھا۔اور بادلوں کی گھن گرج اور بجلیوں کی چکاچوند پر بھاری پڑ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...