مندر میں دیوی درشن کرتے ہوئے دیپا نے دیکھا۔
وہ کوئی سولہ۔۔سترہ سالہ لڑکا تھا ۔مدقوق جسم، خارش زدہ، بدبودار، کانپتا، لرزتا ، دھواں دھواں چہرہ، منہ میں جھاگ، آنکھوں میں آگ
” لڑکے پر اماں کا سایہ ہے۔بڑے پجاری مہاراج نے اس کی ماں سے کہا ” اس کو ساڑی پہنادو گلے میں متھو باندھ دو”۔ہائے اس عورت نے یہ کیا سن لیا تھا۔وہ سناٹے میں آگئ۔اس پر زلزلے کی کیفیت طاری ہونے لگی۔اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پجاری مہاراج کی جانب دیکھا اور پھر غش کھا کر دیوی کے قدموں میں جا گری ۔
“اماں شکتی مان ہے۔یہ اس کی لیلا ہے کہ وہ مرد کو عورت بنا دیتی ہے”۔مہاراج کہ رہے تھے۔
دیپا پلٹ آئی ۔جانے ساگر کہاں تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا۔مندر میں بھکتوں اور سیاحوں کی ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی۔آگہن کا مہینہ تھا۔سون دتی( بلگام۔کرناٹک) سے تین میل دور ملا پربھا ندی پر جھکے ہوئے سدھا نچل پہاڑ کی چوٹی پر واقع یلما دیوی مندر کا جاترا قریب تھا۔وہ ایک جرنلسٹ تھی اور اپنے ساتھی جرنلسٹ دوست ساگر کے ساتھ یہاں آئی تھی۔
بھیڑ سے خود کو بچاتے ہوئے۔۔دور تک چلتے ہوئے اس نے دیکھا ساگر جوگپاس کے ایک جھرمٹ میں کھڑا ہے۔
‘شاید ان کا انٹرویو لے رہا ہو ۔۔اس نے سوچا کم بخت ہے بھی تو بلا کا ذہین اور مضامین بھی کس قدر خوبصورت لکھتا ہے۔اس کی نثر میں تو غضب کی روانی ہے۔کیا ہوا شکل سے تھوڑا فیمیل لگتا ہے مگر ہے بڑا اسمارٹ ‘ وہ ساگر سے خاصی متاثر تھی۔شاید اس کو چاہتی بھی تھی۔بارہا ساگر سے اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا تھا مگر وہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ اس کو خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا۔بس وہ تھا اور اس کا قلم۔۔اب ایسی بھی کیاسردمہری ۔
وہ قریب پہنچی تو ساگر اس کی طرف گھوما
” مجھ کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔کیوں؟”
” ہاں ”
” ان سے ملو یہ ناگما ،شروتی، دیوی ، پدما۔۔۔۔”
وہ ان سب کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔رنگ برنگی ساڑیوں میں ملبوس، ماتھے پر ہلدی، کم کم، گلے میں متھو، ہاتھوں میں ہرے کانچ کی چوڑیاں اور داڑھی مونچھ سے عاری کرخت چہرے۔۔
” یہ جوگپاس ہیں ۔”
دیپا ایک ایک کا چہرہ تکتی رہی۔ساگر کی تحریروں میں تو انہیں دیکھا تھا مگر یوں جیتے جاگتے ، دھڑکتے سانس لیتے پہلی بار دیکھ رہی تھی
شام دھیرے دھیرے مندر میں اتر رہی تھی اور اس کے دھندلکوں میں کچھ جوگپاس چوڈکی ، ستی اور تال بجانے لگے۔کچھ گانے لگے ساتھ ہی نرتیہ کرنے لگے ۔وہ اپنی دھن میں مست تھے خوش تھے اور اپنی دیوی کو خوش کرنے کے لئے گا رہے تھے ناچ رہے تھے اور شام کے دھندلکوں میں یوں جھومتے گاتے وہ کسی اور جہاں کی مخلوق نظر آرہے تھے۔
ساگر انہیں یوں دیکھ رہا تھا جیسے ان سے کوئی گہرا لگاؤ ہو۔ ” یہ سب مجھے میرے اپنے لگتے ہیں ” وہ بولا ” یہ شہر یہ مندر یہ لوگ۔۔۔میں یہیں پیدا ہوا اسی مٹی سے۔میں یہاں کبھی کچھ لکھنے کے خیال سے نہیں آیا۔ بس یہاں کا ماحول مجھے بار بار اپنی طرف کھینچ لاتا ہے اور یہ جوگپاس جیسے یہ مجھے بلا رہے ہو۔تمہیں آنا ہوگا۔۔۔تم آؤ۔۔”
” یہ جوگپاس بھی عجیب مخلوق ہیں۔۔پتہ نہیں کیوں ہیں ” وہ بولی تو ساگر تڑپ کر بولا ” کیوں ان کے ہونے میں کیا برائی ہے ”
“برائ تو نہیں” دیپا اس کو تڑپتا دیکھ کر حیران ہوئی
” مگر پھر بھی۔۔۔”
“ان کے ہونے میں ایک کہانی ہے۔ جو پرانوں میں لکھی ہے۔”
اور پھر ساگر جوگپاس کے وجود میں آنے کی وہی کہانی سنانے لگا جو وہ اس کے مضامین میں پڑھ چکی تھی۔وہ کہانی کہتا رہا وہ سنتی رہی۔ پھر جب ساز بجنا بند ہوگئے۔گیت رک گیا۔ تھرکتے پیر تھم گئے تو ساگر ان کی جانب لوٹ گیا۔اور ان میں یوں گھل مل گیا جیسے وہ ان ہی میں سے ایک ہو۔ان ہی کا کوئی حصہ ہو۔۔دیپا کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی
________________________________________
وہ جوگ لے رہے تھے۔شردھالو انہیں ان ( کھانا )، استر ( کپڑے)،اور روپیہ دان کررہے تھے۔ان کا آشیرواد لے رہے تھے۔۔پن کما رہے تھے ۔سب کا عقیدہ تھا کہ جوگپاس شردھالو اور دیوی کے درمیان ایک کڑی ہیں کیونکہ وہ خود نہیں آتے تھے۔دیوی انہیں بلاتی تھی۔اپنی سیوا کے لئے جگت سیوا کے لئے ۔دکھیاروں کے کام آنے کے لئے۔وہ پوتر تھے پاک تھے غریب تھے مگر پھر بھی اپنے آپ میں خوش تھے۔مست و مگن تھے ۔وہ بھیک نہیں جوگ لیتے تھے اور سب کو دعائیں دیتے تھے۔
دیپا نے ہر ایک سے ملاقات کی۔ان کی کہانی سنی اپنی رپورٹ میں انہیں شامل بھی کیا۔اس نے ساگر سے پوچھا” یہ جو تقدیس کا ہالہ انہوں نے اپنے گرد بنا رکھا ہے تمہیں کیا لگتا ہے یہ حقیقت ہے یا ایک افسانہ ”
” یہ حقیقت ہے دیپا یہ کھرے لوگ ہیں سچے اور پوتر انہوں نے کوئی مکوٹھا نہیں چڑھایا ہے۔کوئی دوسرا چہرہ نہیں لگایا ہے۔اور ادھر ہمیں دیکھو ہم جو مہذب ہیں۔تعلیم یافتہ ہیں اپنی مرضی کی زندگی جی نہیں سکتے ۔ہم دوغلے لوگ ہیں ۔اس سماج میں جینے کےلئے مکوٹھے چڑھاتے ہیں ۔چہرے پر چہرہ لگاتے ہیں”۔
یہ ساگر نہیں کوئی اور تھا جو اس کے اندر سے بول رہا تھا۔دیپا کو لگا ساگر بدل گیا ہے یہ وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آتا ہے یہ تو کوئی اور ہے۔آج کل وہ خوب پھیل رہا تھا۔اپنے اندر بہت کچھ سمیٹ رہا تھا۔ پہلے اس کے اندر اتنا شور نہیں تھا۔اتنے جذبے نہیں تھے ۔احساس کا اتنا بوجھ نہیں تھا۔
” میرے والد بہت سخت گیر تھے انہوں نےمجھے وہ بننے نہیں دیا جو میں بننا چاہتا تھا ۔میں کبھی خوش نہیں رہا۔کبھی مطمئن نہیں رہا۔مگر اب نہیں دیپا اب ایسا نہیں ہوگا۔”
جیسے وہ کسی اور ہی جہاں میں گم تھا۔
اب کیا ہوگا ۔۔دیپا نے سوچا ۔۔کوئی نئی بات کوئی نئی زندگی ۔۔کیا ساگر
میرا ہو جائے گا
____________________________
بڑی مضحکہ خیز سچوئشین تھی۔ساگر رامو کو ساڑی پہننا سکھلا رہا تھا۔دیپا کو ہنسی آگئی ۔
” ہنس کیوں رہی ہو۔” وہ خفا ہوگیا.
“جوگپاس کے بارے میں لکھتے ہوئے یوں لگ رہا ہے تم بھی ایک جوگپا بن گئے ہو۔”
“کیا “؟؟؟ ایک پل کو ساگر یوں لرزا کہ دیپا حیران رہ گئی ۔
” ارے میں تو مذاق کررہی تھی۔” اس کی بدلتی کیفیت دیکھ کر دیپا نے تشویش بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھا ” تم نے اتنی سنجیدگی سے کیوں لے لیا “۔
مگر وہ فورا ہی نارمل ہوگیا۔
رامو کافی خوش نظر آرہا تھا اس کی تو شکل ہی بدل گئی تھی۔اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ایک مزدور کا بیٹا ہے۔اس سے بڑی تین بہنیں ہیں۔بہت منتوں مرادوں سے وہ پیدا ہوا تھا اور اپنے غریب والدین کا اکلوتا سہارا تھا۔پچھلے سال جانے کیسی بیماری لگی اسے کہ کسی حکیم ڈاکٹر کا علاج کام نہ آیا۔سب نے مشورہ دیا کہ دیوی کے مندر جاؤ۔۔اور بس یہاں آتے ہی اسے شفا مل چکی تھی۔
“اماں کی لیلا ہے ” وہ بولا تو دیپا اس کا چہرہ تکنے لگی۔کہتی بھی کیا؟؟۔یہ تبدیلی تو واقعی حیران کن تھی۔
____________________________
وہ خراماں خراماں مندر کی جانب یوں آرہے تھے جیسے کسی اور دنیا کے باسی ہو۔آگہن کے پورے چاند رات کو کڑکڑاتی سردی میں جوگلو باوی کے ٹھنڈے پانی سے نہا کر زرد ساڑیوں میں ملبوس، گلے میں کانوں میں کوڑیاں سجائے ، ماتھے پر ہلدی کم کم لگائے ،سروں پر پھول کی لڑیوں سے لپٹی ٹوکریاں اٹھائے وہ خراماں خراماں مندر کی جانب یوں آرہے تھے جیسے کسی اور دنیا کے باسی ہو۔ان کے ساتھ کچھ لوگ اور بھی تھے شاید ان کے رشتہ دار ہو۔
آج یلما دیوی کا جاترا تھا۔ساگر نے اسے بتایا تھا کہ آج ہی رات نئے نئے جوگپا یا جوگتی بنائے جاتے ہیں ۔وہ سیدھے بڑے پجاری مہاراج کے پاس آئیں گے جو انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کرے گا۔ان سے یہ حلف لے گا کہ وہ سماج سیوا کریں گے ۔اس کے بعد وہ سب جوگ نرتیہ کریں گے ۔
وہاں لوگوں کی ایک بھیڑ اکھٹا تھی۔جاترا پر آئے ہوئے شردھالو اور سیاح یہ نظارا دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔کچھ منچلے ان جوگپاس پر پھبتی کس رہے تھے۔کچھ سیٹیاں بجا کر ان کا استقبال کررہے تھے۔کچھ نازیبا فقرے بھی اچھال رہے تھے مگر وہ تھے کہ سب سے بے نیاز ایک جذب کے عالم میں یوں چل رہے تھے جیسے ہفت اقلیم کی دولت انہیں مل گئ ہو۔
بھیڑ سے خود کو بچاتے ہوئے دیپا اپنے موبائل سے ان کا ویڈیو بنارہی تھی کہ اچانک وہ سامنے آگیا۔وہ ساگر ہی تھا رامو کے ساتھ مگر اس کا یہ حلیہ۔۔۔
” یہ کیا مسخراپن ہے ” وہ چڑگئ ” تم یہاں کیا کررہے ہو”
” جو تم دیکھ رہی ہو ” وہ کافی مطمئن اور خوش نظر آرہا تھا
“مطلب ”
” دیپا میں وہ نہیں ہوں جو تم نے مجھے اتنا عرصہ دیکھا ہے۔میں یہی ہوں جو اب تمہیں نظر آرہا ہوں ۔آج میں نے کوئی مکھوٹا نہیں لگایا ہے۔یہ میرا اصلی چہرہ ہے”
دیپا کو لگا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہے اور یلما دیوی چوٹی سے نیچے ملا پربھا ندی میں جا گری ہے۔۔!!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...