راوی روایت کرتے ہیں کہ دشتِ بے کراں میں پروان چڑھنے والے اُس گھنے اور بلند و بالا شجر کو باغباں نے اپنے لہو سے سینچا تھا ۔ باغبان کی ریاضت کا یہ اکلوتا ثمر تھا سو وہ ورثے میں فقط یہی شجر چھوڑ کر رخصت ہوا ۔ اولاد نے بھی جَد کی طرح وراثت کو قیمتی امانت سمجھتے ہوئے اس کی آبیاری کو ہی ایمان جانا مگر جیسے جیسے
وہ پھلتا پھولتا گیا ذُریت کو نگلتا گیا ۔۔ وہ خون پیتا گیا اور اس کا جسم توانا ہوتا گیا ۔ خون کا ہر نیا پیالہ اس کو نئی زندگی عطا کرتا تھا ۔کہتے ہیں کہ جو کنبہ اس کی شادابی کی خاطر کٹا اسی کو گھنے سائے کے بجائے دھوپ کا کنارہ ملا۔
شجر کی ذریت سے بےوفائی کے قصے جب عام ہوئے تو غم سے نڈھال ایک گروہ گریہ گرتے ہوئے اٹھا۔ جن کے بین داستانِ وفا کی تفسیر اور کہانی رنج و الم کی سناتےتھے ۔شاہِ عشرت جو کہ آواز سے گریزاں اور خوابِ طرب کا دلدادہ تھا، رخسارِ شب پر پڑتی نالہ و شیون کی ضربوں نے جب اُس کی خلوت میں خلل ڈالا تو متفقہ راٸے سے اس نے سب کے ہاتھ پشتوں پہ باندھ کر زبانوں کو قطع کرنے کا حکم جاری کر دیا۔کشتوں کے پشتے لگے مگر اس کے باوجود معمولاتِ زندگی رواں دواں رہے، بس یہ ہوا کہ باقی لوگوں نے زبانوں کو مونہوں سے کھینچ کر چھپا دیا اور بھول گئے کہ کہاں رکھی ہیں۔ زبان کی ضرورت تو تب ہوتی جب دُکھ سانجھا ہوتا۔۔”اپنی اپنی ڈفلی ، اپنا اپنا راگ“ کلمہٕ وقت قرار پایا تو انہوں نے اشارے ایجاد کرلیے۔صدیوں بعد ضرورت کے باعث خدا یاد آیا تو بولنا ناگزیر ہوا ۔زبان کی تلاش جاری ہوئی۔ مگر بے سود ۔ کچھ ڈھانچے ملے مگر عینک والوں کے مطابق یہ ہڈیاں لب و دہن سے محروم ، حرف و نطق کے ذائقے سے ناآشنا ان زبانوں کی تھیں جو لغت کے بوسیدہ اوراق میں دم گھٹنے کے باعث ہلاک ہوئی تھیں۔ وہاں کہنے والے بے تاب تھے اور بات بولائی پھرتی تھی مگر بول سماعتوں میں گھل کر دل تک رسائی پانے سے محروم تھے ۔گیتوں کے نُطق پہ پہرہ بدستور قائم تھا اور نوحوں کے لب سلے تھے۔۔۔جنھیں گفتار کی آزادی تھی انہوں نے گھٹی میں چُپ چَکھِی تھی کیسے کہتے کہ مدعا کیا ہے؟مجبور لفظ آنکھوں سے بہنے لگے تو آنسوٶں کی کثرت نے پانی کو کڑوا کر دیا۔ درد کے مادے میں بارود گھلا تھا سو خوفزدہ ہوا سریلی بانسری سےنظر چُرا کر کسی اور سمت سےگزرتی تھی ۔پرندے بھی اسی ڈر سے کب کے کُوچ کر چکے تھے ۔محبت رسم تک محدود ہوکر رہ گئی تو کواڑوں کو کھلا رکھنا اور دہلیز پہ چراغ جلانا جرم متصور ہوا۔
حیا سے عاری، عیاری جو کہ پیوند کاری کی ماہر تھی اس نے بھی اس خرابے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا تھا ۔ہرے لبادے اوڑھا کر مٹی کی ٹہنیوں کو اس مہارت سے شاخوں کے ساتھ جوڑا کہ وہ زرق برق خلعت پوش شہزادیوں کی مثل اترانے لگیں ۔ وہ جانتی تھی عقیدت کے اندھوں کے لیے رنگ ہی کافی ہے ذات کے زعم میں گرفتاروں نےاپنے خدا آپ بنا لیے تو عبا والوں کے وارے نیارے ہو گٸے ۔۔کسی کی مجال نہ تھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی بابت سوچتا۔کچہریاں خدا کے نام سے ہی شروع کی جاتی تھیں یہ اور بات صبحیں دھندلی ہو چکی تھیں۔
روشنی برائے نام باقی تھی سبب یہ کہ کرنوں پر مخصوص لوگوں کی اجارہ داری تھی جن کے بلند ہاتھ انہیں مٹھیوں میں دبوچ کر اپنی مرضی کے سنہری مقفل طاقچوں میں بند کر چکے تھے ۔۔ اب اجالے کی سمت کا تعین ان کے اشارہٕ انگشت کا محتاج تھا جنھوں نے بڑے ٹہنوں سے عصا تراش لیے تھے ۔وہ نہ تو موسیٰ تھے نہ سامری مگر خودرو پودوں کی طرح بدہٸیت بچھڑوں کی کثیر تعداد ان کی نوک پلک کی جنبش سے آن واحد میں زمین کے سینے پہ دندنانے لگتی ۔ علم مفضول اور عمامہ افضل تھا اس لیے دینار کو دستار پر فوقیت حاصل ہو گٸی ۔غرض اور مفاد کے سکے ہاتھوں ہاتھ لیے جانے لگے تو بھینس نے شگن کا دھاگہ باندھ کر لاٹھی سے بہناپا جوڑ لیا۔۔بھلا کون سرپھٹول میں پڑتا۔۔۔دھاگے کی گرہ نے یہ حقیقت عیاں کی کہ روشنی روٹھ چکی ہے ۔
خدا کے نزدیک خاموشی زہرآلود خطا اور باعثِ کفرانِ نعمت تھی۔اس لیے شور کا عذاب غالب آیاجس کی حدت افزا دھمک سے کٹی زبانوں کے پرانے زخم بھی ابل پڑے ۔مشکوک موسم کی ہواٶں نے فضاٶں کو مسموم کرتے ہوئےسب سے پہلے شجر کی نام نہاد شادابی کو نگلا۔شاخوں کے سر جھکے اور تونگر پیڑ کے خالی ہاتھ ایسے مڑگئے جیسے بھکاری تشنج زدہ انگلیوں والی ہتھیلیاں پھیلاتا ہے ۔یہی وہ لمحہ تھا جب اندھیرے میں تاریخ کے حروف نے الٹا پھیرا لیا تو وقت نے مدہوش غیرت کے منہ پر کراہت کے مارے قے کر دی۔ جس کی بدبو سارے چمن میں یکلخت پھیل گئی۔ کنجِ قلب کا ہر گوشہ متعفن ہوا ۔کفِ افسوس کون ملتا کہ ہاتھ ابھی تک بندھے تھے۔نااہل باغبانوں نے گٹھ جوڑ سے ییوند زدہ شاخیں حفظ ماتقدم کے طور پر الگ کر لیں تو قہر کی لپیٹ میں آئے کسی مدقوق کی مثل گھلتے شجر کے ناتواں پتے مسلسل جھڑ نے اور شاخیں تیزی سے کٹنے لگیں ۔۔ مجروح کونپلوں کے بہتے لہو کی ہر بوند سے ھل من ناصر کی صدا بلند ہوتی تھی مگر ٹوٹی ٹہنیوں میں نصرت کی ہمت و طاقت تھی نہ جذبہ، جبکہ شہرِ بے آبرو کے کان سننے سے قاصر تھے ۔امداد کو کون آتا ؟ ناصروں کے سب امن پسند قافلے تو اسی دن رخصت ہو گٸے تھے جب تلوار اور دیوار کے درمیان ،در تلے دبی لہو لہو کہانی کا قصہ تختِ ملوکیت کے پاٸے تلے چھپا دیاگیاتھا ۔۔۔
وقت شاید اسی تاک میں تھا اس موسم کے آتے ہی محبت اور مروت کی کونپلیں مرجھا گئیں اور روایتیں اپنی جڑوں سمیت زمین میں دھنس گئیں، ردائےزمانہ کی اوٹ سے دشنامائی سوچ کے سوتے پھوٹے اور جنگ کے نام پر کاروبار کا آغاز ہوا تو اس شجر کی جڑوں کو کاٹ کاٹ کر کئی منقسم روپ دے کر نئے بیج لگائے گئے جن کی پھوٹ سے نکلی شاخوں نے دماغوں کو امربیل کی طرح چاٹ لیا ۔ وہ شجر اپنے دفاع کے لیے اپنے ابراھیم کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس نے صدائیں بلند کیں جن میں باغبان جیسے کسی مہربان کی جستجو کرلاتی تو دھوپ کنارے شکستہ بدن تڑپنے لگتے ۔۔۔منقسم اجزا کو کُل کافراق ألگ تڑپاتا۔ورثہ’ وارث کو پکارتا تو ہر ڈال رونے لگتی ۔۔کوئی خسارے پہ ماتم کناں ہوتی تو کوئی انمول خرچے پہ محوِ گریہ۔حساب حشر تک ملتوی ہو چکا تھا ۔ چپ کا دستور ہنوز جاری ہے۔۔آج تک راوی یہی روایت کرتے ہیں۔۔۔باقی خدا جانتا ہے۔
https://web.facebook.com/photo/?fbid=3172092993112799&set=g.1610386969212513
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...