وہ آج ہمیشہ سے زیادہ اداس لگ رہی تھیں ان کی آنکھوں کی ویرانی کسی صحرا کا منظر پیش کر رہی تھی میں نے بغور ان کے بجھے ہوئے چہرے اور سوکھے ہونٹوں کی طرف دیکھا تو بے اختیار جی چاہا میں کہیں سے ایسے بادل لے آؤں جو خوشی کی بارش برسا کر ان آنکھوں کی ویرانی اور چہرے کی اداسی ختم کر دیں ۔۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی ہی تو بات ہے کہ ان کے گلاب چہرے پر خوشیاں تتلیوں کی صورت منڈلاتی تھیں ان کی خاموش جھیل سی آنکھوں میں دن کو بھی سکھ کی پریاں اترا کرتی تھیں
اور اب وہ چپ تھیں بالکل چپ ۔۔۔ پہلے کی طرح نہ باتیں کرتی تھیں نہ باتیں کرتے کرتے بےساختہ قہقہے لگا کر شرارتی انداز میں دنداسے سے رنگے نچلے سرخی مائل نارنجی ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے ہوئے مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی تھیں ۔۔ اب تو میں ترس جاتا تھا کہ وہ میرا نام لے کر مجھے آواز دیں کسی کام کا کہیں ۔۔۔ یا کسی روز مجھ سے پوچھیں کہ کیوں گھر میں بیٹھے ہو ؟ جاؤ کبڈی کھیلنے یا میرے سنورے ہوئے بال بکھیر کر کہیں چلو جا کر شیمپو کرو پسینے کی بو یہاں تک آ رہی ہے ۔
لیکن ایسا کچھ نہ ہوا وہ مسلسل سوچوں میں کھوئی ہوئی چاولوں سے کنکریاں چن رہی تھیں میں ان کی چپ سے گھبرا کر ان کے قریب بیٹھ گیا ۔” کچھ بولیں ناں میں آپ کی موجودگی میں دیواروں سے باتیں کرتے کرتے تھک چکا ہوں کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے چیخ چیخ کر رونے لگوں اتنا رو لوں کہ آپ کے سارے آنسو بھی میری آنکھوں سے بہہ جائیں پھر ہم دونوں ایک دوسرے کے پاس بالکل ہلکے ہو کر بیٹھیں اور ویسی ہی میٹھی میٹھی باتیں کریں جیسی کچھ عرصہ پہلے کیا کرتے تھے ۔“
انہوں نے بھیگی پلکیں بمشکل اٹھا کر میری طرف دیکھا ۔۔اور بھاری آواز میں بولیں ” تم کب تک واپس جا رہے ہو ؟ “ میں نے آہستگی سے ان کے ہاتھ سے چاولوں کا تھال پکڑ کر ایک طرف رکھا اور ان کی نازک سی ہتھیلی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر سہلانے لگا شاید میرے لمس کی کرامت تھی کہ کہ ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے گرم قطرے گر کر میری ہتھیلی کی پشت کو جلانے لگے ” اس دیس جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے ورنہ میں انہیں کہیں سے ڈھونڈ کر لے اتا ۔۔۔ جہاں وہ گئے ہیں وہاں جانے نہ جانے کا فیصلہ بھی ہماری مرضی پر منحصر نہیں ہے ورنہ آپ جیسی حسین اور اچھی عورت کو چھوڑ کر وہ کبھی نہ جاتے وہ تو پل بھر کے لیے آپ کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے یاد ہے جب آپ نفلی روزے رکھتی تھیں تو وہ کھانے کے وقت آپ کو سامنے بیٹھائے رکھتے آپ کی بھوک چمک اٹھتی اور اٹھنے لگتیں تو وہ ہاتھ پکڑ لیتے اور کہتے سندرہ ! نوالہ گلے سے نہیں اترتا تم پاس بیٹھی رہو تو رزق میں لذت محسوس ہوتی ہے ۔“
وہ میرے ہاتھوں سے اپنی ہتھیلی چھڑا کر اپنی اوڑھنی کے پلو سے آنسو صاف کرنے لگیں میں اچھی طرح سے جانتا تھا ایسے کئی قیمتی موتی انہوں نے اپنی سب اوڑھنیوں پر ٹانکے ہوئے تھے
” تم بھی تو ان سے جلتے تھے وہ میرے پاس بیٹھتے تو تم ہمیں دور کرنے کے لیے درمیان میں ا کر بیٹھ جاتے تھے ۔۔ کبھی کہیں جانے کا پروگرام بناتے تو تم مجھے کسی نہ کسی بہانے روک لیتے تھے تمہیں وہ اچھے ہی نہیں لگتے تھے کیونکہ میں انہیں اچھی لگتی تھی ۔ “ میں نے اک ٹھنڈی آہ بھر کر شرمندگی سے نظریں چرا لیں سچ ہی تو تھا یہ سب ۔۔۔ وہ دونوں جب بھی قریب بیٹھتے یا سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہوتے میرا جی چاہتا کہ دونوں کو چپ کرادوں ۔
” جب آپ ان سے باتیں کرتے کرتے ان کے کندھے پر مسکرا کر سر رکھتی تھیں نا تو میرا دل چاہتا تھا کہ آپ کے ہنستے ہوئے ہونٹوں پر کھلتے دنداسے کے رنگ کو رگڑ رگڑ کر دھو لوں جیسے تتلیاں پکڑنے سے میرے ہاتھوں پر لگے رنگوں کو آپ رگڑ رگڑ کر دھو دیتی تھیں۔ “ وہ خلا میں کسی نادیدہ چیز کو گھور رہی تھیں ۔
اس وقت ان کی بات سن کر میرے لیے یہ اطمینان بھی بہت تھا کہ وہ مجھ سے میرے سابقہ رویے کا گلہ کر کے اپنے دل پر رکھا ایک پتھر تو ہٹا چکی تھیں لیکن بہت بڑی چٹان سے ایک پتھر ہی تو کم ہوا تھا جس سے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا
میں بغور ان کی خالی کلائیوں کو دیکھنے لگا ” اچھا چھوڑیں میں تو ہوں ہی بقول آپ کے خود غرض ۔۔ اور احساس سے عاری انسان ۔ لیکن قسم سے جتنا بھی بے حسی کی چادر میں چھپ جاوں پھر بھی بہت تکلیف ہوتی ہے آپ کی خالی کلائیوں کو دیکھ کر آپ کو تو کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں بہت پسند تھیں اپ تو ہمیشہ مہندی بھی لگائے رکھتی تھیں اور دنداسے کے بغیر تو میں نے آپ کے ہونٹ کبھی دیکھے ہی نہیں تھے یاد ہے نا جب عباس کے گھر میں ہم اس کے امی ابو سے ملے تھے تو اس کے ابو مسلسل آپ کے رنگین ہونٹوں کو گھورتے جا رہے تھے اور پھر انہوں نے موقعہ پا کر عباس کی امی سے جب یہ کہا کہ آپ سے اس لپ سٹک کا نمبر پوچھ لیں تو آپ نے کیسے ناگواری سے گھور کر انہیں دیکھا تھا
تب آپ نے پھر کبھی ان کے گھر نہ جانے کا فیصلہ کر کے مجھے بتایا تھا کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں ۔“ مجھے غصہ آگیا تھا کہ آپ کیوں ہر وقت دنداسہ ملتی ہیں ہونٹ سرخ یا نارنجی کیے رکھتی ہیں اور آپ نے ہنستے ہوئے کہا تھا مجھے دنداسہ ٬ مہندی٬ کاجل ٬ چوڑیاں ٬اور گجرے بہت اچھے لگتے ہیں جب میں بہت بوڑھی ہو جاؤں گی تب بھی خود کو جوان سمجھ کر ان ساری چیزوں سے بڑھاپا چھپانے کی کوشش کرتی رہوں گی۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ جب میرے دانت ٹوٹ کر گر جائیں گے اور نقلی بتیسی لگاوں گی تب بھی دنداسے کا استعمال نہیں چھوڑوں گی ۔میری بات سن کر وہ خالی خالی نظروں سے آپنی سفید ہتھیلیوں کو گھورنے لگیں ۔
” پہلی بات تویہ کہ اب جی ہی نہیں چاہتا کہ دنداسہ یا مہندی لگاؤں یا پھر چوڑیاں پہنوں ۔۔لیکن کبھی ایسا کر بھی لوں تو لوگ مجھے طنزیہ نظروں سے ہی کھا جائیں گے میری زندگی کے سارے رنگ ہر خوشی بس اس کے ہونے سے مشروط تھی وہ گیا اور اپنے ساتھ میری جوانی میری باقی بچی ہوئی عمر بھی لے گیا اب تو میں صرف سانس لے رہی ہوں زندہ نہیں ہوں زندگی فقط سانسوں کے آنے جانے کا نام تو نہیں نا ؟“ ان کے یہ سوال میرے سینے میں تیر کی طرح لگے تھے لیکن میں یہ درد بھی سہہ گیا ۔” جیسا آپ کو اچھا لگتا ہے آپ زندگی گزارنے کا وہی انداز اپنائیں کسی کو خوش رکھنے کی کوشش میں درد سہہ سہہ کر جینے سے اچھا ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے مر ہی جائے ۔“ میں انہیں سمجھا رہا تھا ۔
” وہ کیسے مریں جو مرے ہوئے تو ہیں لیکن دوسرے یہ نہیں جانتے انہیں لگتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔؟ “ وہ اٹھ کر باورچی خانے کی طرف چل دیں میں ان کی لمبی سی چوٹی کو دیکھتے ہوئے وہ دن یاد کرنے لگا جب وہ ریشم سی کھلی زلفوں میں سجے سرخ گلاب کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے پوچھتی تھیں ”میں کیسی لگ رہی ہوں اور میں اس سرخ گلاب کے لیے مچل جاتا تھا کیونکہ وہ گلاب میں نے نہیں کسی اور نے ان کے بالوں میں سجایا ہوتا تھا اور مجھے یاد تھا کہ جب تک ان کے بالوں سے گلاب اتار کر پتی پتی نہ بکھیر لیتا مجھے چین نہیں پڑتا تھا۔
اندر میرا دل گھبرانے لگا تو میں کمرے سے صحن میں نکل آیا کچھ دیر بعد جب میں صحن میں رکھی چارپائی پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے دھوپ سینک رہا تھا تب کہیں قریب سے دو عورتوں کی باتوں کی آوازیں آنے لگیں میں نے غور کیا تو زرگل کے چچا کے گھر کی کھڑکی کھلی تھی اور یہ آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں یہ کھڑکی اس جگہ کے ساتھ ہی تھی جہاں میں اس وقت لیٹا ہوا تھا ۔ اور اسی کھڑکی میں کھڑی زرگل کو پہلی بار میں نے غور سے دیکھ کر سوچا تھا کاش یہ الپسرا جیسے پل بھر میں میرے دل کے آنگن پر قبضہ جما چکی ہے ویسے ہی میرے گھر کے آنگن کی ملکہ بھی بن جائے۔۔۔ زرگل میری نئی نویلی دلہن کا نام ہے ہماری شادی کو کچھ ہی دن ہوئے تھے جبکہ منگنی ایک سال پہلے ہوئی تھی اور شادی بہت جلدی میں ہوئی کیونکہ میری جاب دبئی میں تھی اور میں چاہتا تھا کہ شادی کرکے زرگل کو یہیں چھوڑ جاؤں کیونکہ مجھے لگ رہا تھا مجھ سے زیادہ ضرورت اس کی یہاں ہے شادی کی پہلی رات ہی میں نے اس سے یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ میرے سارے ادھورے سپنوں کو حقیقتوں کے رنگ دے کر مکمل کرنے میں میری مدد کرے گی اس نے بھی ملن کے بعد والی جدائی ابھی سہی نہیں تھی اس لیے اس درد سے انجان تھی تبھی تو گھنیری پلکوں کی چلمن اپنے گل رنگ رخساروں پر گراتے ہوئے خاموشی سے نیم رضامندی کا اشارہ دے دیا تھا ۔
میں نے آوازیں سننے کی کوشش میں سماعتوں کا پورا زور لگایا ۔
” ہائے بے چاری سندرہ سولہ سال کی عمر میں بیاہی گئی اور سینتیس سال کی عمر میں بیوگی کی سفید چادر اسے اوڑھنی پڑ گئی
” اس کی زندگی تو ختم ہوگئی ہمارے ہاں اس سفید چادر کو کفن سمجھا جاتا ہے بیوگی کا مطلب ہے کہ بس اب سب کچھ ختم ۔۔ چاہے بیوہ کتنی ہی جوان کیوں نہ ہو یہ معاشرہ اسے دوبارہ سے زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد کے بجائے ملامت کرتا ہے۔ “
” لیکن بخت خان تو برسوں پہلے کی طرح اب بھی منتظر ہے کہ اس کے بچپن کی محبت کسی طرح اسے مل جائے “
سندرہ نے تو کبھی اسے اس قابل بھی نہ سمجھا کہ اس سے سیدھے منہ بات کرتی وہ ایک باوفا عورت ہے جس نے ہمیشہ اپنے سے بڑی عمر والے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاری کبھی یہ تک ۔نہیں کہا کہ مجھے اس سے محبت نہیں ہے سبھی جانتے تھے کہ اس بوڑھے بدصورت مرد سے سندرہ جیسی خوبصورت اور کم عمر عورت محبت کر ہی نہیں سکتی لیکن وفا کے سارے تقاضے نبھاتے ہوئے سندرہ نے اس کی موت کے بعد خود پر بھی زندگی حرام کر دی ۔۔ یا شاید اس معاشرے اور رسموں رواجوں نے اسے مار دیا ہے ۔
یہ آواز زرگل کی چچی کی تھی ۔
”اس دن بخت خان مجھے کہہ رہا تھا کہ اس کے رشتے کے لیے بات کروں سندرہ بیٹی سے “
”تو پھر بات کی تم نے ؟“
ان کی آواز میں تجسس تھا ۔
”ہاں بات کی تو تھی لیکن وہ رونے لگ گئی اور سخت خوفزدہ بھی ہوگئی تھی جب میں واپس آنے لگی تو میری منت سماجت کی کہ میں کسی اور کے سامنے اس بات کا ذکر نہ کروں میری بدنامی ہوگی ۔“
”یہ تو مانتی ہوں کہ بخت خان مرد کا بچہ ہے جو برسوں سے اکیلا ہی وفا کی آگ میں جل رہا ہے ۔ لیکن یہ معاملہ خطرناک ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے دشمنی بھی اور موت بھی ۔۔۔ اس لیے میں نے چپ رہنا ہی بہتر سمجھا “ وہ بول رہی تھیں اور مجھے یہ سب سن کر شدید غصہ ا رہا تھا ان دو عورتوں سے زیادہ بخت خان پر غصہ تھا کہ ان کی ہمت کیسے ہوئی کہ میری محبت پر ڈاکہ ماریں ؟ شاید مجھے بے غیرت سمجھ رکھا تھا انہوں نے میں محبت میں شراکت برداشت کرنے کا قائل کبھی بھی نہیں تھا یہ تو غیرت کی بات تھی ۔۔۔میں نے تو زرگل کو بھی کہہ دیا تھا کہ پہلے وہ ہیں اس کے بعد تم ہو ۔میں نے سنا زرگل کی چاچی اداس لہجے میں کہہ رہی تھیں
”تبھی تو وہ محبت کی بھٹی میں جل جل کندن بن چکا ہے اس کی ساری سخت مزاجی ختم ہوگئی اور اب تو اس کا موم سا دل محبت اور ہمدردی کی دھیمی لو پربھی پگھل جاتا ہے ۔
دسمبر کی سرد شام صحن میں اتر رہی تھی سامنے لگے جامن کے سدا بہار درخت پر چڑیوں کی چہچہاہٹ بڑھنے لگی تھی جو صبح سحر کی روشنی سے بھی پہلے گھونسلے سے نکلتی تھیں اور شام ہوتے ہی اک نئی صبح کے انتظار میں واپسی کا سفر طے کرتی تھیں ۔میں نے فضامیں ٹھیک ٹھاک خنکی محسوس کرتے ہی اندر کا رخ کیا ۔۔۔لیکن میرے اندر کا خالی پن آج مجھے کمرے میں بھی محسوس ہو رہا تھا شاید آج اندر اور باہر کا موسم بھی ایک جیسا تھا ۔میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اپنی اور زرگل کی تصویر اٹھائی اور غور سی دیکھنے لگا ۔۔ خوبصورت سبز آنکھوں والی زرگل واقعی اتنی حسین تھی کہ پہلی نظر میں ہی دلوں کو تسخیر کر سکتی تھی ۔میں تو اس کا عاشق تھا مجھے تو اس کے انگ انگ سے سچا پیار تھا تن کے علاؤہ وہ سنہری من کی بھی مالک تھی کبھی کبھی تو وہ مجھے اس زمین کی مخلوق لگتی ہی نہیں تھی مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے وہ الپسرا ہے کوئی پری یا پھر اک حسین خواب ہے ۔ میں نے سیدھا لیٹ کر چھت کو گھورتے ہوئے سوچا کاش زرگل کے پاس موبائل فون ہوتا تو میں اپنی بے چینیوں کو زبان دے کر اس سے ڈھیر ساری باتیں کرتے ہوئے جدائی کی یہ لمبی رات کاٹ لیتا شادی کے بعد وہ آج پہلی بار اپنے میکے رات رہنے کے لیے گئی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھ سے میرا ایک حصہ کھو چکا ہے اور آدھا ہو کر مجھے رات سے صبح کرنا ننگے پاؤں انگاروں پر چلنے کے برابر لگ رہا تھا میں نے لیٹے لیٹے عادتاً اپنا بازو پھیلا کر سوچا میرے بازو کے تکیے کے بغیر زرگل کو نیند کیسے آئے گی ؟ شائد وہ بھی کروٹیں بدل رہی ہوگی ۔۔ چھت کی سیلنگ کے پھولوں کو گنتے گنتے فجر کے قریب کہیں نیند کی پری مجھ پر مہربان ہوئی اور اپنی مہربان آغوش میں مجھے سمیٹ لیا تو انگاروں کی جلن سے نجات ملی لیکن خوابوں کی وادی کا موسم بھی بہت گرم تھا کبھی زرگل میری نظروں سے اوجھل ہوکر مجھے بےچین کرتی کبھی اداس ہوکر میرے دل کو بوجھل کرتی میں خواب کو حقیقت سمجھ کر درد سہتا رہا ۔۔” شمشیر خان ! اٹھو دوپہر ہوگئی ہے میں نے بھی کچھ نہیں کھایا شاید جانے والا میری بھوک بھی قبر میں ساتھ لے گیا ہے ۔“ وہ کھڑکیوں سے پردے ہٹاتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔۔ میں نے ان کی آواز سن کر تیز روشنی سے چندھیائی ہوئی آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا اور مجھے ان پر بے اختیار پیار آ گیا کتنی بہادر ہیں یہ کہ ہر رات تنہائی کے عفریت سے نہتی لڑ لڑ کر صبح کرتی ہیں اور جانے شام ہوتے ہی رات کا خوف انہیں کیسے کیسے ڈراوے دیتا ہوگا اور وہ گھپ اندھیرے سے یاد کے فقط ایک جگنو کی مدد سے لڑتی رہتی ہوں گی کبھی ہار کر کبھی جیت کر رات کا سامنا کرتی ہوں گی ۔
” لگتا ہے زرگل کی یاد نے رات بھر سونے نہیں دیا ؟“ وہ مجھے چھیڑ رہی تھیں میری آنکھوں کی سرخیوں کی زبان جو سمجھ چکی تھیں لیکن میں نے کبھی ان کی آنکھوں میں جھانک کر تنہا رات کے دکھ کی لالی نہیں دیکھی تھی وہ سرخ روشنائی سے لکھی کہانی تو بڑی عام فہم زبان میں تحریر تھی لیکن جب آپ چٹے ان پڑھ اور نرے جاھل ہوں تو آسان لفظ بھی اجنبی اور مشکل لگتے ہیں ۔
” میں جا کر زر گل کو لاتا ہوں آپ جلدی سے کچھ کھانے کے لے آئیں مل کر کھاتے ہیں ۔“ میں نے تولیہ اٹھاتے ہوئے انہیں دیکھا ان کی کالے رنگ کی اوڑھنی سر سے پھسل کر شانوں پر لٹک رہی تھی میں نے دیکھا تیز روشنی میں چکمتے ان کے سنہری بالوں میں سے دو تین سفید بال یوں جھانک رہے تھے جیسے پھولوں کی اوٹ سے کانٹے ۔
”کیا دیکھ رہے ہو ؟“
”لگتا ہے آپ بوڑھی ہو گئی ہیں “
وہ ایک تلخ مسکراہٹ جس میں طنز کی آمیزش بھی تھی لبوں پر سجائے بولیں
” سولہ سال کی عمر سے بڑھاپے کو سمجھوتے کا دانہ ڈال کر نیچے اتارنے کوشش کر رہی ہوں ۔۔۔لیکن خواہشات کی منڈیر پر بیٹھی جوانی بڑھاپے کا رستہ روکے کھڑی ہے ۔۔۔جانے اس جوانی میں اتنا دم خم کہاں سے آ جاتا ہے کہ کمر ٹھوک کر بڑھاپے کا رستہ روکے رکھتی ہے ؟“
” شاید خوشی بڑھاپے کے سامنے دیوار بن جاتی ہے میں تو اب تک یہ ہی سمجھ رہا تھا “
وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیں ” خوشی کی عینک پہن کر تو کچھ نظر نہیں آتا سوائے دل کے یہاں تک کہ اپنا چہرہ یا سفید بال بھی نہیں “
مجھے کل تک ان باتوں کی سمجھ نہیں آ سکتی تھی ۔۔ میں تو اتنا ناسمجھ تھا کہ آدھی رات کو جب سارا عالم سویا ہوتا تھا اچانک آنکھ کھلتے ہی ان کے کمرے کی کھڑکی میں سے نظر آتی روشنی دیکھ کر کبھی نہ پوچھا کہ آپ کیوں رات بھر جاگتی رہتی ہیں ؟“
کبھی خیال آتا کہ کچھ پوچھوں تو خود ہی اندر سے جواب ملتا ہے کہ تہجد کا وقت ہے نماز کے لیے اٹھی ہوں گی ۔
”چلو آ جاؤ باورچی خانے میں ناشتہ کرتے ہیں ۔“ میں نہا کر ان کے قریب چولہے سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گیا ۔” میں نے دیکھا ایک پیڑھی پر وہ بیٹھی ہیں اور دوسری پیڑھی خالی پڑی ہے یوں کہ جیسے اس پر سے کوئی ابھی ابھی اٹھ کر گیا ہے اور اب جیسے اس کی واپسی کا انتظار ہو رہا ہے
” نہیں نہیں ۔۔۔تم ادھر بیٹھ جاؤ “ انہوں نے مجھے اس پیڑھی پر بیٹھنے نہ دیا جلدی سے کھینچ کر پیڑھی اپنے قریب کرتے ہوئے مجھے سامنے رکھے لکڑی کے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا انہوں نے چھوٹی سی میز پر ناشتہ رکھا اور میں ان کے ہاتھوں کے بنے پراٹھوں کے ورق کھولنے لگا۔
” اف خدایا کتنی لمبی رات تھی بڑی مشکل سے صبح ہوئی “ میں نے درزیدہ نظروں سے انہیں دیکھ کر کہا تو وہ چولہے سے ایک جلتی ہوئی لکڑی کو نکال کر اس پر پانی کے چھینٹے مارنے لگیں لکڑی سے دھواں اٹھ کر کچھ چمنی سے باہر جا رہا تھا اور کچھ باورچی کی چھت کی طرف جا رہا تھا مجھے دھویں کی وجہ سے سانس لینے میں دقت محسوس ہوئی تو میں نے کہا ” اچھا ہے کہ یہ چمنی تھی ورنہ تو باورچی خانے میں میرا دم ہی گھٹ جاتا .“ وہ لکڑی کو زمین پر جھٹک کر مکمل بجھانے میں لگی ہوئی تھیں میری بات پر مجھے ایک نظر دیکھا ” ہاں چمنیاں بہت ضروری ہوتی ہیں سانس لینے کے لیے اور سانس بھی لازم ہوتے ہیں زندہ نظر آنے کے لیے ۔“
میں نے دیسی گھی کے پراٹھے سے نوالہ توڑتے ہوئے پوچھا ”زندہ رہنے کے لیے سانس لازم ہیں “
وہ درد بھری مسکراہٹ لبوں پر سجائے بولیں
” نہیں ضروری نہیں کہ سب سانس لینے والے زندہ بھی ہوں ۔۔ اچھا چھوڑو ایک بات کرنی تھی تم سے “
میں ہمہ تن گوش تھا
” تم بھی دکھوں کے گھٹن زدہ ماحول میں درد کے دھویں کو کم کرنے والی میری ایک ہی ایک چمنی ہو جب تم چلے جاؤ گے تو میرا دم گھٹ جائے گا اور اسی کے پاس چلی جاؤں گی جس سے تمہارا رشتہ فقط رقابت کا تھا ۔“
میں نے گڑ والی چائے کا گھونٹ بھر کر ان کی آنکھوں میں جھانکا جہاں آنسوؤں کی نمی تھی تب مجھے احساس ہوا کہ آنکھیں بھی تو چمنیاں ہیں جو گھٹن کو کم کرتی ہیں بے شک یہاں سے دھواں مایا بن کر نکلتا ہے اور سانسوں کو آسانی مل جاتی ہے ۔
”آپ ایسا کریں بریانی بنانے کی تیاری کریں میں جاتا ہوں سسرال کیونکہ فی الحال تو میری زرگل مجھے بہت یاد آ رہی ہے واپسی پر ڈھیر ساری باتیں کرتے ہیں “
میں نے ایک فیصلہ کر لیا تھا اور اسی فیصلے پر پہنچ کر گھر سے نکل کر بخت خان کے حجرے کا رخ کیا وہ مجھے دیکھ کر چند پل تو ساکت سے کھڑے رہے ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں انہیں کیا کہنے آیا ہوں
” آپ نے زرگل کی چاچی کو کیا کہا تھا ؟“
ان کی رنگت متغیر ہو گئی تھی اور نظریں جھک کر میرے جوتوں پر جمی تھیں ۔
”اپ نے اتنی بڑی بات کی ہے کہ اس سے بہت چھوٹی باتوں پر قتل ہوتے ہم دونوں نے اپنے اس پاس دیکھ رکھے ہیں ۔۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بیوگی کے بعد اگر سگا دیور نکاح کر لے تو ٹھیک ہے اس کے علاوہ کسی کا پیغام دشمنی کا پیغام سمجھا جاتا ہے ۔
میری بات کے احتتام پر وہ چپ ہی رہے ۔
” اگر میں یہ پوچھوں کہ آپ کی بہن شادی کے دو سال بعد بیوگی کا زخم لیے آپ کی چوکھٹ پر آئی تھی تو آپ نے اس پر گھر کے دروازے تو کھول دئیے تھے لیکن خوشی کا ہر در بند کر دیا تھا اور دو سال بعد ہی وہ زخم ناسور بن کر انہیں عین جوانی میں کھا گیا تھا تب آپ نے اپنی بہن کے لیے یہ فیصلہ کیوں نہ لیا ؟“ وہ خاموش تھے ۔
” میں بہت چھوٹا تھا اور ان کے پاس قرآن مجید پڑھنے آتا تھا میرا تیسرا سیپارہ تھا تو انہیں کھانسی شروع ہوئی تھی اور جب میں نے تیسواں سیپارہ لیا تب وہ خون کی الٹی کر کے مر گئی تھیں آپ نے تو کبھی غور نہیں کیا ہوگا لیکن تیسرے اور تیسویں سیپارے کے درمیان کے سارے وقت میں ان کے درد کا گواہ رہا اسی لیے آج گواہی دینے آیا ہوں کہ آپ ان کے قاتل ہیں ۔۔ اور وارث بھی ۔۔۔ ۔اگر قاتل ہی منصف بھی ہے اور وارث بھی تو آج اپنے لیے اس بے گناہ کے قتل کی سزا تجویز کریں ۔۔۔ موقع واردات کا گواہ گواہی دے رہا ہے اور بطور منصف آلہ قتل مانگتے ہیں تو اس کی نشان دہی بھی کرتا ہوں ۔۔۔یہ جو زمین پر جمی آپ کی آنکھیں ہیں نا ان سے آپ نے انہیں قتل کیا تھا ٬
یہ جو تلوار کی دھار جیسی زبان آج چپ ہے اس سے زخم لگائے تھے آپ نے ان کے دل پر ۔۔۔ جبکہ نفرت بھرے لہجے کا زہر انہیں زبردستی پلایا گیا انہیں انکار کا حق ہی نہ تھا اس لیے وہ یہ زہر پیتی رہیں وجود نیلا ہوتا گیا اور سفید اوڑھنیوں کے پلو خون سے سرخ ہوتے رہے ۔“
خدا کے لیے چپ ہو جاؤ “ انہوں نے جیسے منت کی شاید سچ سننے کی ہمت نہیں تھی ۔
”مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن آپ غصے میں منہ سے جھاگ اڑاتے گھر میں داخل ہوئے تھے اور سہمی ہوئی سی شاہ گل بی بی کو چوٹی سے پکڑ کر خوب بے عزت کیا تھا ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دروازے میں کھڑی ہو کر دنداسہ خرید رہی تھیں اور آپ کی بھابھی نے گھر میں داخل ہوتے ہی یہ خبر نمک مرچ لگا کر آپ کو سنا دی تھی آپ کو شاید یاد نہ ہو مگر وہ الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں آپ نے ان کے لرزتے ہاتھوں سے دنداسے کی گڈی چھین کر کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے کہا تھا ” بیوہ ہو کر منہ لال کرتی ہو ۔۔ کس یار کو دیکھانا ہے ؟“
اس دن پہلی بار شاہ گل بی بی کی اوڑھنی رنگین ہوئی تھی میں نے حیرانی سے ان کے ہونٹوں کی لالی دیکھ کر سوچا تھا دنداسے کا رنگ کتنا لال ہے ۔۔۔ لیکن وہ خون کا رنگ تھا یہ انکشاف مجھ پر تب ہوا جب میں ایک دن سیڑھی سے نیچے گرا اور میرا ہونٹ پھٹ گیا تھا تب سنک میں کلیاں کرتے ہوئے آئینے میں مجھے اپنے خون کا رنگ بالکل شاہ گل بی بی کے منہ سے نکلتے ہوئے لال رنگ جیسا لگا تھا جانتے ہیں اس وقت میں نے درد سے تڑپتے ہوئے کیا سوچا تھا ؟ میں نے سوچا تھا بہت گہری چوٹ لگنے کے بعد یوں خون نکلتا ہے ۔۔لیکن شاہ گل بی بی کی تو آپ نے صرف چٹیا پکڑی تھی چوٹ تو شاید انہیں آپ کے الفاظ اور لہجے سے لگی تھی ۔“ میری آواز گلے میں پھنس رہی تھی آنسوؤں کا پھندا تنگ ہوتا جا رہا تھا ۔
انہوں نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اور دو آنسو بے گھر ہو کر ان کی داڑھی میں کہیں چھپ گئے میں نے پہلی بار کسی مرد کو عورت کے دکھ پر روتے دیکھا تھا اس عورت کے دکھ پر۔۔۔ جو ان کی ماں جائی تھی اور جسے رشتوں کی بے حسی نے مار دیا تھا ۔” خدایا مجھے ایسے آنسوؤں سے بچانا جو کسی کو مار کر اس کے لیے بہائے جائیں ۔“ میں نے دعا مانگی ۔
” میں روز اس کی قبر پر جا کر اس سے معافی مانگتا ہوں میں وہ سارے پھول اس کی قبر پر رکھ آتا ہوں جنہیں وہ کلائیوں میں سجانے کے بے تعبیر خواب دیکھا کرتی تھی۔“ وہ شرمندہ تھے اور میں شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا مجھے قبروں سے ڈر لگتا تھا میں خوابوں کے گجروں کو قبروں پر کھلنے کی تعبیریں نہیں دے سکتا تھا اس لیے
میں نے انہیں رشتے کی منظوری دی اور شام تک نکاح کا انتظام کرنے کا کہہ کر ان کی حیرت بے یقینی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات والی شکل پر دل ہی دل میں مسکراتا زرگل کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔۔اج شام تک مجھے بہت سے محاذوں پر لڑ کر جیتنا تھا میں عورت کو دوسری تقدیر لکھنے کا حق دلوانا چاہتا تھا اس لیے کہ جب میری بیٹی پیدا ہو تو اسے سفید اوڑھنی نہ اوڑھنی پڑے کہ اس کے باپ کو دنداسے اور خون کے رنگ میں فرق معلوم ہو چکا تھا صرف ایک تنہا ٬ زہریلی رات کا زہر رگوں میں اترا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی بیوی زرگل کو اپنے ساتھ دوبئی لے کر جاؤں گا اور اب اس بیوہ کو تنہائی کی مزید ایک بھی زہریلی رات کا زہر نہیں پینے دوں گا جن کے ہونٹوں پر خون نہیں دنداسہ سجتا تھا۔۔۔ میں نے تصور میں سرخی مائل نارنجی ہونٹوں پر لرزتے شکریے کے ساتھ اپنی سگی ماں کو دلہن بنے دیکھا اور بے اختیار مسکرا نے لگا ۔