بہت مشکل سےاس نے اپنی آ نکھیں کھولیں۔۔۔۔غالبا ” اس کے سر کے پچھلے حصے پر کاری ضرب لگائی گئی تھی۔۔اس نے پیچھے بندھے اپنے ہاتھوں پر رسی کی گرفت کو محسوس کیا اور یہ بھی کہ اس کے جسم پر لباس کے نام پر فقط زیر جامہ ہے۔۔۔وہ کتنے گھنٹے بے ہوش رہا۔۔۔۔؟اب کہاں ہے۔۔۔؟ یہ مقام۔۔۔وقت۔۔۔ اور گردوپیش۔۔۔؟؟اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی اور اپنی بجھی بجھی آ نکھوں سے نیم اندھیری جگہ کو جاننے پہچاننے کی امید میں اطراف نگاہ دوڑائی شاید وہ کسی مخدوش عمارت کے بالائی حصے میں تھا۔۔۔۔۔۔دورستاروں کی کہکشائیں اپنی روشنی بکھیر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔صحرا کی طلسماتی رات تھی، اچانک کوئی شہاب ثاقب گرا۔۔۔۔۔۔۔۔ٹوٹا اور اس سے مماثل بارود کی بوچھاڑ اس کی نظروں میں گھوم گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارود۔۔۔۔۔۔؟؟اور اس یاد کے ساتھ ہی اسے وہ عراقی جیپ یاد آ ئی جس پر اس کے حکم سے بارود پھینک کے آ گ لگائی گئی تھی یہ اندازہ کیے بغیر کہ اس کے اندر کتنے عراقی تھے۔۔۔۔اور اس کے بعد اسے وہ حملہ یاد آ یا جو اس پر کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔کس نے ایسی جرآت کی ہوگی۔۔۔۔۔۔؟اس نے سوچا۔۔عسکریت پسندوں نے۔۔۔۔؟ ہاں شاید۔۔۔۔۔اور یہ تیسرا حملہ تھا جو مجھ پر ہوا۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔میں مائیکل امریکی جری فوج کا افسر۔۔۔۔ مجھ پر حملہ۔۔؟۔۔اور اب میں یہاں۔۔۔۔۔۔؟اس نے سوچا اور پھر آ سمان کی طرف دیکھا جو بہت روشن اور چمکدار تھا۔۔جو بھی مجھے یہاں لایا ہےظاہر ہے اس صحرائی رات میں چمکتے تاروں کا نظارہ کرانے کے لیے تو نہیں لایا ہو گا۔۔اس کا مقصد مجھے نقصان پہنچانا ہو گاتب ہی اس نے میری وردی،میرے بوٹ اتار دیے۔۔۔۔غالبا” اس لیے کہ میری شناخت باقی نہ رہے ۔۔۔اوہ۔۔۔۔میرے کاغذات۔۔۔ میرے تمغے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔میری شادی کی انگوٹھی۔۔۔۔؟مائیکل نے بندھے ہاتھوں کی انگلیوں کو محسوس کیا۔۔۔۔اس صدمے کی کیفیت سے نکلنے کے لیے اس نے سوچاکہ کیا دجلہ کا کوئی کنارہ یہاں سے قریب ہو گا۔۔۔۔۔یا دور۔۔۔۔۔۔یہ نیم مسمار عمارت جس کی حالت زار ایسی ہےکہ شاید یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے کیا یہ میرے دستے کے ہاتھوں مسمار ہوئی ہوگی یا کسی اور امریکی افسر کے حکم پر۔۔؟پھر اس نے ذہن کو جھٹکا سا دیا اور سوچاکہ ایسے لایعنی سوالات سے اور عمارت کے حدود اربعہ سے اسے کیا حاصل۔۔۔اسے فوری نجات کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔۔۔نجانے دشمن کی طاقت کتنی ہو ؟اس کے اپنے ساتھی کہاں ہیں؟ کیا سب مارے جا چکے۔۔۔۔۔۔اس کے بدن میں جھرجھری سی ہوئ اور اس کی نگاہ ایک بار پھر عمارت کی بوسیدگی پر مرتکز ہو گئ۔۔۔ محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی گر جائے گی۔۔۔۔۔مائیکل نے خود کو عمارت کے ڈھیر میں زندہ دفن ہوتا محسوس کیا اس کے دونوں ہاتھ ایک خستہ ستون سے بندھے ہوئے تھے ایسا لگتا تھا جیسے ہاتھ کھولنے کی سعئی میں ستون اس پر گر جائے گا کیا واقعی ایسا ہے؟ درد کی ٹیسیں اسکے بدن سے اٹھ رہی تھیں شاید اسے بہت مارا پیٹا اور گھسیٹا گیا تھا۔۔۔۔ آ خر وہ کون لوگ تھے جو مجھے یہاں لائے؟ مائیکل نے سوچا اچانک اسےبھربھراتی ادھ ٹوٹی سیڑھیوں پر ہلکی ہلکی دھمک سنائی دی ایک ہیولہ سا آ گے بڑھا شاید وہ سگریٹ پی رہا تھا روشنی کا نکتہ سا اس کے ہاتھوں کی حرکت میں تھاجب وہ قریب آ یا تو مائیکل نے تاروں کی روشنی میں دیکھا وہ کھلاڑیوں جیسی جسمانی ساخت رکھنے والا ایک نوجوان تھا۔۔۔ مائیکل اسے دیکھتے ہی ہذیانی انداز میں چلایا۔۔۔۔۔۔۔
”
او۔۔۔۔احمق عراقی۔۔۔۔۔تم شاید بہت بڑی غلطی کر رہے ہو”
آ نے والا پہلے آ ہستہ سے ہنساپھر ہنستا چلا گیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔
“اچھا واقعی ؟”۔۔۔۔۔۔۔وہ زمین پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔مائیکل نے غور کیا وہ ایک خوبرو نوجوان تھا اس کے چہرے پر علم کی روشنی تھی جسے جبرا” بجھا کے اس کی جگہ انتقام کی آ گ جلائی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تو کیا یہ مجھے مارے گا”؟مائیکل نے سوچا۔۔۔
“کیا میں نے اسے ذاتی طور پر نقصان پہنچایاہے ؟۔۔۔۔یا پھر یہ عسکریت پسندوں میں سے ہے ؟”
کئی سوالات تھے۔۔۔۔۔۔۔بالاخر اس نے پوچھا:
“کون ہو تم؟…. یقینا” اتنے سمجھ دار تو ہو گے کہ جان سکو کہ مجھے مارنے کا انجام تمہارے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے”
نوجوان دوبارا ہنسنے لگا۔۔۔۔۔پھر ہنستے ہنستے کھڑا ہو گیا٫اب اس نے آسمان کو تکنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ستاروں کو دیکھتا رہا ان میں کچھ کھوجتا رہا پھر یکدم جیسے اپنے آپ میں لوٹا اور بولا:
“پہلے تم نے مجھے احمق عراقی کہا پھر سمجھ دار کہا۔۔۔۔۔۔۔۔تم امریکی خوب جانتے ہو کہ کب دم ہلانا ہے کب بھونکنا ہے یہ تمہاری فطری تربیت کا حصہ ہوتا ہے ۔۔۔خیر میں تمہیں بتادوں کہ تم دنیا کے ایسے مقام پر آ ئے ہوجو کبھی علم و ثقافت، صنعت و حرفت کا مرکز تھا۔۔۔۔ہلاکو خان کی بربریت نے اس کی عظمت کو داستان پارینہ ضرور بنایا تھا لیکن آ ج بھی یہاں حضرت سید عبدالقادر جیلانی رح ،امام اعظم رح ،امام کاظم رح ،حضرت جنید بغدادی رح اور کئی مقتدر ہستیوں کے مزارات ہیں جن میں سے دو پر تمہاری فوج نے بلا اشتعال فقط اپنی جہالت کے مظاہرے کے لیے بمباری کی ہے”۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
“اوہ۔۔۔۔۔۔یہ واقعی غلط ہوا”۔۔۔۔۔ مائیکل کی آ واز میں خوف تھا۔۔۔۔۔۔۔”لیکن مجھے ڈھونڈا جائے گا۔۔۔۔۔میرے اور میرے لوگوں کے غائب ہو جانے پر کارروائی ہوگی۔۔۔۔۔ تمہارے لاتعداد ہم وطن ناحق مارے جائیں گے صرف شبہ میں”۔۔۔۔۔۔۔۔ مائیکل نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
“ارے نہیں۔۔۔۔۔۔تم اتنی فکر نہ کرو”.. ۔۔۔۔وہ پھر ہنسا۔۔۔۔”اس وقت کہ جب کی یہ بات ہے تمہارا دستہ روانہ ہوچکا تھا تم اپنی جیپ میں صرف ڈرائیور کے ساتھ تھے فقط وہ تمہاری وجہ سے مارا گیا۔۔۔۔۔۔۔اور تم بھی مارے جا چکے ہو”۔۔۔۔۔وہ بے نیازی سے ٹہلنے لگا۔۔۔۔۔۔
“یعنی۔۔۔۔۔؟”مائیکل نے مضطرب ہو کے خود کو جھٹکا دیا۔۔۔
“یعنی۔۔۔۔اب تم اپنے غائب ہونے کاغم بھلا دو کیونکہ تم انہیں مل جاؤ گے بلکہ مل چکے ہو گے”۔۔۔۔۔ ۔
“کیا مطلب؟”۔۔۔۔مائیکل نے اپنے جسم میں گہری سنسناہٹ محسوس کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اب دیکھو۔۔۔۔۔۔مطلب پر زیادہ غور نہ کرنا”۔۔۔۔اکہرےبدن والا خوبرو نوجوان مسکرایا۔۔۔۔۔وہ دوبارا زمین پر اس کے روبرو بیٹھ گیا اور آ ہستہ آ ہستہ گہری پراسرار آ واز میں بولا: ” بس اتنا جان لو کہ یہاں آ نے سے پہلے تم نے جس عراقی جیپ پر بارود پھینک کے آ گ لگائی تھی اس جیپ میں میرے بہت خاص الخاص ساتھی تھے ان میں سے ایک بالکل تمہارے قد و قامت اور رنگ روپ کاتھا ہم چھیڑ چھاڑ میں اسے امریکی فوجی کہا کرتے تھے۔۔۔۔اس کی نیم سوختہ لاش میں نے اس بارود بھری آ گ سے گھسیٹ لی تھی۔۔۔۔تم ذرا اپنے بدن کو دیکھو جس پر لباس کے نام پر فقط زیر جامہ ہے۔۔۔یہ دھجی بھی میں نے اپنی عظیم روایات کے صدقے میں تمہیں پہنائے رکھی وگرنہ تمہارے باقی کپڑے، جوتے ،بدبودار جرابیں، گھڑی اور تمہاری شادی کی انگوٹھی تک کو معقول مقام دیا یعنی تمہاری وردی اور تمغے پھول سب سےاپنےاس دوست کی جھلسی ہوئی لاش کو سجا دیا جسے میں نے جلتی جیپ سے گھسیٹا تھا۔۔۔۔ تمہاری وردی جوتے اور تمام اشیاء کو پہلے آ گ سےجھلسایا پھر انہیں اپنے ساتھی کو پہنایا پھر دوبارا اپنے ساتھی کا چہرا اور ہاتھ پاؤں پہنے ہوئے کپڑے وغیرہ آ گ سے جلا کے مسخ کیے۔۔۔۔۔اس کے جسم کو اس انداز سے جلایا کہ صرف کچھ نشانیاں باقی رہ جائیں جن سے بلاتردد تمہاری شناخت ہو سکے پھر تمہاری جیپ میں اس لاش اور تمہارے ڈرائیور کی لاش کو ڈال کرجیپ کو بھی اڑا دیا گیا۔۔۔۔۔۔یاد کروکہ جب رفع حاجت کی غرض سے تم رکے تھے تو تمہارا دستہ انجانے میں آ گے بڑھ گیا تھا تمہاری اکیلی جیپ اور تمہارا اس سے اتر کے بہت آ گے چلے جانا۔۔۔۔۔۔پھر تمہارے ڈرائیور کا تنہا رہ جانا اور تمہارا بھی۔۔۔۔۔ایسے میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کا حملہ۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟ فوری منصوبہ فوری عمل۔۔۔۔۔۔اچھا تھا نا۔۔۔۔۔۔۔”وہ پھر ہنسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔اس کے بلند آ ہنگ بےخوف قہقہے صحرائی رات کے اسرار کو بڑھا رہے تھے۔۔۔۔۔مائیکل کو اپنا ایک فوجی دوست یاد آ یا جو جنگ کی تباہ کاریاں؛ برداشت نہیں کر پایا تھا اور مخبوط الحواسی کا شکار ہو گیا تھا اس کی ہنسی میں خوشی نہیں وحشت ہوتی تھی وہ بہت جوشیلے انداز میں گفتگو کرتا اور قہقہے لگاتا تھا لیکن دراصل اس کا چہرہ ملال اور بے سکونی کا غماز رہتا تھا۔۔۔۔وہ موقع ملتے ہی ایک پیشہ ور قاتل کی طرح مشتعل ہو جاتا تھا۔۔۔۔ تو کیا یہ بھی۔۔۔۔۔کسی ایسی کیفیت میں ہے۔۔۔مائیکل نے سوچا پھر اپنی عقل پر لعنت بھیجتے ہوئے اس نے خود سے اعتراف کیا کہ یہ کیا اسکی پوری قوم اسی کیفیت میں ہوتو بے جا نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔
نوجوان سگریٹ سلگانے لگا۔۔۔
مائیکل سناٹے میں تھا۔۔۔۔۔” اف۔۔۔اف۔۔۔۔اس نے میرے ساتھ یہ سب کیا۔۔۔۔یعنی میری وردی میرےتمغے۔۔۔۔۔میرے کاغذات اور میری شادی کی انگوٹھی تک۔۔۔۔۔۔کسی اور کو پہنا دی پھر اسے آ گ لگا دی۔۔۔۔۔۔یعنی میں اپنی شناخت اپنے حوالے کھو چکا ہوں۔۔۔۔۔شاید میری لاش میرے گھر والوں کو بھجوا دی جائے گی۔۔۔۔۔۔ممکن ہے کچھ تحقیق وتجزیے ہوں ممکن ہے اسے گہرائی سے نہ لیا جائے۔۔۔۔۔ممکن ہے اس نوجوان نے ایسے شواہد ہی نہ چھوڑے ہوں ممکن ہے میرا کوئی سراغ نکل ہی آ ئے۔۔۔ شاید اس وقت تک دیر ہو چکی ہو۔۔۔۔۔اپنا انجام کس نے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔ ”
“کیا تمہاری کوئی محبوبہ ہے؟”۔۔۔۔۔نوجوان نے سگریٹ کا گہرا کش لے کے دھواں اس پر چھوڑا۔۔۔۔
“ہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک بیوی بھی۔۔۔۔۔۔۔۔”
“اوہ یعنی دو دو “… نوجوان پھر ہنسا
“ہاں ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔۔اور تم۔۔۔۔۔۔تمہاری ؟۔۔۔ مائیکل نے پوچھا
“میری۔۔۔۔۔؟”یکلخت وہ بدل گیا بہت مشتعل سا ہوا
۔۔۔اس نے زمین پر ٹھوکر ماری پھر اس کی طرف پشت کرکےکھڑا ہو گیا اور جیسے خود کلامی کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں تو شاعر ہی اس لیے بنا کہ اس پر شعر کہہ سکوں۔۔۔۔اس کے حسن لازوال کی داستان لکھ سکوں۔۔۔۔کیسے ہوتے ہیں لب لعلیں دنیا کو بتا سکوں اور کیسی ہوتی ہیں ساحر آ نکھیں۔۔۔۔۔۔۔
یک لخت وہ پلٹا اور اس نے اپنےبوٹ کی نوک سے مائیکل کو ٹھوکر ماری اس ٹھوکر میں نفرت و حقارت تھی۔۔۔۔غصہ تھا اور شاید اس افتادگی ودرماندگی کی ابتداء جو مائیکل کے لیے تیار تھی اس اچانک حملے سے مائیکل تلملا اٹھا اس کے کراہنے سے نوجوان کو جیسے شہہ ملی اب اس نے مائیکل پر گھونسوں لاتوں اور ٹھوکروں کی یلغار
کردی۔۔۔۔کیا کوئی عراقی اتنا بےرحم بھی ہوسکتا ہے مائیکل نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔وہ عراق کے کئی شہروں میں تعینات رہ چکا تھا۔اس نے ان میں صرف خوف، دہشت اور بےبسی دیکھی تھی۔۔۔۔۔حملہ آور چھپ کر حملہ کرتے تھے یا مارے جاتے تھے اس نے لاتعداد خوبصورت نوجوانوں اور بچوں کو جنگی تباہی کے نتیجے میں معذور ہوتے دیکھا تھا۔۔۔۔۔ نوجوان نے آخری ٹھوکر بہت زور سے ماری پھرٹوٹی بھربھری سیڑھیوں سے نیچے اتر کر چلا گیا کچھ فاصلے پر اس کا سگریٹ گرا ہوا تھا اس کے جانے کے بعد بھی فضا میں اس کی سسکیاں گونجتی رہیں۔۔۔
مائیکل اسے جاتا دیکھتا رہا پھر بے بسی سے ستون سےاس نے سر ٹیکا دیا وہ کچھ دیر کے لیے سامنے کے مناظر بھول جانا چاہتا تھا اور خود کوسکون دینے کی خاطر کچھ اچھا سوچنا چاہتا تھا۔۔ اس نے آ نکھیں بند کر لیں۔۔۔ ظاہری آ نکھیں بند ہوتے ہی جیسے دل کی آ نکھیں کھل گئیں لیکن وہاں نہ اس کی بیوی تھی نہ محبوبہ۔۔۔۔۔۔
کوئی تیسری عورت۔۔۔۔۔ آ نکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی کالی بھنورا سی آ نکھیں۔۔۔۔قدرت کی صناعی کا بیش بہا نمونہ آ نکھیں۔۔۔۔خوف وحشت نفرت و حقارت سے بھری لیکن بےچارگی سے لبریز آ نکھیں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک سیاہ لیکن گرم ترین رات تھی جب اسے آدھی رات کوجگا کر حکم دیا گیا کہ اسے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان پر چھاپہ مارنا ہے جہاں ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ اور چند دہشتگرد چھپے ہوئے ہیں۔۔۔۔ مکان دجلہ کے کنارے واقع ہے مکان کے اوپر کچھ عربی الفاظ کندہ ہیں اور اطراف دھان کے کھیت۔۔۔۔۔۔وہ اپنے کندھوں پر بھاری بندوقیں اٹھائے چلتے رہےاور اپنے مضبوط جوتوں کی آوازیں سنتے رہے۔۔۔۔اکتا دینے والی تلاش تھی لیکن بالآخر ختم ہوئی اس مکان کی روشنی اس کے ہونے کی گواہی دے رہی تھی لیکن مکان کسی طرح دہشت گردوں کی آ ماجگاہ نہیں لگ رہا تھا۔۔دل کو روحانی کرنوں سے معمور کر دینے والی پاکیزگی اس کے درودیوار پر ہالہ کیے ہوئے تھی یوں لگ رہا تھا جیسے دعاؤں کی لہروں میں یہ مکان ہلکورے لے رہا ہو۔۔۔۔ لیکن
ابلیسیت اور شیطانیت کی اپنی قوت ہے جو حاوی ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔۔۔۔ مائیکل کی نگاہیں مکان پر ٹہر چکی تھیں اس کے ساتھی اردگرد کاجائزہ لے رہے تھے جہاں کبھی آ باد رہنے والے گھرگولہ باری سے مسمار ہوچکے تھے یا اندھیرے مکان تھے جن کے مکین کوچ کر چکے تھے۔۔۔
مائیکل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بےصبری اور بے تابی سے اپنی شکار گاہ کی طرف بڑھا انہوں نے اپنی تربیت کے مطابق گھر کے دروازے پر بارود لگا کے اسےایک بےمحابا شور سے اڑا دیا پھر جنگلی سوروں کی طرح بھدر بھدر کرتےاندر گھس گئے۔۔۔۔۔یہ دومنزلہ صاف ستھرا گھر تھا جو متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہا تھا۔۔۔ ایک معمر مرد اور دو نوعمر لڑکے سامنے آ ئے ان کے چہروں پر ہراسانی تھی۔۔۔ مائیکل کے حکم پراس کے سپاہیوں نے ان کی کنپٹیوں پر بندوق کی نوک رکھ دی اور انھیں گرفت میں لے لیا وہ مزاحمت نہیں کررہے تھے شاید خوف اور بےبسی کےمارےاس قابل ہی نہیں تھے لیکن سپاہی انھیں مارنے لگے وہ انھیں شرفِ انسانی سے گرانے کے لیے توہین آمیز طریقوں سے ٹھوکریں اور تھپڑ مار رہے تھے ان تینوں کی آ نکھوں سے آ نسو گر رہے تھے۔۔۔۔۔۔کیا وہ دہشت گرد تھے؟ مائیکل نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا اور سیڑھیاں کودتا ہوا اوپر کی منزل پر آ گیا وہاں ایک کمرہ کھلا ہوا تھا فرش پر کپڑا بچھا ہوا تھا جس پر ایک عورت حالت سجدہ میں پڑی تھی۔۔ ۔۔ اتنے شور و غوغا کے باوجود وہ اپنی عبادت انجام دے رہی تھی۔۔ مائیکل ایک شیطان کی صورت اس کے سامنے آ نے کو بے چین تھا اس نے فرش پر پڑے ہوئے کپڑے سے اسے گھسیٹا اور روبرو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔” اف خدا ۔۔۔۔”مائیکل کے منہ سے بے اختیار نکلا وہ پری پیکر آ سمان سے اتری مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ مائیکل نے اس کے سر پر بندھا کپڑا کھینچ کر اتار دیا اس کے سیاہ بال بکھر گئے اور ایک بھینی سی خوشبو چہار جانب پھیل گئی اس نے انتہائی نفرت و حقارت سے مائیکل کو یوں دیکھا کہ مائیکل کو محسوس ہوا جیسے زندگی میں پہلی بار اصل مائیکل کوکسی نے پورا کا پورا دیکھ لیا ہے۔۔۔۔
اس عورت کی کالی بھنورا سی آ نکھیں مئےکا بھرا پیالہ جیسی تھیں۔۔ مائیکل اسی وقت جان گیا تھا کہ وہ چاہے یا نہ چاہے ان آ نکھوں کو تاحیات نہیں بھلا سکتا۔۔۔ ۔۔۔۔
اچانک دو سپاہی چیختے چلاتے کمرے میں گھسے اور انھوں نے گلا پھاڑ کےمائیکل کو خوشخبری سنائی کہ تین دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں۔۔۔۔ اسلحہ فی الحال نہیں ملا تلاش جاری ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی کمرے میں جیسے طوفان آ گیا مزید سپاہی گھس آ ئے اور تین افسر بھی۔۔ وہ برق رفتاری سے چیزیں توڑ پھوڑ رہے تھے۔ تلاش کے نام پر بستروں کے گدے ، تکیے ادھیڑ رہے تھے، الماریاں کھول کے ان کی اشیاء فرش پر گرا دی گئیں سونے کے زیورات اور رقم جس کے ہاتھ لگی اس نے اپنی جیبوں میں ٹھونس لی۔۔۔۔ مائیکل نے باہر نکل کے دیکھا چند ہی لمحوں میں صاف ستھرا سجا سجایا گھر ٹوٹے پھوٹے سامان اور شیشے کی کرچیوں کا انبار لگنے لگا اس برباد گھر کے تین مکین سہمے سکڑے کھڑے تھے جیسے اپنے گھر میں نہ ہوں کسی اور جگہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہوں۔۔۔۔۔مائیکل نے خشونت اور خباثت سے انہیں گھورا اور للکار کے کہا :
“ان کے ہاتھ باندھ دو ،منہ پر نقاب چڑھا دو یہ ہمارے ساتھ جائیں گے۔۔۔۔۔”
” نہیں “۔۔۔۔۔۔۔پیچھے آ تی ہوئی عورت ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہ شخص میرا بوڑھا باپ ہے اسے دل کا عارضہ ہے اور یہ دو میرے معصوم بھائی بے قصور ہیں اور طالب علم ہیں خدا کے لیے انھیں چھوڑ دو “۔۔۔۔۔۔۔
مائیکل نے آ گے بڑھ کے عورت کو پکڑا اور گھسیٹ کےدوبارہ کمرے میں لے گیا اور تیز جھٹکے سے اسے ادھڑے ہوئے بستر پر گرا دیا۔۔۔۔۔عورت نے حیرت اور خوف سے اسے دیکھا لیکن اب مائیکل کے سامنے حسن کا ایسا
جلوہ تھا جو اس سے پہلے اس نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔
“اتنی حسین عورت ۔۔۔۔۔۔بخدا نہیں “۔۔۔وہ بڑبڑایا۔۔۔۔
اچانک کسی نے اس کے کندھے پر زور کی ٹھوکر ماری مائیکل نے ہڑبڑا کے آ نکھیں کھولیں نوجوان سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔اب مائیکل کے سامنے وہی منظر تھا مخدوش عمارت کا بالائی حصہ اور آ سمان سے جھانک جھانک کے تکنے والے تارے۔۔۔۔۔۔
“تو تم چار مرد تھے۔۔۔۔۔۔ہے نا “۔۔۔۔۔۔۔نوجوان نے دکھ اور حقارت سے پوچھا۔۔۔۔
” کون۔۔۔۔۔۔۔؟ کہاں۔۔۔۔۔؟” مائیکل نے حیران ہو کے پوچھا۔۔۔۔۔نوجوان نے گھونسوں اور لاتوں کی بارش پھر شروع کردی، مائیکل کراہنے لگا۔۔۔۔۔نوجوان ہانپ گیا۔۔۔اس نے خود کو سنبھالا اپنے خوبصورت گھنگھریالے بال پیشانی سے سمیٹے اور بولا ۔۔۔۔۔”تو تم پہلے تھے جو اس کی طرف بڑھے ؟؟کیوں ایسا ہی تھا؟”۔۔۔۔
تم اور وہ عورت ۔۔۔؟ یعنی کہ۔۔۔۔وہ اور تم ۔۔۔ ؟ مائیکل نے بہت کچھ پوچھنا چاہا۔۔ ۔۔
فی الحال اتنا جان لو کہ تمہارے بقیہ ساتھی اب موجود نہیں رہے۔۔۔۔۔تم میرا سب سے اہم شکار ہو اس لیے میں تمہیں آ سانی سے مارنا نہیں چاہتا تھا۔۔”
مائیکل کے جسم میں کنکھجورے سے رینگنے لگے اسے محسوس ہوا کہ اس کی تمام بہادری اس کے فوجی دستوں ہتھیاروں اور ساتھیوں کی وجہ سے تھی، اکیلا وہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
نوجوان نے کھلی جگہ پر ٹہلنا شروع کر دیا پھر بولا:
” تم ہمیں دہشتگرد کہہ کے ہمارے ملک میں گھس آ ئے۔ہمارےگھروں کو تباہ کر دیا مردوں بچوں کو قتل اور عورتوں کو بے آ برو۔۔۔۔۔۔ذرا سوچو اگر ہم تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے اور کر گزرتے تو۔۔۔۔ ؟”
” تم کمزور ہو۔۔ ۔۔اور اس کا ہرجانہ ادا کر رہے ہو۔۔۔۔۔”مائیکل نے بے رحمی سے کہا
“لیکن اس وقت ایسا نہیں ہے”۔۔ نوجوان کے لہجے کی سفاکی سے مائیکل ہلکا سا لرز گیا۔۔۔۔۔
“جانتا ہوں کہ تم نے مجھے گھیر لیا ہے لیکن تم مجھے نقصان پہنچا کے خود بڑی مصیبت میں پھنس جاؤ گے ۔تمہارے کئی بے گناہ ہم وطن شک و شبہ میں پکڑے اور مارے جائیں گے “۔۔۔۔ وہ بولا
“میں اور میری قوم پہلے ہی اپنی کمزوریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اب اس سے زیادہ کیا ہوگا “۔۔۔نوجوان نے کہا”بس اب تیار ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔۔”
اچانک سیڑھیوں سے نیچے کوئی آ ہٹ سی ہوئی دونوں چونکنے ہو گئے۔۔۔نوجوان نے احتیاط سے بندوق سیدھی کی اور آ ہستہ آ ہستہ ایک ایک سیڑھی کر کے اترنے لگا۔۔۔۔۔
بالآخر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔مائیکل نے اپنی تمام حسیات چوکس کر دیں اور اپنی سماعت کو بڑھا دینے کی سعی میں سانس بھی روک لی۔۔۔ نوجوان کے بولنے کی آ واز اسے سنائی دی اب وہ انگریزی میں نہیں عربی میں بات کر رہا تھا شاید کسی کو تنبیہ کر رہا تھا لیکن اس کے لہجے میں محبت کی چاشنی اور تڑپ تھی۔۔ ۔اس کی آواز سرگوشیوں میں ڈھلتی چلی گئی پھر اچانک ہی وہ دوبارا سیڑھیوں پر نمودار ہوا لیکن رکا اور سیڑھیوں سے جھانک کے اس نے نیچے دیکھا اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی کسی کو دوبارا دیکھنے کے لیے۔۔۔۔ مائیکل نے تاروں کی روشنی میں اسے بے حد خوبصورت نوجوان پایا۔۔۔اب وہ سیڑھیوں پر کھڑے ہو کے آ نے والے سے مخاطب تھا۔۔۔۔۔ “تم جاؤ ۔۔۔۔۔۔اور مجھے کمزور مت کرو۔۔۔۔” مائیکل اتنے دن عراق میں رہ کے عربی کی شدبد سے واقف ہو گیا تھا اس نے صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔نوجوان پھر بولا۔۔۔۔” قاسم نے آ نے میں دیر کر دی ہے ۔۔۔۔۔اسے میری مدد کرنا تھی۔۔۔۔ میں جلد یہ کام نپٹانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔بہرحال تھوڑا انتظار اور۔۔۔۔۔ ”
اچانک مائیکل کو محسوس ہوا کہ نوجوان کے مارے گئے گھونسوں اور لاتوں سےرسی کے بل ڈھیلے پڑگئے ہیں اس کے اندر ایک پرقوت لہر سی سرایت کر گئی اس نے ہاتھوں کو گھما کے دیکھا واقعی ایسا ہی تھا نوجوان کے آ تے ہی وہ پھر ساکت وبے حس ہو گیا لیکن اب اس کا ذہن پہلے سے زیادہ تیزی سے کام کرنےلگا تھا اس نے سوچا بہتر ہو گا کہ وہ نوجوان کو باتوں میں الجھائے رکھے اور آ ہستہ آ ہستہ رسی ڈھیلی کرتا جائے ۔۔۔۔ہوسکتا ہے اس دوران کوئی فوجی دستہ یا کوئی فوجی جیپ ادھر سے گذرے ہوسکتا ہے انھیں کچھ مشکوک محسوس ہو اور یہ نوجوان پکڑا جائے۔۔۔۔ایک مبہم سی آ س نے اسے قوت دینی شروع کی وہ اسے قریب آ تا دیکھ کے بولا۔۔۔۔۔۔۔
“افسوس۔۔۔تم جیسے خوب صورت نوجوان کو بغداد کی حسین راتوں کا حصہ بننا چاہیے تھا لیکن تم ہماری وجہ سے بارود اور بربادی کا فسانہ بن گئے۔۔۔۔۔سنا ہے الف لیلہ کی کہانیوں نے یہاں جنم لیا تھا۔۔۔۔۔۔”
نوجوان ہنسا۔۔۔۔”اچھ۔۔۔۔چھا۔۔۔۔۔۔” اور آ سمان کی طرف اشارہ کر کے بولا۔۔۔۔۔۔”تو اس تاروں بھری صحرائی رات نے تمہیں دیوانہ بنا دیا ہے میں تو سمجھ رہا تھا کہ موت کی آ ہٹ تمہیں بوکھلا دے گی ۔۔۔۔اے حرص و ہوس کے مارےامریکی فوجی۔۔۔۔۔نئی الف لیلہ کچھ مختلف ہے۔۔۔نئی الف لیلہ کہتی ہے کہ بغداد تیل کا کنواں ہے اور تم سفید چوہے اسے پینا اور ڈکارنا چاہتے ہو ۔۔۔۔ مفت میں ۔۔۔لیکن جان لو کہ عراق جیتے جاگتے لوگوں کا مسکن ہے یہ پیغمبروں اور اولیاء کی سر زمین ہے یہ تباہ تو پہلے بھی ہوئی تھی اب بھی ہوئی ہے یہ پھر سنور جائے گی لیکن تمہاری قوم ابد تک ساری دنیا میں پاؤں جلی بلی کی طرح منہ مارتی پھرے گی۔۔۔۔ارے تم نے تو اپنی ابتدائی تاریخ میں بھی سرخ ہندیوں پر ظلم وبربریت کے ناگفتنی واقعات رقم کیے۔ تمہارے دو مینار اور دفاعی دفاتر کیا گرےتم نے ملکوں کے ملک تہس نہس کر دیئے قوموں کو روند ڈالا یہ ہے تمہاری انسانیت۔۔۔۔اپنی سائنسی ترقی سے تم نے دنیا کو جنت کی طرف کم اور جہنم کی طرف زیادہ دھکیلا ہے پہلے آ تشیں اسلحے ایجاد کرتے ہو پھر ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی بات کرتے ہو ، پہلے بیماریاں ایجاد کرتے ہو پھر ان کی دوائیں ، مذاہبِ کوان کے ماننے والوں کے خلاف استعمال کرتے ہو۔۔۔۔۔تم نےاس دنیا کی معصومیت اور بے ساختگی ختم کر دی ہے “۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔
مائیکل نوجوان کے جوش خطابت سے فائدہ اٹھا رہا تھا اور رسی ڈھیلی کرنے میں مصروف تھا اسے ڈر تھا کہ نوجوان کی نگاہ اس کے ہاتھوں کی حرکت پر نہ پڑ جائے اسے مزید مشتعل کرنے کے لیے وہ بولا۔۔۔۔۔۔۔” نو گیارہ کے بعد کسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ اب ہم بہت سے معاملات کو نو گیارہ کے اٹھتے دھوئیں کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں”۔۔۔۔۔
” تم لوگ دراصل خوف کے مریض ہو۔”۔۔۔۔نوجوان دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔۔۔اسلام کےخوف نے تمہیں نفسیاتی طور پر کمزور کر دیا ہے بتاؤ آ خر یہ جنگ تمہارے لیے نا گزیر کیوں ہوئی ؟ کیا صدام اور دہشت گرد تنظیموں میں کسی قسم کا تعاون ثابت ہوا؟ تم ایک حادثے سے کئی حادثات کا نفسیاتی تعلق جوڑ لیتے ہو تم نے فرض کر لیا ہے کہ صدام کے پاس کسی بھی وقت ایٹم بم آ سکتا ہے”
نوجوان بولتے بولتے رکا اور بے چینی سے سگریٹ کاکش لگاتے ہوئے ٹہلنے لگا۔۔۔ ۔
مائیکل کو محسوس ہوا کہ رسی ڈھیلی ہوتی جارہی ہے شاید ایک ہاتھ جلد آ زاد ہو جائے لیکن وہ نوجوان کو گفتگو میں مصروف رکھنا چاہتا تھا اتنا تو اسے معلوم ہوگیا تھا کہ نوجوان اپنے ساتھی کے انتظار میں ہے ورنہ وہ اسے اتنی دیر برداشت نہیں کرتا لیکن اگر وہ ادھر متوجہ ہوگیا اور اس نے رسی کو ڈھیلا ہوتے دیکھ لیا تو ممکن ہے مشتعل ہوکےاسے پہلے ہی ختم کردے۔۔۔۔ مائیکل نے خود کو احتیاط سے سیدھا اور بے حرکت کیا نوجوان کی طرف دیکھ کے اس کے ارادے کو جاننے کی کوشش کی اسے محسوس ہوا کہ نوجوان کاجوش کچھ کم ہوا ہے اور وہ انتظار کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مائیکل نے اسےمشتعل کرنے کے لیے جواب دیا
“ہم چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ کے چہرے کو پوری طرح مسخ کر دیں۔۔۔۔۔۔۔صدام ایک بڑی رکاوٹ تھا صرف بن لادن کو سزا دینا کافی نہیں تھا۔۔۔۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ دہشت گرد عناصر امریکہ کو دوبارا نشانہ بنائیں۔۔۔۔” مائیکل نے قصداً اپنے لہجے کو سختی اور تکبر سے دو آتشہ کیا۔۔۔۔اس کا وار ٹھیک بیٹھا نوجوان مشتعل ہو کے پلٹا اور جذبات سے تپتی آ واز میں اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم سمجھتے ہو کہ عراق اور القاعدہ کا تعلق تھا یا ہے؟”
“ہاں “…… مائیکل نے جواب دیا…”ہماری حکومت کے مطابق صدام کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں وہ ایٹم بم بھی بنا سکتا تھا”۔۔مائیکل نے ڈھٹائی سے کہا
“یہ بکواس تمہارے حکام نے دنیا کو بتانے کے لیے کی ہے جبکہ اصل وجہ ہمارے تیل کے کنوؤں پرقبضہ کرنا اور صدام سے اپنے گزشتہ حساب چکانا تھا “۔۔۔ نوجوان نے تلملا کر کہا۔۔۔۔۔اچانک مائیکل کو محسوس ہوا کہ اس کا ایک ہاتھ رسی کی گرفت سے آزاد ہونے کو ہے اسے بہت احتیاط کی ضرورت تھی اور نوجوان کو باتوں میں لگائے رکھنا بہت اہم تھا سو وہ بولا۔۔۔۔۔ “دراصل بش کا اصل منشور تو یہ ہے کہ دجلہ و فرات کے پانی اور موصل اور کرکوک کے تیل کے کنوؤں سے اپنی پیاس بجھائی جائے”۔
نوجوان کے چہرے پر دکھ کی لہر آ ئی وہ بولا “تو اس سے ظاہر ہوا کہ تمہاری قوم کو اعلیٰ انسانی اقدار سے غرض نہیں۔۔شرف انسانی تمہارا مسئلہ نہیں۔۔۔۔۔تم جیسی مادیت پرست قوم کو کیا معلوم کہ عراق کا چپہ چپہ اسلامی آ ثار الصنادید کا حامل ہے یہ دجلہ و فرات کے درمیان محض وادیء عراق نہیں بلکہ اس کی تہذیب کا تسلسل تین سو سال قبل مسیح سے قائم ہے۔عراق مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین خطوں میں سے ایک ہے لیکن تم تہذیبیں مٹانے والے لوگ ہو تہذیبیں بنانے والے نہیں۔۔۔۔”
مائیکل زیر لب مسکرایا اس کا ایک ہاتھ رسیوں کی جکڑ بندھن سے آ زاد ہوچکا تھا لیکن اس نے اسے پشت اسی طرح رکھے رکھا اور دوسرے ہاتھ کی رسی ڈھیلی کرنے کی سعی کرنے لگا جو اب زیادہ دیر کا کام نہیں رہا تھا۔۔۔
“اچھا۔۔۔۔۔توتم بتاؤ کہ تم عسکریت پسندوں میں شامل ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے؟”
نوجوان نے بالائی سطح کے پار پھیلی سڑک کو بے چینی سے دیکھا شاید اسے دور تک اپنا آ نے والا ساتھی نظر نہیں آ یا۔۔۔۔اس کے اندر اضطراب کی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی وہ غصے سے پھنکارا۔۔۔۔۔۔”تو تمہیں میری کیا فکر پڑ گئی کہ میں کیا کرتا تھا اور کیا کرتا ہوں۔۔۔۔۔میں اپنی محبوبہ کے ساتھ اس شہر کی سب سے بڑی جامعہ میں پڑھتا تھا جو اب کھنڈر بن چکی ہے۔۔۔۔۔میں ایک شاعر ہوں اور اپنی محبوبہ کے لیے شعر کہتا ہوں۔۔۔۔۔میری عقل نورانی جو وجدان سے نمو پاتی ہے اور واردات قلبی سے جگمگاتی ہے اسے تمہاری قوم کی بدمستی نےبجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ تمہارے پاس نہ وجدان ہے نہ عشق۔۔۔۔۔۔۔۔صرف وہ عقل ہےجو مادیت میں الجھی ہوئی ہے جوعالم ماوراء سےبے بہرہ ہےاور فقط جسم کو دیکھ سکتی ہے مادہ پرکھ سکتی ہے اس پر معرفت کے دروازے نہیں کھلتے۔۔۔۔۔جنگیں ہمیں ہماری وجدانی کیفیت سے گھسیٹ کےدور لے جاتی ہیں جہاں صرف بقا کی جدوجہد رہ جاتی ہےسو اب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ جدوجہد کررہا ہوں تم جیسے حرص و ہوس کے مارے کو اسکے انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں تک لایا ہوں اور جلد ہی یہ سب کر گزروں گا۔۔۔۔”
مائیکل خباثت سے مسکرایا اس کا دوسرا ہاتھ کھل چکا تھا۔۔کھڑے ہوتے ہی اس نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور اس سے پہلے کہ نوجوان کا رخ اسکی طرف ہوتا وہ ہوا میں اچھلا تاکہ نوجوان کو قابو کر سکے نوجوان پلٹا اور اس نے بندوق کانشانہ باندھنا چاہا لیکن دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔ مائیکل نےقریب آ کےاسےایسے زاویے سے دھکا دیاکہ اس کی بندوق اچھل کے دور ایک ٹوٹے چھجے پرجاکے اٹک گئی اب وہ دونوں برق رفتاری سے گھتم گتھا ہو گئے ۔ مائیکل ایک طاقتور اورقوی ہیکل فوجی تھا بہت جلد اس نے نوجوان کو گرفت میں لے لیا اور اسے زمین پر چت لٹا دیا نوجوان پھرتیلا اور غصے سے بھرا ہوا تھا اس نے اپنی دونوں مضبوط ٹانگوں کی مدد سے مائیکل کو دھکیلا ، اکھاڑے کے پہلوانوں کی طرح جیت اور مات کی جنگ ہوتی رہی لیکن مائیکل اس پر حاوی تھا بالآخر اس اکھاڑ پچھاڑ میں اس نے نوجوان کو زیر کر لیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ ۔۔اب وہ دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن دبوچ رہا تھا۔۔۔۔۔ نوجوان کی سانس اٹکنے الجھنے لگی وہ خود کو چھڑانے کی سعی میں تڑپنے لگا۔۔۔۔ مائیکل حیوانیت سے مسکرایا اس نے اسکی گردن سے ہاتھ ہٹا دیئے اور بہت رسان سے بولا۔۔۔۔۔۔”صرف چند لمحے اور نوجوان۔۔۔۔۔ پھر تم ٹھنڈے پڑ جاؤ گے اب تمہیں میرے ہاتھوں مرنا ہے لیکن تم سے میرا وعدہ ہے کہ میں تمہاری محبوبہ کے پاس ضرور جاؤں گا وہ بہت خوبصورت ہے میں اسے بھول نہیں پایا۔۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے سیڑھیوں کے نیچے شاید وہ تمہارے لیے کھانا لے کر آ ئی تھی۔۔۔۔۔مجھے تازہ کھانے کی خوشبو محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔پھراس کی آواز کا جلترنگ سنائی دیا۔۔۔میں اس کی آواز اور اس کی آ نکھیں لاکھوں میں بھی پہنچان سکتا ہوں۔۔۔”
نوجوان نے کراہتے ہوئے نفرت سے اسے دیکھا اور اس کے منہ پر تھوکنا چاہا مگر ایسا نہ کر سکا۔۔۔ مائیکل مسکرایا اب اس نے اطراف نگاہ دوڑا کے بندوق تلاش کرنی چاہی لیکن وہ دور تھی چھجے پر اٹکی ہوئی۔۔۔۔اسے اتارنے کی کوشش خطرناک ہو سکتی تھی ، نوجوان اس وقت سے فائدہ اٹھا کے اس پر حاوی ہو سکتا تھا۔۔۔۔ مائیکل نے سوچا گلا گھونٹنے کا عمل زیادہ دقت طلب ہے فوری اور آ سان حل کچھ اور ہونا چاہیے۔۔۔اس نے اپنی ٹانگوں سے نوجوان کو مضبوطی سے جکڑا اور قریب پڑا سیمنٹ کا ایک بھاری پتھر اپنی طرف کھسکا کے اٹھا لیا پھر اپنے ہاتھ عقب میں لے جاکے نوجوان کے عین سر کا نشانہ لیا پتھر اپنی پوری طاقت سے گرا اور مائیکل چکرا کے بائیں جانب لڑھک گیا۔۔۔۔مائیکل کا سر پھٹ چکا تھا اس کے ہاتھ کا پتھر اس کے لڑھکنے سے پہلے اچھل کر بائیں جانب گر چکا تھا مائیکل کےسر پر لگنے والا پتھر کسی نامعلوم سمت سے آ یا تھا اور پوری قوت سے اس کے سر پر گر کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اکھڑتی سانسوں اور ڈوبتی بینائی میں مائیکل کو قرب میں ایک نازک اندام ہیولیٰ دکھائی دیا اسے یوں لگا جیسے موت کے گرداب میں الجھتی زندگی کی تمام ہوتی ساعتوں میں جو آ خری دید نصیب ہوئی ہے وہ ان کالی بھنورا سی آ نکھوں کی ہے جو اس کے گرد دھمال ڈالتی موت کو دیکھ رہی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...