آج دوسرا دن تھا جب ٹھنڈے پانی کے چھینٹے چہرے پر مار کر آنسہ نے چہرہ آئینے میں دیکھا تو اسے کچھ محسوس ہوا ۔ ہونٹوں کے دونوں کناروں پر سیاہ داغ کل کی بہ نسبت آج خاصے گہرے لگ رہے تھے .
ایسا کیسے ہوسکتا ہے , بھلا اگر ایسا ہوتا تو معیز مجھ سے ذکر نہ کرتے ۔
وہ اپنی سوچ پر ڈانواں ڈول سی تھی ۔ کسی عورت کا چہرہ داغ دار ہو اور اس کا شوہر ہی نہ جان پائے ۔ وہ معیز کی طرف سے انتظار میں تھی کہ وہ تشویش زدہ ہوں گے مگر دو دن بعد جب اس کے بڑے بیٹے وجیح نے کہا کہ
ماما آپ کے چہرے پر شاید توے کی کالک لگی ہے ۔
تب اس کا دل بیٹھ سا گیا تھا ۔ وہ جسے واہمہ سمجھ کر نظر انداز کر رہی تھی وہ حقیقت بن کر ابھر رہا تھا ۔ اس دن آنسہ نے اپنا چہرہ چھ بار رگڑ رگڑ کر دھویا صابن گالوں پر رکھ کر گھس ڈالا مگر وہ جتنا دھو رہی تھی داغ اتنی ہی بدصورتی کے ساتھ نمایاں ہورہےتھے ۔ وہ بہت زیادہ حسین نہیں تھی مگر قبول صورت سے زیادہ تھی اور داغ تو بدصورت عورت کو بھی چہرے پر گوارا نہیں ہوتا ۔ عورت کا چہرہ تو ایک روشن کتاب کی مانند ہوتا ہے جس پر اگر سیاہی کے داغ آجائیں تو کسی کے لیے وہ کتاب مطالعے لائق نہیں رہتی ۔
اسے بہت سے خیال پریشان کر رہے تھے ۔ زندگی میں وہ کبھی بہت زیادہ پراعتماد نہیں رہی تھی مگر اب اس کی خود اعتمادی کا آئینہ مزید دھندلانے لگا تھا ۔ اس نے معیز سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تب انھوں نے اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر غور سے دیکھا تھا ۔
خواہ مخواہ گھبرا رہی ہو اسکن ائنٹمنٹ لگاؤ دو چار دن میں ٹھیک ہو جائے گا ۔
دو چار دن تو کیا وہ مہینہ بھر نیلی دوائی لگاتی رہی جو معیز نے دی تھی مگر داغ اب کناروں سے نکل کر گالوں کے بیچ تک پھیلنے لگے تھے ۔ اس نے کئی بار معیز سے کہا
مجھے اسکن اسپیشلسٹ کو دکھانا ہے ۔
اور وہ ہر بار یہی کہتے رہے
ہاں ہاں ، دکھائیں گے بس کچھ مصروفیت کم ہو جائے پھر چلتے ہیں کسی اچھے جلد کے ڈاکٹر کے پاس ۔
وہ اتنے لاپرواہ نہیں تھے مگر مجبوری یہ تھی کہ وہ چھ دن دس گھنٹے کی ڈیوٹی دکان پر دیتے تھے جس کی تھکن انھیں کچھ اور نہیں کرنے دیتی تھی ۔ اتوار کو انھیں صرف آرام کرنا پسند تھا یا پھر کسی تقریب میں شرکت کرلیتے یا مارے باندھے کوئی رشتے داری نبھا لیتے ۔ اس لیے گھر سے باہر کے کتنے ہی کام آنسہ کو خود ہی کرنا پڑتے تھے لیکن اب اسے باہر نکلتے الجھن ہونے لگی تھی ۔ اپنی طرف اٹھنے والی ہر نگاہ اسے حیرت میں لپٹی محسوس ہونے لگی تھی ۔ آتے جاتے پڑوسنیں چہرے کے داغوں کے بارے میں استفسار کرنے لگی تھیں ۔
برابر والی خالہ سکینہ کہتیں
بٹیا ! جلد کوئی علاج کرو ۔ داغ پکے ہوجائیں تو آسانی سے جاتے نہیں ۔
انسہ کو لگتا تھا کہ جیسے ان کی بات میں ایک زمانے کا تجزیہ ہے
تنگ آکر ایک روز وہ خود ہی قریبی اسکن اسپیشلسٹ کے پاس چلی گئی مگر ڈاکٹر کی صرف فیس ہی ڈیڑھ ہزار تھی وہ بغیر دکھائے ہی واپس چلی آئی ۔ رات اس نے معیز کو بتایا تو کہنے لگے
اچھا کیا فیس اتنی تھی تو دوائیاں نجانے کتنی مہنگی دینی تھیں ۔ حالات آج کل اتنے مہنگے علاج کی اجازت نہیں دیتے اوپر سے مہنگائی نے وہ حال کردیا ہے کہ بس کماؤ اور کھاؤ ۔ میں تمھیں چمڑا ہاسپٹل لے جاؤں گا وہاں علاج فری ہوتا ہے اور ڈاکٹر انتہائی قابل ہوتے ہیں بس کچھ دن انتظار کرلو ۔
وہ کچھ دن انتظار کرتی رہی مگر معیز کو فراغت نہیں ملی ۔ انھیں دنوں پھوپی زاد بھائی کی شادی آگئی ۔ اس نے فاؤنڈیشن کی گہری تہہ میں داغوں کو چھپانے کی بھرپور کوشش کی پر گہرے داغ اتنی آسانی سے کب چھپتے ہیں ۔ ان داغوں کی سیاہی نے اس کے چہرے کی جوت بجھا دی تھی ۔ ساری شادی میں اس کا چہرہ ایک سوالیہ نشان بنا رہا اس نے لاکھ اپنا رخ ہال کی دیوار کی طرف کیے رکھا پر وہ اپنا چہرہ اور اس پر چھائی بےبسی نما شرمندگی چھپا نہیں پارہی تھی ۔ اس رات چھوٹی ہانیہ نے اس سے پوچھا
ماما ! کیا داغ ہمارے گناہ ہوتے ہیں ۔ تائی جان کہہ رہی تھیں کبھی کبھی گناہوں کی سیاہی ایسے بھی چہرے پر آجاتی ہے ۔
آنسہ کا دل کٹ کر رہ گیا وہ ہانیہ کو سمجھا نہیں پائی کہ ستمگر زمانہ کوئی وار خالی نہیں جانے دیتا ۔
چند دن بعد ہانیہ کے سکول میں رزلٹ والے دن پروگرام تھا وہ جانا نہیں چاہتی تھی پر ہانیہ کے بہت زیادہ رونے پر چلی گئی اس دن ہانیہ کو بھی احساس ہوگیا کہ ماں کو زبردستی بلا کر اس نے غلط کیا ہے حالانکہ آنسہ رزلٹ لے کر فوراً ہی چلی گئی تھی مگر تمام استانیاں اور کلاس کی لڑکیاں اسے پکڑ پکڑ کر پوچھتی رہیں
تمھاری ماما کے چہرے کو کیا ہوا ہے ۔
اب اسے معیز پر شدید غصہ آنے لگا تھا ہر دو دن بعد اس مسلئے پر ان کے درمیان تلخ کلامی ہونے لگی تھی معیز چاہتے تھے کہ وہ اسے چمڑا ہاسپٹل لے جائیں مگر پورے دن کی خواری تھی ہاسپٹل ان کے گھر سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا یہ بھی شاید اتنا بڑا مسلہ نہیں تھا مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ جب اسے لے جانے کی کوشش کرتے تبھی کوئی اور کام انھیں زیادہ ضروری محسوس ہونے لگتا اور وہ اگلے دن پر ٹال دیتے ۔
آج کل کرتے کرتے چھ مہینے گزر گئے تو ایک دن وہ خود ہی بس میں سوار ہوکر چمڑا ہاسپٹل چل دی بس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی تو مجبوراً اسے چھت سے لگا ڈنڈا پکڑ کر کھڑا ہونا پڑا اسے محسوس ہورہا تھا جیسے سیٹوں پر بیٹھی عورتوں اور جنگلے کے پار تمام مردوں کی نگاہیں اسی کے چہرے پر جم سی گئی ہیں موسم میں خنکی کے باوجود اس کے ماتھے پر ننھے ننھے قطرے ابھر آئے تھے دروازے کے پاس بیٹھی کچھی عورت دوپٹے کے کونے دانتوں میں دبائے بیٹھی تھی اسے دیکھ کر آنسہ نے بھی جلدی سے چہرے کے گرد لپٹی چادر کو دانتوں میں دبا لیا اسے اپنی حرکت عجیب لگی پر ایک طمانیت بھی محسوس ہوئی ۔
چمڑا ہاسپٹل شہر کے پررونق علاقے میں واقع تھا مگر جب وہ وہاں پہنچی تو پتہ چلا ایک ہفتے سے ہاسپٹل میں ڈاکٹروں کا احتجاج چل رہا ہے دوردراز سے آئے ہوئے لوگ خوار ہورہے تھے آنسہ بھی پریشان ہوئی لیکن ایک عجیب احساس بھی اس کے رگ و پے میں سرایت کر گیا اس کے چہرے پر داغ ضرور ابھرے تھے مگر جیسی جلدی بیماریوں میں مبتلا لوگ اس نے ہاسپٹل کے احاطے میں دیکھے تھے تو وہ فوراً شکر بجا لائی تھی ۔
ایک عورت کو چہرہ ماسک سے چھپائے دیکھا تو اس نے ایک دوائی کی دکان سے فوراً ماسک خرید کر چہرے پر چڑھا لیا اس عمل سے اسے یک گونہ سکون نصیب ہوا عارضی ہی سہی اسے اپنے مسئلے کا ایک حل مل گیا تھا ۔ کرونا کے دنوں میں اسے ماسک ایک عذاب سے کم نہ لگتا تھا مگر آج وہی ماسک اسے ایک نیا اعتماد بخش رہا تھا واپسی کا سفر خوشگوار کیفیت میں گزرا ۔
رات اس نے معیز کو بتایا تو وہ بھی مطمئن دکھائی دئیے جیسے کاندھوں سے ایک بوجھ سا سرک گیا ہو ۔
آنسہ نے سوچا تھا کہ چند روز بعد وہ پھر خود ہی چمڑا ہاسپٹل ہو آئے گی لیکن اس سے پہلے ہی ایک روز صبح صبح وجیح نے اپنے پاؤں دکھائے جن پر چند سفید سفید داغ ابھر رہے تھے ۔ داغ دیکھ کر معیز سخت پریشان ہوئے ۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں یہ برص کے نشان نہ ہوں ۔ ناشتے کے فوراً بعد انھوں نے اپنی بائیک نکالی اور وجیح کو ساتھ چلنے کے لیے کہا۔
چمڑا ہاسپٹل تو ڈاکٹروں کے احتجاج کی وجہ سے بند ہے ۔
آنسہ نے انھیں یاد دلایا تھا مگر وہ بولے
نہیں میں اسے کسی اچھے کلینک لے جاؤں گا ۔
وجیح نے کہا
بابا ماما کو بھی ساتھ لے چلیں انھیں بھی کافی عرصے سے پرابلم ہے ۔
پر وہ یہ کہتے بائیک نکال لے گئے ۔
بائیک پر ایک ہی بندہ بیٹھ سکتا ہے ابھی تم میرے ساتھ چلو تمھاری ماما چمڑا ہاسپٹل چلی جائیں گی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...