گاؤں میں دادی کا کچن قریب قریب چوبیس گھنٹے آباد رہتا تھا۔ سُکی بیر کے عقب میں تھوڑا بائیں طرف موجود یہ کچن کچی اینٹوں سے بنا ہوا تھا جس کے مغرب میں وہ بڑا کمرہ تھا جس میں دادی اور دوسرے لوگ سویا کرتے۔ ہم بھی جب گاؤں جاتے اسی کمرے میں رین بسیرا کرتے۔ کچن جس کو " بھا آلی کوٹھی" کے نام سے پکارا جاتا مٹی سے لیپے ہوئے فرش، کچی دیواروں اور ایک بڑے ٹک اور کئی پٹیروں پر مبنی کمرے پر مشتمل تھا۔ کچن اور سونے والے کمرے جس کو خوابگاہ یا بیڈروم کا نام دیتے میرا قلم رک رہا ہے کے درمیان دروازے کی بجائے ایک بڑی سی موری ہوتی تھی۔ جس کو پھلانگ کر گزرا جا سکتا تھا۔ بڑے بوڑھے باہر والے دروازے سے آتے جاتے۔
شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہو کہ موصوف خوابگاہ یا بیڈروم کا لفظ استعمال کرنے میں ہچکچا رہے ہیں اور کچن کا لفظ مزے سے استعمال کر رہے ہیں۔ واقعی میں شروع میں باورچی خانہ یا رسوئی لکھنا چاہ رہا تھا لیکن ان ناموں میں مجھے چارم محسوس نہ ہوا۔ اس لیے میں نے بھا آلی کوٹھی کو کچن کہنا ہی مناسب سمجھا۔ ویسے ماضی کی اس حسین یاد کا احاطہ کرنے کے لیے میرے پاس لفظوں کا ذخیرہ کم پڑ گیا ہے جو میرے لیے کافی خفت کا باعث بنا ہوا ہے۔ویسے جذبوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا بھی کب جا سکتا ہے۔ جس دور کا نوحہ میں بیان کر رہا ہوں وہ اب صرف سوچوں میں ہی دیکھا یا محسوس کیا جا سکتا ہے۔
تو میں بات کر رہا تھا دادی کے کچن کی۔ جی، اس کچن کے درمیان میں مٹی کے لیپے سے ہی ایک چولھا بنا ہوا تھا جس کے آگے دو یا تین مربع فٹ کا احاطہ موجودتھا جس میں موٹی موٹی لکڑیاں دُکھتی رہتیں۔ چولھے کی یہ DOMAIN فرش سے دو تین انچ بلند ہوتی۔ ان گیلی اور کڑوی کسیلی لکڑیوں سے کالے کالے دھویں جیسا غبار ہر وقت اُٹھتا رہتا۔ اس دھویں نے ساری کوٹھڑی کو اندر سے سیاہ نہیں تو سرمئی ضرور بنا دیا تھا۔ حالانکہ سننے میں آتا تھا کہ اس کمرہ نما کچن کا رنگ کبھی سفید ہوا کرتا تھا جو آہستہ آہستی بدرنگ ہوتا ہوا اس حالت میں پہنچ گیا۔
آگ جلانے کے لیے صرف لکڑیوں کا استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ بالن کا ایک اور بڑا، اہم اور فوری ذریعہ اُپلے بھی ہوتے۔ لکڑی کا برادہ جسے ہم بُورا کہتے اور مٹی کا تیل بھی ایمرجنسی میں چائے وغیرہ بنانے کے لیے یا آگ جلانے کے عمل کا آغاز کرنے کے لیے استعمال ہوتے۔ لیکن آگ کا مستقل اور دیرپا ذریعہ وہی لکڑی کے مُنڈھ ہی ہوا کرتے۔جن کی معاونت کے لیے چھودوں کا ایک گٹو نکر میں ہر وقت بھرا رہتا۔ پر چائے کی دیگچی چڑھی ہوتی جس میں پتی، چینی اور دودھ وغیرہ وہ نماز سے فارغ ہو کر ڈالا کرتیں۔ تب تک پانی اچھا خاصا کھولنے لگتا۔ نماز پڑھ کر تمام لوگ آہستہ آہستہ ادھر آنا شروع ہوتے اور چولھے کے ارد گرد پڑی پھُوڑیوں پر بیٹھتے جاتے۔ اسی دوران چائے تیار ہو چکی ہوتی۔ جو دادی اماں مٹی کے بٹھلوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیتیں۔ دم کی ہوئی خالص دودھ کی چائے کی خوشبو سے وہ بدرنگ کچن معطر ہو جاتا۔ چائے کی مخصوص خوشبو اور الائچی کی مہک ایک خوابیدہ ماحول پیدا کر دیتے۔ اس زمانے میں چائے کے ساتھ کوئی لوازمات وغیرہ استعمال نہ کیے جاتے۔ لیکن ہماری مہمان نوازی کی خاطر دادی اماں چاچا سینے کے دکان سے سوجی والے بسکٹ منگوا لیا کرتیں اور صبح اور سہ پہر کو چائے کے ساتھ پیش کیا کرتیں۔ ایک گھنٹے بعد اسی جگہ پر روٹی کا پہلا دور چلتا۔ گرما گرم روٹی مکھن یا رات والے سالن اور دہی کے ساتھ کھائی جاتی۔ چاچا علی گرم دودھ کا ایک بڑا سا پیالہ پکڑ کر روٹی کے ساتھ پیناشروع کر دیتا۔ مجھے دادی ایک چھوٹی مونگری یا جستی کرمچی میں دیسی گھی بھی گرم کر کے دیا کرتیں جو میں مرچیں نہ ہونے کی بنا پر بڑے شوق سے کھایا کرتا۔
دادی نے گھر میں دو بھینسیں پالی ہوئی تھیں جن کا گاڑھا دودھ گھر کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔ نو یا دس بجے بھینسوں کا دودھ مٹی کی مٹکی میں ڈال کر دھیمی دھیمی آنچ پر رکھ دیا جاتا جو گیارہ بجے تک کڑھتا رہتا۔ جب دادی اس گرم دودھ کو اتارا کرتیں تو بالائی کی ہلکی گرم تہ کے نیچے چٹا سفید دودھ ہلکی سرخ رنگت میں بدل چکا ہوتا۔ دن کو دوپہر کا کھانا پکایا جاتا لیکن سخت سردی کی بنا پر سارے لوگ باہر کے کھلے آنگن میں بکھرے گلابی جاڑے میں چارپائیوں پر بیٹھ کر لنچ کیا کرتے۔ گرمیوں کی طرح سردیوں میں بھی پتلی پتلی لسی دوپہر کے کھانے کا ایک لازمی جزو ہوا کرتی۔ سہ پہر کی چائے کے بعد دادی رات کے کھانے کے لیے مٹی کی کٹوی آگ پر رکھا دیا کرتیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان دنوں قریب قریب روز ہی چھوٹے گوشت کا پتلا پتلا شوربہ تیار ہوتا تھا۔ بہت کم دال یا چنے وغیرہ پکائے جاتے۔ پلاؤ اور زردہ وغیرہ کا رواج بالکل نہیں تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد دادی اماں ہر آدمی کو مٹی کی کٹوی سے لکڑی کی ڈوئی کے ساتھ سالن نکال کر دیتی جاتیں۔ جستی گدوی میں خالص دیسی گھی چولھے کے قریب رکھا ہوتا۔ جو بندہ بھی جب چاہے اور جتنا چاہے دیسی گھی استعمال کر سکتا تھا۔ لیکن اس گدوی کی طرف صرف میری ہی توجہ جایا کرتی۔ دادی کی توجہ ہر ایک کے پلیٹوں میں ہمہ وقت موجود رہا کرتی۔ جس کا سالن بھی کم ہوتا ڈوئی میں سالن ڈال کر اس کمی کو فوری طور پر پورا کر دیا کرتیں۔
جب برسات کے دن ہوتے تو رات کے کھانے کے بعد دادی سردیوں کی ایک مخصوص میٹھی ڈش بناتیں جس کو کرکڑاں کہا جاتا۔ گڑ کا شیرا بنا کر اس میں آٹا ڈال کر خوب مکس کیا جاتا۔ پھر تھوڑا گھی ڈال کر اتار لیا جاتا۔ کرکڑاں کھانے والے جانتے ہیں کہ اس کو پکنے کے فوری بعد گرم گرم ہی کھایا جاتا۔ اگر تھوڑی دیر ہو جاتی تو پتھر کی طرح سخت ہو جاتا اور اس کو کھانے کے لیے دوبارہ سینکنا پڑتا تھا۔
کچن میں ساٹھ واٹ کا بلب لگا ہوا تھا۔ دادی اماں نے بتایا کہ یہ بلب جب دو دہائیاں قبل پہلے پہل بجلی آئی تھی اس وقت لگایا گیا تھا۔ کیا زمانہ تھا جب وہ ساٹھ واٹ کے بلب بھی بیس بیس سال چلا کرتے۔ آج تو مہنگے مہنگے انرجی سیور بھی دو تین مہینوں کے بعد اندھے ہو جاتے ہیں۔ لکڑی اور اپلوں کے دھویں نے بلب کو بھی مٹیالا کر دیا تھا جس کی میلی میلی روشنی کچن کے ماحول کو روشن کرنے کی بجائے مزید اندھیارا بنا دیتی۔ دھویں کی شدت بعض دفع تو اتنی بڑھ جاتی کہ میرا سانس لینا بھی محال ہو جاتا۔ آنکھوں سے اکثر آنسو رواں رہتے۔
اس دھویں کی وجہ سے میں ہمیشہ دروازے کے قریب والی پھوڑی پر بیٹھا کرتا۔ جیسے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے میں بھاگ کر باہر نکل جاتا۔
پھر وقت کا پہیہ گھوما اور یوں گھوما کہ نہ دادی رہی، نہ وہ دادی کا کچن باقی بچا۔ نہ وہ دیسی گھی میں چُپڑی روٹیاں اور نہ دھویں میں چھپا وہ ملگجا کمرہ۔ دیسی گھی کا ذائقہ نوکِ زباں تک موجود ہے لیکن حقیقت میں وہ گھی اب ہم سے روٹھ گیا ہے۔ ساٹھ واٹ کا دھندلا بلب، جستی کرمچی، مونگری، اُپلے، گدوی اور جانے کیا کیا وقت نے ہم سے چھین لیا۔ گاؤں کے آنگن کے رونقیں قبرستانوں میں جا بسیں۔ آنگن اور ویہڑے مختصر اور شہرِ خموشاں وسیع ہوتا چلا گیا۔
آج بھی جب کبھی شہر کے کچن میں اپنی بیگم کے ساتھ کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو کر اپنے اوون، ککنگ رینج، رنگین پتھروں میں چھپے بیسن، قیمتی لکڑی سے بنی منقش الماریوں، فریج اور چھت سے لگے برقی دُود کش کو دیکھتا ہوں تو لمحہ بھر کے لیے وہ دادی کا کچن ضرور یاد آ جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...