(Last Updated On: )
انگریزوں کے قاعدے قانون آج بھی ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ دیوانی قانون۔۔ ۔ فوجداری قانون۔۔ ۔۔ تعزیراتِ ہند۔۔ ۔۔ ! ہندستان ہی کیا پورے برِصغیر کی یہی حالت ہے۔ انگریزوں نے ہمارے نظام کو اتنا مسخ کر دیا کہ اب یوں لگتا ہے کہ ان سے پہلے ہندستان میں حکومتوں کا وجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو سب کچھ من مرضی سے ہوتا رہا ہو گا کیونکہ قوانین تو بس انگریزوں نے ہی رقم کیے ہیں۔ اس پر سوچتا ہوں تو حیرت میں پڑ جاتا ہوں۔
خیر جو بھی ہو۔ ڈاک خانے کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ انگریزوں کی ہی ایجاد ہے۔ ڈاک خانے کے نظام کو چلانے کے لیے انگریزوں نے بیگ بند کرنے اور اس پر سُتلی باندھنے سے لے کر ڈاک خانے کی عمارتوں تک کے قواعد و ضوابط کتابوں میں قلم بند کیے ہیں۔ ایک درجن کے قریب دستور العمل ہیں جو کئی انگریزافسروں نے نہایت ہی فرصت سے لکھے ہیں اور اب تک جاری و ساری ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ آزادی کے بعد جب بھی ان قواعد و ضوابط کو تبدیل کرنے یا ان کی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی، نیا حکم پرانے حکم سے بدتر ثابت ہوا۔ حکم صادر ہونے سے پہلے اس کی درستگی کے لیے درجنوں ترمیمات ایشوع کی جاتی ہیں۔ مقامی اختراع پسندی اور زیرکی کی ایک مثال پیش کروں تو زیادہ موزوں رہے گا۔ بہت برسوں کی ما تھا پچی کے بعد یہ طے ہوا کہ معائنے کے سوالنامے کو، جو چار سو سوالات پر مشتمل تھا، کم کرنا چاہیے۔ غرض یہ تھی کہ یو پی ایس سی کے ذریعے پاس ہوئے اعلیٰ افسروں کو بہت دیر تک گندے اور حبس زدہ ڈاک خانوں میں بیٹھنا نہ پڑے حالانکہ سوالنامے کا بیشتر حصہ انسپکٹر کے حوالے کیا جاتا تھا۔ صدر ڈاک خانے میں بیٹھ کر چار سو سوالوں کا جواب لکھنا وہ اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے۔ انجام کار نیا سوالنامہ تیار کیا گیا جس میں صرف ایک سو سوالات تھے۔ آپ پوچھیں گے یہ کیسے ممکن ہو سکا؟ گھبرائیے نہیں۔ سمجھا رہا ہوں۔ مثلاً پہلے چار سوال لے لیجیے۔ ڈاک خانے کا کیش گن کر چیک کریں اور اسے اکاونٹ بک اور اپنے رَف نوٹس میں نوٹ کر لیں۔ ٹکٹوں کو گن کر دیکھ لیں، پھر گذشتہ دورانیے میں آئی ہوئی ٹکٹوں کا اندراج دیکھ لیں اور سٹاک بُک سے ملا کر نوٹ کر لیں۔ منی آرڈر کا سٹاک بُک چیک کر لیں اور ہیڈ آفس سے اس کی تصدیق کروا لیں۔ ڈاک خانے کی سیونگ سرٹیفکیٹس چیک کریں، پھر آمد اور روانگی کا حساب دیکھ لیں اور سٹاک رجسٹر سے ملا لیں۔ اس کے بعد پوری لسٹ ہیڈ آفس کو بھیج دیں۔ ان چار سوالوں کو ایک ہی دھاگے میں یوں پرویا گیا۔ آفس کا کیش، ٹکٹیں، منی آرڈر اور سیونگ سرٹیفکیٹ چیک کر لیں اور دیکھیں کہ ان کی تعداد صحیح ہے یا نہیں، پھر اپنے تاثرات درج کر کے لسٹ جانچ پڑتال کے لیے اکاونٹ آفس کو بھیج دیں۔ دیکھا آپ نے زیرک افسروں کا کمال۔ چار کا ایک کیسے کر دیا۔ اس طرح چار سو کا سوال نامہ ایک سو کے سوالنامے میں سمٹ کر رہ گیا۔ ماضی میں اگر کہیں معائنے کے بعد کسی فراڈ کا انکشاف ہوتا تھا تو معائنہ کرنے والے افسر پر بھی ذمے داری ڈال دی جاتی تھی مگر روز روز کی ان ترمیموں نے افسروں کو ایسی ذمے داری سے بری کر دیا اور ڈاک خانوں میں غبن اور خیانت کی وارداتیں بڑھتی چلی گئیں۔ یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ ایسے چمتکار تو ہمارے افسر ہی کر سکتے ہیں جو، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، خود کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔
میں بھی اسی گروہ کا رکن تھا۔ ان دنوں انسپکٹری کی تربیت پا رہا تھا۔ ایک روز مقامی انسپکٹرکے ہمراہ لکھنٔو شہر سے دس پندرہ کلو میٹر دور ایک گاؤں کے ڈاک خانے کا معائنہ کرنے چلا گیا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ٹرین میں بیٹھا تو گرم ہوا کے تھپیڑے بدن کو ٹکور نے لگے۔ دور دور تک کسی پرند و چرند کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جدھر آنکھ پڑتی تھی پیڑ پودے مرجھائے نظر آ رہے تھے۔ کہیں بھولا بھٹکا کوئی آدمی دکھائی بھی دیتا، بے چارا قسمت کو کوستا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کرتا بھی کیا؟ روزی روٹی جو کمانا تھی۔ ہم ٹرین سے اترے اورسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ سامنے ایک میل اوؤر سیر دو سائیکل لے کر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ وہ انسپکٹر سے مخاطب ہوا۔ ’’ سر، اس گرمی میں یہاں سے پیدل جانا تو ممکن نہیں ہے۔ دو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ میں برانچ پوسٹ ماسٹر (بی پی ایم) اور ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈیلوری ایجنٹ( ای ڈی ڈی اے ) کے دو سائیکل لے کر آیا ہوں، آپ ان پر گاؤں پہنچ جائیے، وہاں پوسٹ ماسٹر انتظار کر رہا ہے۔ میں بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤں گا۔ ‘‘
میں نے ایک نظر انسپکٹر کے چہرے پر ڈال دی جو مجھے راستے میں اخلاق اور دیانت داری کے اصول سمجھا رہا تھا۔ وہ میرا ردِ ّ عمل سمجھ کر فوراً گویا ہوا۔ ’’ سر لے لیجیے ایک سائیکل، یہاں تو اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ یہاں آپ کو کوئی سواری نہیں ملے گی۔ ‘‘
میں ایک سائیکل لے کر اس پر سوار ہو گیا۔ طالب علمی کے دن یاد آ گئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پھر سے میں آزاد ہواؤں میں اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہوں۔ ان دنوں نہ تو اخلاق کی فکر ہوتی تھی اور نہ ہی ضابطوں کی۔ نہ کمانے کی چنتا ہوتی تھی اور نہ ہی پس انداز رکھنے کی۔ بس لمحے بھر کے لیے جینے کی آرزو ہوتی تھی۔ جیسے تیسے دو کلو میٹر کا فاصلہ طے ہوا۔ راستے میں انسپکٹر سے کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ میں دوبارہ پائی ہوئی وہ کھلنڈری کھونا نہیں چاہتا تھا۔
جونہی ہم گاؤں کے اندر داخل ہوئے، برانچ پوسٹ ماسٹر، سر پر ڈھاٹا باندھے ہوئے، ایک بڑے سے نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ کافی عمر تھی اس کی۔ مجھے تو وہ ستر پچھتر سال کا لگ رہا تھا۔ ان دنوں ڈاک خانے میں عمر کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی تھی۔ کہیں پر ان کے کوائف درج کر کے انھیں سنبھال کر رکھنے کا رواج نہ تھا۔ برانچ پوسٹ ماسٹری کا دھندہ در اصل ضمنی کمائی کا ذریعہ ہوتا تھا، اصل پیشہ تجارت، کھیتی باڑی یا ٹیلرنگ وغیرہ ہوتا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں استادوں کو یہ کام سونپا جاتا تھا کیونکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے تھے مگر آزادی کے بعد گورنمنٹ نے استادوں کو زائد ذریعۂ آمدنی اختیار کرنے پر پابندی لگائی۔ بہت ہی قلیل مشاہرہ دیا جاتا تھا۔ البتہ بچت کھاتوں پر کچھ رقم بطور کمیشن مل جاتی تھی اور یہ بی پی ایم پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کتنی رقم اپنے ڈاک خانے میں جمع کروا سکتا تھا۔
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بی پی ایم میں پھرتی اور ذہنی چوکنّا پن نظر آتا تھا۔ ہم تینوں اس کے گھر کی طرف پیدل ہی چلنے لگے۔ ڈاک خانے میں کام کر رہے ڈیلوری ایجنٹوں نے سائیکل اور بیگ لے کر ہمارا بوجھ ہلکا کر دیا۔
راہ میں چلتے چلتے ایک آدمی ملا جو برانچ پوسٹ ماسٹر سے مخاطب ہوا۔ ’’ بابو جی، ڈاک خانے جا رہے ہو کیا؟‘‘
بابو جی نے اسے پہلو تہی کرنے کی بہت کوشش کی مگر ان پڑھ دہقان کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس لیے پوسٹ ماسٹر جواب دینے پر مجبور ہو گیا۔ ’’ ہاں بہاری وہیں جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’ تو میرا کام کر لو بابو جی۔ ‘‘ اس نے اپنی صدری میں سے ایک پاس بُک نکالا اور پھر دوسری جیب سے سو سو کے دس نوٹ نکال کر پوسٹ ماسٹر کو یہ کہتے ہوئے تھما دیے۔ ’’ بابو جی میرے کھاتے میں یہ روپیہ ڈال دینا۔ اب کا ہے کو میں اس گرمی میں تمھارے ساتھ اتنی دور چلا جاؤں۔ بعد میں چوپڑی لے لوں گا۔ ‘‘
انسپکٹر میری توجہ بٹانے کے لیے گاؤں کی تاریخ کے بارے میں اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں ان کے درمیان ہو رہی باتوں پر کوئی دھیان نہ دوں۔ مگر میں نے جو نوٹ کرنا تھا وہ کر لیا البتہ اس کو الجھن سے بچانے کے لیے اس وقت کوئی سوال نہیں پوچھا۔
گاؤں میں ڈاک خانے عموماً بی پی ایم کے گھر ہی میں ہوتے ہیں۔ بالکل گھر جیسا ماحول تھا۔ پوسٹ ماسٹر کی بیوی نہیں تھی مگر تین شادی شدہ لڑکے اور دو بیٹیاں تھیں جو بیاہی جا چکی تھیں۔ گھر میں ننھے بچے ہلڑ مچا رہے تھے اور مائیں ان کو مختلف طریقوں سے چپ کرانے میں منہمک تھیں۔ جس کمرے میں ڈاک خانے کا کام ہوتا تھا وہاں ایک کھاٹ بچھی ہوئی تھی جس پر ایک گدا بچھا یا گیا تھا۔ او پر ہاتھ سے کڑھائی کی ہوئی چادر بچھی ہوئی تھی اور اسی ڈائزئین کے تکیے بھی رکھے ہوئے تھے۔ کمرے میں کھڑکی کے ساتھ ایک لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی کرسی اور میز تھی جس پر بیٹھ کر پوسٹ ماسٹر ڈاک خانے کا کام انجام دیتا تھا۔ بغل میں لکڑی کا ایک بکس تھاجس میں ڈاک خانے کی سٹیشنری جیسے پوسٹ کارڈ، اَنتر دیشی، لفافے، رجسٹرڈ لفافے، منی آرڈر، مہریں، کالا اِنک پیڈ، اکاونٹ کی کتابیں، رسیدیں اور دیگر سامان رکھا ہوا تھا۔ کمرے کے دروازے کے اندر ایک پرانا ڈاک کا تھیلا بطور ڈور میٹ بچھا ہوا تھا جو بعد میں چپکے سے انسپکٹر نے ای ڈی ڈی اے سے اٹھوا کر غائب کر دیا تاکہ میری نظر اس پر نہ پڑے۔
پوسٹ ماسٹر کی چھوٹی بہو جلدی سے ٹرے میں مٹکے کا ٹھنڈا پانی اور مٹھائی لے کر آئی اور سب کو پیش کرنے لگی۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ معلوم ہوا دو سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور ابھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ سسر سامنے ہونے کے سبب گھونگھٹ کچھ زیادہ ہی نیچے کر کے چل رہی تھی۔ اس کے لمبے کالے بال نیم شفاف ساڑی کے اندر چندن کے پیڑ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند لگ رہے تھے۔ ایڑیوں میں پائل لگی ہوئی تھی جس کی جھنکار نے فضا میں صوتی آہنگ پیدا کر دیا۔ وہ شرماتی لجاتی آئی اور مجھے پانی اور مٹھائی پیش کی۔ میں اس کی چوڑیوں سے بھری ہوئی گوری کلائی کو دیکھتا رہ گیا۔ شاید اس کو بھی میرے اس رد عمل کا احساس ہو گیا۔ اس لیے مجھے پانی اور مٹھائی تھما دی اور آنچل کے نیچے سے مسکرا نے لگی۔ پھر جلدی سے گھوم کر واپس اندر چلی گئی۔ واپسی میں اس کی چال میں غزالوں کی سی پھرتی آ گئی۔
برانچ آفس کا انسپکشن کرنے میں ایک دو گھنٹے لگ گئے۔ انسپکٹر نے مجھے اس کی باریکیاں سمجھائیں۔ اس درمیان چائے وغیرہ بھی پی لی۔ چائے پیتے وقت بی پی ایم اندر چلے گئے اور میں نے موقع غنیمت سمجھ کر انسپکٹر سے پوچھا: ’’ جب ہم تھوڑی دیر پہلے یہاں آ رہے تھے تو ایک گاؤں والے نے پوسٹ ماسٹر کو ایک ہزار روپے تھما دیے۔ نہ کو ئی رسید اور نہ کوئی ٹھپّا۔ یہ تو قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ ‘‘
’’ ارے سر، کتابوں میں لکھے پر یہ دنیا تھوڑی ہی چلتی ہے۔ گاؤں میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے۔ اس پر ہر کوئی اعتبار کرتا ہے۔ وہ تو کسی کی امانت کو خرد برد کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ‘‘
’’مگر قواعد و ضوابط کا کچھ تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘
’’ سر گاؤں کی پرمپرا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لوگ قواعد و ضوابط کی بہ نسبت اپنی روایتوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان کے لیے تو پوسٹ ماسٹرامانت داری کا علامیہ ہوتا ہے۔ ہم کتنی بھی کوشش کریں کہ لوگ باضابطہ طور پر روپیوں کا لین دین کریں اور رسید لینے پر اصرار کریں مگر کوئی نہیں مانے گا۔ ابھی ہمارے گاؤں شہری بدعتوں سے بچے ہوئے ہیں البتہ جہاں پر بھی شہری زندگی کا اثر پڑ تا ہے وہ گاؤں گاؤں نہیں رہتا۔
اس کے بعد ہم دونوں وہاں سے چل دیے۔ پوسٹ آفس کا ڈیلوری سٹاف ہمارے لیے سائیکل لے کر ڈاک خانے کے باہر کھڑا تھا۔ تب تک گاؤں والوں کو پتا لگ چکا تھا کہ ڈاک خانے کے بڑے افسر ڈاک بابو کے گھر آ چکے ہیں۔ جس وقت ہم کوچ کرنے کے لیے باہر نکلے، وہاں گاؤں کے بیشتر لوگ -بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں – ہمیں دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ ویسے ہی جیسے کسی نئی بیاہی چھوری کی رخصتی کے سمئے سارا گاؤں امڈ پڑتا ہے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر سب کو الوداع کہہ دیا۔ پھر ہم دونوں سائیکل پر سوار ہو گئے اور پیڈل مارتے ہوئے کچی سڑک پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور وہ گاؤں جس نے ایک ہی دن میں میرا من موہ لیا تھا پیچھے چھوٹ گیا۔
https://www.rekhta.org/stories/daak-babu-deepak-budki-manto?sort=popularity-desc&lang=ur&fbclid=IwAR3hHk7w4IW2O84ZM0ymtIf1vFjvN0UCHMu281k6OOcggNSUGENVBDmyvAU