ءExcerpt Ref: End of Textء
کچھ دیر قبل صحرا میں شام ہو چکی تھی۔ سورج ابھی ابھی غروب ہوا تھا۔ زرد ریت کا سمندر سرمئی ہو رہا تھا۔ مغربی آسمان جامنی ہو چکا تھا۔ درجہء حرارت ایک برزخ میں تھا.. یعنی دن بھر کی شدید گرمی ختم ہو چکی تھی مگر ابھی شَب کی سردی کا آغاز نہ ہوا تھا۔
تمہیں خبر ہو گی کہ صحرا میں دن کے وقت موسمِ گرما ہوتا ہے، بادِ صموم چلتی ہے، مگر اُسی شب موسمِ سرما شروع ہو جاتا ہے۔ دِن کے وقت افلاک سے آگ برستی ہے مگر شب کے وقت خود آگ جلا کر اُس کے گرد بیٹھنا ہوتا ہے۔ یوں صحرا میں روز و شب آگ زندہ رہتی ہے۔ دو انتہاؤں کو صحراؤں میں دیکھ لو۔
صحرا میں سرِ شام اہلِ قصبہ اپنے اپنے قصبوں میں دبک جاتے ہیں۔ بغیر قافلہ تُم کسی کو کُھلے صحرا میں نہ دیکھو گے۔ صحرا میں خصوصاً تنہا ہو جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ اگر تمہاری ہر جانب صحرا ہی صحرا ہو تو سمت گُم ہو جاتی ہے۔ ہر سمت مطلوبہ سمت لگتی ہے۔ جب ہر شے تمہاری لگنے لگے تو سمجھ لو کہ تُم پھنس چکے ہو، اصل میں تمہاری شے گُم ہو چکی ہے۔
مگر اُس خاص شام نصر صحرا میں اپنے قصبے سے دور ایک ریتلے ٹیلے کی بلندی پر کھڑا مغربی جانب جامنی ہو چکے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ ٹیلے کے کناروں سے ریت اُڑ اُڑ کر نشیب میں یوں گر رہی تھی جیسے دھواں نکل رہا ہو۔ وہ شام لیلۃ الرویا تھی۔ مسلم دنیا میں ماہِ رمضان لیلۃ الرویا سے اُس وقت شروع ہوتا ہے جب قمری چاند نظر آ جائے۔ تب اگلا پورا ماہ بعض حلال اعمال حرام ہو جاتے ہیں۔ یہ تو مالک کی مرضی ہے کہ کن اعمال یا اشیاء کو حرام قرار دے دے.. یا اِن کے اوقات مقرر کر دے۔ اہم بات یہ ہے کہ بعض حلال کا ممنوع ہو جانا غیرفطرتی نہیں۔
اچانک نصر نے جامنی روشنیوں میں نہاتا ہوا قمری چاند دیکھ لیا۔ اُس کی خوشی دیدنی تھی۔ اُس نے اپنی بائیں جانب ایک اور ٹیلے کو دیکھا۔ اُسے دبلے پتلے کچھ ہیولے نظر آئے۔ وہ فوراً اپنا ثوب اُٹھا کر ریتلے ٹیلے سے اترنا شروع ہوا۔ بھاگا بھاگا قریبی ٹیلے پر پہنچا جہاں پہلے سے دو تین اصحاب کھڑے تھے۔ نصر نے اُن میں سے ایک صاحب کو مخاطب کیا ”اے امیر المومنین، مَیں نے قمری چاند دیکھ لیا ہے.. ماہِ رمضان مبارک ہو۔“
امیر المومنین عمر بن خطاب نے اپنی سحرانگیز تربیت یافتہ آنکھوں سے نصر کا چہرا دیکھا اور تادیر دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا ”نہیں، رمضان شروع نہیں ہوا۔“
نصر حیران رہ گیا۔ اُس نے ایک بار پھر مغربی جانب دیکھا۔ قمری چاند صاف نظر آ رہا تھا۔ وہ ادب کے باعث خاموش رہا مگر اُس کا چہرا تفصیل کا متقاضی تھا۔
عمر بن خطاب نے کہا ”جاؤ.. پہلے ہاتھ گیلے کرو.. چہرے کو تروتازہ کرو.. تب دوبارہ دیکھو۔“
ایک صاحب نے اپنے جبہ میں سے چھوٹی سی چھاگل نکالی اور نصر کے آگے کر دی۔ نصر نے تھوڑا سا پانی ہاتھوں میں لیا۔ چہرے پر مسح کیا اور دوبارہ مغربی سمت دیکھا۔ اب قمری چاند غائب ہو چکا تھا۔ وہ بہت حیران ہوا اور خاموشی سے امیر المومنین کی جانب دیکھنے لگا۔ اہلِ علم کے سامنے پورا مدعا بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ پہلے سے جانتے ہیں۔
عمر بن خطاب نے کہا ”تُم خود فاصلہ سے اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتے اِس لیے تمہیں معلوم نہ تھا کہ تمہاری بھنووں کا ایک بال تمہاری آنکھوں کے آگے آ چکا تھا، وہی تمہیں قمری چاند لگا۔ اِس لیے بعض اعمال ایسے ہیں کہ اُنہیں علم و تربیت کے بغیر کرنا بے فائدہ ہوتا ہے اور وہ علم کوئی تربیت یافتہ آئنہ شخص ہی تمہیں دیتا ہے، تُم خود اس قابل نہیں ہوتے کیونکہ تمہیں اپنا آپ صرف درست آئنہ میں ہی نظر آ سکتا ہے۔
”سب سے پہلا علم یہ ہے کہ جو تُم نے دیکھا، کیا کسی اور نے بھی دیکھا؟.. دیکھا ہو یا نہ ہو، پہلے باہمی مشاورت کر لو تب کسی نتیجا پر پہنچو۔
”دوسرا علم اِس سے بھی اہم ہے، جو تُم نے دیکھا اور کچھ سمجھ لیا، کیا اُس شے کو دیکھا جا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ اُسے دیکھنے کے اوقات کار درست ہیں یا نہیں؟ اِس کے لیے بھی علم، تربیت اور باہمی مشاورت درکار ہے۔ ممکن ہے تُم بھٹک چکے تھے مگر مشاورت کے ذریعے درست راستے پر آ گئے۔
”تیسرا علم یہ ہے کہ ممکن ہے مشاہدہ میں تُم پہلے شخص ہو۔ مگر اِسے بھی علم، تربیت اور مشاورت کے ذریعے ثابت کرنا ہو گا۔ اور اگر کسی کو بھی علم نہیں تو پھر تُم مشاہدہ کا انتظار کرو.. وہ مشاہدہ تمہیں خود مزید مشاہدات کروائے گا اور تمہیں کامل یقین ہو جائے گا۔ اِس دوران مشاہدہ کی بے عزتی مت کرنا۔“
آخرکار مغربی سمت کی جامنی روشنی ہمت ہارنے لگی۔ اگر جامنی کے بعد کوئی اور رنگ ہوتا تو آسمان اُس رنگ میں ڈھل جاتا، مگر اُس کے بعد صرف اور صرف سیاہی ہوتی ہے۔ لہذا افلاک سے سیاہی اترنے لگی اور سردی میں اضافہ ہونے لگا۔ تب تمام اصحاب قریب نشیب میں نظر آتے قصبے کی جانب بڑھنے لگے۔
اے دوست یہ قصبہ جہاں ملگجے اندھیرے میں کچھ دیے ٹمٹماتے نظر آ رہے ہیں اور سیاہی گھلتی چلی جا رہی ہے، اگر تمہاری آنکھ تربیت یافتہ ہو جائے تو تُم دیکھو گے کہ یہ قصبہ پوری کائنات کی روشنی کا منبع ہے اور کائنات بھر کو روشنی اِسی قصبہ سے مل رہی ہے۔
•••
From English book "Tales of Mystic Meaning"
Excerpts of Masnavi Rum | Pages 27-28
by R.A.Nicholson
Translation from Eng to Urdu by مُسافرِشَب