(Last Updated On: )
آج پھر اس نے غیر معمولی جسامت کے ایک چیونٹے کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو تھوڑا سا خائف ہو کر پیر کو پیچھے کھینچ لیا۔ اسے تب مزید حیرت ہوئی جب پیر کھینچتے ہی چیونٹا سرعت کے ساتھ اسی کی جانب بڑھنے لگا۔ اس کی رفتار پر وہ دنگ رہ گیا۔ جیسے چیونٹا نہ تھا , کوئی تیر تھا جو تیزی سے اس کے ہوش و حواس میں پیوست ہو جانا چاہتا تھا۔ وہ مزید پیچھے ہٹ گیا۔ چیونٹا مزید رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے بلکہ اڑنے لگا جیسے یکایک اس کے پر نکل آئے ہوں۔ پیرو کی حیرت اب ہلکے ہلکے خوف میں بدلنے لگی۔ اسے بچپن کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب چیونٹوں نے اس کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اس بڑے سے چیونٹے کو اس نے تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ اچھل کر اس طرح بالکونی کی طرف بھاگا جیسے کوئی خطرناک زہریلا سانپ اس کا پیچھا کر رہا ہو اور بالکونی سے گلی میں کود جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو۔ وہ بالکونی میں آیا تو اسے پڑوس میں پھر وہی لڑکی نظر آ گئی۔ لڑکی کو دیکھ کر چیونٹے کا خوف اس کے اعصاب سے اس طرح محو ہو گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس بار لڑکی بالکونی میں سکھائے ہوئے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔ غروب ہوتے سورج کی کرنوں نے اس کے چہرے کو تمتما دیا تھا یا شاید ایک غیر مرد کو اپنی جانب گھورتا دیکھ کر فطری شرم نے اس کے چہرے کو گلنار کر دیا تھا۔ جیسے ہی ان کی نگاہیں ملیں وہ تیزی سے مڑی اور اندر چلی گئی لیکن اس بار وہ حواس باختہ نہیں ہوا بلکہ لڑکی کے جانے کے بعد بھی اسی طرف دیکھتا رہا۔ وہ اس انجان لڑکی کے چہرے مہرے اور حلیے سے اپنی بیوی جمیلہ کی شباہت کا مسئلہ حل کرنا چاہتا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ آخر ایک ہی شبیہ کی دو لڑکیاں جن کا آپس میں کوئی رشتہ ہونا تو دور , وطن اور مذہب تک ایک نہ تھا , وہ اس قدر ملتے جلتے جثے کی کس طرح ہو سکتی ہیں۔
خیالات کی رو میں وہ واپس کمرے کی طرف پلٹا اور دھیمے دھیمے چلتا ہوا فرش پر بچھی چادر پر آ کر بیٹھ گیا۔ ابھی وہ پوری طرح بیٹھا بھی نہ تھا کہ وہی سانپ کے خوف جیسا چیونٹا اسے پھر نظر آ گیا۔ وہ بیٹھتے بیٹھتے ہی چادر پر پیچھے ہٹ گیا اور چیونٹے کو گھورنے لگا۔ چیونٹا اسے پہلے سے بھی زیادہ بڑا , پہلے سے بھی زیادہ خوفناک نظر آیا۔ اس بار اس نے تھوڑی ہمت جٹائی اور ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ کو چیونٹے کے قریب کیا۔ اس نے انگوٹھے پر انگلی رکھ کر چیونٹے کو اس طرح دور اچھال دیا جیسے بچے کیرم بورڈ پر اسٹرائکر سے گوٹیاں مارتے ہیں۔ چیونٹا اچھل کر ذرا دور جا گرا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے دیکھا کہ جس رفتار سے چیونٹا اچھلا تھا , اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ واپس اس کی طرف لوٹ آیا۔ اب اس کے حواس پر چیونٹا بری طرح چھا گیا تھا۔ وہ چیونٹے کو واپس آتا دیکھ کر تیزی سے اٹھا اور کمرے کے اس کونے کی طرف بڑھ گیا جہاں کھانا پکانے کا سامان رکھا تھا۔ اس نے طیش میں چمٹا اٹھایا اور چاہتا تھا کہ چیونٹے کا پورا وجود ہی رگڑ دے لیکن اس طرف بڑھتے بڑھتے اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ۔ ۔ اس نے آج تک کسی کو مارا نہیں تھا ۔ ذرا توقف کے بعد اس نے چمٹا واپس رکھا اور بالٹی میں پڑے مگ سے تھوڑا سا پانی چیونٹے پر ڈال دیا۔ پانی کا پڑنا تھا کہ چیونٹا بھیگی بلی کی طرح ایک طرف دبک گیا اور لنگڑانے لگا۔ اس کے لنگڑانے سے پیرو کا خوف کچھ کم ہوا۔ اس نے بالٹی اٹھائی اور نہانے چلا گیا۔ سر پر پانی ڈالتے ہی جیسے پیرو کا خوف اور غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا تھا۔
نہا نے کے بعد پیرو نے کھانا بنایا اور اطمینان سے بیٹھ کر کھانے لگا۔ اس تمام عرصے میں اس کی نظر بار بار چیونٹے کی طرف اٹھ رہی تھی جو لنگڑاتا لنگڑاتا کمرے سے باہر کی طرف جا رہا تھا۔
0000
وہ کچھ دن سے بہت پریشان تھا۔ ابھی اسے گھر چھوڑے ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ شدت سے گھر کی یاد ستانے لگی ۔ پہلے دو چار دن تو نئی جگہ کی تازگی اور رہنے کھانے کے انتظامات میں گزر گئے۔ جب سب کچھ معمول پر آ گیا تو اس کا بھی معمول ہو گیا تھا کہ وہ شام چھہ بجے کمرے پر لوٹ آتا۔ اس شہر میں ابھی نہ کوئی اس کا دوست تھا نہ عزیز۔ وہ آرام کرتا , کھانا بناتا اور تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد بھی وقت گزارے سے نہیں گزرتا تھا۔ ایسے میں وہ کمرے کی بالکنی میں آ کر بیٹھ جاتا ۔ یہاں سے وہ کبھی گلی کی گہما گہمی کو دیکھتا اور کبھی پڑوس کی بالکنی میں کھیلتے بچوں کا شور اس کی توجہ کا مرکز بن جاتا۔ بچوں کی معصوم شرارتیں گھر کی یاد کو مزید بڑھا دیتیں۔ اگر گاؤں میں روز گار کا شدید مسئلہ نہ ہوتا تو وہ اپنا گھر کبھی نہ چھوڑتا۔ اسے خود کی بے آرامی سے زیادہ اپنی نو بیاہتا کا خیال تھا۔ اس کی شادی کو ابھی تین ماہ ہی تو گزرے تھے۔ اس کی بیوی جمیلہ نے آتے ہی اسے اپنا فریفتہ کر لیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی دو جھونپڑیوں میں بیوی اور ماں کے ساتھ رہتے ہوئے اسے کوئی غم نہ تھا لیکن گاؤں میں مزدوری کا کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا۔ فصل کی بوائی کٹائی کے موسم میں اسے کچھ دن مزدوری ضرور مل جاتی لیکن زیادہ تر خالی ہی بیٹھنا پڑتا۔ بوڑھی ماں کو رات دن چرخا کاتتے دیکھ کر اس کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا تھا۔ پڑوسیوں اور دوستوں نے بھی طعنے دینے شروع کر دیے تھے کہ نہ ماں کی فکر ہے , نہ بیوی کا خیال ۔ حالات کو سمجھتے ہوئے اس نے دل پر پتھر رکھا اور کسی طرح ماں اور بیوی کو دلاسہ دیا کہ بس شہر میں پاؤں جمتے ہی وہ انھیں بھی اپنے پاس بلا لے گا۔
آنے کو وہ شہر آ تو گیا تھا لیکن آتے ہی روزگار کا جم جانا خاصہ مشکل تھا۔ اسے معمولی پیسوں کی جو بھی مزدوری ملی , اس نے فوراََ منظور کر لی اور کسی اچھی آمدنی والے کام کی تلاش جاری رکھی۔یہ پیرو کی قسمت ہی تھی کہ اسے اوقاف کے ایک بہت پرانے سے مکان میں اوپری منزل پر ایک چھوٹا سا شکستہ بالکونی والا کمرہ معمولی کرائے پر مل گیا تھا۔ فارغ وقت میں وہ بالکونی میں بیٹھا بیٹھا ماں اور بیوی کو یاد کرتا رہتا۔جب زیادہ اداس ہو جاتا تو فرش پراور اپنی نئی نویلی دلھن کی یادوں میں کھویا کھویا نیند کی آغوش میں جا پہنچتا۔
0000
آج اس کی آنکھ معمول سے پہلے ہی کھل گئی تھی۔ شہر آئے ہوئے یہ اس کا دوسرا ہی دن تھا۔ سورج نے بھی جیسے ابھی ابھی آنکھ کھولی تھی۔ ہلکے ہلکے اجالے نے اسے مسحور کر دیا۔ وہ انگڑائی لیتا ہوا بالکونی میں آ کھڑا ہوا۔ گلی میں اکا دکا بزرگ مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ ایک دو دودھ والے بھی گزر رہے تھے۔ اس نے دوسری طرف دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ پڑوس کی بالکونی میں جیسے آگ لگ گئی تھی۔ ایک بیس بائیس برس کی خوب رو لڑکی دنیا و ما فیہا سے بے خبر بالکونی میں کھڑی اپنے گیلے بالوں کو جھٹک جھٹک کر خشک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ لڑکی کی سیاہ زلفوں سے اچھلتے پانی کے چھینٹے اس کے حواس پر پڑ رہے ہیں۔ وہ اس منظر سے حواس باختہ اس لیے بھی ہوا کہ لڑکی ہو بہو جمیلہ سے مل رہی تھی۔ بالوں کے پانی سے لڑکی کے لباس کا اوپری حصہ تقریباً بھیگ چکا تھا۔ بالوں کو جھٹکتے جھٹکتے وہ اچانک مڑی تو اسے ایک ٹک گھورنے کی اپنی بے وقوفی پرشرم آئی اور وہ فوراََ پیچھے ہٹ گیا لیکن وہ منظر تو جیسے اس کی آنکھوں پر ثبت ہو گیا تھا۔ چادر پر لیٹتے ہوئے بھی وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ جس زاویے سے اس نے لڑکی کو دیکھا , وہ جمیلہ ہی لگ رہی تھی۔ اس کی بے چینی بڑھ گئی۔ سانس تھوڑی تیز چلنے لگی۔ تصورات اسے گاؤں لے گئے اور پچھلے تین ماہ کی راتیں جیسے ایک نکتے پر مرکوز ہو گئیں۔ وہ پسینہ پسینہ ہو گیا ۔ گھبراہٹ دور کرنے کے لیے وہ پھر بالکنی کی طرف بڑھا اور وہاں آتے ہی اس کی نگاہ اپنے آپ پڑوس کی بالکونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اب بھی وہیں تھی لیکن اب اس کی پشت ہی نظر آ رہی تھی۔ اس بار بھی اسے ایسا ہی لگا جیسے جمیلہ نہا کر آئی ہے اور بال سکھا رہی ہے۔ اگر گلی کی گہما گہمی نہ بڑھ گئی ہوتی تو شاید وہ اسے گھورتا ہی رہتا لیکن اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا اور چڑھتے سورج کو دیکھ کر خیال آیا کہ نہ صرف ناشتہ اور کھانا بنانا ہے بلکہ وقت پر مزدوری کے لیے بھی جانا ہے۔ اس نے ایک حسرت آمیز نگاہ لڑکی پر ڈالی اور کمرے میں لوٹ آیا۔ شام کو جب وہ کام سے لوٹا تو کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے بالکونی کی طرف گیا۔ پڑوس کی بالکونی پر نظر ڈالی تو اسے بہت مایوسی ہوئی۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ گلی کی گہما گہمی میں بھی اسے کوئی دل چسپی محسوس نہیں ہوئی لہٰذا کمرے میں لوٹ کر وہ چادر پر دراز ہو گیا۔ پڑوس کی بھیگتی بالکونی اور گاؤں کی جمیلہ جیسے اس کے تناظر میں گڈمڈ ہو گئی تھیں۔ ہلکے ہلکے پسینے آنے لگے تھے۔ گھبراہٹ دھیمے دھیمے بڑھ رہی تھی۔ خیالات جب زیادہ ستانے لگے تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اسی لمحہ اس نے دیکھا کہ ایک معمول سے زیادہ بڑا چیونٹا اس کے بائیں پیر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسے چیونٹے کی جسامت پر بہت حیرانی ہوئی۔کیا کوئی چیونٹا اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے ؟ اصل میں اسے چیونٹوں سے بچپن ہی سے نفرت تھی۔ جھونپڑی کی کچی نم زمین میں بہت سے چیونٹے اس کے جسم پر چڑھ جاتے اور اتنی زور سے کاٹتے کہ نیند میں ہی اس کی چیخ نکل جاتی۔ عرصے تک راتوں کی نیند حرام کرنے کے بعد جب اس کے باپ نے کسی طرح ایک چھوٹے سے کھٹولے کا انتظام کیا تو اسے چیونٹوں کے ظلم سے نجات ملی۔
0000
کھانے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے گلی میں نکل آیا۔ پچھلے ایک ہفتے میں اس کی شناسائی برابر کے مکان والے بڑے میاں سے ہو گئی تھی۔ وہ مسجد میں موءذن تھے اور عموماً اپنے دروازے کے باہر ایک پلنگ پر بیٹھے رہتے تھے۔ اذان کا وقت ہوتا تو وہ مسجد چلے جاتے اور نماز کے بعد اسی پلنگ پر آ کر بیٹھ جاتے۔ گلی کے سب چھوٹے بڑے , آتے جاتے ان سے دعا سلام ضرور کرتے تھے۔ پیرو نیچے اترا تو وہ عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹے تھے۔ وہ انھی کے پاس بیٹھ گیا اور باتیں کرتا رہا۔ ابھی کچھ دیر ہی باتیں کی ہوں گی کہ وہی بھیگے بالوں کی بالکونی والی لڑکی بڑے میاں کے دروازے سے باہر نکلی اور بڑے میاں کے پاس آ کر ان کے پیر چھونے لگی۔ ” جیتی رہو مالتی بٹیا- ٹھیک تو ہو ؟ ” ” جی ابا جی۔ ٹھیک ہوں۔ ” کہہ کر پیرو پر ایک اتفاقی نظر ڈالتے ہوئے وہ پڑوس کے مکان میں چلی گئی۔ بڑے میاں نے اس لڑکی کو کیا دعائیں دیں , پیرو نے جیسے کچھ نہیں سنا۔ وہ تو بس مبہوت ہو کر رہ گیا تھا۔ بالکونی میں دور سے نظر آنے والی جمیلہ سے مشابہ مالتی کو اتنا قریب سے دیکھ کر اس کی تمام طاقتیں سلب ہو گئی تھیں۔ اب اس کا وہاں بیٹھنا محال تھا۔ اس نے جیسے تیسے بڑے میاں سے اجازت چاہی۔ بڑے میاں نے سر پر ہاتھ رکھا اور شفقت سے کہا , ” میاں ! مسلمان ہو۔ کبھی مسجد میں بھی آ جایا کرو۔” پیرو نے بڑے میاں کی بات کچھ سنی , کچھ نہیں سنی اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں آ گیا۔ اس نے بلب روشن کیا اور کنڈی لگا کر چادر پر دراز ہو گیا۔ اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی اور آنکھوں میں ایک ہی منظر گھوم رہا تھا۔ مالتی ! میری جمیلہ کی صورت۔ وہی آواز۔ وہی جسم۔ وہی خوبصورتی۔ وہی بے پناہ کشش۔ اسے پھر پسینے آنے لگے۔ دل گھبرانے لگا۔ سانسیں اور تیز ہو گئیں۔ وہ سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ بائیں پیر پر کچھ سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ ایسی جیسے کوئی بچھو چلتا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور چیونٹے پر نظر پڑتے ہی بوکھلا گیا۔ اس نے تیزی سے پیر کو ایک جھٹکا دیا ۔ پیر فرش سے ٹکرایا لیکن چیونٹا فرش پر جا گرا۔ پیرو کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ چیونٹا نہ صرف پہلے سے بہت بڑا ہو گیا تھا بلکہ فرش پر گرتے ہی واپس اس کی طرف دوڑ رہا تھا۔ کسی بڑے پہاڑی بچھو کی جسامت کا چیونٹا دیکھ کر وہ کچھ خوف زدہ ہو رہا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے گمچھے کے کونے سے چیونٹے کو پکڑا اور بالکنی سے باہر گلی میں اچھال دیا۔ صبح کے واقعات , دن بھر کی مزدوری کی تکان , مالتی کی جمیلہ سے ہو بہو مشابہت اور اب اس چیونٹے کا خوف ۔ ۔ ۔ ایک بے قراری , ایک بے چینی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے بہت دیر تک نیند نہیں آئی لیکن کروٹیں بدلتے ہوئے آخر وہ سو ہی گیا۔
0000
صبح اس کی آنکھ ایک بہت میٹھے سپنے کے ٹوٹنے سے کھلی۔ وہ اس خواب کو یاد کرتے ہوئے کچھ دیر تک آنکھیں موند کر لیٹا رہا۔ خواب میں مالتی اس کے کمرے میں تھی اور وہ اس سے اسی طرح پیش آ رہا تھا جیسے جمیلہ کے ساتھ پیش آتا تھا۔ ابھی وہ اس خواب کے سحر سے نکلا بھی نہ تھا کہ گلی سے بڑے میاں کے پکارنے کی آواز آ گئی۔ اس نے صبح صادق کے نیم اجالے میں بالکونی سے نیچے جھانکا۔ “چلو پیر محمد ! نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ وضو کر کے آ جاؤ۔” ” جی۔ ابا جی۔ ابھی آتا ہوں۔ ” ” آ جاؤ ۔ میں انتظار کر رہا ہوں۔” ” بس ابھی وضو کر کے آیا۔” اس سے ٹالا نہ جا سکا۔ عرصے بعد کسی نے اس سے اتنے حق کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ بچپن میں اس کے باپ نے اسے نماز سکھائی بھی تھی اور گاہے بگاہے اسے نماز کے لیے مسجد بھی لے جاتا تھا لیکن باپ کے گزر جانے کے بعد سے آج تک اس نے مسجد کا راستہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ آج بڑے میاں نے اس حق کے ساتھ حکم دیا کہ اسے اپنا باپ یاد آ گیا اور دو موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں میں تیر گئے۔ وہ بڑے میاں کو جواب دے کر کمرے کی طرف پلٹنے لگا تو سامنے کی بالکنی میں مالتی نظر آ گئی۔ وہ ایک جھینی سی ساڑی لپیٹے بالٹی سے پانی لے لے کر دنیا ؤ ما فیہا سے بے خبر نہانے میں مصروف تھی۔ پیرو کا خون تو جیسے رگوں میں جم گیا۔ اس نے جمیلہ کو کئی بار اسی طرح جھونپڑی کے کونے میں نہاتے دیکھا تھا لیکن آج ۔ ۔ آج تو مالتی کے روپ میں جمیلہ کا حسن قیامت ڈھا رہا تھا۔ وہ جہاں تھا , وہیں جما رہتا اگر کسی کیڑے نے اس کے پاؤں پر کاٹ نہ لیا ہوتا۔ اس نے تکلیف میں پاؤں کی طرف دیکھا۔ کسی پہاڑی بچھو جتنا بڑا , وہی کالا ہیبت ناک چیونٹا اس کے پاؤں سے لپٹا ہوا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ نظریں ابھی تک مالتی کی طرف تھیں اور ذہن نیچے منتظر بڑے میاں کی طرف۔ اس پر یہ چیونٹا سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں بڑے میاں اسے دوبارا آواز دے چکے تھے۔ وہ کچھ دیر ٹھٹھکا پھر اس نے ایک فیصلہ کیا۔ ایک حتمی فیصلہ۔ وہ کمرے کے اس کونے کی طرف بڑھ گیا جہاں چمٹا رکھا تھا۔ اس نے چمٹا اٹھایا اور چیونٹے کو پکڑ کر فرش پر رگڑ دیا۔ چیونٹا ٹیں بول گیا اور اس کا اوپر کا دھڑ نیچے کے دھڑ سے الگ ہو گیا۔ پیرو نے اس کے دونوں حصوں کو چمٹے میں سمیٹا اور نیچے جانے والی سیڑھیوں کی طرف اچھال دیا۔ پھر وہ گلی میں آیا اور بڑے میاں کے ساتھ مسجد کی طرف چلا گیا۔
0000
وہ دونوں نماز پڑھ کر لوٹے تو ایک لڑکی بڑے میاں کے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس نے قریب آ کر بڑے میاں کے پاؤں چھوئے اور ان کا آشیر واد لے کر آگے بڑھ گئی۔ ” یہ کون ہے ابا ؟ ” ” ارے ! تم اسے نہیں پہچانے؟ یہ مالتی ہے نا !ؐ کل رات کو جب تم میرے پاس بیٹھے تھے تو یہی تو آئی تھی تمھارے سامنے۔ تم بھول گئے ؟ ” پیرو نے ہلکی سی گردن ہلائی۔ اس نے سوچا کہ اب مالتی کسی طرح بھی جمیلہ کے مشابہ نہیں لگ رہی تھی۔ وہ درود پڑھتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ اس نے پہلی سیڑھی کے نیچے دیکھا کہ مرے ہوئے چیونٹے کے دھڑ کو کچھ جھینگر نالی میں گھسیٹ رہے تھے۔