کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا, جیسے کوئی باغ ہو ,جسے دل کے خون سے سیراب کیا گیا ہو۔ کمرے کی چاروں دیواروں پر تصویریں چسپاں تھیں۔ یہ تصویریں اپنے مصور کے اظہارِ فن کا ایسا نمونہ تھیں جیسے کسی گھنیرے جنگل میں رات کے آخری پہر کوئی کوئل بول کر زندگی کی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے۔ زندگی اپنے وجود کے ثبوت مانگتی ہے کچھ لوگ تو یہ ثبوت ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں اور کچھ بذاتِ خود زندگی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ ماہین بھی ان آخر الذکر لوگوں میں سے تھی اور اس وقت وہ کمرے کے کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھی انتہائی گہری خاموشی سے کچھ سوچے جارہی تھی اُس کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے خون کی گردش رک گئی ہو۔ وقت اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود کسی ایک نکتے میں سمٹ کر رہ گیا ہو اور شاید وہ نکتہ فرش کے نقش کا کوئی نکتہ تھا جس پر ماہین کی نگاہیں نجانے کب سے مرکوز تھیں۔
تصویروں کی فراوانی سے یہ احساس ہوتا تھا جیسے کمرے میں ماہین کی کوئی جگہ نہیں اور لوگو! یہی تو مسئلہ ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اپنی ذات میں ہی جگہ نہیں ملتی! ماہین بھی اسی دھند میں کسی اَن دیکھے راستے کی مسافر تھی جسے برسوں بعد خودارادی نے اس بات پر مجبور کر رکھا تھا کہ وہ اپنے ہی جذبات کے تلاطم میں اپنی ذات کو ڈھونڈے اور یہ یقینی طور پر مشکل کام تھا۔ یہ سوالات ماہین کی خاطر کیکر کے کانٹے کی مانند تھے جو بکریاں چراتے ہوئے چرواہے کے پیروں میں اچانک اپنے اندر کی وحشت کو منتقل کر دیتے ہیں۔
اب تک ماہین کے خیال میں وہ فرشی نکتہ جس پر اُس کی نگاہیں رک چکی تھیں پھیل کر ایک قدِ آدم پھول بن چکا تھا جس کی رنگت اور خوشبو کے طلسمات میں ماہین کو ایک اور نکتے کی تلاش تھی اور بات صرف اتنی تھی کہ اس خیالی پھول کے ادھورے پن کا اسے مکمل ادراک بھی تھا اور پھول خود بھی نامعلوم تھا جیسے کچھ ہو بھی اور کچھ نہ بھی ہو ۔ ماہین کا دل نامعلوم کی جانب مائل تھا بلکہ عاشق تھا وہ اس خیالی پھول کی حقیقت کے بارے میں سوچ رہی تھی اس وجہ سے خیال کی ظاہری تصویر ماہین کے لئے اپنی تمام تر رعنائی کھو چکی تھی۔
زندگی یہی تو ہے کہ وقت کے آنے والے لمحے بھی انسان کی طرف آتے ہیں اور انسان خود بھی ان کی طرف جاتا ہے اور ماہین تو ماضی اور مستقبل کے درمیان حال میں تھی اور حال بھی کیا ناامید، ادھورا، خالی اور ناکارہ۔
اسی اثناء میں دروازہ ایک زوردار جھٹکے سے کھلا اور مریم داخل ہوئی۔ اُس کے بکھرے ہوئے گرد آلود بال اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اُس کے مالک نے جیسے برسوں سے اُس کی طرف توجہ نہیں کی۔ ماہین نے مریم کو دیکھتے ہی کہا۔۔
“جو شاخ ساون میں پھوٹتی ہے وہ شاخ تم ہو،
جو پینگھ بارش کے بعد بن بن کے ٹوٹتی ہے وہ پینگھ تم ہو،
تمہارے ہی ساقِ صندلیں سے سمندروں نے نمک لیا ہے،
تمہارے ہونٹوں سے ساعتوں نے سماعتوں کا سبق لیا ہے،
تمہارا میرا معاملہ ہی جدا ہے مریم،
تمہیں تو سب کچھ پتہ ہے مریم ”
یہ مصرعے سن کر مریم کی آنکھیں اور ویران ہو گئیں اور ماہین کے ذہن میں بھی اُس خیالی پھول کا نقش دھندلانے لگا۔
“ہاں معاملہ جدا ہی تو ہے ماہین! بہت جدا ہے معاملہ اور اسی وجہ سے تو مجھے یہ حشر نصیب ہوا ہے۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ کچھ میرے حقوق بھی ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں۔ ذرا دیکھو تو مجھے کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی کی رونق ہے اور تم مجھ سے ہی بے خبر ہو، میں تمہاری ضرورت ہوں مجھے سنبھالو تاکہ کچھ معقول طریقے سے جی سکو ” مریم نے بپھرتے ہوئے کہا۔
ماہین نے مریم کی بات پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہ پھول پھر توانا ہوگیا جس کی کشش ماہین کو پھر اپنی طرف بلانے لگی۔ ماہین نے ایک آہ بھری اور وہ آہ مریم کو کسی بجلی کی مانند محسوس ہوئی۔۔
“میں اپنی ضروریات کو دفنا آئی ہوں مجھ پر سوچ کا موسم ہے اور تم دنیا کی طرح ہو اور مجھے دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ مجھے اب عیش و آرام کے خواب نہیں آتے جب خواہشِ عیش ہی نہ رہے میری جان تو پھر وجودِ عیش کیا؟ اور تم سوائے عیش کے کچھ نہیں ہو ” ماہین نے مضبوط لہجے سے کہا ۔
ماہین پر پچھلے کچھ عرصے سے سوچیں اتنی سوار تھیں کہ اسے اپنے چہرے پر سختی کا ادراک ہی نہ رہا تھا جو سپاٹ تھا جس پر کسی جذبے کا رنگ نہیں ابھرتا تھا بس سوچ کی دھند چھائی رہتی تھی جیسے دامان کی شام کا کوئی کھویا ہوا منظر ہو، مریم بھی یہ جواب سن کر نہ سمجھ سکی کہ آخر کون ہے جو ماہین کو اتنا لاپرواہ کر گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر چلی گئی اور ماہین دوبارہ اسی نکتے کو دیکھنے لگی جو اس کے لیے پھول بن گیا تھا اور یہ پھول اتنا حسین بن چکا تھا کہ اب اس کے حُسن سے ماہین کی آزادی ناممکن نظر آتی تھی۔
حُسن کوئی ثباتی وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی اسے تغیّر کے تھپڑ جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تو بس اپنا زمانہ اور اپنا ٹھکانہ بدلتا ہے اور مزید حسیں تر اور جوان ہوتا جاتا ہے۔ یہی کیفیت اس پھول میں تھی جو ماہین کے لیے کائنات کی حسین ترین چیز بن چکا تھا۔ بہت عرصے بعد آج ماہین سے ربیعہ نے ملاقات کی تھی۔ ربیعہ ماہین کے لیے اتنی اہم تھی جتنی ہم جیسے لوگوں کے لیے آوارگی۔۔
خیال کی آوارگی ہی دیواروں پر لگی ہوئی تصویروں کا محرک تھی اور ربیعہ ہی ماہین کے لیے اس آوارگیِ خیال کی جنم بھومی تھی۔ ماہین کی بے اعتنائی سے پریشان ہو کر ربیعہ نے شاید آخری کوشش کی تھی کہ ماہین کے لیے وہ دوبارہ اہم ہو جائے اور یہ کام کرنے کے لیے ربیعہ نے ماہین کے سامنے ماہین کی ذات کے انکار رکھے تھے اور اُس کے جذبات کو نقلی ثابت کرنے کے لیے ربیعہ نے ماہین کی تخلیقی صلاحیتوں کو مادہ پرست قرار دیا تھا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ماہین کے لیے اب بھی منظر کا اندرونی پیغام ایک غیب کی پہیلی ہے اور یہی پہیلی سلجھانے کے بعد ہی تصویر کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔
ربیعہ بذاتِ خود وہ حقیقی سراپا تھا جو خیال کے زور پر مصوری کو پروان چڑھاتا ہے اور باقی ہر شے کو ماند کردیتا ہے جیسے چیت کی چودہویں کا چاند صحراؤں کے ہر درد کو نیم جان کر کے حُسن کی وہ تصویر پیدا کرتا ہے کہ پھر چکوروں کو زخم آتے ہیں۔
ماہین کے خیالات کا پھول ایک جاندار جسم بننے لگا جس میں روح کی تپش محسوس ہونے لگی اور ماہین بے خود ہوتی چلی گئی۔ کھڑکی سے باہر رات کا رقص بھی اپنے عروج پر تھا۔ تنہائی میں تخلیق کے اس جادو سے تو ماہین کو محبت ہونے لگی حالانکہ طبعی اعتبار سے تنہائی ماہین کے لیے کسی ٹھنڈے خنجر سے کم نہیں تھی۔
رفتہ رفتہ یہ جاندار پھول ربیعہ کا چہرہ بن گیا جس کی آنکھیں گلابی رنگت کی پتیوں سے جھانک کر ماہین سے باتیں کرنے لگیں۔ ماہین کو ایک پل کے لیے ایسی اپنائیت کا احساس ہوا کہ اُسے لگا جیسے اُسے اپنے ہونے کا راز معلوم ہو گیا ہے۔ آخر مصوروں کی دولت بھی کیا ہے انگلیوں کے رقص پر تنی ہوئی آنکھیں اور ذہن میں ربیعہ جیسے ناچتے ہوئے خیال،ناچتا ہوا خیال اور سوچتی ہوئی عورت کائنات کی خوبصورت ترین چیزیں ہیں اور رات کے اس لمحے میں ماہین ان دونوں عناصر کا مرکب تھی۔ ناچتا ہوا خیال جو ربیعہ کا روپ دھار چکا تھا اور سوچتی ہوئی ماہین۔۔
اس خیالی زور میں ماہین کو یہ احساس بھی نہ رہا تھا کہ اُس کے پاؤں زمین پر ٹکے ہیں اور اور خاموشی کے عالم میں درویش نما سایہ اُسے دیکھے جارہا ہے وہ خود سے بے خبر ہونے کے کافی قریب تھی۔
ماہین کے ہاتھ تصویر کو حُسن دینا خوب جانتے تھے مگر یہ پھول ایسے ہوچکا تھا کہ اُسے کچھ معلوم نہ تھا کہ اسے آخر کس قسم کی تصویر میں ڈھانپ کر بنایا جائے یہ پھول جیسے سانس کا بُلبلہ تھا جس میں ماہین کی پوری ذات سما چکی تھی۔ سکوت و جمود کے اس منظر کو کوئی ہلکی سی آہٹ بھی برباد کر سکتی تھی اور ایسا ہی ہوا اچانک دروازہ کھلا اور کشف داخل ہوئی۔ دروازے کی آواز سے ماہین کا خیالی پھول دھواں ہوگیا اُسے ایسے لگا جیسے کسی نے اُسے جلا کر پھر راکھ بھی اُڑا دی ہو۔ ہوا کے دوش پر اڑتی ہوئی راکھ جو نجانے کتنے جزیروں پر ٹھہرے کہاں کہاں قیام کرے۔ محبت کے جزیرے، فکر کے جزیرے اور اپنی تلاش کے جزیرے۔ نجانے کہاں جا رکے۔۔
کشف نے آتے ہی ماہین پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی وہ اُس کی دوست تھی اور ماہین کی ہر تصویر کو تکمیل دینے میں اُس کا حصہ ہوتا تھا شاید وہ اُس کے ذہن کے ضمیر کی آواز تھی۔ وہ تخلیق کی مخالفت میں اتنا شور مچاتی تھی کہ تخلیق خود بخود نکھرنے لگتی تھی۔ وہی کشف تو تھی جو بتاتی تھی کہ یوں نہیں یوں کرو۔ نہیں یہ رنگ نہیں اس میں شدت ہے تم ایسا کرو کوئی رنگ نہ دو بس ایک خاکہ ہی بنا دو۔ نہیں خاکہ نہیں کچھ تو رنگ بھرو دیکھو زندگی کتنی رنگین ہے اور اداس ہے!
“کیا سوچ رہی ہو ایسا کہ تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں نہ کچھ سوچا جا رہا ہے اور نہ کچھ نظر آرہا ہے تمہیں ۔ نجانے کیوں مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ تم اپنے ذہن کے کسی جال میں پھنس چکی ہو کیا بات ہے؟ ”
کشف نے تفکر بھرے لہجے سے کہا۔
ماہین خیالی جمود سے باہر آچکی تھی اُس کے لیے دوبارہ باہر کے تمام منظر ایک حقیقت بن چکے تھے۔ اُس نے ان حقائق کا ادراک کرتے ہوئے کہا ” یہ فرش کے نقش کا نکتہ جو کہ پھول بن گیا جس سے ربیعہ کی آنکھیں چھلک پڑیں اور مجھے کسی خالی پن سے دیکھنے لگیں یہ نکتہ کشف اب مجھے اس الجھن میں ڈال چکا ہے کہ میں اسے کیا روپ دوں؟ میں اس میں کائنات کی ساری حقیقتیں دیکھنا بھی چاہتی ہوں اس کے ذریعے دکھانا بھی چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں یہ چاہے کینوس پر جو روپ اختیار کرے مگر یہ کلام کرے یہ بات کرے اس کی آواز ہو اور یہ اپنے رنگوں سے اپنی آواز سے ہر چیز میں میرے شعور کو منتقل کردے۔ پھر ایسا ہو کہ اس پھول کو دیکھنے والے وہ بن جائیں جن میں مجھے اپنا آپ دکھائی دے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ اس تصویر کے ذریعے سے تمام منظر میرے ہمراز بن جائیں!
کشف یہ سن کر حیران رہ گئی وہ خاموشی سے ماہین کے چہرے کو دیکھنے لگی جو اُسے پھول نظر آنے لگا!
“تم بھی کائنات کی ہمراز بن جاؤ! جنگل کی خاموشی میں سمندر کی گہرائیوں کے سکوت کو سمجھنے لگو۔ تم بھی یوں ہو جاؤ کہ گزشتہ زمانوں کے تمام افسانے تمہیں اپنی ذات کا حصہ محسوس ہونے لگیں۔ تمہیں ایسا لگے کہ تاریخ کا ہر دور تم خود ہو! تم جھیلوں کی دوست بن جاؤ پھول بن جاؤ اور ارے پاگل خوشبو کی فکر چھوڑو تصویر خوشبو ہے اور جب یہ مہکی تو خود کلام پیدا ہو جائے گا۔ مگر تم پھول اُس وقت بنو گی جب تم اپنے آپ میں واپس آؤ گی اپنا سامنا کرو گی تم جھیلوں کی دوست بن جاؤ گی۔ پتہ ہے تمہارا راز کیا ہے؟ تم درخت کی نچلی شاخ سے بارش کے قطروں کو گرتے ہوئے دیکھتی ہو تو خوش ہو جاتی ہو تم چھوٹی چھوٹی خوشیاں اکٹھی کرتی رہی ہو اپنے ماضی میں اور یہی تمہاری معصومیت تھی یہی تمہارا راز تھا پہچان تھی مگر جب سے تم نے نامعلوم سمت کے کالے راستوں کا سفر شروع کیا تم کھو گئی مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایک دن اپنے آپ کو ہی نہ بھول جاؤ۔ اب یہ کالے راستے چاہے تو دنیا سمجھو چاہے تو دل کے طلسم جو آج تک کسی سے حل نہیں ہوئے اور تم سمجھو کیوں کہ تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تم بھی باقی ہر چیز کی طرح ہو اگر کوئی شناخت کا فرق ہے تو وہ معصومیت ہے تم یہ خزانہ سنبھالو تمہاری تصویر میں کلام پیدا ہو جائے گا! ”
کشف نے دھیمے لہجے میں ذہنی پختگی کے سارے راز اکٹھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ماہین دوبارہ اسی پھول کو سوچنے لگی۔ پھول، کہ جس کی دھندلی سی تصویر اُس کے ذہن میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ یہ تصویر ماہین کو اس لمحے ایسے محسوس ہوئی جیسے غیب کا کوئی منظر ہو، پھر اُس کی حیرانی میں اضافہ ہو گیا وہ سوچنے لگی کہ جو چیز چند ساعتیں پہلے میری دسترس میں تھی اب اجنبی کیوں ہے، اُسے یقین ہو گیا کہ تخلیق کا عظیم لمحہ صابن کی جھاگ کے بلبلے میں قید ہونے والی ہوا کی طرح اب پھٹ چکا ہے اور ایک بھدا سا نقش رہ گیا ہے ایک دھواں سا رہ گیا ہے۔ وہ مضطرب ہوگئی۔
“کشف، میں اکثر سوچتی ہوں کہ میری حقیقت کیا ہے۔ کیا وہ تصویر میری حقیقت ہے جو سوچتے ہوئے لمحے میں مجھے دکھائی دیتی ہے یا پھر دنیا کی گرد میں گم میری ہستی حقیقت ہے۔ حقیقت خود کیا ہے؟ جبکہ خواہشوں کو کوئی جادو چاٹ چکا ہے اور اندر اتنی خاموشی ہے کہ اپنی آواز بھی جھوٹ محسوس ہوتی ہے کیا حقیقت ہے؟ مجھے اپنے اندر جگہ نہیں ملتی میں باہر جانا چاہتی ہوں تو ایسا لگتا ہے ہر چیز جیسے سرنگا پٹم کا قلعہ ہو جسے سر کرنا میرے زور سے باہر ہے. مجھے بتاؤ کہ کیا ہے یہ؟”
ماہین کے لہجے میں محرومیت اور امید کا امتزاج نکھر اٹھا،کشف بھی بہت متوجہ تھی مگر اُس کے پاس جواب نہیں تھے اُس نے بس اتنا کہا کہ ” تم اُسے حقیقت مان لو کہ جس میں تمہیں یہ لگے کہ تم فضول نہیں ہو، چاہے پھر وہ خیال ہو باہر کا منظر ہو درد ہو یا دنیا کے جھمیلے ہوں۔ میں تو کہتی ہوں کہ اپنی تصویر کو ہی حقیقت مان لو”
یہ کہ کر کشف اٹھی اور باہر نکل گئی۔
کشف کے جانے کے بعد پھر کمرے میں تنہائی اور خاموشی باقی رہ گئی۔ ماہین کو سوچیں تنگ کرنے لگیں کہ سوال بھی ادھورے ہیں خیال بھی ادھورے ہیں تصویر بھی ادھوری ہے اور جواب بھی ادھورے ہیں بس یہ خاموشی اور تنہائی ہی جیسے مکمل ہو۔ کاش کہ ان کے بانجھ پن سے وہ روشنی پیدا ہو جو ان الجھنوں کو دورکرسکے اگر یہ ممکن نہیں تو بجلی ہی چمک پڑے ان میں جو مجھے بھسم کر ڈالے جیسے محبت دل کو جلا دیتی ہے۔ مگر ایسا کیا ہونا، ایسا ہوا ہی کب ہے؟
اب ماہین کے دماغ میں پھول تو نہیں تھا البتہ پھول کو کھوجنے کی خواہش ضرور تھی مگر یہ لمحہ یہ خاموش لمحہ نجانے کتنا طویل ہو چکا تھا کہ کسی عمل کے اختصار کی وہ داستان تھی جس کا اثر اُس کے چہرے کے بدلتے ہوئے زاویوں میں نظر آ رہا تھا۔ ماہین کو یہ لمحہ خاص محسوس ہو رہا تھا مگر عجیب سی عامیت کے رنگوں کے ساتھ، بس ایک رنگ جو تسلسل سے اس لمحے میں نظر آرہا تھا وہ نامکمل پن تھا۔ اُسے الجھن محسوس ہورہی تھی کہ نامکمل خیال بھی کہیں کھو گیا ہے اور کشف نے بھی گفتگو کو مکمل نہیں کیا اور ایسے اٹھ کر چلتی بنی جیسے دامان کی ویرانی پر بھول کر آ جانے والی بارش ہو،
جب ماہین مکمل طور پر اندر کے خالی پن سے اکتا گئی تو اُس نے وقت کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ وقت کی بے یقینی اور بے اعتباری پھر اس پر دو طرفہ تماشا یہ کہ اس کی تبدیلی ماہین کے ذہن میں سوال بن کر گردش کرنے لگے جن کا جواب وہ اپنے ماضی اور اپنے خوابوں میں ڈھونڈنے لگی۔ اُسے یاد آنے لگا کہ کیسے بہت سارے جان سے پیارے خواب اُسے بھول گئے وقت کی دھول میں گم ہوگئے۔ اُسے تکلیف ہونے لگی کہ کتنے ضروری کام اُس نے نہیں کیے۔ اُسے یاد آنے لگا کہ کیسے امر ہوجانے والے لمحات یاد بن گئے اور اب دل کو جلاتے ہیں۔ وقت کو سوچنے کا عمل بھی بہت جلد ایک طلسم بن گیا۔ ہر لمحے میں اُسے دو روپ نظر آنے لگے اور دونوں ہی اُس کے اپنے روپ تھے۔ یہ بات اُس کے دل کو اور الجھا گئی اور اُس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ان دونوں چہروں میں سے کون سا اُس کا اپنا ہے کون سا چہرہ اُس کی حقیقت ہے دھوکا نہیں ہے۔ بہت دیر تک ساکت و جامد بیٹھنے کے بعد جب اُس کی بڑی بہن نوشین نے اُس کو آواز دی تو ماہین کے ذہن میں کوئی واضح تصویر موجود نہ تھی اُسے ایسا لگا جیسے سچائی بھی راستے کی دھول ہو اور ہر آنے جانے والا قدم اُس دھول کو اڑا کر کسی اور جگہ پہنچا دے۔ جہاں بھی یہ دھول محسوس ہو وہی جگہ راستہ لگے اور پھر یہ دھول کہیں اور ٹھکانہ بنا لے۔ یوں انسان اس پہیلی میں گھومتا ہی رہے جس کا شاید کوئی دروازہ ہو شاید کوئی اُس تک پہنچا بھی ہو،
نوشین نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا “پاگل، یہاں بت کر بیٹھی ہو وقت دیکھو کتنا ہو گیا ہے اور ابھی تک تم نے میرا کام بھی نہیں کیا”. نوشین کی جھنجھلاہٹ واضح تھی۔ ماہین اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی اور جیسے ہی وہ دروازے سے باہر نکلی اُسے ایسے لگا جیسے وہ سایہ ہو اور اُس کا وجود وہیں صوفے پر موجود ہو خاموش اور تنہا، الجھا ہوا ایسی الجھنوں کا کہ الجھن کا احساس بھی نہ ہو اور درد بھی نہ جائے مگر وہ رکی نہیں اس کے قدم اٹھتے رہے۔ نوشین نجانے پیچھے کیا کچھ کہتی رہی بہر حال وہ جو بھی کہتی رہی ماہین کو اُس کی کچھ پروا نہیں تھی۔
وہ رات بھی گزر گئی۔ صبح سارا دن آفس میں کام کرنے کے بعد جب وہ گھر پہنچی تو اُسے اپنی حالت پر غصہ آرہا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ غصہ باقی گھر والوں پر ایک خوبصورت نخرے کی صورت میں نازل ہونے لگا جسے ماہین کے گھر والے کسی سامانِ لطف اندوزی سے کم نہ سمجھتے تھے۔
آج وہ اپنے آفس کے سٹاپ پر اترنے کی بجائے کوئی دو کلومیٹر دور جا کر اتری تھی جہاں سڑک کو ایک خوبصورت موڑ آتا تھا۔ ماہین کو اس موڑ کے ساتھ احساس ہوا تھا کہ اُسے بھی ایک خوبصورت موڑ کی ضرورت ہے جو زندگی کے سفر کی جہت بدل دے اور کئی یادیں، خیال اور خواب ایک زناٹے کے ساتھ اُس کے تصور کے کینوس پر چھپے اور بکھر گئے تھے۔ مگر اس خوبصورت موڑ کے اُس کی زندگی میں فی الحال امکانات بہت کم ہی تھے۔
کافی دیر کے اصرار کے بعد جب اُس نے اپنی والدہ کو یہ واردات سنائی تھی تو وہ ہنسنے لگی تھیں۔ یہ جاننا مشکل تھا کہ اُن کی ہنسی اپنی بیٹی کی بیوقوفی کی وجہ سے ہے یا معصومیت کی وجہ سے ہے۔
معصومیت پر تو پیار آتا ہے ہنسی تو ذلت پر آتی ہے شاید کسی کو دوسرے کی ذلت دیکھ کر رونا آتا ہو مگر یقین کیجیے وہ شخص پھر عہدِ ماضی کا باشندہ ہے عہدِ حاضر میں ایسے دل ناخنوں سے چھیل دیے جاتے ہیں۔
اپنی والدہ کو ہنستے دیکھ کر ماہین کا غصے نما نخرہ اور زیادہ ہوگیا اور وہ دوبارہ اُسی کمرے میں چلی گئی جہاں پچھلی رات والی تنہائی اور خاموشی اُس کی منتظر تھیں۔ اُسے کمرے میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا تھا کہ یہ بھی کیا ظالم تنہائی ہے جو خاموش منظر میں ہوتی ہے اس سے تو انسان کو خوف آتا ہے۔ اگر محفل اور دنیا کے شور میں بھی تنہائی کا احساس ہو تو کم از کم یہ دلاسا ضرور رہتا ہے کہ کوئی ساتھ تو ہے چاہے منافق بن کر ہی ساتھ ہے، مگر اس تنہائی سے رشتوں کے اعتبار ختم ہو جاتے ہیں۔ خاک اس محفل پر جہاں تعلق ہی بے اعتبار ہو اس سے بہتر تو یہی تنہائی ہے جو انسان کو ڈس لے مگر خود مخلص ہو اور تنہائی دوست ہوتی ہے ان لوگوں کی جن کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔
ماہین کو زندگی کی لہروں کا زور یہ سبق سکھا چکا تھا کہ جھوٹی محفلوں سے بہتر ہے کہ ظلم بھری تنہائی ہو اسی لیے تو اُسے اس تصویروں سے بھرے کمرے سے محبت تھی جہاں کے فرش کا نکتہ بھی کل اُس کے لیے پھول بن گیا تھا مگر آج محض نکتہ ہی تھا۔ ہستی بھی تو ایک نکتہ ہے وقت کی سکرین پر چھپا ہوا ایک نکتہ، یہ نکتہ بھی تب تک زندہ ہے جب تک اس نکتے کو سنبھالے ہوئے منظر کی زندگی ہے جیسے ہی منظر بدلا نکتہ بھی بدل جاتا ہے بدلتا کہاں ہے مر جاتا ہے، ہستی بھی ایک نکتہ ہی تو ہے چاہے پھر اپنے وجود کے ثبوت کے لیے ہو یا کسی اور کے وجود کے ثبوت کے لیے جس کا نام یہ بلائے جان محبت ہے، یہ خیال آتے ہی اس کے جسم میں سرسری سی دوڑ گئی۔ محبت ماہین سے کرنے والے چاہے بہت لوگ ہوں مگر ماہین کے لیے محبت ماضی کا وہ ٹوٹا ہوا آئنہ تھی جس میں وہ اپنا آپ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی کسی قیمت پر بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی. مگر اگلے ہی لمحے تنہائی نے اس کے اندر ایک مدہم سی خواہش پیدا کی کہ کاش کوئی اُس سے محبت کرے بس محبت کرے تقاضا نہ کرے مگر یہ احساس بھی دھواں ہوگیا۔ بہر حال تنہائی قربت کا احساس تو دلا گئی تھی۔۔۔۔
وہ پھر تڑپ محسوس کرنے لگی کہ کہاں جائے وہ محفل کی طرف جائے جہاں منافقت ہے۔ نہیں نہیں نہیں، اُس کے اندر کی آواز شدت سے چیخ اٹھی۔
اُس نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو پھر اپنی طرف واپس آیا جائے مگر اپنی سمت کی بے یقینی نے اُسے متنفر کردیا تھا۔ اُس نے سوچا کیوں نہ قدرت کے حُسن کی طرف چلا جائے مگر یہاں بھی اُسے ایسا لگا کہ قدرت کے جتنے بھی قریب پہنچا جائے وہ پراسرار ہی رہتی ہےاور ماہین کو تو راز جاننے میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ راز کے آخری کناروں تک جانے کی جستجو کرتی تھی اور جب وہ پہنچ نہ پاتی تو جستجو کو ہی مار دیتی تھی۔ کتنی دفعہ اُس نے قدرت کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تھا اور ہار گئی تھی مگر اس شکست کا احساس بھی خوبصورت تھا، وہ اور شدت سے سوچنے لگی کہ وہ کدھر جائے؟ کوئی جگہ ہی نہیں جانے کے لیے۔ اس الجھن میں اس کا ذہن بالکل خالی ہوگیا اور مصوروں کا تو راز ہی یہی ہے کہ خالی پن سے ان کے اندر تخلیق پیدا ہوتی ہے چاہے انہیں اس کا احساس ہو یہ نہ ہو مگر لاشعور اسی وقت زندہ ہوتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
یہ چمک بھی پروانے کی زندگی کی مانند عارضی ثابت ہوئی پھر دھواں چھا گیا۔ یہ دھواں سگریٹ کے غولے کی مانند دماغ کی اندرونی تہہ سے نکل کر کھوپڑی سے ٹکرانے لگا جس سے سارا ماحول زنگ آلود ہو گیا اور وہ پھر سکتے میں آ گئی۔ ماہین پر طاری ہونے والا سکتہ صرف تنہائی اور خالی پن میں ملبوس نہیں تھا بلکہ اب اس پر شدید قسم کی مایوسی غالب تھی۔ مایوسی بھی تنہائی اور خالی پن کی رشتہ دار ہی تو ہے۔۔۔۔
ماہین پھر سوچنے لگی اور سوچتے سوچتے نجانے کتنا وقت ہو گیا کہ اچانک اس کے دل سے ایک ٹھنڈی مگر کانٹے دار آہ نکلی۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ دل اگر خالی ہو تو آنکھیں بھی خالی رہتی ہیں دماغ اگر خالی ہو تو اداسی کا گھر بن جاتا ہے اور اگر گھر ہی خالی ہو تو وہ، ہاں وہ کیا بن جائے گا۔ یقینی طور پر وہ مکان بن جائے گا،
وہ پھر سوچنے لگی کہ اگر مکانوں کو گھر ہی نہیں بنانا تو تعمیر کرنے کا تکلف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ سوال بجلی بن کر لپکا اور سب جلا گیا پھر جو سوچ ابھری اُس نے ماہین کو احساس دلایا کہ اسے نیند کی ضرورت ہے اور وہ خیال کیا تھا بس یہی کہ ” زمین خالی اچھی نہیں لگتی اس پر کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے پھر چاہے وہ تعمیر شدہ چیز خالی ہی کیوں نہ ہو، اور تم بھی زمین ہی تو ہو تمہارے اندر بھی خالی پن موجود ہے اور خالی پن اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ نہ کچھ تو موجود ہے اور وہ وقت کے کسی لمحے یہ جگہ گھیر لے گا جب تک وہ جگہ نہ گھیرے اس خالی پن کو قبول کرو اور انتظار کرو میری جان تمہارے اختیار میں آخر اور ہے بھی کیا!
****
تحریر: افتخار بلوچ