(Last Updated On: )
وکیل صاحب تمھارے کمرے سے کھانسی کی وہ آوازیں اب آتی نہیں لیکن درد سے کراہتی تمھاری آہیں آج بھی ارد گرد محسوس ہوتی ہیں، جو رہ رہ کر دماغ میں گونجتی رہتی ہیں۔اسپتال سے چھٹی مل جانے پر چھوٹا بھائی تمھیں لانے گیا تھا، پر اب وہ تمھاری لاش لے کر آ رہا ہے۔ ادھر گھر پر ہم تین بھائیوں نے ابا کو صرف اتنا بتایا کہ تمھاری طبیعت کچھ زیادہ بگڑ گئی ہے لیکن ہماری باتوں سے وہ سمجھ گئے اور بھرائی آواز میں کہا:’’طبیعت خراب ہے یا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘
اور ہم سب کے سب ایک ساتھ رو پڑے۔
ایسا لگتا ہی نہیں کہ تم چلے گئے۔ تمھارا چہرہ آنکھوں سے کیسے ہٹ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!!تم ہمارے درمیان ہی موجود ہو۔ بس تھوڑے سے خاموش ہو گئے ہو۔ تم نے جب سے خاموشی کیا اختیار کی ہے ،گھر میں سب ہی کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئی ہیں۔ اور وہ آنسو آنکھوں میں جم سے گئے ہیں۔ جو نہ سوکھتے ہیں نہ ہی برستے ہیں۔
وکیل صاحب آج تم اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اپنی موت کا رونا تو تم پہلے ہی رو چکے تھے۔ تمھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ تم کہتے تھے:
’’دعا کرو میں اچھا ہو جاؤں نہیں تو میرے بچے تنہا رہ جائیں گے۔‘‘
اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے تھے۔اس وقت توتمھاری بے بسی کسی سے دیکھی نہ گئی تھی جب اسپتال میںتمھارا علاج چل رہا تھااور تمھیں اپنے صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ تم نے جو کچھ اپنے بچوں کے لیے کمایا تھا وہ سب تمھاری بیماری پر خرچ ہو رہا تھا۔
بیماری کے اس دلدل سے تم جتنا باہر آنے کی کوشش کرتے رہے اتنا ہی دھنستے چلے گئے۔ زندگی تو تمھارے ساتھ وفا نہ کر سکی پر موت نے بھی کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب انسان زندگی سے ہار جاتا ہے تب موت اسے گلے لگا لیتی ہے، پر موت دور کھڑی صرف تماشہ دیکھتی رہی۔ ایک کے بعد ایک آزمائشیں تمہاری زندگی میں سونامی کی طرح آتی گئیں۔ تم بڑے ہمت و حوصلہ والے تھے۔ کبھی آزمائشوں سے گھبراتے نہیں تھے۔
تم نے جو کچھ جمع کیا تھا کچھ نہ بچا۔علاج میں سارا اثاثہ خرچ ہو گیا۔ اور آخری وقت بیماری نے پھر سے غریبی کی دہلیز پر تمھاری لاش لاکر رکھ دی ہے۔
میں جب کبھی رات بے رات نیند سے جاگتا، تمھاری تکلیف دہ کھانسی کی مسلسل آوازیں روح کو تڑپا دیتی تھیں۔
وکیل صاحب تم جلگاؤں خاندیش (مہاراشٹر) کے گوداوری اسپتال کے ایم آئی سی یو وارڈ میں 20 نومبر 2018 سے بھرتی تھے۔ وہاں تمھاری کڈنی کا علاج چل رہا تھا۔ ایڈمٹ ہونے کو ابھی آٹھ دن ہی ہوئے تھے کہ تم چھٹی لے کر گھر جانے کی ضدکر رہے تھے۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ علاج مکمل ہونے کے بعد ہی چھٹی لیں گے، اس پر تم غصّہ ہو گئے تھے اور کہنے لگے تھے:
’’یہاں رہ کر کیا مرنا ہے، یہاں میرا دم گھٹ رہا ہے، مجھے بس جلدی گھر جانا ہے۔‘‘
تم نے ایم۔آئی۔سی۔یو۔وارڈ سے باہر کھلی ہوا میں گھومنے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا۔
تم چھٹی کی ضد لیے بیٹھے تھے اور کچھ سننے کو تیار نہ تھے۔ تب میں نے ڈاکٹر سے بات کی تو انھوں نے بتایا تھا:
’’تمھیں صرف اور چار دن رک کر علاج کروانا ہے۔ اس کے بعد تم اچھے ہو جاؤ گے اور چھٹی مل جائے گی۔‘‘
اس پر تم کو بھی اطمینان ہو گیا تھا کہ صرف چار دن کی ہی تو بات ہے۔
آج سے تقریباً چھ سات مہینے پہلے ایک روز صبح جب تم نیند سے جاگے تو دم گھٹتا محسوس ہوا۔ تم گھبرا گئے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تمھاری آواز میں گھبراہٹ تھی۔ سب ارد گرد جمع ہو گئے۔ یہ کیا ہو گیا؟ کچھ سمجھ نہ آیا۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ آنکھوں کی روشنی چلی گئی۔ اچانک تمہاری دنیا اندھیری ہو گئی۔ ارے کل رات تو سب کچھ اچھی طرح دیکھ رہے تھے، بیوی، بچے، باپ، بھائی سبھی کے چہرے۔۔۔۔ سب کچھ اچھی طرح۔۔۔۔ یا خدا یہ اچانک کیا ہو گیا کہ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ایک عجیب سی دم نکال دینے والی گھٹن ۔۔۔۔ ایسے لگا جیسے کسی نے اندھیری کوٹھری میں قید کر دیا ہو۔
پھر اِدھر اُدھر سے روپیوں کا انتظام کر کے اورنگ آباد میں آپریشن کیا تو چند فیصد بینائی واپس آگئی تھی۔
تم نے ایک متوسط گھرانے جنم لیا تھا۔ بلا کی ذہانت وقابلیت دی تھی خدا نے تمھیں۔ آج کیس کی فائل ہاتھوں میں لیتے،، دوسرے دن جج کے سامنے آرگومنٹ کو کھڑے ہو جاتے۔ اگر تم دس سال اور جی لیتے تو ضلع بلڈانہ میں وکالت کے آسمان کا ستارہ ہوتے۔ ہم پانچوں بھائیوں میں تم سب سے بڑے تھے۔ بہن نہیں تھی۔ والدہ تو 2010 میں ہی اس دارفانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ چاروں چھوٹے بھائیوں کی تعلیم پر بھی تمھاری خصوصی توجہ رہی تھی۔
مجھے لکھنے پڑھنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔ سارا دن آوارگی میں گزر جاتا تھا۔ دسویں جماعت تک تو اردو بھی کمزور تھی، لیکن تمھارے ڈر سے پڑھنے بیٹھ جایا کرتا تھا اور دیکھو تمھاری دعا سے آج میں سرکاری ملازمت میں ہوں۔ علالت کی حالت میں تم گھر کے سب افراد کو خوب دعائیں دیتے تھے۔
تمھاری لاش اسپتال سے گھر آگئی ہے اور گھر کے اندر سے رونے کی مسلسل آوازیں آرہی ہیں۔ میں اب بھی گھر کے باہر کھڑا ہوں، پر میری ہمت نہیں کہ گھر میں جاؤں۔میرے لیے تمھاری تکلیف ناقابلِ برداشت تھی اور آج تمھارا سکون دیکھنا بھی ممکن نہیں۔
اٹھو وکیل صاحب، ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے۔ صرف 42 سال، تمھاری بڑی لڑکی دسویں میں، منجھلی نویں میں اور چھوٹا لڑکا چھٹی جماعت میں ہی ہے۔ بچوں کی اچھی پرورش، تعلیم، شادی سب کچھ ابھی باقی ہے میرے بھائی۔ یہ منصوبے ہر کوئی بناتا ہے، تم نے بھی بنائے تھے۔ تمھارے بچے تمھارے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومنے کی خواہش رکھتے تھے۔ انھوں نے تمھاری صحت یابی کے لیے دن رات دعائیں کی تھیں۔
کئی بے سہارا پریواروں کو تم نے حکومت کی ’نِرادھار‘ (بے سہارا) اسکیم کے تحت پینشن شروع کروائی تھی اور آج اپنے ہی پریوار کے بے سہارا چھوڑ کر چلے گئے۔
دیکھو کتنے لوگ تمھیں دیکھنے آئے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن کے تمام ایڈوکیٹ، جج، نگر پریشد کے صدر اور شہر کی بڑی بڑی ہستیاں، دوست احباب، رشتے دار، تمھارے بچپن کے ساتھی، دیکھو سارے کا سارا شہر امڈ پڑا ہے۔
تم بارہ دن سے اسپتال میں ایڈمٹ تھے بچوں سے دور تھے۔ اب آخری بار چیختے بلکتے تمھارے بچوں کو تو دیکھ لو وہ تمھارے جنازے سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ دیکھو وکیل صاحب جن غریبوں کے کیس تم کم فیس پر یا مفت میں لڑتے تھے وہ تمھارے جنازے کے پاس بار بار آرہے ہیں، تمھیں دیکھ رہے ہیں اور اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہے ہیں۔ شاید انھیں یقین نہیں آرہا ہے کہ اب تم اس دنیا میں نہیں۔
غریبوں اور جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے بے قصوروں کی مدد کے لیے تم ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ تمھاری رحلت ہمارے خاندان کے لیے ہی نہیں قوم ملت کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔
بچے کی پیدائش کے وقت ایک ماں کے اندر جتنا درد جمع ہو جاتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ درد تم نے مسلسل ایک سال تک سہا۔ تم نے کہا تھا:
’’میں کئی مہینوں سے سویا نہیں، اچھی خاصی وکالت چل رہی تھی وہ بھی جاتی رہی، ایک ایک کر کے کلائنٹ چلے جا رہے ہیں۔ میری تو زندگی برباد ہو گئی رے۔۔۔۔۔۔‘‘
سخت بیماری کی حالت میں بھی تم اپنی تکلیف اور پریشانی کبھی کسی پر آشکارا نہیں کرتے تھے۔ جب کوئی تمھیں دیکھنے آتا تو اس کے ساتھ تم بالکل نارمل برتاؤ کرتے تھے۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد درد سے کراہنے لگتے تھے۔
تکلیفوں کے پہاڑ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے آج تم اسی بوجھ تلے دب گئے ہو اور سکون کی نیند سو گئے ہو،بالکل غالب کے اس مصرعے کی طرح:
’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘
تمھارے بغیر گھر میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا۔ آج ہم چاروں بھائی آنگن میں بیٹھے تمھاری تدفین کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ہم فیصلہ کہاں کر رہے ہیں بس ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا بوجھ باپ کے کاندھے پر جوان بیٹے کا جنازہ ہوتا ہے۔ جب تمھارا جنازہ اٹھایا گیا اس وقت مجھے میرا یہ شعر یاد آگیا۔
آنکھ در آنکھ سمندر ہے خدا خیر کرے
سوگ میں ڈوبا ہوا گھر ہے خدا خیر کرے
باپ کے کاندھے پہ میت ہے جواں بیٹے کی
کتنا دلدوز یہ منظر ہے خدا خیر کرے
تکلیف محسوس کی جاتی ہے اور اس کا تعلق دماغ سے ہوتا ہے۔ تمھارا دماغ آخری وقت تک پوری طرح صحت مند تھا۔ تمھارے جسم کے دوسرے اعضا کی طرح اگر تمھارا دماغ بھی کمزور ہو جاتا تو تمھیں تکالیف کا اتنا احساس نہ ہوتا۔ میں نے دیکھی ہے تمھاری تکلیفیں جو مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھیں۔ پیر سے کمر تک تمھارا جسم بے حس ہو کر پتھر ہو گیا تھا۔ ہاتھوں کی نرم جلد سے جسم میں جمع پانی رسنے لگا تھا۔ پورے وجود کو ہلا کر رکھ دینے والی کھانسی جو ذرا ٹھہرنے کا نام نہ لیتی تھی۔
شوگر کی بیماری کو بھی کوئی بغیر علاج کے چھوڑ سکتا ہے؟ بتاؤ تو بھلا!! تم نے چھوڑ دیا تھا۔ شاید تمھیں اس بات کا اندازہ بھی نہ ہوگا میرے بھائی کہ شوگر کی بیماری کا علاج نہ کرنے کے نتائج اتنے بھیانک بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اپنی فکر تو تم نے کبھی کی ہی نہیں۔
گوداوری اسپتال میں تمھارے لیے وقت کاٹنا بڑا مشکل ہو گیا تھا۔ بار بار وقت پوچھتے کہ کتنے بج رہے ہیں اور جواب سننے کے بعد کہتے:
’’یہاں وقت جلد گزرتا ہی نہیں۔‘‘
چھٹی ملنے سے ایک دن پہلے چھوٹے بھائی وسیم کو موبائل پر کہا:
’’تو گاڑی لے کر آجا کل مجھے چھٹی ملنے والی ہے، گھر جانا ہے۔‘‘
جیسے تیسے چار دن گزرے اور وہ وقت بھی آگیا جب تمھیں یکم دسمبر 2018 کو چھٹی ملنے والی تھی۔ ڈسچارج کی کاغذی کاروائی چل رہی تھی۔ بھابی نے سب ساز و سامان باندھ رکھا تھا اور تم تیار ہو کر بیڈ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ چھوٹا بھائی وسیم جب کاغذی کاروائی کر کے واپس لوٹا تو تم نے اسے کہا:’’تو جلد وہیل چیئر لے آ میں اس پر بیٹھ کر چلوں گا۔‘‘
بھابی تمھارے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وقت تمھارے چہرے پر گھر جانے کی خوشی صاف دیکھی جا سکتی تھی، اور تم نے خوش ہو کر کہا تھا:’’ چلو اچھا ہوا چھُٹّی ہو گئی۔‘‘
ابھی چھوٹابھائی وہیل چیئر لے کر لوٹا بھی نہیں تھا وکیل صاحب کہ تم پر میجر ہارٹ اٹیک نے حملہ کر دیا اور بھابی کے ہاتھوں میں ہی تمھاری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھُٹّی ہو گئی۔
کئی راتوں کی نیند باقی ہے میرے بھائی اب قبر میں سکون سے پوری کر لینا۔ تم نے دنیا میں اتنی ساری تکلیفیں صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیں،جس نے تمھارے تمام گناہوں، خطاؤں کو ایسے جھڑا دیا جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے اور تم اب ایسے ہو گئے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔
وکیل صاحب تمھارے درد کو اس مختصر تحریر میں قید کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تمام لفظوں نے کاغذ پر اتر کر میرے آنسوئوں میں غسل کیا ہے اور ایک دوسرے میں خلط ملط ہو گئے ہیں۔ دیکھو تمھاری درد بھری کہانی پڑھ کر آج قاری بھی رو رہا ہے۔
٭٭٭
بزمِ افسانہ میں
افسانہ’ چھُٹّی‘
(یہ افسانہ بزمِ افسانہ میں 17 مئی 2020 کو پیش ہوا تھا۔)
’بزمِ افسانہ‘ ایک واٹس ایپ افسانہ فورم ہے۔ جو مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی سر پرستی میں افسانے کی ترویج و ترقی کا فعل انجام دے رہا ہے۔ یہاں ایڈمن پینل کی جانب سے روزانہ ایک افسانہ پیش کیا جاتا ہے۔ شامل گروپ اراکین پیش کردہ افسانے پر تبصرے، تجزیے اور اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ زبان و بیان، اسلوب، تکنیک غرض کہ افسانے کے مختلف پہلوؤں پر 23 گھنٹے بات ہوتی ہے۔ آخری ایک گھنٹے میں تخلیق کار اپنے تاثرات پیش کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد دوسرا افسانہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ 19 اپریل 2020 سے جاری ہے۔ گروپ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ جس میں پورے ملک (انڈیا) سے معروف، غیر معروف، سینئر اور جونیئر 257 افسانہ نگار و نقاد شامل ہیں۔ یہاں کئی فکشن کے نقاد موجود ہیں، جو عوام کے مسائل، زبان و قواعد، کرداروں کی نفسیات، اسلوب، حسن و مسرت، جمالیاتی اقدار اور سائنٹفک نقطہء نظر کے تحت افسانے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ دیگر اراکین کی جانب سے سرسری تاثرات بھی مل رہے ہیں۔ اس طرح ایک افسانے پر ترقی پسندی، نفسیاتی، اسلوبیاتی، تاثراتی، سائنٹفک اور جمالیاتی تنقیدی نظریات کے تحت بات ہو رہی ہے۔ بزمِ افسانہ پورے ہندوستان میں، افسانے کا ایک بہترین تنقیدی فورم بن گیا ہے۔ یہاں آسمان ادب کے کئی ستارے اکھٹا ہوئے ہیں۔ گروپ کے ایڈمن پینل میں وسیم عقیل شاہ، طاہر انجم صدیقی، محمد علیم اسماعیل اور اسمعیل گوہر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس گروپ میں محمد علیم اسماعیل کا افسانہ ’’چھُٹّی‘‘ برائے تنقید و تبصرہ پیش ہوا تھا۔’بزمِ افسانہ‘ سے چند منتخب تبصرے ، تجزیے اور تاثرات۔
تعارف:
نوجوان نسل کے تازہ کار افسانہ نگار علیم اسماعیل کا تعلق مہاراشٹر کے علاقے ودربھ کے ایک چھوٹے سے شہر ناندورہ سے ہے۔ آپ نے افسانوں کے ساتھ افسانچے اور چند تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ آپ بہت تیزی سے لکھنے والے تازہ دم تخلیق کار ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ علیم اسماعیل نے کم وقت میں کافی کچھ اچھا لکھ لیا ہے۔ آئے دن آپ کی تحریریں موقر ادبی رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتی ہیں۔ جن میں آجکل، شاعر، بیباک،گلبن،ندائے گل (پاکستان)، ادب سلسلہ،فکر و تحریر، تکمیل، عالمی انوارِ تخلیق، خبر نامہ، زبان و ادب، ہندوستان زبان، فروغِ ادب اور ایسے ہی کئی اہم رسالوں اور جریدوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اخبارات میں انقلاب، اردو ٹائمز، اودھ نامہ، راشٹریہ سہارا،ممبئی اردو نیوز،پندار اور کشمیر عظمیٰ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ابھی چند ہی برس پہلے آپ نے لکھنا شروع کیا تاہم آپ کے دو افسانوی مجموعے بہ نام ’الجھن‘ (2018) اور ’رنجش‘ (2020) میں بل الترتیب منظر عام پر آ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ناندورہ جیسے غیر معروف شہر (ادبی حوالے سے) میں ’فکشن ایسوسی ایشن‘ کلب جیسے ادبی ادارے کا قیام ان کا گراں قدر کارنامہ ہے۔ یہ ادارہ دنیائے ادب میں نہ صرف شہرِ ناندورہ بلکہ پورے ودربھ کی شایان شان ادبی نمائندگی کر رہا ہے۔ زیرِ نظر افسانہ ’چھٹی‘ ان کے دوسرے افسانوی مجموعے ’رنجش‘ سے ماخوذ ہے۔ علیم اسماعیل پیشے سے اردو کے مدرس ہیں اور ضلع بلڈانہ (ریاستِ مہاراشٹر) کی مختلف سرکاری اسکولوں میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح موصوف اردو سے نیٹ اور سیٹ دونوں ہی مقابلہ جاتی طرز کے امتحانات نمایاں نمبرات سے کوالیفائی کر چکے ہیں۔
سلام بن رزاق:
بزم افسانہ کے ساتھیو!
آداب!
کہانی اچھی ہے۔ شعور کی رو کے تحت اکہرے بیانیہ میں کہانی بننا آسان نہیں ہوتا۔ تاہم علیم نے اپنی رواں اور شستہ نثر کے سہارے کہانی کو بچالیا۔
علیم اسماعیل ایک ہونہار، ذہین اور محنتی قلم کار ہیں۔ ان کی تحریروں کا میں بھی مداح ہوں۔ افسانہ ’چھٹی‘ ان کا تازہ افسانہ ہے۔ افسانے میں علیم اسماعیل نے کہیں یہ نہیں بتایا ہے کہ وکیل صاحب افسانہ نگار کے بڑے بھائی تھے۔ لیکن ان کی تحریر سے جھلکتا درد یہ راز فاش کرتا ہے کہ راوی خود افسانہ نگار ہے اور وکیل صاحب افسانہ نگار کے بھائی تھے۔ اس اعتبار سے بڑے بھائی کی موت پر جذبات کے اظہار میں تو افسانہ نگار کامیاب ہے مگر جذبات کا وفور افسانے کی افسانویت کو نگل جاتا ہے اور افسانے پر مضمون یا خاکے کا گمان غالب آنے لگتا ہے? افسانہ لکھتے ہوئے معروضیت لازمی ہے کیوں کہ معروضیت ہی ایسا انکُش ہے جو جذبات کے ہاتھی کو قابو میں کر سکتا ہے۔ ورنہ جذبات کا ریلا افسانہ نگار اور افسانہ دونوں کو غرق کر سکتا ہے۔ معروضی انداز کو جاننے کے لیے منٹو کے افسانے نظریں گاڑ کر پڑھنا چاہیے۔ بیشتر مبصرین نے علیم اسماعیل کے روشن مستقبل کی پیشن گوئی کی ہے، خاکسار بھی ان سے اتفاق رکھتا ہے۔ علیم اسماعیل ابھی لکھنے کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں لیکن ان کی تازگی اور زبان و بیان پر ان کی قدرت حیرت انگیز ہے۔ بسیار نویسی اور سرعت پسندی سے احتراز برتیں تو یہی زبان و بیان کا انداز انھیں بہت دور تک لے جائے گا۔ ان شائاللہ تعالٰی!!
نیک خواہشات اور توقعات کے ساتھ!!!
شکریہ……
سید محمد اشرف:
محمد علیم اسمعیل کا افسانہ چھٹی پڑھا۔ محرومی اور غم و اندوہ کے ایک تجربے یا مشاہدے کو خود کلامی کی تکنیک کے سہارے سوانحی انداز سے لکھنے کی پر خلوص کو شش ہے۔ یہ کوئی کلیہ نہیں لیکن عموماً افسانے میں ’عمل‘ کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے یعنی کچھ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ اس افسانے میں عمل کے ذکر کی کمی کی وجہ سے افسانہ پوری طاقت نہیں پکڑ پاتا۔ وکیل صاحب کے کردار سے ہمدردی تو پیدا ہوتی ہے لیکن ہمدردی کا وہ جذبہ کہانی میں شروع سے آخر تک یکساں رہتا ہے کیونکہ پوری کہانی کا سراغ ابتدا میں ہی دے دیا گیا ہے۔
زبان کے سلسلے میں کچھ زیادہ محتاط رہنا چاہیے تھا۔سن اور تاریخ دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب لکھتے وقت دل کو اچھا نہیں لگ رہا کیوں کہ ممکن ہے ان باتوں سے ایک جواں سال اور با حوصلہ شخص کی دل شکنی ہو رہی ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ افسانہ نگار اپنے اندر بیان کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے اور افسانے میں کوئی تو ایسی چیز ہے جو قاری کو افسانہ نگار کے غم میں دیر تک شریک رکھتی ہے۔ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
محمد علیم اسماعیل کے لیے بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات۔
پروفیسر غضنفر :
افسانے کی کوئی مخصوص تکنیک نہیں ہوتی۔ افسانہ نگار کسی بھی تیکنیک میں کہانی کہہ سکتا ہے۔ ہم اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی کہانی کسی مخصوص ٹیکنیک ہی میں کہے۔ ویسے میرے خیال میں کہانی کہنے کا جو انداز افسانہ ’’چھُٹّی‘‘ میں اپنایا گیا ہے، وہ اس سے ہٹ کر ہے جو انداز عام طور پر افسانوں میں اپنایا جاتا ہے۔ اسی لیے اس کہانی کو پڑھتے ہوئے تھوڑی تازگی کا احساس بھی ہوا۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ وفور، جذبات کے باوجود افسانہ نگار کہانی کہنے کے اس انداز کو آخر تک نبھانے میں کامیاب رہا ہے۔ کہانی کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے۔ مجھے اپنی گرفت میں لینے میں یہ کہانی کامیاب ہوئی ہے۔ اس کے لیے داد اور مبارک باد۔
یہ تو بتا دیا گیا کہ یہ افسانہ بڑے بھائی کی موت پر لکھا گیا تو کسی کو یہ مرثیہ لگ رہا ہے، کوئی اسے نوحہ کہ رہا ہے، کوئی اسے جذباتیت سے پر بتا رہا ہے، لیکن یہ بات اگر نہیں بتائی گئی ہوتی تو کیا تب بھی اسی طرح کے جملے سننے کو ملتے؟ میرا خیال ہے تب ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی راے وہ نہیں ہوتی جو اس وقت نظر آ رہی ہے۔
پروفیسر بیگ احساس:
علیم اسماعیل کا افسانہ ’’چھُٹّی‘‘ پڑھا۔ مجھے اچھا لگا۔ علیم نے دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ اور خون دل میں انگلیاں ڈبو کر یہ افسانہ لکھا ہے۔ جن سے جذباتی تعلق ہوتا ہے وہ خود لکھوا لیتے ہیں۔ ایسے کئی نوجوان ہیں جنھوں نے گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے خود کو ختم کر لیا ہے۔ ایک تو بچنے کی امید نہیں، پیسہ خرچ ہو جانے کا اذیت ناک احساس، نا قابل برداشت تکالیف، ایک ایک عضو کا دھیرے دھیرے بے کا ر ہو جانا، قسطوں میں مرنا آسان نہیں ہوتا۔ علیم نے متوسط گھرانے کے کرب کی سچی تصویر کشی کی ہے۔ ایک بھائی کو اس سے بہتر خراجِ عقیدت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مبارک باد دوں کہ پرسہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ذاتی صدمہ بہترین ادب کی تخلیق میں ممد و معاون ہوتا ہے۔
پروفیسر طارق چھتاری :
آزاد تلازمہء خیال کی تکتیک میں راوی اپنے بھائی کی زندگی کا تجزیہ اس کی موت کے حوالے سے کر رہا ہے۔ کبھی اس سے detach ہوکر تو کبھی جذباتی طور پر اس کی ذات کا حصہ بن کر۔ یادوں کا چشمہ پھوٹتا ہے اور بظاہر غیر مربوط مگر باطنی طور پر نہایت مربوط یادیں شعور کی رو کی طرح اس کے ذہن میں آتی چلی جاتی ہیں۔ راوی کا مرنے والے سے رشتہ اور تکلیفوں کے ساتھ موت کا واقعہ بیان میں جذباتیت پیدا کر دیتا ہے، جو عین فطری ہے۔ اس افسانے کا موضوع شاید ’’صبر‘‘ ہے۔ صبر کرنے میں راوی کو ان واقعات اور خیالات سے مدد ملتی ہے کہ مرنے والے کی زندگی میں آنے والی بے شمار تکلیفوں نے اسے گناہوں سے پاک کر دیا ہے اور اسکی خطائیں اللہ نے معاف کر دی ہیں۔ علاوہ ازیں بھائی کی موت پر صبر کرنے میں وہ واقعات بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں جو اس کے نیک کاموں، اور دوسروں کی مدد کرنے، طرح طرح سے ان کے کام آنے سے متعلق ہیں۔ لہذا اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا بھائی موت کے وقت نو زائیدہ ’’بچے‘‘ کی مانند گناہوں سے پاک ہے۔ لہذا اللہ اس کی مغفرت کرے گا۔ اور اس طرح ’’صبر‘‘ اس کا بنیادی موضوع قرار پا سکتا ہے۔ میری رائے میں 2nd person میں افسانے کا بیان کیا جانا موضوع کے لحاظ سے مناسب تجربہ معلوم ہوتا ہے۔ مردے سے ہم کلام ہونا راوی سے قربت اور وابستگی کا ثبوت بھی ہے۔
ذکیہ مشہدی:
مین اگر کسی افسانے پر کچھ کہنا چاہتی ہوں تو عموماً دوسرے تبصروں کو نہیں دیکھتی ہوں کہ وہ راے پر اثر انداز نہ ہوں لیکن کچھ دیر پہلے موبائل کھولا تو غضنفر صاحب کے نام پر نظر پڑی اور ان کی یہ بات بہت صحیح محسوس ہوئی کہ آپ افسانہ نگار پر کوئی تکنیک لاد نہیں سکتے کہ یوں لکھو، وون نہ لکھو۔ اور ایسے اصول و ضوابط ہیں بھی نہیں جن کی پیروی کرنی لازمی ہو۔ اس لیے افسانہ چھٹی کی تکنیک کا جہاں تک سوال ہے اس پر انگلی اٹھانا (اگر کسی نے اٹھائی ہے تو) مناسب نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تکنیک جو بھی ہو افسانہ موثر ہے یا نہیں۔ تو علیم اسماعیل صاحب تاثر پیدا کرنے میں خاصی بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ کچھ جملوں مین درد کی کاٹ ہے جیسے والد کا جملہ اور آگے کہیں یہ کہ ایک کامیاب وکیل کی لاش علاج کے اخراجات نے غربت کی دہلیز پر لا کر رکھ دی ہے۔ یہ بھی خوبی ہے کہ کہیں میلو ڈرامائی ہاے ہاے نہیں ہے۔ غم کا اظہار مبالغہ آمیز نہیں ہے۔
اب عزیزم کچھ کمزوریاں بھی سن لیجیے۔ میری ذاتی راے میں بھائی کے لیے وکیل صاحب، وکیل صاحب کہ کر ذکر کرنا فطری نہیں ہے۔ ایسا ظاہر بھی نہیں ہوا ہے کہ انھیں افراد خانہ وکیل صاحب ہی کہتے تھے۔ اس سے راوی کے رشتے میں تصنع پیدا ہو رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ نے کہا کہ وہ کمر سے نیچے پیروں تک پتھر ہو گئے تھے۔ پھر وہ ٹہلنے کے لیے کیوں کر اصرار کرتے تھے۔ ایسی صورت میں تو وھیل چیر بھی بعض اوقات کافی نہیں ہوتی۔ اسٹریچر لایا جاتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ درد یا دوسری تکلیف دہ جسمانی کیفیات دماغ کے کمزور ہونے پر محسوس نہ ہو یہ صحیح نہیں۔ دماغ کی کمزوری سے مراد کیا ہے۔ آپ کے حلقے میں کوئی ڈاکٹر ہوں تو دریافت کرلیں۔ یہ بڑی ہی سنگین صورتحال ہوتی ہے جس میں یہ احساسات محسوس نہ کیے جا سکیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ جو انگریزی یا ھندی الفاظ اردو میں تسلیم کیے جا چکے ہیں یا ناگزیر ہیں، جیسے میں نے ابھی اسٹریچر استعمال کیا، انھیں بیشک استعمال کریں لیکن کڈنی اور ایڈمٹ کیا وغیرہ کئی الفاظ آپ نے برتے ہیں ان کے اردو مترادف موجود ہیں۔ ان سے بچے۔
افسانے مین تعزیتی انشائیے کی کیفیت ہے۔ اس کا انگریزی میں بہت دستور ہے، اردو میں بھی پس از مرگ مشاہیر کے لیے خراج عقیدت کے طور پر لکھے گئے ہیں۔ فوری طور پر یاد نہیں آ رہے ہیں۔ بہرکیف آپ کا افسانہ اس سے قریب آگیا ہے۔ پوری طرح تو نہیں مگر ہاں کچھ حد تک۔ باقی اور لوگوں کے تبصرے بھی دیکھ لیں۔ آپ میں مجھے صلاحیت نظر آرہی ہے لکھیے لکھیے اور لکھیے۔
مشتاق احمد نوری:
محمد علیم اسمٰعیل کی ’’چھُٹّی‘‘ پر اتنی ساری باتیں پڑھ کر میں تھوڑا گھبرا گیا کہ اب کہانی پڑھ کر کیا فائدہ جب لوگوں نے اس کے کہانی ہونے سے ہی انکار کردیا ہے۔لیکن ہمت کرکے جو شروع کیا تو کہانی نے مجھے ایسا پکڑا کہ ختم کرکے ہی دم لیا۔ جو کہانی خود کو پڑھوا لے وہ کامیاب ہوتی ہے۔ ہر کہانی اپنا اسلوب لے کر آتی ہے، اور یہ کہانی کار طے کرتا ہے کہ اسے کس طرح بیان کرنی ہے۔ راوی میں، تم یا وہ سے شروع کرے، یہ اس کا حق ہے۔ کہانی یہاں قربت کی وجہ سے تم سے شروع ہوئی جو بہتر ہے۔ 1978 میں نے ایک افسانہ لکھا تھا، جو تم سے شروع ہوا تھا۔ شوہر دفتر سے کافی رات گئے واپس آتا ہے اور بیمار بیوی کو اپنی روداد کے ساتھ اس کی محبت یاد دلاکر باتیں کرتا ہے۔ آخر میں راز کھلتا ہے کہ بیوی مرچکی ہے۔ لیکن علیم کا کمال یہ ہے سب کو معلوم ہے وکیل صاحب مرگئے پھر بھی کہانی زندہ رہ گئی۔ کچھ لوگوں کو واقعات کے بیان میں بے ترتیبی نظر آئی، یہی تو حسن ہے کہانی فلیش بیک تکنیک میں بیان کی گئی ہے۔ اگر ترتیب سے سارے مناظر پیش کئے جاتے تو یہ رپوتاژ ہوجاتی۔میں نے علیم کا نام اس سے قبل نہیں سنا ان کی یہ پہلی کہانی پڑھی جو مجھے تو نہ بے ربط لگی نہ ہی کہانی پن سے محروم۔تنقید کا بنیادی مقصد ہوتا ہے تخلیق سے جمالیات کشید کرنا نہ کہ کرید کر نقائص گنانا یا پھر قلم کار کو ڈکٹیٹ کرنا کہ اسے ایسا کرنا چاہیے ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ لطف اس نکتے کو تلاش کرنے میں ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔میں علیم اسمٰعیل کو یہ بتانا چاہوں گا کہ میں نے ان کی تحریر میں ان کے خوش آئند مستقبل کی دھمک محسوس کی ہے۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری:
’’چھُٹّی‘‘ محمد علیم اسماعیل کا دوسرے مجموعے ’’رنجش‘‘ کا پہلا افسانہ ہے۔ علیم اسماعیل اردو کے تازہ کار افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اردو افسانے کی دنیا میں ابھی چار پانچ برس قبل ہی داخلہ ہوا ہے۔ لہٰذا ان کے افسانوں کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ ’’چھُٹّی‘‘ درد و غم کو اپنے دامن میں سمیٹے ایک اچھی کوشش ہے۔ کہیں کہیں افسانہ نگار خود بھی نظر آ رہا ہے بلکہ کھل جاتا ہے کہ یہ راوی کوئی اور نہیں محمد علیم ہی ہے۔ بہرِ حال یہ محمد علیم اسماعیل کی اچھی کاوش ہے۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ محمد علیم کا افسانہ ہے۔ بہت بڑا اور شہکار افسانہ جیسے الفاظ سے گریز کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک نو وارد کا نقشِ اول ہے۔ علیم کے اندر لگن، نیا کرنے کا جذبہ اور کہانی کی چنگاری ہے۔ مجھے یقین ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ڈاکٹر ایم اے حق:
کہانی کی بنت میں کردار اہم رول ادا کرتا ہے۔ شوکت حیات، مشرف عالم ذوقی، محمد بشیر مالیر کوٹلوی، نورالحسنین، سید احمد قادری، پروفیسر اسلم جمشید پوری، اور اشتیاق سعید جیسے بڑے قلمکاروں نے کردار میں خود کو سمو کر کامیابی کی بلندیاں حاصل کی ہے۔زیر نظر افسانوی مجموعہ ’’رنجش‘‘ کی کہانی ’چھٹی‘ میں علیم اسماعیل نے چھوٹے بھائی کے کردار میں خود کو بالکل ضم کر دیا ہے۔ اور اپنے سارے جذبات و احساسات کے ساتھ بھائی کی محبت کو جنون کی حد تک اپنے وجود پر اوڑھ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قاری کی آنکھیں بھی کہانی کے اختتام پر بھیگ جاتی ہیں۔ اتنی کم عمری میں علیم نے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ لائق ستائش ہے۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں بھی کردار نگاری کا فن، عروج کی جانب گامزن نظر آتا ہے، جیسے افسانہ ’قصور‘ میں ویٹر کا کردار۔
ایم۔ مبین:
محمد علیم اسماعیل میں لکھنے کی صلاحیتیں ہے۔اُنھیں زبان و بیان پر پورا عبور حاصل ہے۔ اُن کے پاس ایک ناقدانہ ذہین ہے۔ ہر کوئی اُن کی ان صلاحیتوں سے واقف ہے اور اُن کے تحریروں سے کافی امیدیں لگائی ہیں۔اُن کا یہ افسانہ ’بزم افسانہ‘ جیسے گروپ میں شامل کیا گیا ہے جہاں بڑے بڑے افسانہ نگار بھی اپنا افسانہ منتخب کرتے کانپنے لگتے ہیں۔ ایسے میں علیم نے اس بزم کے لیے افسانہ منتخب کرنے میں تھوڑی لاپرواہی برتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اُن کے پاس اس سے بھی بہتر افسانے تھے۔علیم نے اس افسانے میں ایک دردمند انسان کی مکمل حیات بیان کر دی ہے۔ مگر اُسے بیان کرنے کے لیے انھوں نے مونولوگ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے، جو کبھی کبھی افسانے میں اتنی متاثر کن نہیں ہوتی ہے۔ بہتر ہوتا وہ اسے افسانے کی طرح ہی بنتے۔ اُن کے پاس وکیل صاحب کے طور پر ایک مضبوط کردار پیش کرنے کا مواقع تھا۔ بحر حال زبان و بیان کی خوبصورتی کے لیے میں اُنھیں مبارکباد دیتا ہوں۔
شبیر احمد:
بڑی پراثر تحریر ہے۔ فضا بندی کا کیا کہنا! ایسا لگتا ہے مصنف نے اس کرب کو جھیلا ہے۔ دل خراش زندگی کا ایک ایک لمحہ جیا ہے۔ ہر سطر سے سوز و گداز ابلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک ایک لفظ درد میں نہا ہے۔ جو دل کے تاروں کو جھنجھوڑ جاتا ہے۔اس پر کہانی کہنے کا یہ انداز۔ معلوم ہوتا ہے، تمام مناظر آنکھوں کے سامنے ابھر آئے ہیں۔ اس افسانے سے ظاہر ہوا کہ محمد علیم اسمعیل صاحب اختراعی ذہن رکھتے ہیں، جو ایک تخلیق کار کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ امید ہے وہ مستقبل میں اس سرمائے کا استعمال اور بھی موثر اور نفع بخش انداز میں کریں گے۔ خوش باش۔ اللہ کرے ہو زور قلم اور زیادہ۔
’’میں نے ان (علیم اسمعیل) کی تحریر میں خوش آئند مستقبل کی دھمک محسوس کی ہے۔‘‘ کیا کہنے محترم مشتاق احمد نوری صاحب۔ اس سے بہتر رائے اس کہانی کے متعلق ہو ہی نہیں سکتی۔ کہانی کار اور تبصرہ نگار دونوں لائق ستائش ہیں، خوش باش۔
معین الدین عثمانی:
چھٹی جس کا نام رخصت یا پھر ڈسچارج بھی ہو سکتا تھا۔ یہ علیم اسماعیل کی انسانی رشتوں پر مبنی فریم سے ہٹ کر لکھی گی ایک موثر کہانی ہے۔ جس میں مطالعاتی وصف ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ دراصل ہم اکثر روایتوں کی پاسداری ہی میں عافیت سمجھتے ہیں جبکہ بعض دفعہ روایت شکنی بھی حسن کے اضافے کا باعث بن جاتی ہے۔ بس ذرا حوصلہ اور ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی جرات چاہیے۔ علیم نے اپنے ابتدائی ایام ہی میں یہ جرات رندانہ کی سعی فرمائی ہے۔ جس کے لے داد ہی دینا چاہیے کہ،…..
رفتہ رفتہ آجاتا ہے اظہار جذبات کا ڈھنگ
تازہ تازہ درد اٹھا ہے پہلا پہلا رونا ہے
علیم کے لیے روشن ادبی مستقبل کی دعائیں۔
احمد صغیر:
علیم اسماعیل کو میں نے پہلی بار پڑھا۔ کہانی کہنے کا ہنر انہیں آتا ہے بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک اچھا افسانہ نگار ان کے اندر سے جھانک رہا ہے۔ اگر وہ باہر آ گیا تو مستقبل ان کا ہے۔
محمد سراج عظیم:
میں نے پہلی بار ’بزمِ افسانہ‘ کے توسط سے محمد علیم اسماعیل کا افسانہ پڑھا۔ اس سے پہلے ان کا کوئی افسانہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ بہرِحال علیم کے سلسلے میں ایک بات پورے وثیق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی تحریر سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم مستقبل کا ایک بہترین مصنف دیکھ رہے ہیں۔ اب اس کو میں افسانہ کہوں یا انتہائی دلگداز تاثرات جو ان کا ذاتی درد لگتا ہے کیون کہ بیانیہ میں جن جزئیات کا ذکر کیا گیا ہے وہ کبھی بھی اج تک میری نظروں سے اتنے منظم طریقے سے نہیں گزرے۔ جزئیات کے بغیر منظر نگاری ممکن نہیں۔ چھوٹی چھوٹی دیٹیل اور اتنی صحیح سیکیوئنس میں افسانہ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہ علیم صاحب کا ذاتی یا کسی رشتے دار یا دوست کا واقعہ ہے جسکو انھوں نے بہت رقیق اور دلسوز انداز میں قلمبند کیا ہے۔ علیم اپنی تحریر سے قاری کے اوپر کلائمکس تک گرفت قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ قلم کار کی تحریر اس کی اپنی ذہنی کیفیت، گردو پیش، ذاتی جذبات، کہانی، محرکات، تخیلات پر منحصر ہوتی ہے۔ افسانہ ’’چھُٹّی‘‘ بہت خوبصورت اور پر تاثر افسانہ جس نے تھوڑی سی دیر کے لیے ملول کر دیا، یہی فاضل قلم کار کی کامیابی ہے۔ میں علیم اسماعیل کے روشن مستق میں اس بات سے متفق ہوں کہ قلم کار کی تحریر اس کی اپنی ذہنی کیفیت، گردو پیش، ذاتی جذبات، کہانی، محرکات، تخیلات پر منحصر ہوتی ہے۔ افسانہ ’’چھُٹّی‘‘ بہت خوبصورت اور پر تاثر افسانہ جس نے تھوڑی سی دیر کے لیے ملول کر دیا، یہی فاضل قلم کار کی کامیابی ہے۔ میں علیم اسماعیل کے روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی:
محمد علیم اسماعیل کے افسانے / افسانچے فیس بک اور اخبارات و رسائل میں نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ چند افسانچے پسند بھی آئے ہیں۔ پیش نظر افسانے کی کہانی پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ ان کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی وفات کی جزبات انگیز نوحہ خوانی ہے جو کہ تخلیقی پیکر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اور واقعی افسانہ نگار نے بھائی کی جدائی کے درد و کرب کو لفظوں میں ایسے پیش کیا ہے کہ قاری کا دل بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے اور ابا کی بھرائی ہوئی آواز ’’طبعیت خراب ہے یا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘
ایک داستان پر بھاری ہے۔ میں سوچتا ہوں اس وقت ابّا اور گھر والوں کی کیا حالت رہی ہوگی۔
یہ تو رہا موضوعاتی بیان اب اگر فنی نظر سے دیکھیں گے تو افسانہ پہلے کچھ حد تک کہانی کی صورت اختیار کر گیا ہے تاہم بعد میں جذبات کا غلبہ پلاٹ پر اتنا اثر انداز ہوا کہ پلاٹ منتشر ہو کر اطلاعاتی پیغام جیسا بن گیا ہے جس میں بھائی کی زندگی، پیشہ اور روابط کی تفصیل دی گئی ہے۔ البتہ بچھڑنے کا کرب ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
انور مرزا:
افسانہ بیان کرنے کی تکنیک اچھی ہے۔ ?وکیل صاحب کی کردار نگاری خوب ہے۔ کرب ناک حالات سے دوچار انسان کی زندگی کے آخری مگر پر امید دنوں کی روداد انتہائی جذباتی انداز میں پیش کی گئی ہے۔ خاص طور پراسپتال سے گھر لوٹ آنے کی فطری خواہش۔ بیانیہ میں روانی خوب ہے۔میں سمجھتا ہوں افسانہ جیسا بھی ہو، مگر قاری کو اپنے ساتھ لے چلنے میں اور آبدیدہ کر دینے میں تو کامیاب ہے۔ مبارکباد
قیوم اثر:
ساحر لدھیانوی کے گیت کے دو بند یاد آگئے
چل مسافر تیری منزل دور ہے تو کیا ہوا
آج تیرے پاؤں تھک کر چور ہے تو کیا ہوا
چل مسافر چل
زندگی میں جو نہ ہارے وہ سنوارے زندگی
ٹھوکریں کھاکر ہی بنتا آدمی ہے آدمی
آزمائش کا یہی دستور ہے تو کیا ہوا
چل مسافر چل
یہ دھنواں یہ دھندلی راہیں یہ اندھیروں کی گھٹن
ان اندھیروں سے ہی لپٹی ہے اجالے کی کرن
وہ کرن گر آج تک بے نور ہے تو کیا ہو
چل مسافر چل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیرے دھیرے سوچ و فکر کے ملن سے افسانیکی یاترا طے ہوجائے گی۔ مجھے کہنا یہ ہیکہ علیم کے یہاں افسانے پر پکڑ ہے اور وہ اسیدرست استعمأل کرتیہیں۔مسلسل پریکٹس سے یہ عمل بھاری نہیں پڑتا۔یہ الگ بات ہے کہ افسانہ کافی طویل ہو گیا۔میں یہ نہیں کہتا کہ طوالت نہیں ہونی چاہیے مجھے کہنایہ ہے کہ ضرورت کے مطابق ہی اسے کام میں لایا جا?۔وکیل کی موت کا منظر نامہ خیالات کو قابو میں نہ رکھ پایا اور قلم چلتا رہا۔ایک کرب کے اظہار کے لیے علیم کچھ زیادہ بول گئے۔غم کے بادل کچھ اس طرح چھائے کہ افسانہ نگار یہ طے کر ہی نہیں پایا آخر اجالے کی کرن کا گزر کہاں سے ہو۔چند جملے افسانے سے۔
’’جس نے تمھارے تمام گناہوں، خطاؤں کو ایسے جھڑا دیا جیسے پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے اور تم اب ایسے ہو گئے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو۔‘‘
افسانے میں یہ عجیب تحریر شامل ہو گئی ہے۔ افسانہ نگار کب سے غیب کی باتیں جاننے لگے۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ کہیں سے کوئی فتوٰی آ گیا تو۔۔۔۔!
لیکن درست املہ، چست زبان کے ساتھ اتنی دور نکل آنا کوئی انہونی نہیں۔ علیم سوچتے ہیں۔ انجانے میں چوک ہو سکتی ہے۔ پھر قلم رواں دواں ہوتا ہے۔ مستقبل میں بہتر کی امید کے ساتھ۔۔۔تہہ دل سے مبارک باد۔
طاہر انجم صدیقی:
محمد علیم اسماعیل صاحب کا افسانہ ’چھٹی‘ کرشن چندر کے افسانہ ’کالوبھنگی‘ کی سی تکنیک پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ اس میں وہ کالو بھنگی کی زندگی کی بے وقعتی پر لکھتے چلے جاتے ہیں اور محمد علیم اسماعیل صاحب راوی کی زبانی اپنے بھائی کی بیماری اور موت کے بارے میں لکھتے جاتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اس اس افسانے میں کامیاب ہیں۔ بس ایک بھائی کا بار بار وکیل صاحب وکیل صاحب بولتے چلے جانا ذرا بھلا نہیں لگتا۔ اپنے افسانے میں جذبات نگاری میں علیم صاحب کامیاب ہیں۔ نیز افسانے کے آخری پیراگراف میں راوی کی زبان سے ذ