اب تو خیر وہ کیا ہی جیتی ہو گی اور جو بد قسمتی سے جیتی بھی ہوئی تو کوئی ہزار بار مر کر بھی نہ مانے گا کہ یہ پھونس بڑھیا کبھی اپسرا دیکھتی تھی۔
نہیں !! اب تو کمپیوٹر میں یہ سہولت موجود ہے کہ کسی بھی تصویر کو سمے کی دھارا موڑ کر وقت کے جس پل میں چاہو مجسم کر لو۔ سائنس کے بھی کیسے کیسے کرشمے ہیں، پر سائنس کی جادوگری بھی بھلا کب سب کی دسترس میں ؟
ایک مورکھ یہ پیسہ ہی ہے کہ جس کے طلسم ہوش ربائی سے ہر دور کے دھنوان فیض یاب رہے اور خواہشات کا حصول ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ٹھہرا۔
تذکرہ اس چندرمکھی کا ہے، جس کے اصلی نام م سے میں نا آشنا تھی، مگر اس مہتاب جبیں پر چندرمکھی کے علاؤہ دوسرا کوئی نام سجتا بھی تو نہیں۔ وہ میرے چہکتے کھلنڈرے بچپن کا محبوب کردار تھی۔ بچپن کی معصومیت سے دل کی لوح روشن تھی سو کسی بھی سبب جو اچھا لگا سو لگا۔ نہ اچھا لگنے کے لیے کسی توجیہ کی ضرورت اور نہ ہی برا لگنے کے لیے کوئی کلیہ یا سانچہ درکار۔ جس پر دل آ گیا وہی سب سے پیارا اور انوکھا ۔
کون ہے؟
کیا ہے؟
کس طبقے سے ہے؟
ان تمام سوالات سے بے پروا، زمانے کے چلن اور ان کے مروجہ قواعد و ضوابط کی بندشوں سے قطعی آزاد ۔ شیشے جیسے بے ریا دل میں جو عکس بھی جھلکا وہی شیتل۔
وہ چندر مکھی میرے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ” امیر منزل ” کی مکین تھی۔ اس کے پڑوس میں میری جگری سہیلی کا گھر تھا جس کی چھت پر دوپہر سے شام ڈھلے تک ہم دونوں ادھم مچائے رہتے۔ کبھی پہل دوج تو کبھی رسی کودنا یا خانے ٹپنا اور کبھی کبھار ہنڈ کلیاں سجا کر پل کے پل میں گھر گرہستی بسا لینا۔ بچپن کی سب سے بڑی خوبی ہی آسانی اور قناعت، کہ جو جیسا ہے اسے ویسے ہی قبول کر لیا جاتا ۔ اس دور میں نہ تمناؤں کا فشار خون میں جوار بھاٹا اٹھاتا اور نہ ہی
لا حاصل کے ابتلا کے آزار میں بدن پھنکتا۔ مست الست، بے پروا بچپن۔
چندر مکھی کی ایک کھڑکی سہیلی کی چھت کی طرف کھلتی تھی، جہاں ایک خاص زاویہ سے اس کے گھر کا محدود اندرونی حصہ نظروں کی زد میں رہتا تھا۔ چھت کے اسی کونے سے اس ماہ جبیں کو گھر کے کاموں میں منہمک تیز تیز چلت پھرت کرتے دیکھنا میرا دل پسند مشغلہ کہ میں اس کے ملیح حسن کی اثیر تھی۔ کبھی وہ بھات ابالنے کے لیے چاول پھٹک رہی ہوتی تو کبھی ہسوئے پر مچھلی کے روپہلی چھلکے صاف کر کے نفاست سے اس کے ٹکرے بناتی نظر آتی۔ اس کی ہر ادا میں ایک شان بے نیازی اور عجیب سی تمکنت تھی۔ میں کہ شاید پیدائشی حسن پرست، اس کے ساحرانہ حسن سے مسحور ہوئی جاتی تھی۔ جلدی ہی اس نے میری تاکا جھانکی پکڑ لی پھر اکثر کھڑکی کی سلاخیں تھامے، اپنی گنگناتی آواز میں بات چیت کرتی۔ بالکل سادہ سی باتیں، کس جماعت میں ہو؟ گھر میں کون کون ہے؟ کھانے میں کیا پسند ہے؟ جہاں اس کے سریلے گلے میں موسیقی کا فطری رچاؤ تھا وہیں اس کی رنگت میں بڑی جاذبیت و ملاحت بھی، شاید وہ سلہٹ یا فرید پور کی رہنے والی تھی۔ اس کے ہاتھ ہمیشہ مہندی سے رچے رہتے تھے، البتہ مہندی کا رنگ قدرے پھیکا ہوتا، جیسے کسی نے بے دلی سے مہندی رچنے سے پہلے ہی جھاڑ دی ہو۔ لمبے، گھنیرے سیدھے، گھٹنوں تک آتے بالوں کو وہ عموماً کھلا رکھتی یا پھر سادے سے جوڑے کی شکل میں لپیٹ لیتی۔ الٹے آنچل کی ساڑی کے پلو میں چابی کا گچھا کندھے پہ ڈالے وہ کبھی شدید گھریلو لگتی تو کبھی گم شدہ۔ اسے دیکھ کر یہ خیال شدت سے آتا تھا کہ قدرت کسی کسی پر بے اندازہ مہربان ہوتی ہے۔ وہ زہرہ تو روپ سروپ کی دیوی تھی، حسن کے کل میراث کی مالکن۔
دن کے وقت عام سے حلیے میں بھی وہ من موہنی لگتی پر شام میں تو اس کی دھج ہی نرالی ہوتی تھی۔ شام میں وہ دلہنوں کی طرح سولہ سنگھار کرتی اور پور پور حسن کی آنچ سے لو دیتی محسوس ہوتی۔ خوب صورت نازک پیر جہاں آلتا کا رنگ کھلتا، بچھوا چمکتا اور پائل چھنکتی۔ ہاتھوں میں کانچ کی لال ترشی چوڑیاں اور ان کے پیچھے ہاتھی دانت کا سفید کڑا اور دوسرے ہاتھ میں بھاری بنگالی کڑے۔ مومی انگلیاں پکھراج اور یاقوت کی انگوٹھیوں سے مرصع دمکتی۔ گلے میں چندن ہار ، کنٹھ ملا تو کبھی بیجو یا مٹر مالا، کانوں میں جھمکی یا بالی پتا۔ ساڑی وہ ہمیشہ تیز رنگ کی سادی زمین پر چوڑے سہنرے باڈر والی پہنتی اور ہمیں اپنی چھب دیکھا کر کھڑکی بند کر دیتی۔ اس تمام تر
ہار سنگھار کے باوجود جانے کیوں اس سمے وہ
بے دم و بے رنگ بالکل پھیکی پھیکی سی لگتی۔ اس کی آنکھوں میں گھائل ہرنی سا واضح کرب ہوتا۔ جانے شامیں اس کے لیے اتنی وحشت خیز کیوں ہوتی تھیں؟
میں اس سے پوچھتی بھی کہ تم مغرب کے قریب کھڑکی کیوں بند کر دیتی ہو؟
کہتی، اس سمے ہوا تیز اور بہت اداس ہوتی ہے نا اس لیے۔
وہ کبھی کبھار اخبار میں لپیٹ کر میٹھائی یا کوئی پھل کھڑکی سے ہماری طرف اچھال دیتی اور ہمارے عیش ہو جایا کرتے تھے۔
مجھے اس کے میاں کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا اور میں نے تصور میں ایک جوان رعنا کو اس کے میاں کے پیکر میں ڈھال لیا تھا۔
ان دنوں ڈھاکہ میں نیا نیا ٹی وی آیا تھا۔ ہم بچوں نے ٹی وی کا چرچا بہت سنا تھا پر اس کے درشن نہیں کیے تھے۔ سب ہی بچے اپنے باپوں سے لاڈ کرتے ہوئے ٹی وی کی فرمائش کرتے ۔ میرے گھر بھی روز یہی وظیفہ رہتا اور بابا صاحب بھی خوش دلی سے ٹی وی کی فرمائش کو آج کل پر ٹال دیتے۔ ایک دن اس پری پیکر نے اپنے گھر جادوئی ڈبے کی آمد کی اطلاع دی۔ ہم دونوں سہیلیاں خوشی سے چیخ پڑیں اور اس کے سر ہو گئ کہ ہمیں اپنے گھر آنے کی اجازت دو تاکہ ہم دیکھیں تو سہی کہ آخر ٹی وی ہوتا کیسا ہے؟
تھوڑی سی رد و کد کے بعد اس حسن آرا نے ہامی بھر لی اور ہم دونوں نے خوشی سے بھاگتے ہوئے گویا ایک ہی سانس میں اس کے گھر کی تمام سیڑھیاں طے کر لیں۔ اس کے گھر اور ٹی وی کا پہلی بار درشن کیا اور دونوں ہی کو دیکھ کر حیرت سے سنگی مجسمے میں ڈھل گئے۔ پر تعیش سامان سے آراستہ چندرمکھی کا گھر، ویسا گھر ہم میں سے کسی کے پاس نہیں تھا بلکہ جو سچ پوچھو تو ویسا ٹھاٹھ باٹ پہلی بار دیکھا تھا۔
ابھی ہم دونوں سہیلیاں قیمتی نرم و ملائم قالین پر بیٹھے دھڑکتے دل اور کھلے منہ کے ساتھ دل کش اناؤنسر ” معصومہ بیگم” سے اس دن پیش کی جانے والی نشریات کی تفصیل ہی سن رہے تھے کہ اچانک ایک کبڑا، گنجا، بد ہیئت بوڑھا شخص، کاغذی ٹھونگوں میں میٹھائی اور پھلوں سے لدا پھدا آن پہنچا۔ اسے دیکھتے ہی سجی بنی چندر مکھی بالکل بے رنگ و بے جان ہو گئی اور ہم دونوں سہیلیوں کو جلدی سے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا بس اب تم لوگ جاؤ۔
بھاری دل سے سیڑھیوں کے قریب اپنی اسفنج کی چپلیں پہنتے ہوئے میں نے آخری بار چندر مکھی کو دیکھا جیسے وہ گدھ گھسیٹتے ہوئے خواب گاہ کی طرف لے جا رہا تھا۔ چندرمکھی کی آنکھوں میں قربان ہوتے جانور کی سی دہشت اور بےبسی تھی۔
پھر چھت کی وہ کھڑکی کبھی نہیں کھلی۔
دولت بڑی ہٹیلی، ظالم سب خرید لیتی ہے۔ چاہے وہ ایمان و جان ہی کیوں نہ ہو بلکہ بیشتر تو خواب و پیمان بھی۔ چندر مکھی بھی شاید کسی ساہو کار کا بیاج یا کسی مہاجن کا قرض تھی۔