فون کی گھنٹی بجی تو ماں نے گڑیا سے کہا
"فون اٹھاؤ دیکھو کہ فون پر کون ہے۔
فون سننے کے بعد شام کی چائے بناتی ماں کے پاس گڑیا دوڑتی آئی۔ مما مما مما وہ فون پر کوئی کہہ رہا ہے رضوان بھائی ہسپتال میں ہیں۔
پہلے تو ماں کو اپنے کانوں پر یقین نہ ہوا۔ جب گڑیا سے دوبارہ پوچھ کر تصدیق کی تو پھر تیزی سے ماں نے redial کے بٹن کو دبایا۔ کچھ دیر میں فون پر کوئی بزرگ مخاطب تھے۔
بزرگ: اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
خاتون : وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بزرگ کی آواز سنائی دینے پر خاتون نے سوال کیا کہ "آپ کون بات کر رہے ہیں؟
کیا آپ نے ابھی فون کرکے میرے بیٹے کا بتایا تھا؟ کہاں ہے میرا رضوان اور اسے کیا ہوا ہے؟ چند لمحوں میں کئی سوال پوچھ ڈالے۔
بزرگ: جی میں نے ہی فون کرکے اطلاع دی تھی۔ بہن آرام اور تحمل سے بات کریں۔ مجھے تیز سننے کی عادت نہیں۔
دراصل آپ کا بیٹا ہمیں سڑک حادثے پر ملا ۔ ہم اسے ہسپتال لائے ہیں۔ آپ جناح ہسپتال ایمرجنسی وارڈ آجائیں۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد خاتون اپنے خاوند کے ساتھ ہسپتال میں دیوانگی سے اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھی۔
ایک بیڈ پر اس کا بیٹا آکسیجن سلنڈر کی مدد سے سانس لے رہا تھا۔ ماں نے دیکھتے ہی غم کے مارے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
اتنے میں وہ بزرگ دیکھ کر پہچان گئے، قریب آئے اور کہا۔ آپ میں سے کوئی میرے ساتھ آئے۔ کیونکہ ڈاکٹر بچے کا آپریشن کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ پیسے میں نے جمع کروا دیے ہیں مگر ضروری کاغذات پر آپ کے دستخط چاہیئے۔
یہ سنتے ہی رضوان کی ماں نے ایک بار پھر سوال کا بوجھ اس بزرگ پر ڈالا۔
بزرگ نے معزرت کی کہ دیکھو بیٹی ابھی تفصیل کا وقت نہیں ہے۔ ہاں مختصر اتنا پتا ہے کچھ تیز رفتار موٹر سائیکل لڑکوں کی ٹکر سے یہ گر کر فٹ پاتھ پر جا ٹکرایا، جس کی وجہ سے شدید زخمی ہو گیا۔ حادثے کی وجہ بننے والے لڑکے جائے وقوع سے بھاگ گئے۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اندورنی چوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے آپریشن کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔
رضوان کے والد متعلقہ کاؤنٹر پر پہنچ کر کاغذی کاروائی مکمل کرانے میں مصروف ہوگئے۔
دوسری طرف ڈاکٹر رضوان کی والدہ کے قریب آئے اور انہیں تسلی دی کہ بہن آپ رونے کی بجائے خون کا بندوست کرائیں۔ آپ کے بچے کا خون نایاب ہے۔
عزیز و اقارب کو اطلاع دے کر بلایا گیا۔
تمام رشتے دار اکٹھے تھے۔ کسی کا خون رضوان کے لیے مفید نہیں تھا۔ شاید خدا کی رضا اسی میں تھی۔
سارے انتظامات، رابطے اور اچھے تعلقات ناکام ہو چکے تھے۔
رضوان 16 گھنٹے موت سے جنگ کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا۔
رضوان کی والدہ بیٹے کے غسل کے بعد جب لان میں جانے لگی تو اس نے موٹر سائیکل کسی کو لاتے دیکھا۔ فورا اس کی طرف لپکی۔
موٹر سائیکل پر ایک شاپر لٹکا تھا۔ جس میں پگھلی ہوئی آئسکریم تھی۔
رضوان کی والدہ یہ سب دیکھ کر ایک بار پھر رونے لگی۔ اسے وہ منظر یاد آرہا تھا کہ میرے لال نے کتنے پیار سے کہا تھا مما آج عید کا دن ہے میں اپنی عیدی میں سے آپ کو آئسکریم کھلاؤں گا۔
جبکہ میں نے تو اسے روکا بھی کہ شام کو لے آنا ابھی ہم اچار گوشت مل کر کھاتے ہیں۔ رضوان کے آخری الفاظ تھے کہ مما آپ میز پر کھانا لگائیں میں ابھی واپس آیا۔
گڑیا ماں کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئی۔ مما بھائی کو کیا ہوا ہے؟ سب کیوں رو رہے ہیں؟
سات سالہ گڑیا کو حقیقت سے دور رکھا گیا تھا۔ ہسپتال جانے سے پہلے بھی اسے کہا گیا تھا کہ آپ کے بھائی کے سر میں چوٹ لگی ہے ہم پٹی کروا کر ابھی واپس لاتے ہیں۔ مگر پٹی تو اب رضوان کے سر پر بندھی پڑی تھی۔ اور گڑیا ماں سے پوچھ رہی تھی مما یہ بھائی کے سر پر پٹی کیوں ہے؟ میں بھائی کو دیکھ لوں؟ یہ کہتے ہی اس نے رضوان کے قریب ہوکر بھیا بھیا بھیا کہہ کر پکارا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔
اس گڑیا کو یہ خبر نہیں تھی کہ جو بھائی اس کے ساتھ دن رات کھیلتا تھا۔ اب نہیں کھیلے گا۔
تین ماہ بعد گھر کی گھنٹی بجی۔ گڑیا دروازے پر گئی تو ایک خاتون اپنے بیٹے کے ہمراہ شرمندہ کھڑی تھیں۔
خاتون: بیٹا آپ کی امی سے ملنا ہے۔ کیا میں اندر آجاؤں؟
گڑیا: نہیں میری مما بہت بیمار ہیں اور ابھی دوائی کھا کر سوئی ہیں۔
خاتون: بیٹا آپ اپنی امی سے پوچھ کر آجائیں مجھے ان سے لازمی ملنا ہے۔
گڑیا دروازہ بند کرکے چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد گڑیا دروازے پر آئی اور خاتون کو اپنے ساتھ اندر لے گئی۔
گڑیا خاتون کو اپنے ماں کے پاس آرام گاہ میں لے گئی۔ خاتون کو دیکھتے ہی گڑیا کی ماں جلدی جلدی اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
جی فرمائیں بہن، معزرت بیٹے کی موت کے بعد میں بستر تک ہی محدود ہو گئی ہوں۔ دروازے تک آنے کی ہمت نہیں ہے۔
خاتون بولتے ہی رو پڑی۔ بہن میں آپ کے بیٹے کا مجرم لے کر آئی ہوں۔ جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا تھا۔ دراصل مجھے اسی دن ہی پتا چل گیا تھا۔ لیکن جب میں معافی کی غرض سے اپنے بیٹے کو ہسپتال لے کر پہنچی تو آپ سے نہیں مل پائی۔ اتنے مہینوں بعد آپ کے گھر کا پتا ملا ہے۔
میرا بیٹا آپ کے سامنے ہے آپ جو سزا دینا چاہیں بیشک دیں لیکن اس کی غلطی معاف بھی کر دیں۔
گڑیا کی ماں کو ایک بار پھر رضوان کا آخری وقت یاد آ گیا کہ کس طرح اس نے خود سے بیٹے کو جدا کیا۔
گڑیا کی والدہ نے لمبی آہ لینے بعد کہا بہن میں کیا اور کیسے سزا دے دوں؟ میرا بیٹا رضوان تو اب واپس نہیں آسکتا۔ پھر سزا کا کیا فائدہ ہوگا؟ میں نے اسی دن معاف کر دیا تھا بلکہ یوں سمجھ لیں کہ قاتل کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔
خاتون: بہن مجھے اس درد کا احساس ہے کہ کیوں کہ میں اپنے دو بیٹے سڑک حادثے کی وجہ سے کھو چکی ہوں۔ یہ میرا سب سے چھوٹا اور آخری بیٹا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کی یا کسی کی بدعا سے یہ بھی مجھ سے چھین لیا جائے۔ یہ کہتے ہی وہ دوبارہ رو پڑی۔
گڑیا کی والدہ: اللہ آپ کے بیٹے کو لمبی عمر عطا فرمائیں۔ میں کوئی بدعا نہیں دیتی۔ آپ بے فکر ہو کر جائیں۔
خاتون: آپ بہت نیک اور صابر عورت ہیں۔ مجھ پر ایک اور احسان کر دیں۔ میں کبھی کبھی آپ کی خدمت کرنے آیا کروں گی مجھے منع مت کیجیے گا۔ میرے بیٹے کی غلطی کی وجہ سے آپ کا چاند سا بیٹا اللہ پاک کے پاس گیا۔ اور آپ بیمار پڑ گئی ہیں۔ جب تک حیات ہوں میں اپنے بیٹے کی غلطی کا ازالہ کرتی رہوں گی۔ شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔
اب دونوں خواتین گلے لگ چکی تھیں۔ اور ایک دوسرے کو دلاسا دے رہی تھیں۔ شاید ایک دوسرے کا غم خود کے دکھ سے کئی زیادہ بڑا محسوس ہو رہا تھا۔
اللہ کبھی کسی کا کو جوان اولاد کی موت کا دکھ نہ دکھائے۔ آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...