’’پوسٹ مارٹم رپورٹ کس نے غائب کری؟‘‘
’’جب مرنے والی ہی نہیں رہی ہے تو پھر ان رپورٹوں کو اب کیا کرنا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا۔
ارے گدھے، یہ آسان فہم ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہی تو پتہ چلتا ہے کہ موت کن حالات میں ہوئی۔ مارنے والے کتنے تھے۔ کب مری، زہر دیا گیا یا گڑ کھلوا کر مارا؟ گلا دبایا جائے تو پھیپھڑے پھٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سب حساب نکال لیتے ہیں۔ آخر کو وہ ڈاکٹر ہیں کوئی مذاق تھوڑی ہے۔
’’مگروہ رپورٹ اب کہاں، کس کے پاس ہوگی؟‘‘
’’یہی تو مسئلہ ہے۔ رپورٹ تو ڈاکڑوں نے یقیناً لکھی ہو گی مگر قاتلوں نے ہی کہیں دبا رکھی ہے۔‘‘
’’لاش میں کیڑے پڑ چکے تھے، تونے دیکھی تھی؟‘‘
’’نہیں کیڑے تو نہیں پڑے تھے البتہ چہرہ مسخ شدہ تھا۔ ایک بازو بھی کٹا ہوا تھا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اسی کٹے ہوئے بازو سے خون زیادہ مقدار میں رِسنے سے موت واقع ہوگئی ہو گی۔ اخبار والے اپنی مرضی کی خبریں لے آتے ہیں، کئی بار ان کی مرضی کسی اور کی مرضی کے تابع بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
یہ کوئی بیوہ سے نکاح والا معاملہ نہ تھا کہ خوشی کم کم ہی ہوتی۔ قدرت نےاچانک ملا دیا تو پھر سب معاملات بھی اسی کے سپرد کر کے دونوں ایک ہونے والے تھے۔ مرا ہوا بھول جاتا ہے مگر تعزیت کے لیے آنے والا کبھی نہیں بھولتا۔
’’کون کون تعزیت کے لیے آئے تھے؟‘‘
’’میں بھول چکا۔ تم بھی بھول گئے کیا ؟‘‘
ہاں! میں اس حادثے کے بعد کچھ کچھ بھول گیا کہ آخر ہوا کیا تھا؟۔ بس اتنا یاد آتا ہے کہ ایک دور پارکے رشتے دار نے، جس کو وہ بھی اپنا دور پار کا رشتے دار کہتی تھی، ہمارے درمیان آگیا تھا۔ اسی کم بخت نے یہ سب کچھ کر دیا مگر میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی درست طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں آؤں گا اور وہ رپورٹ کسی کم بخت نے چھپائی ہوئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں چھپائی ہے؟
سیانےتو کہتے ہیں عشق، مشک اور قتل کبھی چھپ نہیں سکتے۔ اس قتل کے اسباب اب تک تو ظاہر ہو ہی جانے چاہیئں۔
ویسے دادی ماں کہتی تھیں اگر کسی گھر میں چاند کی آٹھ تاریخ کو فوتیدگی ہو جائے تو اس خاندان میں پوری سولہ اموات ہوتی ہیں۔ میں ایسی باتوں پر ہنستا تھا۔ اور پھر علاج بھی دادو بتاتی تھیں۔ مردے کے ساتھ جنازہ گاہ اور پھر قبرستان تک اپنے ہی گھر سے لیے رایا سرسوں کےثابت دانے گراتے جائیں اور قبر میں دفنانے کے بعد خالی چارپائی کے پیچھے چل کر، گھر واپسی تک دانے گرانے کا یہ عمل مت دہرائیں۔ پھر مزید ایسی اموات رک جاتی ہیں ۔ دوسری صورت میں چاند کی آٹھ تاریخ کو مرنے والے کو اگلے دن نوتاریخ کو دفن کریں۔
اور جب وہ وقت آیا، ہمیں دادو کے اس فامولا پر عمل درآمد کرنے کا یاد ہی نہ رہا، سب کچھ بھول گیا۔
’’یہ جگر اور مثانے کی گرمی ہے۔ لوگ ڈاکڑی علاج کراتے ہیں جو گرمی کو کچھ اور بڑھا دیتے ہیں۔ بتاو حکیم اب کیا کرے؟‘‘
اب تو بی بی سے زیادہ بوب بڑھ چکے ہیں ۔
اللہ ہی اللہ وو
ہادی اللہ وو۔"
غور سے سنو! "مرد ماچس کی تیلی مگر عورت استری ہوتی ہے"۔
مطلب کیا ہے آپ کا؟
’’تیلی کا مصالحہ بھڑک کر روشن ہوتا ہے اور جلد ہی تیلی جلنا شروع ہو کر ختم بھی ہو جاتی ہے مگر استری دیر سے گرم اور توقف سے ہی ٹھنڈی بھی ہوتی ہے۔‘‘
’’اور کئی بار ماچس کی تیلی خالی دھواں دے کر بھی تو بس کر جاتی ہے، بھڑکنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس کا کیا؟‘‘
’’دیکھو برخوردار! ماچس تو ماچس ہی رہتی ہے، اگر اسے گیلا ہونے اور سیلن زدہ ہونے سے بچا لیا جائے۔ ورنہ تو ہم نے اس طولِ عمر میں کیا کیا نہیں دیکھا۔ بعضے مرد ہونے کا سارا زور اور احساس اپنی مونچھوں پر ہی ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ وقت آنے پر تمہاری اسی سیلن زدہ تیلی کی طرح ہلکا سا دُھواں دے کر ٹُھس ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’جی، آپ کے سمجھانے سے اب بات کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔‘‘
’’ کاکا! لوگ یہیں سے مار کھا جاتے ہیں۔ اس دوا کوایک تولہ خالص مکھن کے ساتھ صرف ایک ککھ کھانا ہے۔‘‘
اللہ اللہ وو۔
ہادی اللہ وو۔
دوا لے کر خوشی خوشی گلی میں چلتے ہوئے میں سامنے سے آنے والی لڑکی سے جا ٹکرایا، حواس بحال ہوئے تو وہ میرے سینے سے لگی کھڑی تھی۔ آنکھیں چار ہوئیں، شرمندگی مٹانے کی غرض سے گھر کا پتہ پوچھا تا کہ معذرت کے لیے گھر تک جایا جائے۔
پتہ چلا، دو بہاری لڑکیاں اس چک میں اپنی موبائل فون کی ایک سہیلی کے ہاں آئی ہوئی ہیں۔ جدید مواصلات کا ایک فائدہ تو یہ بھی ہوا کہ جوغیر تھے وہ اپنے ہوئے۔
’’کیوں آئی ہیں؟‘‘
ان کا دور پار کا جاننے والا ان کو کسی سیٹھ کو بیچ کر پیسے کھرے کرنا چاہتا تھا۔ یہ دونوں وہاں سے کسی طور بھاگ نکلیں۔ اب ان کو کسی شریف زادے کے ساتھ شادی کی ضرورت تھی۔ وہ ہو جائے تو اِس ملک میں اُن کا ٹھکانہ بن جائے۔ کراچی ایسے بڑے دل کے شہر میں بھی جائے امان نہ ملی۔ پھر میں نے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیا۔ پہلے تو وہ بہت دیر تک ہنستی رہی مگر میں نے جب اسے بتایا کہ حکیم کا دیا ہوا ایک ککھ دوا میری جیب میں ہے تب کچھ سوچ کر اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔
اور
پھر مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔ ککھ دوا کی جگہ، میں پٹ سن کے سنہرے پھول کھانے لگا۔ ادھر مکھن بھی ختم ہو گیا کہ بھینسیں کہیں گھاس چرنے چلی گئی تھیں۔ دادا ابا پٹ سن کاشت کیا کرتے تھے۔ لمبے قد کے گھیردار پودے جن کے تنے بڑے نازک ہوتے تھے اور ان پر لگنے والے زرد، سنہرے پھول اپنی خوشبو چاروں اور پھیلا دیتے۔ دادا ابا برداشت کے وقت پودوں کو کاٹ کر پانی کے تالاب میں ان کے گٹھے بنوا کر رکھواتے اور اوپر کوئی بھاری لکڑی بھی ڈال دی جاتی تاکہ پٹ سن پانی میں ڈوبی رہے۔ کئی دن بعد جب پانی میں ڈوبے ہوئے پودوں میں گلنے سڑنے کی بو پیدا ہو جاتی تو ریشم الگ کرنے میں بہت آسانی ہو جاتی۔
پھر ایک دن دادا ابا وفات پا گئے۔ تاریخ تھی چاند کی آٹھ۔ دادو نے سارا گھر چھان مارا مگرسرسوں رایا کے دانے جن پر موسم میں زرد پھول اگتے ہیں، نہ ملے۔ انہیں چوہے کھا کر اپنے بلوں میں گھس گئے تھے۔
آخر کار فیصلہ ہوا کہ پٹ سن کے بیج ہی کیرا کرنے کے لیے ٹھیک رہیں گے۔ رنگ تو پٹ سن کےپھولوں کا بھی زرد ہی ہوتا ہے۔ وہ بیج ہم نے گھر سے قبرستان اور پھر قبرستان سے گھر تک بھی گرا دئیے۔ بس یہی غلطی ناقابلِ معافی ٹھہری۔
اس دن کے بعد ہمارے گھر سے وہ بیج ختم ہو گئے۔
یقین کریں یکے بعد دیگرے ہمارے خاندان کے سرکردہ سولہ آدمی مرے، پندرہ کے بعد سولہ آتا ہے یا سولہ سے پہلے پندرہ ، ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تنگ آ گئے۔ حیرت انگیز طور پر اس دن بھی چاند کی آٹھ تاریخ ہی تھی۔
چاچو ، اب بازار سے پٹ سن کے بجائے پلاسٹک کے رسے لے آتے ہیں تو دادو مُنہ دوسری طرف پھیر لیتی ہیں۔۔
اللہ ہی اللہ وو
ہادی اللہ وو۔۔۔۔۔۔۔