تحریر: ٹی جنیکا رامن (تامل ناڈو، ہندوستان)
مترجم: فیروز عالم (الٹا لوما، کیلیفورنیا، امریکہ)
ڈاکیے نے اس کے قریب آکر سائیکل روکی اور اُتر کر اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر اس نے منی آرڈر کا کاغذ نکالا اور کہا تمہارے لیے منی آرڈر ہے۔ وہ اپنے شکستہ گھر کے باہر کچی گلی میں کھڑا تھا اور مزے سے پان چبا رہا تھا۔ اس نے حیرت سے کہا، " منی آرڈر۔۔۔؟؟" ڈاکیہ بولا، "ہاں ہاں ۔۔" مِٹھو اس پرجھنجلا گیا اس نے کہا اترپاتھی کیا تو اس قدر بوڑھا ہوگیا ہے کہ تجھے نظر نہیں آتا۔ یہ لے میرا چشمہ لگا اور ٹھیک سے پڑھ۔" یہ کہتے ہوئے اسنے ایک زنگ آلود ڈبیہ کھولی اور اپنا چشمہ نکالنے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکیہ بُولا، "چشمے کی تو تجھے ضرورت ہے یہ لے اور پڑھ یہ منی آرڈر تیرے لیے لئے ہے۔ " مٹھو نے چشمہ نکالا جس کے شیشے دُھندلے ہوچکے تھے اور اسکی ایک ڈنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ مٹھو نے ٹوٹی ہوئی ڈنڈی کی جگہ لٹکی ہوئی ڈوری کو کان کے گرد لپیٹ کر چشمہ لگایا اور منی آرڈر کا فارم پڑھا۔ ڈاکیہ بولا، " یہ سمبامتی کی طرف سے آیا ہے، تمہارے لئے، سمبامتی کون ہے؟" ، "ارے یہ اپنا اناکٹی ہے، میرا بیٹا۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ وہ کسی ملازمت کے لئے مدراس گیا ہوا ہے۔" ڈاکیہ کہنے لگا، "نہیں مجھے معلوم نہ تھا۔ بہرحال اب یہاں دستخط کرو اور یہ لو، چالیس روپیئے۔ میرے پاس اڑتیس روپے کے نوٹ ہیں اور دو روپے کی ریزگاری۔۔" مٹھو نے روپے لیکر آٹھ آنے ڈاکیے کو انعام دیے۔ ڈاکیے نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، نہیں نہیں ، یہ تو بہت زیادہ ہے، نائیڈو کا بیٹا جو فوج میں کرنل ہے جب ایک سو روپے کا منی آرڈر بھیجتا ہے تو وہ بھکاریوں کے طرح مجھے صرف چار پیسے دیتا ہے۔ مٹھو کہنے لگا مگر میں تمہیں آٹھ آنے سے کم نہ دونگا یہ تو میرے لئے ایک خوشگوار حیرت کا سبب ہے۔"
ڈاکیہ پوچھنے لگا اسے مدراس میں کیسے نوکری مل گئی۔ مٹھو کہنے لگا، کچھ ہی دن پہلے علاقے کے ایک بااثر آدمی نے مجھے بلا کر کہا تھا کہ مٹھو تم کئی ماہ سے میرے پیچھے پڑے تھے کہ اناکٹی کو کوئی ملازمت دلوا دوں، میں نے اسکے لئے مدراس میں ایک اچھی ملازمت کا بندوبست کرلیا ہے، چالیس روپے ماہانہ اور دو وقت کی روٹی ۔ اناکٹی اسی لئے مدراس گیا ہے اور شاید یہ اسکی پہلی تنخواہ ہے۔ ڈاکیہ کہنے لگا یہ تو بھگوان کی بڑی دیا ہے تم پر۔ اب تم ایسا کرنا کہ سب سے پہلے اس چشمے کی کمانی لگوانا اور ایک نیا ڈبہ بھی خریدنا، کب تک پانوں کی اس پرانی ڈبیہ میں یہ چشمہ رکھو گے، اس میں رکھو گے تو کیا اس شیشوں پر خراشیں نہیں پڑینگی ۔ بہرحال ڈاکیے نے چار آنے قبول کئے اور سائیکل پر پیر مارتا اگلی منزل کی طرف چل دیا۔
مٹھو جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اسکی بیوی لپک کر اسی طرف آئی اور اسکے ہاتھ سے روپے چھین کر بولی، "اب باہر کھڑے ہوکر سب کو بتانے کے لئے اعلان نہ کرو کہ تمہیں اتنے سارے پیسے مل گئے ہیں۔ مٹھو نے کندھے سے تولیہ اتارا، کھونٹی سے دھلی ہوئی دھوتی اتار کر کمر سے باندھی اور بھگوان کی مورتی کے سامنے جھک گیا، پھر پلٹ کر بیوی سے کہنے لگا تُو بھی تو آ۔۔ کیا تُو اسکا شکر ادا نہیں کریگی۔ کوئی اور دن ہوتا تو وہ اسے ٹال جاتی مگر آج اسکا دل اپنے شوہر کی طرف نرم تھا۔ وہ اسکے پہلو میں مورتی کے سامنے عقیدت سے جُھک گئی۔ اسے خیال آیا آج سے کچھ سال پہلے تک مٹھو کے بال چمکدار اور سیاہ تھے، اسکے بازوؤں میں طاقت تھی، اسکا سینہ کشادہ اور پتھر کی سل کی طرح سخت تھا مگر ان چند سالوں میں غربت، پریشانیوں اور غذا کی کمی کی وجہ سے اسکا گوشت گُھل گیا ہے، اسکے بازو پتلے پتلے ہوگئے ہیں، بال کھچڑی ہوگئے ہیں اور کچھ دانت بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ اس نے بہت محنت کی ہے اور پُر مشقت زندگی گذاردی ہے۔ مگر اب جب کہ ان کے 'گولک' میں چالیس روپے تھے اسے یہ سب بے معنی لگا۔ اسے تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی کہ کوئی ان کے بیٹے کو گھر میں رکھے گا۔ پہنائے گا اڑھائے گا، کھلائے پلائے گا اور اس پر یہ کہ ہر مہینے چالیس روپے بھی دیگا۔ کیا دنیا میں کچھ ایسے بےوقوف بھی ہوسکتے ہیں۔ ۔۔ یا پھر اناکٹی اب اتنا ہوشیار ہوگیا ہے کہ اب واقعی دنیا میں اس کی مانگ ہوگئی ہے۔
یا پھر، اس کو خیال آیا کہ وہ لوگ کوئی نہ صرف بہت ہی امیر کبیر ہیں اور اسکے ساتھ ہی انکا دل دریا جیسا دیالو بھی ہے جو بس اسکے بیٹے کا خیال رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بیٹے کا جو پیدائش ہی سے نہ صرف جسمانی طور پر بہت کمزور ہے بلکہ دماغی طور پر بھی کچھ معذور ہے۔ بہرحال جو بھی ہے یہ معجزے سے کم نہیں کہ کسی نے اس مشکل زمانے میں اسے اپنا لیا ہے اور اسی خدمت کے صلے میں اسے اتنا کچھ دے رہے ہیں، صحیح ہے دنیا میں نیک لوگوں کی اب بھی کمی نہیں۔ وہ انہیں خیالوں میں تھی کہ مٹھو کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ کہنے لگا، "اب تو مجھے کچھ پیسے دے، میں ندی میں نہانے جارہا ہوں اور واپسی میں کچھ ترکاریاں لیتا آؤنگا، ہر روز دال کھا کر تنگ آچکا ہوں۔" بیوی نے اسکے ہاتھ پر چار آنے رکھے، مٹھو نے شرارت سے اسکے گال پر ہلکی سی چٹکی بھری اور باہر چلا گیا ۔
ندی کی طرف جاتے ہوئے مٹھو کو خیال آیا کسی نے اناکٹی سے نہیں کہا تھا کہ تم ہمیں روپے بھیجو، اس نے خود ہی ہمیں پیسے بھیجے اور میں۔۔۔ میں ہمیشہ اسے برا بھلا کہتا تھا، اسے کوستا تھا کہ تُو کسی قابل نہیں، تو کبھی ایک آنہ بھی کمانے کے قابل نہیں ہوگا۔ تو کبھی کسی کے کام نہ آسکے گا اور ہمیشہ میرے کندھوں پر بوجھ بنا رہے گا۔ اور اب، اب نہ صرف وہ ایک اچھی نوکری کررہا ہے بلکہ میرے کہے بغیر اس نے اتنی بڑی رقم اپنے ماں باپ کو بھیجی ہے۔ مٹھو خود سے شرمندہ ہوگیا۔ اس نے خود سے عہد کیا کہ نہ صرف اب وہ اسے کبھی برا بھلا نہیں کہے گا بلکہ کبھی اس سے اونچی آواز میں بھی بات بھی نہیں کریگا۔
نہ جانے بچے اپنے ماں باپ کے بجائے دادا، دادی یا ماموں، چاچا پر کیوں جاتے ہیں اگر اناکٹی اپنے باپ پر جاتا تو وہ مضبوط، طاقتور اور توانا ہوتا مگر وہ تو نہ جانے کس پر چلا گیا کہ اس قدر لاغر ہے کہ جوانی میں بھی کوئی بوجھ نہیں اٹھا سکتا، بلکہ ایک حد تک معزور ہے۔ اور پھر اگر ماں پر گیا
تا تو کم از کم بیحد خوش شکل اور پر تمکنت ہوتا جیسی وہ ہے۔ اپنی غربت کے باوجود اس میں کچھ ایسی شان ہے کہ جو اسے دیکھتا ہے سمجھتا ہے کہ وہ کسی دولت مند زمیندار کی بیوی ہے، مگر اناکٹی کی شکل و صورت ایسی ہے کہ سب ہی اس کو دیکھ کر رحم کھاتے ہیں، پھر ہر وقت اسکی ناک بہتی رہتی ہے اور وہ ہر وقت چھینکتا رہتا ہے، چلتا بھی ڈول ڈول کرہے اور چلتے ہوئے اسکے گھٹنے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور اپنی چندی چندی آنکھوں سے اس طرح لوگوں کو تکتا ہے کہ لوگ اس سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ اب جبکہ وہ پندرہ سال سے بھی بڑا ہوگیا وہ کچھ تتلا کے بولتا ہے۔
مٹھو نے کتنی کوشش کی کہ اسے کوئی نوکری مل جائے مگر وہ کہیں بھی دودن سے زیادہ نہیں ٹہر پاتا تھا۔ یا تو اس کے مالک اسے نکال دیتے تھے یا پھر وہ خود یہ کہہ کے نوکری چھوڑ دیتا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے میں یہ نہیں کرسکتا۔ مٹھو نے کیسی کیسی کوششیں کیں علاقے کے سبھی لوگوں کی خوشامدیں کیں مگر ملازمت دینے والے اس پر ایک نظر ڈال کر انہیں ٹال دیا کرتے تھے۔ مگر بھگوان تیرے بھی کام نرالے ہیں، کسی نےیہ ٹھیک کہا ہے کہ تو اندھوں کی لاٹھی، معذوروں کا سہارا اور غریبوں کا پالن ہار ہے۔ دیکھو آج وہی انا کٹی ایک ایسی نوکری کررہا ہے کہ اس کے مالک اس کو نہ صرف کھانا پینا دے رہے ہیں بلکہ اوپر سے چالیس روپے ماہانہ، ہاں چالیس روپے ماہانہ بھی دے رہے ہیں۔۔۔ واہ رے مالک۔۔
اگلے مہینے روپے دیر سے آئے، جب اگلے مہینے بھی رقم آنے میں کچھ دیر لگی تو وہ کچھ پریشان ہوا مگر جب ڈاکیہ منی آرڈر لیکر آیا تو اس نے اپنی جھینپ مٹانے کو ڈاکیے سے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسکی بھیجی ہوئی رقم ہی پر انحصار کرتا ہوں، دراصل اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میری نظر کمزور ہے اور میرے ہاتھ کپکپانے لگے ہیں اور میں اپنا باورچی کا پیشہ ٹھیک طرح نہیں چلا سکتا کہ میرے ناپ تول میں غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے رقم وصول کی اور اپنی دھوتی کے پلو میں باندھ لی۔
اسی دوران ایک شام اسے اناویار نے بلایا۔ وہ وہاں پہنچا تو اناویار جو وکیل تھا برآمدے میں بیٹھا ایک خوشبودار پان چبا رہا تھا۔ اس نے پیار سے مٹھو کو بٹھایا اور پان پیش کرتے ہوئے کہا ، " میں ایک کیس کے سلسلے میں مدراس جارہا ہوں زیادہ سے زیادہ چار دن لگ جائینگے۔ کچھ دنوں سے میری طبیعت خراب ہے، بس آج ہی کچھ بہتر ہوئی ہے۔ میں پرہیزی کھانوں پر ہوں اور وہاں ہوٹلوں کے کھانے نہیں کھا سکتا۔ کیا تم میرے ساتھ چل سکتے ہو۔ مجھے کھانے کا آرام ہوجائیگا۔" مٹھو نے کہا کیوں نہیں میں ضرور تمہارے ساتھ چلوں گا۔ اناویار کہنے لگا بھگوان تمہیں خوش رکھے اس سے میرا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔ چار دن میں کام ختم ہوجائیگا مگر کچھ دن اوپر ہوگئے تو تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی؟ اس نے جواب دیا، آج کل میں بالکل فارغ ہوں چار دن کیا ایک ماہ بھی اوپر ہوجائے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اناویار نے کرتے کی جیب سے بیس روپے کے نوٹ نکال کر مٹھو کو دئے کہ اگر تمہاری غیر موجودگی میں منا کشی کو کوئی ضرورت پڑی تو یہ کام آئینگے۔ مٹھو نے تکلفاً روپے لینے سے انکار کیا مگر اناویار کے اصرار پر روپے لیکر کہا میں کس وقت آؤں ؟ اناویار نے کہا کل ٹھیک سات بجے۔ چلتے ہوئے مٹھو نے کہا میں تو خود چند دنوں میں مدراس جانے کی سوچ رہا تھا، چلو خوش قسمتی سے تمہارا ساتھ ہوگیا۔ "مدراس۔۔۔۔ مگر کیوں؟" مٹھو نے کہا۔
میرا بیٹا اناکٹی آجکل وہاں ہے۔ اسے وہاں ایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔ اناویار کو حیرت تو ہوئی مگر اس نے اس کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
مدراس میں چار دن بہت مصروفیت میں گذرے کیونکہ کھانے کے علاوہ مٹھو کو ہر جگہ اناویار کے ساتھ جانا ہوتا تھا۔ آخری دن انویار نے خود ہی کہا ، مٹھو آج کیوں نہ تم اناکٹی کو دیکھنے چلے جاؤ، شام سے پہلے واپس آجانا کیونکہ ہم آج رات واپس گاؤں لوٹ جائینگے۔ بلکہ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ انا کٹی کو بھی ساتھ لیتے آنا میں بھی اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مٹھو نے تیاری کی اور خاص طور پر بیٹے کے لئے میٹھے چاول پکائے، اسکی پسند کی کڑھی بھی بنائی اور ممبالم، جہاں اناکٹی رہتا تھا، کی بس پکڑ لی۔ گھر تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کیونکہ وہ گھر گھر نہیں تھا بلکہ ایک بہت بڑی حویلی ۔۔۔۔نہیں۔۔۔ حویلی بھی نہیں بلکہ کوئی چھوٹا موٹا محل تھا۔ وہ آموں کے جھنڈ میں گھر تھا، چاروں طرف وسیع باغ اور سبزہ زار تھے اور ایک عظیم الشان لوہے کے پھاٹک کے اندر طویل راہ گزر تھی جس کے دونوں کناروں پر پھول دار درخت تھے۔ اندر گھستے ہی ایک بہت گھنا اور قدیم "ناگالجگم" کا درخت تھا جو عام طور پر ہندوؤں کے مندروں کی زینت ہوتا ہے اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔ مٹھو چلتا ہوا دروازے تک پہنچا،اسے حیرت تھی کہ اب تک اسے کوئی شخص، کوئی ملازم کوئی مالی یا چوکیدار نہیں ملا تھا۔ وہ تھوڑا اور آگے بڑھا تو اس نےدیکھا کہ ایک درخت کے نیچے کچھ سنگ مر مر کی بینچیں بچھی تھیں، جن پر کچھ کم عمر لڑکے بیٹھے تھے، وہ خوش گپیوں میں مصروف تھے، اس نے کئی دفعہ ان سے مخاطب ہونے کی کوشش کی مگر انہوں نے اس کوئی توجہ نہ دی۔ اس نے سوچا شاید یہی بچے ہیں جن پر میرا بیٹا تعینات ہو اور انہیں اسکول لاتا لیجاتا ہو اور دوسرے معملوں پر بھی ان کے کام آتا ہو۔ یہ سوچ کر اسکا دل فخر سے پُھول گیا۔ اس پھر ذرا زور سے کہا؛ "کوئی ہے؟ میں یہاں اپنے بیٹے سے ملنے آیا ہوں ۔" اس پر کسی بچے نے پوچھا کون ہے تمہارا بیٹا؟ ہم تو کسی کو نہیں جانتے۔ مٹھو نے کہا کیا یہ کُپا سمنی کا بنگلہ نہیں؟ ۔۔۔ کون کپا سمنی؟ مگر ایک بچہ بولا، "ہاں ہم جانتے ہیں وہ ہمارے دوست موہن کا دادا ہے۔" ان بچوں سےمایوس ہوکر مٹھو عمارت کے صدر دروازے کی طرف چلا، دروازہ کُھلا تھا، وہ اندر داخل ہوگیا۔ داخلی دیوان میں گھومتا زینہ تھا، دیوریں قیمتی تصویروں سے مزیں تھیں اور چاروں طرف دولت اور امارت کے مظاہر تھے وہ آوازیں دیتا رہا مگر ایسا لگا عمارت خالی ہے۔ آخر کار ایک دالان میں ایک اسٹول پر ایک خستہ حال بوڑھا بیٹھا تھا۔ اس نے کہا تم کون ہو؟ یہاں کیا تلاش کررہے ہو؟ مٹھو نے اسے بتایا کہ میں اپنے بیٹے سے ملنے آیا ہوں اسکا نام اناکٹی ہے اور وہ "کمبا کونم" گاؤں سے آیا ہے اور یہاں ملازم ہے۔ "اوہ تم اسکی بات کررہے ہو! وہ اس بنگلے سے باہر ایک کاٹج میں بڑے میاں کے ساتھ رہتا ہے، اسے ان بڑے میاں کی خدمت کے لئے ہی ملازم رکھا گیا ہے، وہ انہیں کے ساتھ رہتا ہے۔ تم وہاں جاؤ وہ تمہیں مل جائیگا، کیونکہ بڑے میاں اسکے ساتھ ابھی ابھی کہیں سے واپس آئے ہیں۔" مٹھو نے اس حویلی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا یہاں کون رہتا ہے؟ وہ خستہ حال بوڑھا بولا اس میں اسکے دو جوان لڑکے اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ رہتے ہیں وہ بڑے میاں یہاں نہیں رہتے وہ احاطے میں موجود کاٹج میں رہتے ہیں۔
مٹھو کو کاٹج تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ دروازہ کھلا تھا وہ اس میں داخل ہوا، دن کے وقت بھی کاٹج میں نیم تاریکی تھی۔ ایک بہت بڑی ڈیسک کے سامنے ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا، اسکی آنکھوں پر تاریک چشمہ چڑھا تھا، اسکے سامنے کئی موٹی موٹی مجلد کتابیں رکھی تھیں اور وہ کسی نقشے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی جلد اگرچہ جنوبی ہند کے لوگوں کی طرح سیاہ تھی مگر اس پر جگہ جگہ سفید اور ہلکے گلابی دھبے پڑے تھے اور جگہ جگہ جسم پر کریہہ قسم کے کھرنڈ لگے ہوئے تھے۔ اس کے پیچھے ایک لڑکا کھڑا اس کے سر کی مالش کررہا تھا اور جندیا پر جہاں جہاں بال جھڑ گئے تھے وہاں بھی بھورے اور سیاہ کھرنڈ اور کچھ کچے زخم تھے وہاں خارش تھی اور اناکٹی اپنے ننگے ہاتھوں سے انہیں کھجا بھی رہا تھا۔ اس نے باپ کو دیکھ کر دانت نکال دیئے اور خوش ہو کر کہا، "ابا۔۔۔۔ ابا" بوڑھے نے آواز لگائی، کون ہے۔ لڑکا اپنی تتلاتی زبان میں کہنے لگا "میلا باپ" ۔۔۔ مٹھو نے بوڑھے کی طرف دیکھ کر کہا، "نمسکارم" بوڑھا بولا، "اوہو تو تم سمبھو کے پتا ہو۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔" مٹھو ایک قریبی اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اب اسکی آنکھیں کچھ اندھیرے کی عادی ہوگئی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ بوڑھے کا چہرہ سُوجا ہوا ہے، گالوں پر کھرنڈ ہیں اسکا نچلا ہونٹ نہ صرف سوجا ہوا ہے بلکہ اپنے وزن کی وجہ سے نیچے لٹک گیا ہے اتنا کہ اسکا نچلا چبڑا اور دانت اور مسوڑھے نظر آرہے تھے۔ اس کے دونوں ہاتھ جو اسکی گود میں رکھے تھے انکی انگلیاں ٹیڑھی میڑھی ہوگئی تھیں ، اس قدر کہ ان سے اب کوئ کام نہیں ہو سکتا تھا، جب اس کے گال پر خارش ہوئی تو اس نے ہاتھ اٹھا کے عام طرح نہیں بلکہ ہاتھ کو الٹا کرکے کھجانے کی کوشش کی۔ اس وقت مٹھو نے نوٹ کیا کہ اسکے سارے ناخن جھڑے ہوئے تھے اور انگلیوں کے سرے گوشت کا لوتھڑا لگ رہے تھے۔ اُف میرے خدا یہ تو کوڑھی ہے، مٹھن کا دل لرز گیا۔ اناکٹی اب بھی مسکرا مسکرا کر اسکے سر کی مالش کررہا تھا مگر مٹھو کے تو جیسے سارے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ وہ چین سے بیٹھ نہ سکا، اسے محسوس ہوا کہ اسکے سارے جسم پر خارش ہوگئی ہو۔ وہ زمین پر پیر رکھتا ڈر رہا تھا کہ یہاں وہ چشمے والا بوڑھا چلا ہوگا تو اسکے پاوؤں میں بھی خارش ہوجائیگی۔ بوڑھے نے کہا، "سمبھو بس اب کافی ہے۔۔۔ پھر اسکے باپ سے۔" سمبھو نے سامنے آکر بوڑھے کو سہارا دے کر اُٹھایا، بوڑھے نے اپنے دونوں بازو سمبھو کے کندھوں پر رکھے اور کھلے دروازے سے کاٹج سے باہر چلا گیا۔ مٹھو کے دل میں طوفان سا اُٹھ رہا تھا۔ وہ یہ جذبات لے کر آیا تھا کہ سمبھو کے مالک سے کہے گا کہ تم کتنے مہربان اور دیالو ہو۔ تم نے ہماری زندگی بدل دی۔ ہمارے بیٹے کو جو کسی قابل نہ تھا، جسے کوئی دھیلے کی نوکری کے قابل نہیں سمجھتا تھا ملازم رکھا مگر اب، اب اس کا دل چیخ چیخ کر کہنا چاہ رہا تھا، "حرامی ۔۔۔ کمینے تو نے ایک معصوم کو دھوکا دیا ۔" مگر وہ یہ نہ کہہ سکا۔ بوڑھا شاید باتھ روم میں تھا اناکٹی دروازے کے باہر کھڑا اپنے باپ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
مٹھو دروازے کو ایسی سہمی سہمی نظروں سے تک رہا تھا، جیسے وہاں سے کوئی زہریلا سانپ ابھی ابھی بل کھاتا ہوا نکلے گا۔ اناکٹی وہاں تولیہ لئے کھڑا تھا جیسے ہی بوڑھا نکلا اناکٹی نے اسکے ہاتھوں میں تولیہ دی جن سے وہ اپنے ہاتھوں کو رگڑنے لگا۔
مٹھو نے اس عرصے میں جھوٹی کہانی گڑھ لی تھی۔ وہ بوڑھے سے کہنے لگا، "میری پتنی بہت بیمار ہے۔ وہ بستر پر پڑی ہے، وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لئے بہت بیقرار ہے۔ میں نے گاؤں سے اپنی سالی کو بھی مدد کے لئے بلالیا ہے۔ میری بیوی باربار اناکٹی کو پکارتی ہے۔ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے اس کی اجازت دے دیں کہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ واپس گاؤں لیجاؤں۔ بوڑھا اس پر مسکرایا مگر اسکا مسخ شدہ چہرہ مٹھو سے دیکھا نہیں گیا۔ وہ پھر کہنے لگا، "آج میں کسی کے ساتھ آیا ہوں اگر میں آج ہی اناکٹی کو لیجاؤں تو میری ریل کا کرایہ بچ جائے گا۔ بوڑھے نے اناکٹی کی طرف دیکھا اور کہا کہ اناکٹی تمہاری ماں بیمار ہے تمہارا باپ تمہیں لینے آیا ہے۔ پھر مٹھو سے کہنے لگا اس کی وجہ سے مجھے بہت آرام ہے جب تمہاری بیوی ٹھیک ہوجائے تو اسے واپس بھیج دینا۔ "یقیناً۔۔یقیناً" اناکٹی نے اپنا بیگ تیار کرنا شروع کردیا، اتنے میں بوڑھے نے ایک بٹن دبایا، ایک نوکر ٹرے میں کچھ سموسے، مٹھائی اور چائے لیکر آیا۔ مٹھو نے بہت کہا کہ وہ ابھی کھانا کھا کرآیا ہے مگر بوڑھے نے اسے مجبور کیا کہ وہ کچھ نہ کچھ کھالے کہ یہ انکی روایت ہے۔
جب وہ کاٹیج کے نیم تاریک ماحول سے باہر آئے تو دن کی روشنی میں مٹھو نے دیکھا کہ ان چند ماہ میں اناکٹی کی جون ہی بدل گئی ہے۔ اسکا رنگ کھل گیا تھا، چہرے پر صحت اور خوش حالی کی رونق تھی، بازو بھر گئے تھے اور اس میں توانائی آگئی تھی۔ دونوں نے دور ہی سے جھک کر بوڑھے کو سلام کیا اور بس اسٹینڈ کی طرف چل دیئے۔ مٹھو کو حیرت تھی کہ معاملہ اتنی آسانی سے نمٹ گیا وہ تو ڈر رہا تھا کہ بوڑھا ہرگز اسکے بیٹے کو نہیں چھوڑے گا۔ پھر بھی وہ ایسا خوف زدہ تھا کہ وہ ایسے تیز تیز چل رہا تھا جیسے بھاگ رہا ہو۔ ذرا دور جاکر وہ بیٹے سے کہنے لگا۔
"بے وقوف تو اس قدر بھولا اور کم عقل ہے کہ تو اس کے زخموں کو ننگے ہاتھوں سے سہلا رہا تھا۔" مگر یہ خطرناک یا چھوت کے نہیں ہیں۔ " ارے پاگل یہ تجھ سے کس نے کہا۔ مجھے تو ان کے گھر والوں نے کہا تھا۔ تو پھر یہ اسے اپنے گھر میں کیوں نہیں رکھتے اور یہ خود اسکو ہاتھ کیوں نہیں لگاتے۔ اناکٹی معصومیت سے بولا اس لئے کہ یہ سب بہت مصروف ہیں۔ مگر تجھے یہ کیسے یقین ہوا کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں ۔ اناکٹی نے اپنے تھیلے سے ایک مڑا تڑا اخبار نکالا جس میں ایک غیر ملکی سفید فام عورت کی تصویر تھی۔ اسکا چہرہ اور ہاتھ اسی طرح مسخ شدہ تھے۔ وہ لندن میں کسی تقریب میں اسٹیج پر تقریر کررہی تھی۔ پھر وہ ہندوستان آئی اور اس نے جگہ جگہ ایسے معذور خانوں اور ہسپتالوں کا دورہ کیا جہاں اس قسم کے بیس بیس اور پچیس بیس اور پچیس پچیس لوگ رہتے ہیں جنہیں لوگ ہاتھ لگاتے ڈرتے تھے۔ وہ ان سب کے پاس گئی اور بڑی ہمدردی سے ان سب کے علاج کے لئے مہم چلائی اسے تو کسی کے بھی زخموں سے گھن نہیں آئی بلکہ وہ تو دل و جان سے ان کی خدمت اور مدد کر نے پر آمادہ تھی۔۔۔ تو میں، میں تو انہی میں سے ہوں۔" اناکٹی نے اخبار مٹھو کے آگے کردیا۔ "لو خود پڑھو۔" مٹھو نے اسکے ہاتھ سے اخبار لے لیا اور پڑھ نے لگا۔ مگر اسی لمحے اس کے دل میں بوڑھے کے لئے ابلنے والی نفرت نہ جانے کیوں ہمدردی میں بدل گئی۔
Written by: Thi. Janakiraman (Tamil writer from Tamil Nadu, India.)
تعارف مصنف:
ٹی جنیکا رامن 1921ء میں جنوبی ہند کے صوبے تامل ناڈو میں پیدا ہوا تھا اور 1982ء میں مدراس میں انتقال کرگیا۔ وہ تامل ادب کا ایک بڑا نام ہے اور اسے ساہتیہ اکیڈمی کے انعام سے بھی نوازا گیا، جو علاقائی زبانوں کا سب سے بڑا انعام ہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک سرکاری افسر تھا اور اس سلسلے میں اس نے جاپان اور کریمیا میں بھی کچھ وقت گزارا۔ اسکا ناول "اماں وادھانا" کو کلاسیکی درجہ حاصل ہوا ہے۔ اس نے اپنی تحریر میں پسماندہ طبقے اور عورتوں کی سماجی پست حالی پر دلگداز کہانیاں لکھی ہیں۔