ابھی ٹک روتے روتے میرتقی میرؔسو گئے۔پتہ نہیں کس کی شرارت تھی کہ سخت ہدایت کے باوجو دسرہانے زورسے پنگی بجادی ۔ اب میرؔ نے جو آسمان سرپر اٹھالیا کہ اللہ کی پناہ ۔بہت سمجھا نے بجھانے کے بعدجب غصہ کا فورہوا ،تو رگ ظرافت پھڑک اٹھی سرگوشیانہ اندازمیں کہہ دیا کہ ”چلتے ہوتو چین کو چلئے ”۔ استاد کی زبان سے نکلے ہوئے مبہم شعر پر تما م شا گرد گوش برآواز رہے اوربتائی ہوئی سمت میں فوری رخت سفر باندھا۔ اس زمانے میں پاسپورٹ اور ویزا کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی اورنہ ہی چین کے سفر پر پابندی تھی ۔
کئی دنوں بعداستاد استغراقی کیفیت سے باہرآئے مکتب پر نظر دوڑائی توشاگردوںکی اچھی خاصی تعداد کو ندارد پایا۔ گنے چنے شاگردوں سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ آپ کی ہدایت پر کثیر تعداد نے چین کی راہ لی ہے۔اس پر میر ؔصاحب چونک پڑے اورکہنے لگے میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔ شاگردوں نے کہا نیند کا غلبہ آپ پر طاری تھا ۔موسم سردتھا بدلیوں میں چاند چھپا بیٹھا تھا بخد اآپ نے ایسے خوشگوار ماحول میں وہ رومانی شعرکہا تھا جسے آپ کاباطنی حکم سمجھ کر وہ چل نکلے۔ میں نے ایسا کہا تھا ذرا دوہر اوتو میراوہ شعرایک شاگر دنے ہمت جٹائی اوربہ بانگ دہل مرحوم مہدی حسن کی آواز میںغزل سرا ہوگیا ؎ چلتے ہوتوچین کو چلئے
رکو! میرے شعرکی مٹی پلید کررہے ہو ،میںنے ‘چین’ نہیں ‘چمن’ کہا تھا۔ فوری ان تمام کو ہندوستان کی طرف کوچ کرنے کا حکم جاری کردو۔ مہینو ں بعد شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد لوٹ کر بدھو گھر کو آئے لیکن آتے آتے اپنے ہمراہ چین کی نایاب فصل کے چند پتے بھی ساتھ لیتے آئے۔ اس طرح چائے کی درآمد شروع ہوئی اوریہاں کی عوام نے بھائی چارگی کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس کڑوے مشروب کو اپنے گلے میں اتار لیا اورآج یہ ایک ”لت”کی شکل اختیار کرگئی ۔
ستم ظریفی ہی کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ چین سے آئی ہوئی چائے کی پتی کو اس کے آبائی وطن کے نام سے نہیں جانا جاتا بلکہ خیرسگالی کے جذبہ کے تحت ہندوستانی گنے سے تیار کردہ شکر کو چینی کہا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی اہمیت برقراررکھتے ہوئے چینی کم فلم کے ذریعہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے ۔اسی کے ساتھ وہ عظیم نعرہ بھی ہر خاص وعام میں زبان وزدہوا ”ہندی چینی بھائی بھائی ۔” یہ سب چینی چائے کی درآمدی کرامت ہے ۔ اگر وہ سرحد پارکرکے ہمارے ملک میں دراندازی نہ کرتی توشاید ہمارے مقبول شاعر قمرؔ اقبال صاحب کو (معذورت کے ساتھ ) کہنا پڑتا ؎
”دو پڑوسی جو ملک ہوتے ہیں
ان کے بچھڑے ہوئے سبھی رشتے
سرحدوں پر بیٹھ کر چائے پیتے ہیں”
اور تو اور چینی چائے سے زیادہ ایرانی چائے نے اپنا ایک منفردمقام بنالیا ہے ۔ پتہ نہیں چین سے واپسی پر میرؔ کے شاگردراستہ بھٹک کر ایران کیسے پہنچ گئے ۔ہوسکتا ہے چینی سیاح ہیون سانگ میرؔکے شاگردوں سے پہلے ٹہلتے ٹہلتے ملک ایران میں قدم رنجہ فرماگئے ہوں۔ اس کی تصدیق توکوئی مورخ ہی کرسکتا ہے ۔ اب ایرانیوں نے ہمارے ملک میں جگہ جگہ ایرانی چائے خانے قائم کرکے ہماری تہذیب کو گنگا جمنی بنا ڈالا۔ محمد تغلق کے لشکر ی غذانان وقلیہ جو مقوی ہونے کے ساتھ ہی لذت سے بھر پورہیں ،اس کو ٹھکانے لگانے کی خاطر بدرقہ کے طور پر چائے نوش فرماتے ہیں اور اگر فوری ہضم کا مسئلہ درپیش آجائے تواس وقت ایرانی چائے کو فوقیت دیتے ہیں ۔اس طرح لشکر ی غذا کے زود ہضم کا ا زالہ صرف اور صرف چائے ہی پر منحصر ہوتا ہے اوریہ نان وقلیہ کا تریاق بن جاتا ہے ۔ہمارے بزرگوں نے نان وقلیہ کھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی غذائیت میں غیر معمولی اضافہ کیا کیونکہ ہاضمہ کے تمام وسائل سے بھی خوب واقفیت رکھتے اوران وسائل میں ایرانی چائے شاید سب سے بڑاوسیلہ ہضم ثابت ہوتا ہے۔
اکثر لڑکیاں دوران عشق اپنے عاشق کو اپنی والدہ کی جانب سے چائے پر مدعو کرتی ہیں۔ بار بار مدعو کرنے پر والدہ محترمہ چڑکرکہہ بیٹھتی ہے کہ بہت ہوچکی چائے پانی اب اسے کھانے پر ہی بلالو ۔ اس طرح نوجوان عاشق دعوت نان وقلیہ کا لطف اٹھا لیتے ہیں پھر اس کے بعدوہ بےچارہ حزب اختلاف کی طرح برسراقتدار کی چائے پارٹی کا شکار ہوجاتا ہے اور رشتہ ازدواج میں مقیدہوجاتا ہے ۔ چائے خانوں میں ایک چائے کی پیالی میں لاکھوں کی ہیراپھیری ہوجاتی ، رشتے طے ہو جاتے ،کھیتوں میں فصلیں بن بادل برسات کے لہلانے لگتی ہے۔کثرت سے چائے نوشی ذہنی کشمکش کی مظہر ہے۔ معروف شاعروں نے چائے خانوں کو ہی اپنی آما جگاہ بنایا ۔شعروں کی ترتیب ردیف اورقافیوں میں تال میل مطلع اور مقطع کا مناسب مقام طے کر نا اسی چائے کی پیالیوں میں ڈوب کر غزل ،نظم ،قصیدہ کی ترتیب دے کر دیوان کی شکل میں پیش کیا گیا۔ راتوں کی نیند حرام کرنے میں بھی چائے کا بہت بڑاہاتھ ہوتا ہے جبکہ بعض حضرات اس کو نیند لانے کی ٹانک کے طورپر بھی استعمال کرلیتے ہیں ۔
بیس پچیس سال پہلے چائے کاسہ فضور میں پی جاتی تھی۔ دعوتوں کے موسم میں کٹوروں میں قلیہ استعمال کیاجاتا ہے ۔ قدح بھر چائے دے کر اماں بی ناشتہ کی تکمیل کردیتی۔ اس کے بعد چائے پینے کا سلسلہ دیر رات تک چلتا رہتا ۔چائے پانی پر شادی کے رسومات انجام پاتے آسان نکاح پر چائے پیش کی جاتی ۔ دوستی اورمحبت میں چائے جائزہوجاتی اس سے کسی کو انکارنہیں اورنہ ہی اس سے کوئی پرہیزکرتا ۔ مشہور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی چائے کے تعلق سے یوں رقمطراز ہے کہ :
”میں کافی سے اس لئے بیزار نہیں ہوں کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے پھونک پھونک کر پیتا ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسا پشیماں کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چائے کے ارماں ہوں گے”
چائے کے باکمال فائدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ دشمنی کو کم کرنے کی سکت رکھتی ہے تودوستی کو دشمنی تک پہنچا نے کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے اگر دوست کو ہمیشہ بل ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اگروہ رشتہ داری کے تعلقات کو استواررکھتی ہے یہ بھی ہر گزنہ بھولیں کہ یہی چائے قرابتوں میں رقابتوں کا سبب بھی بنی ہے الغرض چائے جہاں سے چلی اور جہاں پہنچی اس نے اپنا ہر طرح رنگ جمایا کبھی گرین توکبھی ایلو،ریڈ لیبل بہرحال میں اس نے اپنی مستی جتائی ۔یہ الگ بات ہے کہ اب وہ اتنی سستی نہیں رہی پھر بھی ہم صرف اس کے دوجرعوں پرپانچ سوپیسے خرچ کرنے کو اعزاز گردانتے ہیں۔
٭٭٭