مجھے کاروں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔لیکن ایک کار کے شیرنی والے لوگو نے مجھے جیسے اپنی کشش میں لے لیا تھا۔ایک شیرنی جو انسانوں کی طرح دو پیروں پر کھڑی ہے۔اور ایسے پوز میں کھڑی ہے کہ جیسے چل رہی ہے۔بعد میں بچوں نے بتایا کہ یہ شیرنی نہیں شیر ہے۔لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے وہ شیرنی ہی لگتی تھی۔وہ کار ہلکے آسمانی رنگ کی تھی۔پہلی بارپارکنگ میںکاروں کے جھرمٹ میں اسے دور سے دیکھاتو یوں لگا کہ ڈگی اوپر کو اٹھی ہوئی ہے جب میں اس کار کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ڈگی تو بند ہے لیکن اس ماڈل کا ڈیزائن ایسا ہے کہ ڈگی اوپر کو اُٹھی ہوئی لگتی ہے۔اگر ایسی کار کی مالکن کوئی بے حد خوبصورت لڑکی ہوتو کار کی ڈگی ہی کمزور دل لوگوں کے لئے جنسی ترغیب کا باعث بن سکتی ہے۔مومن لوگ ایسے موقعہ پر استغفراللہ پڑھ کر بُرے خیالات سے بچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔مجھے پہلی بار اس کار کو دیکھ کریہی لگا کہ جیسے کوئی شیرنی چاروں پیروں پر کھڑی مستانہ سی انگڑائی لے ہو رہی ہو۔
اپنی روزانہ کی سیر پر جاتے ہوئے ایک کار پارکنگ کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے پہلی بار اس کار کو دیکھا تھا اور پھر یہ میرے معمول کا حصہ بن گیا کہ میں روزانہ اس کارکے پاس رُکتا،اسے دلچسپی سے دیکھتااور پھر آگے بڑھ جاتا۔سیر سے واپسی پر بھی ایسا ہی کرتا۔پھر ایک دن سیر سے واپسی پر ایک خوبصورت سی خاتون کو اس کے قریب کھڑے دیکھاتو مجھے جھٹکا سا لگا۔یہ تو بالکل کار کے لوگو والی شیرنی لگ رہی تھی۔میں نے ایک بار کار کی ڈگی کو دیکھا اور پھر اس خوبصورت خاتون کو دیکھ کر ڈگمگاتا ہواآگے کو بڑھ گیا۔یہاں بے شمار خوبصورت خواتین آتے جاتے دکھائی دیتی ہیں لیکن اس خاتون میں کوئی خاص بات تھی ۔
مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ خوبصورت خاتون کب اپنی کار میں بیٹھنے کے لئے آتی ہیں۔چنانچہ میں نے اپنی سیر کے وقت کو اس طرح ترتیب دے لیا کہ کار کی زیارت کے ساتھ کار کے لوگو سے گہری مشابہت رکھنے والی کار کی مالکن کی بھی زیارت ہو جایا کرے۔اس نے مجھے کبھی بھی کسی دلچسپی سے نہیں دیکھا،بظاہر میں بھی بے تعلق سا تھا لیکن کار کے لوگو کی شیرنی اور اس کار کی مالکن میں گہری مشابہت نے مجھے کسی لذت انگیز پریشانی میں ڈال دیا تھا۔اس پریشانی کو جتنا سوچتا اتنا ہی مزہ آتا۔پر، وہ شیرنی تو میری اس کیفیت سے بے خبر تھی۔لیکن نہیں۔۔۔مجھے احساس ہوا کہ شاید وہ خود بھی میرے جیسی کیفیت کا شکار ہے اور وہ بھی اسی لذت انگیز پریشانی میں مبتلا ہے۔دن گزرتے رہے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے بے تعلقی کے تعلق میںمزید بندھتے چلے گئے۔ایک دوبار آنکھیں چار ہونے سے مجھے اندازہ ہوا کہ جیسے وہ بھی اب مقررہ وقت پر میرے یہاں سے گزرنے کا انتظار کرتی ہے۔اس خوبصورت خاتون کی عمر ۳۵ سال کے لگ بھگ تھی اور میں اس سے دوگنی عمر ۷۰ سال کا ہوں۔اپنے جسم اور اپنی جان کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے کسی خوش فہمی کی گنجائش نہیں۔اس عمر میں کسی نے ایک بار نئی شادی کرنے کی فرمائش کی تو میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کا صرف ایک ہی فائدہ ہوتا ہے کہ محلے کے سارے نوجوان اس بابے سے خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی خدمت کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اورمیں اپنے محلے کے نوجوانوں کوایسا خوش نہیں کر سکتا۔
شیرنی کے لوگو جیسی خوبصورت خاتون اب مجھے پارکنگ کے علاوہ بھی مختلف مقامات پر آتے جاتے ہوئے دکھائی دینے لگی تھی۔کبھی پٹرول پمپ پر، کبھی کسی سڑک پر ٹریفک سگنل کے پاس کھڑے ہوئے اور کبھی کسی طرف سے آتے ہوئے یا جاتے ہوئے۔۔۔ہر مقام پر اس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک آجایا کرتی تھی ۔اب میں بھی اپنی لذت انگیز پریشانی کی جگہ لذت انگیز تکلیف محسوس کرنے لگا تھا اور اتنے میں ہی ہمارا گزر بسر ہو رہا تھا۔لیکن ایک روز مجھے جیسے اس کی آنکھوں نے ’’کچھ اور‘‘کا اشارا دیا۔اور میں گھبرا گیا۔یہاں تو اب کچھ بھی نہیں ہے،کچھ اور کہاں سے آئے۔’’راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے۔‘‘
ایک دن میں زیبرا کراسنگ پر رکا ہوا اپنے پیدل رستے کے سگنل کے کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔جیسے ہی میرا اشارا کھلا،سڑک پر زیبرا کراسنگ کے قریب شیرنی کے لوگو والی وہی گاڑی آکر رُکی۔میں سیدھا دیکھنے کی بجائے اس کی طرف گردن موڑ کر اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور اسی حالت میں سڑک کراس کررہا تھا۔اسی حالت میں ، میں نے دیکھا کہ شیرنی کے لوگو والی کار کی مالکن مجھے خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی۔سڑک پار کرکے میں رک گیا۔پلٹ کر دیکھا تو وہ سگنل کھلتے ہی آگے کی طرف نکل گئی تھی۔میں کچھ دیر تک وہاں یونہی کھڑا رہااور پھر زیبرا کراسنگ کی طرف مڑ کر واپسی کا ارادہ کیا۔مجھے اندازہ نہیں کہ میں کدھر جا رہا تھا ۔ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ ٹریفک سگنل کس طرف سرخ ہے اور کس طرف سبز ہے۔۔۔میرا رستہ کھلا ہے یا نہیں۔۔۔میں کچھ دیکھے بغیر چل پڑا،تب ہی دوسری طرف سے شیرنی کے لوگو والی وہی گاڑی ریورس میں آتی دکھا ئی دی۔لیکن اب کبھی وہ شیرنی کے لوگو والی کار لگتی تھی اور کبھی سچ مچ کی شیرنی۔۔۔جس کا چہرہ بالکل کار کی مالکن جیسا تھا۔ایک قد م پر شیرنی اور ایک قدم پر کار ۔۔۔۔اس کے دونوں روپ ادل بدل رہے تھے اور پھر مجھے پتہ نہیں چلا کہ کار کی ڈگی زور سے میرے جسم کے درمیانے حصے سے ٹکرائی تھی یا لوگو والی شیرنی نے لوگو سے چھلانگ لگا کرمجھے اپنے جبڑوں میں دبوچ لیا تھا۔میرے جسم کا درمیانہ حصہ خون سے لت پت تھا،میں سڑک کے بیچ میں پڑا ہوا تھا۔میری جان نکل چکی تھی لیکن شاید تھوڑی سی باقی تھی۔
میں نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنے خون میں لت پت حصے کو ہاتھ لگایا۔اور اطمینان کا سانس لیا۔
اللہ کا شکر ہے، وہ خون نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...