یہ کہانی اس وقت کی ہے جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ میرے والدین مجھے آئی آئی ٹی میں بھجوانا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے میری تعلیم پر شروع ہی سے بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ مجھے بھی پڑھنے میں کافی دلچسپی تھی اسی لیے سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا۔ وہ ایک انگلش میڈیم اسکول تھا۔ میری کلاس میں چالیس بچے تھے جن میں سے میں اکیلا ہی مسلم تھا۔ لیکن خاص بات یہ تھی کہ میں کلاس کا ٹاپر تھا۔ اس بات پر مجھے ہمیشہ ہی فخر محسوس ہوتا تھا۔ آٹھویں کلاس میں، اسکول شروع ہونے کے دو مہینے بعد ایک نئے لڑکے کا ایڈمشن ہوا۔ اس کا نام راجیندر دیشمکھ تھا۔ اس کے والد سول سروس میں تھے۔ اچانک ان کا ٹرانسفر ہمارے شہر میں ہوا تھا اسی لیے وہ اسکول شروع ہونے کے دو مہینے بعد آیا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ اس کا ایڈمشن ہوا اور دو دنوں کے بعد ہی ہمارے پہلے یونٹ ٹیسٹ شروع ہوگئے۔ میں اپنی پوری طاقت سے پڑھائی کر رہا تھا۔ مجھے کلاس میں اپنی ٹاپ پوزیشن کو برقرار رکھنا تھا اسی لیے بہت زیادہ توجہ کے ساتھ چھوٹے سے چھوٹے پوائنٹ کو بھی چھوڑ نہیں رہا تھا۔ ہر ایک سوال کے جواب کو دو دو تین تین مرتبہ لکھ کر پکا کر رہا تھا۔ یونٹ ٹیسٹ کے تمام پیپرس بہت شاندار ہوئے اور ایک ہفتے بعد اس کا ریزلٹ بتایا گیا۔ مجھے اپنے ٹاپ ہونے کا یقین تھا لیکن اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب معلوم ہوا کہ میں کلاس میں دوسرے نمبر پر آیا ہوں؟ یہ کیسے ہوسکتا تھا؟ ٹاپ کون آیا؟ کلاس ٹیچر میڈم نے جب ٹاپر کا نام ڈکلیئر کیا تو خصوصاً مجھے بالکل یقین نہیں آیا۔ راجندر کلاس کا ٹاپر تھا! اس نے تو صرف دو دن پہلے اسکول آنا شروع کیا تھا؟ یہ تمام سوالات دماغ میں ہتھوڑے برسارہے تھے۔ میں نے اپنے آنسر پیپرس چیک کئے کہ کہیں ٹیچر نے کوئی نمبر دینے میں غلطی کر دی ہو ؟ لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ سارے نمبر برابر دئیے گئے تھے، لیکن راجندر کو چار نمبر زیادہ ملے تھے۔ راجندر کی اس طرح انٹری نے اسے سب کی نظروں کا مرکز بنادیا۔ کلاس ٹیچر میڈم نے مجھے دیکھ کر ، مسکرا کر کہہ بھی دیا تھا کہ "مسٹر صدیقی اب آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی! اب آپ کے سامنے صحیح مقابلے والا کھلاڑی آیا ہے! " بہت کم عرصے میں وہ ہماری کلاس کا ہیرو بن گیا تھا۔ کلاس میں ہر کوئی اسے راجو کہہ کر بلاتا تھا۔ وہ بہت ہی فرینڈلی نیچر کا لڑکا تھا۔ سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہنا، کھیل کے میدان میں سب کے ساتھ کوآپریٹ کرنا، پڑھائی کے معاملے میں سب کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ! مطلب یہ کہ وہ کلاس کا ہیرو بن چکا تھا، سب کی نظروں کا مرکز! ۔۔۔۔۔۔ اس نے مجھے نمبر ایک پوزیشن سے ہٹا کر، اتنے نیچے پھینک دیا تھا کہ میں کتنی بھی کوششیں کرنے کے باوجود بھی اٹھ نہیں پارہا تھا۔ اس کے لئے ایک شدید نفرت میرے دل میں اتر آئی۔ حالانکہ وہ مجھ سے ہمیشہ خوش اخلاقی سے ہی ملتا تھا لیکن میں دل ہی دل میں اس سے نفرت کرنے لگا۔ اب میرے دماغ میں رات دن بس ایک ہی خیال رہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے اسے نقصان پہنچاؤں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے کلاس میں اپنی دوسری پوزیشن بھی برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ امی خاص طور پر بہت پریشان ہوگئی تھی کہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ ایک مرتبہ تو امی اور ابو دونوں اچانک اسکول آکر پرنسپل میڈم سے بھی ملے اور تمام ٹیچرس سے مل کر پتہ چلانے کی کوشش کرنے لگے کہ میرا مسلہ کیا ہے؟ لیکن انہیں کچھ بھی پتہ نہیں چلا کیونکہ میرا مسلہ تو میرے اندر پنپ رہا تھا۔ اس کا کسی کو بھی کیسے پتہ چلتا؟ جب بھی میں پڑھنے کے لئے کتاب کھولتا، صفحہ پر راجو مسکراتے ہوئے دکھائی دیتا اور پھر میں نہایت نفرت سے کتاب کو پھینک دیتا۔ ایک دن میرے دماغ میں ایک ترکیب آئی اور میں نے اسے عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا! میں نے راجو سے اس کا انگلش کا بک ایک دن کے لئے مانگ لیا۔ اس نے وہ بک فوراً دے دیا۔ گھر آنے کے بعد میں نے اس کے بک کو سامنے رکھ کر اس کے جیسی ہینڈ رائٹنگ بنانے کی کوشش شروع کردی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد میں اس سے ملتی جلتی رائیٹنگ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے ایک چھوٹے سے کاغذ پر لکھنا شروع کیا "ڈیئر ویشالی میڈم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" آگے مختصر میں وہ سب لکھا تھا جسے پڑھ کر میڈم نے زبردست ناراض ہونا ہی تھا۔ یہ سب کچھ میں نے راجو کی رائٹنگ میں لکھا تھا! ۔۔۔۔۔۔ اگلے دن صبح جب میڈم نے ہم لوگوں کے نوٹ بکس چیک کرنے کے لئے جمع کئے تب میں ان کے ساتھ ساتھ تمام نوٹ بکس اٹھاۓ اسٹاف روم تک آیا۔ ان کے ٹیبل پر تمام نوٹ بکس رکھا اور نہایت چالاکی سے وہ چٹھی نکال کر راجو کے بک میں رکھ دیا اور واپس چلا گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ بس کچھ ہی دیر بعد دھماکہ ہونے والا ہے! شام چار بجے شکلا سر کی ہندی کی کلاس شروع ہوئی ہی تھی کہ ویشالی میڈم نہایت غصے کی حالت میں کلاس روم کے دروازے پر دکھائی دئیے۔ وہ سر سے پرمیشن مانگ کر کلاس روم میں داخل ہوئے اور راجو کو کھڑے ہونے کے لئے کہا۔ میں اندر ہی اندر مسکرارہا تھا۔ میڈم نے اسے بہت زبردست طریقے سے ڈانٹ لگائی اور اسے کھینچ کر پرنسپل کے آفس تک لے گئی ۔ بے چارے راجو کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ ۔۔۔۔ لیکن پرنسپل میڈم کے سامنے ویشالی میڈم نے جب وہ پرچی رکھی تو راجو حیران تھا۔وہ بار بار بس یہ کہہ رہا تھا کہ اسے کچھ نہیں معلوم، اس نے کچھ نہیں کیا؟ لیکن اس پرچی میں اسی کی ہینڈرائنگ تھی! اگلے دن راجو کے ممی اور ڈیڈی کو اسکول میں بلوایا گیا۔ وہ دونوں بہت بری طرح سے پریشان تھے۔ وہ حیران تھے کہ ان کا بیٹا یہ کام کیسے کرسکتا ہے؟ انہوں نے ویشالی میڈم سے معافی بھی مانگی تھی لیکن راجو کی غلطی ناقابلِ معافی تھی۔ لیکن راجو معافی نہیں مانگ رہا تھا۔ اس کا ابھی بھی یہی کہنا تھا کہ یہ سب اس نے نہیں کیا ہے! ۔۔۔۔۔ راجو کو ایک دن کی مہلت دی گئی اور کہا گیا کہ وہ میڈم سے معافی مانگ لے، ورنہ اسکول سے اسے نکال دیا جائے گا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ راجو کو سب کی ڈانٹ ملے گی اور بس۔۔۔۔۔ لیکن اس دن جب راجو کو اسکول سے نکالنے کی بات مجھے معلوم پڑی تب پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت بڑی غلطی کر لی ہے! میرے دل پر ایک زبردست بوجھ آگیا تھا۔ گھر پہونچا تب بالکل خاموش تھا۔ کسی سے کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ کمرے میں جاکر لیٹ گیا اور آنسو بہانے لگا۔ رات کے کھانے پر امی کے بہت اصرار پر کھانا کھانے گیا۔ ابو کی عادت تھی کہ کھانے کے بعد وہ کمپیوٹر میں کسی نا کسی اسلامک اسکالر کا بیان لگاتے تھے۔ آج بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے مولانا صاحب کا بیان لگائے تھے جس میں مولانا کہہ رہے تھے کہ انسان کے دل کو سکون اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نا کرے۔ میں نے غور سے بیان سنا۔ پھر ابو کے پاس جا کر ان سے پوچھا۔۔۔ "ابو یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیسے کیا جاتا ہے؟"۔ ۔۔ ابو کہنے لگے۔۔۔ "اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا۔ کوئی بھی کام کرتے وقت یہ سوچنا کہ اس کام سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا یا ناراض! ۔۔۔۔ بس یہی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔۔۔" ابو خاموش ہوگئے۔لیکن وہ غور سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر بعد پھر سوال کیا، "ابو! اگر غلطی سے اپنے ہاتھوں ایسا کام ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ناگوار گزرے تو۔۔۔۔ پھر کیا کرنا چاہئے؟ " ۔۔۔۔۔ ابو مجھے غور سے دیکھ رہے تھے، انہوں نے کہا۔۔۔ "اگر اپنے ہاتھوں ایسا کوئی کام ہوجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لینا چاہیے اور توبہ کرنا چاہیے۔۔۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ فوراً ہمیں معاف کردیتا ہے۔۔۔ " ۔۔۔۔ میں خاموشی سے یہ سب سن رہا تھا۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی، لیکن اب مجھے خیال آیا کہ میرے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لینے سے راجو کو ہونے والا نقصان تو ٹل نہیں سکتا؟ ۔۔۔۔ پھر میری اس معافی کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ ابو مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ انہوں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔ "کیا بات ہے بیٹا! کچھ پریشان ہو؟ " ۔۔۔۔ میں ابو کے قریب گیا اور پوچھنے لگا۔۔ "ابو! اگر اپنی کی ہوئی غلطی سے کسی اور کو سزا مل جائے اور اس کا بہت بڑا نقصان ہوجائے تو کیا پھر بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لینا کافی ہوگا ؟ " ۔۔۔۔۔ اب ابو کچھ پریشان سے دکھائی دئیے۔ پھر انہوں نے کہا۔۔۔۔ "نہیں بیٹا! اگر ہماری کسی غلطی یا گناہ سے کسی اور کو نقصان پہنچا ہوتو ہمیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرے گا جب تک کہ ہمیں وہ انسان معاف نا کردے جسے ہم نے نقصان پہنچایا ہے۔"۔ ۔۔۔ یہ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ امی اور ابو دونوں میرے پاس آگئے تھے، مجھے سمجھا رہے تھے، مجھ سے پوچھ رہے تھے۔۔۔ لیکن میں صرف رو رہا تھا۔ اگلے دن صبح میں امی اور ابو دونوں کے ساتھ اسکول میں پرنسپل میڈم کے سامنے موجود تھا۔ ابو نے انہیں سارا معاملہ صاف صاف لفظوں میں بتادیا تھا۔ پرنسپل میڈم خاموشی سے تمام باتیں سن رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد راجو بھی اپنے والدین کے ساتھ آگیا تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی رو پڑا۔ جب ساری باتیں راجو کے والدین کو اور ویشالی میڈم کو معلوم پڑی تب سب حیران رہ گئے۔ کچھ دیر بعد پرنسپل میڈم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ " سلیم! تم نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ اب تمہیں سزا ہوگی۔ تم خود ہی بتاؤ کہ تمہیں کیا سزا ملنی چاہیے؟" ۔۔۔۔ میں بری طرح سے رو پڑا اور روتے روتے کہنے لگا۔۔۔۔ "میڈم! آپ راجو کو اس اسکول سے مت نکالو۔۔۔۔ اس نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔ آپ مجھے اس اسکول سے نکال دو۔۔۔۔ " میرے منہہ سے یہ باتیں سنتے ہی راجو کی امی اپنی جگہ سے اٹھی اور انہوں نے میرے قریب آکر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور پرنسپل میڈم سے کہنے لگی۔۔۔۔۔ "نہیں میڈم! آپ پلیز سلیم کو معاف کر دیجیۓ۔ یہ بہت بہادر بچہ ہے۔۔۔۔ میں تو چاہتی ہوں کہ راجو زندگی بھر اس کے ساتھ رہے۔۔" پھر انہوں نے مجھے گلے لگا لیا اور راجو سے کہنے لگی۔۔۔ "راجو! یہ دنیا کا سب سے بڑا بہادر اور سچا انسان ہے۔۔۔۔ اس کے ساتھ زندگی بھر دوستی رکھنا۔۔۔۔" اس وقت ویشالی میڈم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے! چار سال بعد اسی اسکول سے بارھویں کے امتحانات کے بعد ہم نے آئی آئی ٹی کے انٹرنس کے امتحان دئیے تھے۔ پہلی بار اس اسکول سے دو بچوں کو آئی آئی ٹی کے داخلے کے امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی تھی، ان بچوں کے نام تھے۔۔۔۔ سلیم صدیقی اور راجندر دیشمکھ!
“