جون کی گرمی زوروں پر ہے۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ شہر کی سڑکیں اور بازار صبح کی چند گھنٹوں کی چہل پہل کے بعد بتدریج خاموش ہوتے ہوتے اب ویران ہو چکے ہیں۔ٹھیلے اور ریڑھی پر مشروبات، پھل،سبزیاں ، ٹھنڈی عینکیں اور دوسری چیزیں فروخت کرنے والے بڑی سڑکوں کے کناروں پر موجود اکا دُکا درختوں کے سایوں میں کھڑے اپنے گاہکوں کے منتظر ہیں۔نہر کے پاس لگے پانی کے نلکے پر چند افراد ایک دائرہ بنائے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ نلکے کے نیچے غلیظ کیچڑ بدبو کے بھبھوکے چھوڑ رہا ہے اور نلکے کے شکستہ احاطے سے نکل کر دو نالیوں کی شکل میں نیچے نہر میں غائب ہو جاتا ہے۔ نلکے کے اُوپر نیم کے ٹھگنے درخت کی گھنی چھاؤں سورج کی آگ کو بھرپور انداز میں روکے ہوئے ہے۔ اسی چھاؤں کے نیچے فدیا موچی نہر کی شکستہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بارہ تیرہ نمبر کی ایک بوسیدہ کھیڑی کو پالش کرکے نیا پن عطا کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ فدیے کے سامنے لکڑی کی پیڑھی پر اس کھیڑی کا مالک دراز قد پختون نوجوان اُس کو بہتر پالش کرنے کی ہدایات دے رہا ہے۔ پختون نوجوان کی پُشت سڑک پر ہے۔ اُس کی قمیض کندھے سے تھوڑا نیچے پھٹی ہوئی ہے جس کی درز سے اس کا سرخ جسم تازہ اور گرم خون کی موجودگی کی گواہی دے رہا ہے۔
میں نے گورنمنٹ کالج جانا تھا جہاں سے میں نے ایم اے کی ڈگری لینی تھی جو کئی سالوں سے ضرورت نہ پڑنے پر میں وصول نہ کر سکا تھا۔ جب میں کالج کے مین گیٹ پر پہنچا تو گیٹ کھلا تھا اور دور دور تک کوئی آدم زاد دکھائی نہ دیا۔ شدت کی گرمی سے میں سر تاپا پسینے میں تربتر ہو کر کالج کی عمارت میں داخل ہوا اور کالج کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ نوٹس بورڈ گیلر ی میں دو پژمردہ مالی فرش پر آلتی پالتی مارے گپیں لگا رہے تھے۔ اُن کو دیکھ کر کچھ سکون کا احساس ہوا کہ چلو کوئی انسان تو یہاں موجود ہیں۔ ان کے قریب سے گزرا تو انہوں نے میرے سراپے پرایک اُچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی ۔ان کے دیکھنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ انہوں نے اس جھلساتی ہوئی گرمی میں میری ٹائی میں پھنسی گردن اور انگریزی لباس کو قبول نہیں کیا۔لیکن شاید اسی لباس کی ہی وجہ تھی کہ دفتر میں موجود کلرک نے میرا تپاک سے استقبال کیا اور چند منٹوں میں ہی پرانی الماری کھول کر میری ایم اے کی ڈگری میرے حوالے کر دی۔ اس نے میرا شناختی کارڈ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ہاں ایک سبز رنگ کی جلد میں چھپے رجسٹر پر ڈگری وصولی کے دستخط ضرور کرائے۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث پنکھا بند تھا۔ میری کلائی کے پسینے کے چند قطرے اس رجسٹر کے صفحے کو بھی گیلا کر گئے جس سے اوپر کچی سیاہی سے لکھی چند لائنیں مٹ گئیں۔
کلرک آفس سے باہر نکل کر میں اینٹوں سے بنی ہوئی اسی سولنگ پر واپس روانہ ہوا جہاں سے میں دفتر کی طرف آیا تھا۔ میرے پیچھے مالیوں کی کھسر پھسر سے اندازہ ہوا کہ وہ میرے اس نفیس لباس کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں۔ بوڑھے مالی نے جیب سے نسوار کی ایک پڑیا نکال کر چٹکی اپنے منہ میں ڈالتے ہوئے کنکھیوں سے مجھے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ خشخشی داڑھی اور الجھی ہوئی سفید مونچھوں کی بیچ پیلے دانت واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے۔ لگتا تھا کہ اس نے کئی سالوں سے نہانے کا تکلف نہیں کیا تھا۔ بے ترتیب بالوں کے درمیان کھوپڑی کا چمڑا تمتما رہا تھا۔ کھچڑی بالوں پر سیاہ خضاب کی موجودگی اوپری اوپری محسوس ہو رہی تھی کیونکہ داڑھی اور مونچھیں بالکل چٹی سفیداور بال کالے سیاہ۔
میں بائیں طرف گھومنے والا تھا کہ اچانک میری نگاہ دائیں طرف بنے سائنس بلاک اور اُس سے پرے ایم اے بلاک کی طرف اُٹھ گئی۔اس بلاک میں مَیں نے پندرہ سولہ برس قبل ایم اے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا میں اتنا عرصہ قبل چھوڑ کر گیا تھا۔ دیواروں اور کمروں کا رنگ قدرے بدل چکا تھا اور اینٹوں سے بنی سولنگ کے ارد گرد ننھے منے پودے چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں لگادیے گئے تھے جو اس وقت شدت کی گرمی کی وجہ سے سوکھ چکے تھے۔ لگتا تھا کہ ان ننھے پودوں نے مرنے سے پہلے کتنے ہی دن مالی کی راہیں دیکھی تھیں اور آسمان سے بارش برسنے کا انتظار کیا تھا۔
میں نے سوچا کیوں نہ ایک چکر اپنے ڈیپارٹمنٹ کا لگا لوں جہاں میں نے جوانی کے دو قیمتی برس گزارے تھے۔ دوپہر کے ایک بجنے والے تھے۔ میں نے تین بجے والی بس کی ٹکٹ پہلے ہی سے بک کرا رکھی تھی تاکہ بعد میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سورج سر کے اوپر رک سا گیا تھا۔ عمارت اور درختوں کے سائے سکڑ چکے تھے۔ انگریزی کے حرف یو کی شکل میں بنائے گئے ایم اے بلاک کے کمروں کے سامنے موجود گیلری خاموش پڑی تھی۔ بل کھاتی ہوئی گیلری کے سامنے سیمنٹ کا فرش شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔ اس گیلری میں ہم سردیوں میں بیٹھ کر پیریڈ لگایا کرتے تھے۔گلابی جاڑے کی دھوپ ترچھی ہو کر ہمارے سرد جسموں کو سینکا کرتی تو طبیعیت میں ایک نامعلوم پرسکون سی طمانیت داخل ہوجاتی۔ گیلری کی سردیوں کے یہ پیریڈز سعدیہ کی ضد پر لگائے جاتے۔ سعدیہ کا منحنی سا جسم کمروں کی سردی برداشت نہ کر سکتا تو وہ دھوپ میں بیٹھنے کی ضد کیا کرتی۔ سعدیہ ہماری کلاس کی واحد لڑکی تھی جو گاؤن کے بغیر کالج آیا کرتی جس سے اس کا جسم مزید سرد ہو جاتا۔ گرم شال اور اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی سوئیٹر یا جرسی کے باوجود سرد کمرے میں اس کے دانت بجتے رہتے۔ڈاکٹر سجاد ہم کو رومانوی شاعری پڑھایا کرتے تھے۔ جان کِیٹس کو پڑھاتے ہوئے وہ سماں باندھ دیا کرتے۔ کِیٹس کی اوڈز پڑھاتے ہوئے وہ یونانی دیومالا ؤں میں یوں ڈوب جاتے کہ بسا اوقات خود کوئی یونانی سورمامعلوم ہوتے۔ سعدیہ کِیٹس اور ورڈزورتھ کی دلدادہ تھی تو مجھے شیلے اور لارڈ بائرن پسند تھے۔ دونوں جوڑوں کی رومانوی اپروچ میں صدیوں کی مسافتیں موجود تھیں لیکن پھر بھی سعدیہ اور میں فارغ پیریڈز ایک ساتھ گزارا کرتے۔ ہم دونوں کی رفاقت کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ کلاس کے دوسرے ساتھیوں میں ادبی ذوق برائے نام تھا اور وہ دنیاوی مقاصد کے لیے ایم اے انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جبکہ سعدیہ اور مجھے ادب اور خاص کر انگریزی ادب میں گہری دلچسپی تھی۔ہماری قربت کی دوسری وجہ ہم دونوں کا انیسویں صدی کے ابتدائی ربع صدی کے رومانوی شاعروں کی تخلیقات میں دلچسپی لینا تھا۔ہم تعلیمی معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے جس سے دونوں کا کام آسان ہو جاتا۔ ہم دونوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ دوسرے ہم جماعت ہمیں کنکھیوں سے دیکھتے ہیں یا بلاک کے سامنے والے پلاٹ میں بیٹھتے ہیں تو کالج کی انٹر اور بیچلر کلاسوں کے لڑکے ہم پر آوازیں کستے رہتے ہیں۔ ہم ان کی طرف کیسے توجہ مبذول کر سکتے تھے جبکہ ہم تو جان کِیٹس کی بلبل کے ہمراہ اندھیرے جنگلوں میں محوِ پرواز ہوتے، یا پھر یونانی گلدان پر کھدی تصویروں کی تعبیریں کرتے کرتے قدیم مندروں، پہاڑوں ، وادیوں اور میدانوں کی سیروں پر نکل جاتے۔ بعض اوقات تو شہتوت کے درختوں کے عقب میں بیٹھے بیٹھے ہمیں موسم کی سختیوں کی بھی کوئی پرواہ نہ رہتی جب ہم شیلے کی غربی ہواؤں کے جنگلی طوفانوں کی تذکروںمیں کھو جاتے یا انسانی عقل کے حسن میں محو ہوا کرتے۔
کلاس میں جب کبھی کوئی presentation دینی ہوتی تو ہمیشہ سعدیہ اور میں ہی پیش پیش ہوتے۔ اساتذہ کرام ہماری قابلیت کی بنا پر کلاس کی ہر سرگرمی میں ہماری رائے کو فوقیت دیتے تھے۔ اس بنا پر کچھ کلاس فیلوز ہم سے رشک کرتے تو کچھ حسد۔ شبیر جو قریبی گاؤں سے آیا کرتا تھا ایک کند ذہن ، غبی اور ڈھیٹ قسم کا لڑکا تھا۔ عمر میں وہ کلاس کا سینیئر لڑکا تھا لیکن اس کو نہ بات کرنے کا طریقہ آتا تھا نہ اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ۔ اس کا کام صرف ہم جماعت لڑکیوں کو تاڑنا اور بیہودہ انداز میں تنگ کرنا ہوتا۔لگتا تھا کہ اس نے کلاس میں داخلہ صرف اسی مقصد کے لیے لیا تھا۔اس کی نالائقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مختلف انگریز مصنفین کی تحریروں کا متن دیکھ کر بھی انگریزی میں نہ پڑھ سکتا۔ اس نے کئی مرتبہ سعدیہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن سعدیہ رسمی گفتگو سے آگے نہ بڑھی۔ میری موجودگی اس کو بری طرح کھٹکتی تھی۔ ہم دونوں کو وہ جب بھی ایک ساتھ گیلریوں میں یا بلاک کے قریبی درختوں کی بیچوں بیچ بچھی روشوں میں ٹہلتے دیکھتا تو اس کو گویا آگ لگ جاتی۔ اُس کی اِس رقابت کو دیکھ کر سعدیہ پہلے سے بڑھ کر میرے قریب آ گئی۔ اب ہم نے کلاس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ ایک روز کالج داخل ہوتے ہوئے شبیر کا گیٹ کیپر کے ساتھ جھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے اس کو کالج سے نکال دیا گیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ سعدیہ جو شاید شبیر کو مزید جلانے کے لیے میرے قریب آ گئی تھی کہیں شبیر کے جانے کے بعد دور نہ چلی جائے۔ لیکن یہ خدشہ درست ثابت نہ ہوا اور ہماری رسمی دوستی اور مضبوط ہوتی چلی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہم نے کبھی بھی اپنے اس تعلق کورومانوی روپ نہ دیا یا پھر ہم ایسا کر نہ سکے۔ ہم نے کبھی بھی کالج سے باہر ملاقات نہ کی اور نہ ہی کبھی ایک دوسرے کو تحائف کا تبادلہ کیا۔ ہاں کالج کی کنٹین پر ہم کئی مرتبہ چائے کے بہانے لمبی لمبی بیٹھکیں لگا یا کرتے اور ان دنوں جب امتحانات، بارشوں، سپورٹس یا کسی اور سبب کلاسز نہ ہوتیں یا جلد ختم ہو جاتیں ہم دونوں مقررہ وقت تک کالج کے خاموش لانوں میں گھومتے رہتے۔
جب ہمارا کالج میں آخری دن تھا تو تیز بارش ہو رہی تھی۔مارچ کے مہینے کا معتدل موسم بھی موسلادھار موسم کی وجہ سے سرد ہو گیا تھا۔بارش کے باعث ہم صبح سے کمرے میں مقید تھے۔میری خواہش تھی کہ اس آخری دن ایم اے بلاک سے دور سعدیہ کے ساتھ آج کا یادگار دن گزارا جائے گا۔رات مجھے عجیب عجیب سے خواب آتے رہے تھے جن کی تکمیل مَیں اس دن پوری ہوتے دیکھ رہا تھا۔ لیکن بارش نے کچھ نہ ہونے دیا۔ اس دن الوداعی پارٹی ہونا تھی ۔ لڑکیوں اور لڑکوں کو بڑے کمرہ جماعت میں الگ الگ بٹھادیاگیا۔سعدیہ آخری ڈیسک پر خاموشی اور سنجیدگی سے پارٹی کی کارروائی دیکھتی اور سنتی رہی۔پارٹی کے اختتام پر جب کھانے پینے کا دور چلا تو میں نے سعدیہ کو ڈھونڈنا چاہا لیکن وہ مجھے نظر نہ آئی۔ سارہ نے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے میری مشکل حل کرتے ہوئے کہا کہ بھائی شاید آپ سعدیہ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ پارٹی ختم ہوتے ہی عقبی دروازے سے گھر چلی گئی ہے۔
میں بھی خاموشی سے کچھ کھائی پیے بغیر کالج سے باہر نکل گیا۔ میں نے ایم اے اچھی ڈویژن میں پاس کر لیا تھا اور ایک دور دراز کے ضلع میں ایک اچھی پوسٹ پر تعینات ہو گیا۔ زندگی کے بکھیڑوں اور سروس کی مصروفیات نے چند مہینوں کے اندر ہی ماضی کی کتاب بند کرکے رکھ دی۔ لیکن آج سالوں بعد وہ کتاب اچانک کھل گئی تھی۔ میں اینٹوں سے بنی ہوئی سولنگ پر کھڑا تھا اور اُچٹتی ہوئی نگاہوں سےاپنے کمرہ جماعت اور گیلری کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ کمرے کے دروازے کے بائیں طرف پلر کی اوٹ میں بازوؤں والی کرسی پر سعدیہ گہرے مطالعے میں گم بیٹھی ہوئی ہے۔ اسے موسم کی شدت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ وہ ٹامس ہارڈی کی معصوم ہیروئن TESS کی زندگی کی المیہ کہانی پڑھ رہی ہے جس میں فطرت کا وہ معصوم کردار اپنے گھرانے کے واحد کفیل جانور ایک گھوڑے کی موت کا ذمہ دار خود کو قرار دے کر تیز دھوپ میں فصل کی کٹائی میں دوسروں کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔ سعدیہ کے چہرے پر مجھے TESS کا گمان ہوالیکن میں نے کبھی سعدیہ سے اس کے گھریلو حالات پر گفتگو نہیں کی تھی جس سے دونوں کرداروں میں کوئی مشابہت کا قیاس کیا جاتا ۔ کیا سعدیہ کی زندگی بھی TESS کی طرح مصیبتوں بھری تھی جس کو شاید کسی ANGEL CLARE کا سہارا درکار تھا لیکن قسمت اس کو ALEC جیسے برے انسان کے ہاتھوں میں پھنسا گئی۔
سعدیہ تمہارا ANGEL برازیل سے واپس آ گیا ہے۔ اس کا استقبال کرو۔ اس نے واپسی میں کچھ دیر کردی لیکن آ تو گیا ہے۔ کیا تو نے اس کا انتظار کیا تھا اور کیا تو کسی ALEC کے گھر کی زینت تو نہیں بن گئی۔ تمہیں ضرور وہ دور یاد ہو گا جب ہم اسی گیلری، اسی کمرے ، اسی کالج میں ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ہم نے کتنی مرتبہ کالج کی کینٹین پر ایک ساتھ چائے پی تھی اور گھنٹوں یونانی دیومالاؤں کے پراسرار کرداروں پر ہلکی ہلکی آوازوں اور دھیمے لہجوں میں گفتگو کی تھی ۔او دور بیٹھی جان کِیٹس کی بلبل آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ کیا کبھی کوئی بلبل بھی ایسے خاموش ہوسکتی ہے جیسے تو خاموشی کی بکل اوڑھے خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔
پیپل کے اونچے درخت پر ایک چیل شاخ پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی۔ تھوڑے وقفے کے بعد وہ ہلکی سی چیخ مارتی جس سے تندور کی گرمی میں لپٹے کالج کے خاموش لانوں میں زندگی کی ملگجی رمق لوٹ آتی۔ اچانک گدھوں کا ایک گروہ جانے کہاں سے آن پہنچا اور اپنی وحشت ناک اور کریہہ آوازوں سے ماحول میں وحشت کا عنصر بھی داخل کر دیا۔جانے وہ کس مُردار کودیکھ چکے تھے جس کی بُو ان کو دور دراز علاقوں سے یہاں ویرانے میں کھینچ لائی تھی۔ دوپہر کی گرمی سے ایم اے بلاک کے صحن اور گیلری کے سنگ مرمرآگ جیس سرخ سرخ شعائیں منعکس کر رہے تھے۔ ہلکی ہلکی چلتی ہوئی گرم لو سے میرے سر میں درد ہونے لگا ۔ میں لوٹا توسائنس بلاک کے باہر پودوں کی آبیاری کے لیے بنائی گئی ٹونٹی چل رہی تھی۔ میں نے ٹونٹی کے ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھویا اور کندھے پر رکھا سفید رومال بھگو کر سر پر لپیٹ لیا۔ اچانک ٹھنڈک کا ہلکا سااحساس ہوا اور میں کالج کی عمارت سے باہر نکل آیا۔ چیلوں اور گِدھوں کی آوازیں گرما کی دھوپ میں لپٹے کالج کے احاطے میں دب کر رہ گئی تھیں جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتی چلی گئیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...