ایک زمانہ تھا جب انسانی برابری کی بہت دلدادہ تھی، پھر عملی زندگی میں قدم رکھا تو ہندو سماج کی رسومات بہت بہرت محسوس ہونے لگیں جہاں شودر کو سنسکرت سننے پر کانوں میں سیسہ ڈال دیا جاتا تھا اور خاوند کے مرنے پر بیوہ کو آگ میں خاوند کے ساتھ ہی جلا دیا جاتا تھا ،کہنے دیکھنے اورسننے کی حد تک یہ ظلم لگتا ہے مگر جب معاشروں کی بنت پر غور کیا جاۓ تو یہی اصول آج بھی لاگو نظر آتے ہیں بس محسوس نہیں ہوتا ،اب انسان پل پل مرتے ہیں اور نچلا طبقہ آج بھی شودر ہی کا درجہ رکھتا ہے،ملازموں کے معاملے میں بڑے تجربے کییۓ انھیں اپنے بچوں کے برابر رکھا ،نیند سے نہ جگایا مگروہ جو بچپن کی بھوک ہوا کرتی ہے اس کا حل کبھی نہ مل سکا پھر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ جو درجات بناۓ جاتے ہیں یا ذات برادری کا کھیل ہے وہ بہت مناسب ہے ،خالی ڈبہ میں دانے زیادہ ہوں تو کھڑکتا ہے ، ہر نعمت ہر کسی کے لیے نہیں ہوتی مگر ہم مساوات کے شوق میں انسانوں کے درجات بدلتے ہیں اورذات کے شودر اپنی برادری جوگے بھی نہیں رہتے ،مجھے یونورسٹی کا ایک وقعہ کبھی نہ بھولا فروٹ سیلڈ اس وقت نیا آیا تھا ،میرے کمرے کا دروازہ دیر رات سے کسی نے کھٹکھٹایا وہ لڑکی محض ہاسٹل فیلو تھی کمرے میں آٸ تو ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا فروٹ سیلڈ اور کچھ اور کھانا جو اسے بواۓ فرینڈ نے قیمتکے طور پر ادا کیا چنیوٹ کے کسی دور دراز گاٶں سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی ایک برگر اور سیلڈ پر خود کو ہار کر میرے کمرے میں اپنی سہلیوں سے چھپ کر وہ کھانا کھانا چاہتی تھی ،ہم اپنی نمود ونماٸش میں ایسے طبقہ کو مزید محرمیوں میں جھونک دیتے ہیں جن کے پاس جسم کے سوا بیچنے کو کچھ نہیں ہو۔