وہ میرا بچپن کا دوست ہے۔ بچپن ہم نے ایک ساتھ گزارا، جوانی الگ الگ شہروں میں اور اب بڑھاپا گزارنے کے لیے ہم پھر اپنے آبائی شہر میں آ چکے ہیں۔ ہماری خاندانی زمینیں اسی شہر کے مضافات میں ہیں۔ جن کی دیکھ بھال سے ہمارے بچوں کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ان میں سے کچھ ملک کے بڑے شہروں میں رہ رہے ہیں اور کچھ بیرون ملک پرواز کر چکے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں دوست ان پتوں کی طرح ہیں جو خزاں کے موسم میں ٹوٹ کر اپنے ہی تنے کے قدموں میں، اپنی جڑوں کے پاس آ گرتے ہیں۔
ہم دونوں اکثر شام کو لاری اڈے کے اس ڈھابے پر کافی وقت ایک ساتھ گزارتے ہیں جہاں زندگی کی چہل پہل ہمارے محلوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شام اس نے مجھے اپنی شادی کا قصہ سنایا تھا۔ شاید وہ یہ قصہ نہ سناتا اگر میں اس سے یہ نہ پوچھتا کہ اس کی بیوی اس کی بجائے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ کیوں رہتی ہے۔ وہ یہ سن کر نہ اداس ہوا، نہ پریشان، اس کی کیفیت یا ردِ عمل کو میں بالکل بھی نہ سمجھ سکا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا:
"پہلے میں اس کے ساتھ نہیں رہتا تھا، اب وہ میرے ساتھ نہیں رہتی۔"
یہ سن کر میں اور بھی الجھ گیا۔ مجھے اس کی بات بالکل سمجھ نہ آئی اور ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا۔ وہ دوبارہ ہنسا:
"دراصل میری شادی میری مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ میرا باپ اپنے ہم پلہ زمین دار رشتہ دار کو زبان دے چکا تھا۔ اور میں بغاوت کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ میں ایک شادی میں اس لڑکی کو دیکھ چکا تھا۔ وہ بالکل بھی خوبصورت نہیں تھی۔ "
"ایسا تھا تو گھر سے بھاگ جاتے۔" میں نے کہا۔
"میں گھر سے بھاگا بھی تھا۔ مگر میرا باپ طاقتور تھا۔ اپنے غنڈوں کی مدد سے اس نے مجھے ڈھونڈ نکالا تھا۔"
"ہوں" ۔۔۔۔ میں نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ "تم نے تو بڑے فخر سے بتایا تھا کہ شادی کے عین نو مہینے بعد تمھارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا۔"
وہ اب پھر ہنسا۔۔۔۔ کھلکھلا کے ۔۔۔۔۔ اس بار اس کی ہنسی میں ایک اور رنگ تھا ۔۔۔۔ اس نے کہا:
"بھوک لگی ہو تو انسان کسی بھی طرح کے کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔"
میں نے کچھ سوچ کر کہا:
"اس کے بعد بھی تمھارے تین بچے ہوئے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ تم اس کے ساتھ سیٹل ہو چکے تھے۔"
"نہیں کبھی سیٹل نہیں ہوا۔ شروع شروع میں زیادہ اور بعد میں کبھی کبھی اس کے ساتھ رات گزارتا تھا۔ اپنے دن میں نے اسے کبھی نہیں دیے۔"
"ایسی بات تھی تو دوسری شادی کر لیتے یار"
"نہیں کر سکتا تھا۔ بعد میں میری بہن اس گھر بیاہی گئی تھی اور وہ خوش تھی۔"
میں اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ میں چاہتا تھا وہ کچھ اور بھی کہے ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد اس نے کہا، یہ پہلی بار تھی کہ وہ ہنسے بغیر کچھ کہہ رہا تھا:
"لیکن ایسا کھانا کھا کر بھی بھوک نہیں مٹتی"
میں نے دیکھا کہ یہ کہتے ہوئے اس کی نگاہیں میری بجائے کہیں اور تھیں، میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا۔ وہ اُس حسین عورت کو دیکھ رہا تھا جو ابھی ابھی لاری اڈے پر کھڑی ایک بس سے اتری تھی۔
یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ وہ لاری اڈے کے اس ڈھابے پر اپنی ہر شام گزارتا تھا۔