اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے لیے صوم و صلوۃ کا پابند ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے مذہبی ولولوں کی تسکین کے لیے اس سے کہیں سوا چاہتے ہیں۔ ان کی تمنا ہوتی ہے کہ جس نور سے ان کا سینہ روشن ہے اس کی کرن دوسروں تک بھی پہنچے۔ وہ گمراہوں کی ہدایت کے لیے خطرناک جگہوں پر بھی جانے سے نہیں گھبراتے۔ انہیں نہ جان کا خوف ہوتا ہے نہ جگ ہنسائی کا، بلکہ وہ اس کام کو فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔
حاجی شفاعت احمد خاں اسےہی دینداروں میں سے تھے۔ پچاس کے لگ بھگ سن۔ بھاری بھرکم جسم مگر خوب گٹھا ہوا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جوانی میں کبھی کسرت سے شوق رہا ہوگا۔ سرخ و سفید رنگ، چوڑا چہرہ، کڑبڑی ڈاڑھی مگر خوب بھری ہوئی۔ آنکھیں بڑی بڑی شربتی رنگ کی جن میں ہروقت سرخی جھلکتی رہتی۔ چہرے پر ایک جلالی کیفیت، لباس ان کا عموماً یہ ہوتا۔ خالی رنگ کی شلوار، خالی رنگ کی قمیص، چار خانے کپڑے کا کوٹ، پاؤں میں نری کا جوتا جو ہمیشہ گرد سےاٹا رہتا۔ سر پر سفید صافہ کلاہ پر بندھا ہوا، ہاتھ میں موٹے بید کی چھڑی۔ غرض لباس اور شکل و صورت سے وہ اچھے خاصے مرد مجاہد معلوم ہوتے تھے۔
حاجی صاحب صبح کو شہر کے ایک سرے سے جو گشت شروع کرتے تو شام ہوتے ہوتے پورے شہر کو جیسے کھنگال ڈالتے۔ ان کے جاننے والوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ قدم قدم پر علیک سلیک ہوتی رہتی۔ کبھی پاؤ پاؤ گھنٹے سڑک کے کنارے ہی تلقین و ہدایت کا سلسلہ جاری رہتا۔ کبھی کوئی جان پہچان والا کسی ضرورت سے ساتھ لے جاتا مگر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ پھر گشت میں مصروف دکھائی دینے لگتے۔ وہ اپنی دین داری اور بزرگی کی وجہ سے بڑے ہردل عزیز تھے۔ یہاں تک کہ شہر کے حکام بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ کبھی محلے کا کوئی آوارہ مزاج لڑکا جوا کھیلنے یا کسی اور فعل شنیع کے الزام میں پکڑا جاتا تو اس کا باپ حاجی صاحب ہی کی پناہ لیتا۔
’’حضور۔ اس نالائق کے ہاتھوں سخت عاجز آگیا ہوں۔ میں نے تو کبھی کا عاق کردیا ہوتا۔ مگر اس کی بدنصیب ماں کچھ کرنے نہیں دیتی۔ جب سے سنا ہے کہ حوالات میں بند ہے سر پیٹ پیٹ کر برا حال کرلیا ہے۔۔۔‘‘ اور حاجی صاحب کی سفارش پر تھانے دار معمولی تنبیہ کے بعد لڑکے کو رہا کردیتا۔
ان کے رسوخ کی وجہ یہ بھی تھی کہ کسی زمانے میں وہ خود بھی شہر کے اہلکاروں میں سے تھے۔ شروع ہی سے وہ نیک دل اور منکسرالمزاج واقع ہوئےتھے۔ سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی کانتیجہ تھا کہ انہوں نے ہر مہینے تھوڑی تھوڑی رقم پس انداز کرکے ایک چھوٹا سا گھر بنالیا تھا۔ جب انہیں نوکری کرتے بیس برس ہوگئے تو حج کا شوق ہوا۔ اس فریضہ سے فراغت پاکر ہنسی خوشی وطن لوٹے تھے کہ اچانک ایک المناک حادثہ ان پر گزرا۔ ان کا اکلوتا بیٹا جس کی عمر اٹھارہ برس کی تھی ہیضے کا شکار ہوکر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر چل بسا اور پھر اس کے دو ہی دن بعد اس کی ماں بھی جسے بیٹے کی تیمارداری میں چھوت لگ گئی تھی اس کے پاس پہنچ گئی۔ اس واقعہ کا ان کے دل پر ایسا گہرا اثر ہوا کے انہوں نے علائق دنیوی سے منہ پھیر لیا۔ اور باقی عمر ہدایت اور تبلیغ کے لیے وقف کردی۔
اسی زمانے میں ان کے سر میں یہ دھن سمائی کہ رنڈیوں کی اصلاح کی جائے۔ بھلا قحبہ خانوں سے بڑھ کر معصیت کے اڈے اور کون سے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ان کا دستور تھا کہ ہر جمعرات کی شام وہ قرآن مجید سبز جزدان میں رکھ، سینے سے لگا رنڈیوں کے بازار کارخ کرتے اور انہیں گناہوں سے توبہ کرنے اور نیک راہ پر چلنے کی ہدایت کرتے۔ رفتہ رفتہ ان عورتوں کے گھروں میں ان کی آمد و رفت ایک معمول بن گئی۔ ان کی صورت دیکھتے ہی گانا بجانا بند کردیا جاتا اور ان کے پند و نصائح کو خاموشی سے سناجاتا۔ اس کے بعد گھر کی کوئی بڑی بوڑھی نائکہ ایسے لہجہ میں جو ہوتا تو نرم مگر طعن سے خالی نہ ہوتا۔ کہتی:
’’حضرت اپنے شوق سے تو ہم یہ گناہ کرتے نہیں۔ یہ دوزخ جو لگا ہے۔ اس کو بھی تو بھرنا ہے۔ آپ ہماری گزر بسر کا اتنظام کردیجیے ہم آج ہی اس پیشے کو چھوڑے دیتے ہیں۔ مگر انتظام معقول ہونا چاہیے۔ ماماگیری تو ہم کرنے سے رہے۔‘‘ اور یوں انہیں وقتی طور پر ٹال دیا جاتا۔
مگر کبھی کبھی ان گھروں میں حاجی صاحب کی تحقیر بھی خوب ہوتی اور انہیں گناہ اور بے حیائی کے ایسے ایسے منظر دیکھنے پڑتے کہ شرم سے نظریں جھکالینی پڑتیں۔ ایک دفعہ ایک کوٹھے پر کسی ضیافت کا اہتمام تھا۔ بدقسمتی سے حاجی صاحب وہاں پہنچ گئے۔ ان کو دیکھنا تھا کہ ایک قحبہ نےجس کے منہ سے شراب کے نشے میں رال ٹپک رہی تھی، لپک کر ان کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور ان کی لمبی ڈاڑھی کے پے درپے بوسے لینے شروع کردیے۔ پھر وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی: ’’اے میرے مجازی خدا مجھے اپنے ساتھ لے چل۔ میں تیرے پاؤں دابوں گی۔ تیرے سر میں تیل ڈالوں گی۔ تیری ڈاڑھی میں کنگھی کروں گی۔۔۔‘‘ اور جتنی قحبائیں اور ان کے آشنا اس کوٹھے پر جمع تھے، یہ منظر دیکھ مارے ہنسی کے لوٹ لوٹ گئے۔ ایسے موقعوں پر وہ پیغمبروں اور ولیوں کے قصے یاد کرتے کہ کیسی کیسی ذلتیں اور ایذائیں انہیں راہ حق میں اٹھانی پڑیں۔ اور اس طرح اپنے دل کو تقویت دے کر وہ پہلے سے زیادہ مستعدی کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری رکھتے۔
رفتہ رفتہ وہ اس محلے میں خاصے بدنام ہوگئے۔ بعض دفعہ آوارہ لڑکوں اور اوباش لفنگوں کی ٹولی ان کے پیچھے پیچھے ہولیتی۔ یہ لوگ بالاخانوں میں بیٹھی ہوئی بیسواؤں کی طرف ہاتھوں سے طرح طرح کے اشارے کرتے، فحش آوازے کستے اور حاجی صاحب کو اپنا لیڈر بناکر مضحک نعرے لگاتے۔ ان ہی باتوں سے اکثر لوگ حاجی صاحب کو مجذوب یا سودائی سمجھنے لگے تھے۔ وہ اس کی توضیح بھی کرتے کہ اکلوتے جوان بیٹے کی موت سے ان کے دماغ میں خلل آگیا ہے۔
ایک دن حاجی صاحب کے پاس ایک شخص خبرلایا کہ بازار میں دونئی رنڈیاں آئی ہیں۔ ایک کا نام گل ہے اور دوسری کا بہار۔ دونوں بہنیں ہیں۔ ایک ناچتی ہے دوسری گاتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے فن میں ماہر ہیں۔ حسن بھی دونوں کا قیامت کا ہے۔ چند ہی روز میں سارے شہر میں ان کا چرچا ہوگیا ہے۔ لوگ پروانوں کی طرح گر رہے ہیں۔ سنا ہے بنک کا ایک ملازم ان کو رام کرنے کے لیے بنک سے بہت سا روپیہ اڑالایا مگر پولیس واقع پر ان بیسواؤں کے گھر پہنچ گئی اور اس شخص کو نوٹوں کی گڈیوں سمیت پکڑ لیا گیا۔ ایک نواب زادے نے، جو قلاش ہوگیا تھا اپنی محرومی پر ان کے مکان کی سیڑھیوں میں پستول سے خودکشی کرلی۔ غرض وہ ہنگامے ہوئے کہ ایک مدت سے سننے میں نہیں آئے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ دوسری زہرہ اور مشتری ہیں جن کے سحر حسن سے انسان تو کیا فرشتے بھی محفوظ نہیں۔
حاجی صاحب نے مصلحتاً کچھ دنوں سے اس بازار میں جانا چھوڑ رکھا تھا مگر اس نئے فتنہ کا حال سنا تو فوراً ان کے دل میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ انہوں نے دل میں کہا کہ ان عورتوں کو جلد سے جلد راہ راست پر لانا چاہیے۔ ورنہ خدا معلوم یہ کتنے گھروں کو تباہ اور کتنے لوگوں کے ایمان کو غارت کردیں گی۔ انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی۔ قرآن شریف سینے سے لگایا اور پتہ پوچھتے پوچھتے گل اور بہار کے بالاخانے پر پہنچ گئے۔ وہ دونوں رات بھر جاگنے کے بعد صبح کو جو سوئی تھیں تو اب سہ پہر کے قریب جاکر بیدار ہوئی تھیں۔ اتفاق سے اس وقت بوڑھی خادمہ کے سوا گھر میں کوئی اور نہ تھا۔ انہوں نے اپنے سامنے سرخ سرخ آنکھوں والے ایک مجذوب پٹھان کو جو دیکھا تو ڈر کے مارے ان کی گھگھی بندھ گئی۔ حاجی صاحب چند لمحوں تک حیرت سے ان کے حسن و جمال کو دیکھتے رہے۔ پھر وہ پرشفقت لہجہ میں ان سے مخاطب ہوئے:
’’میری بیٹیو مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں کسی بری نیت سے نہیں آیا ہوں۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ تمہاری عیش و عشرت کی یہ زندگی ایک دھوکا ہے۔ اور یہ دھوکا صرف اسی وقت تک قائم ہے جب تک تمہارے گالوں میں خون کی یہ چند بوندیں ہیں۔ ان کی تروتازگی آخر کب تک باقی رہے گی۔ پانچ سال، سات سال، حد سے حد دس سال۔ اس کے بعد تم ایک قابل نفرت چیز بن جاؤ گی۔ اپنے عشاق کی نظروں ہی میں نہیں، اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کی نظروں میں بھی۔ یہاں تک کہ تمہاری اولاد کو بھی تم سے گھن آئے گی۔ اس لیے کہ تمہارا وجود ان کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث ہوگا۔
میری بچیو۔ ذرا غور کرو۔ تمہاری زندگی کیسی ہنگاموں سے بھری ہوئی ہے دن رات تمہارے چاہنےوالوں کی دھینگا مشتی۔ قدم قدم پر جان کا خوف۔ ہر وقت پولیس کا دھڑکا۔ عدالت میں پیشیاں ، یہ جینا بھی کوئی جینا ہے۔ میری بیٹیو۔ تمہاری جگہ یہ بالا خانہ نہیں ہے۔ بلکہ کسی شریف گھر کی چار دیواری ہے جہاں تم ملکہ بن کر رہو۔ جہاں تمہارا شوہر نگہبان اور محافظ ہو۔ تمہارے ناز اٹھائے اور تمہارے پسینے کی جگہ خون بہائے۔ اور جہاں تمہاری اولاد کے لیے تمہارے قدموں کےنیچے جنت ہو۔‘‘ یہ کہتے کہتے حاجی صاحب کی آواز رقت سے بھر آئی اور وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکے۔
دونوں بہنوں پر سے خوف و ہراس تو دور ہوگیا تھا۔ مگر ان باتوں کو سن کر وہ گم سم رہ گئی تھیں۔ آخر بڑی بہن گل نے کہا: ’’حضرت ہمارے ماں باپ نے ہمیں یہی پیشہ سکھایا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور۔‘‘ حاجی صاحب نےاس دن ان سے کچھ اور کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے ایک کاغذ کے پرزے پر اپنے گھر کا پتہ لکھ کر ان کو دیا اور یہ کہہ کر چلے آئے کہ مجھے اپنا باپ سمجھو اور جب کبھی کوئی مشکل پڑے یا میری ضرورت ہو تو اس پتہ پر مجھے خبر کر دو۔
اس واقعہ کو آٹھ روز بھی نہیں گزرنے پائے تھے کہ ایک دن صبح ہی صبح ایک تانگہ ان کے مکان کے سامنے آکر رکا۔ اس میں ایک عورت بیٹھی تھی جس نے سیاہ برق اوڑھ رکھا تھا۔ تانگے میں دو ایک ٹرنک اور کچھ چھوٹی چھوٹی بقچیاں بھی تھیں۔ حاجی صاحب اس عورت کو اپنے مکان میں لے گئے اور اس کا سامان اندر پہنچا دیا گیا۔
یہ بہار تھی جو سچ مچ تائب ہوکر آگئی تھی۔ اس کی خوبصورت آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کئی دن سے وہ روتی رہی ہے اور اب بھی اس کے آنسو تھمنے میں نہ آتے تھے۔
’’جس دن آپ آئے تھے‘‘ اس نے حاجی صاحب کو بتلایا، ’’اسی دن سے ہم دونوں بہنوں میں جھگڑا شروع ہوگیا تھا کیوں کہ اب میں پل بھر کے لیے بھی بازار میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔ آخر آج صبح میں اس سے علاحدہ ہوگئی ہوں۔‘‘
اپنی اس کامیابی پر جو بازاری عورتوں کے اصلاحی کام کے سلسلے میں ان کی پہلی فتح تھی، حاجی صاحب کو اس قدر خوشی ہوئی کہ شائد بیٹے کے جی اٹھنے پر بھی نہ ہوتی۔ انہوں نے فوراً کپڑے بدلےاور سوداسلف لینے بازار چلے گئے۔ ان کے پیچھے بہار نے جھاڑو لے کر صفائی کی۔ چولہا مدت سے راکھ سے بھرا تھا، اس کو صاف کیا۔ باورچی خانے کے فرش کو دھویا پونچھا اور اپنے سگھڑپن سے ظاہر کردیا کہ حسن و جمال، علم اور شستہ لب و لہجہ کے ساتھ ساتھ وہ امور خانہ داری سے بھی ناواقف نہیں۔
چند ہی دنوں میں بہار نے جس کا نام اب حاجی صاحب نے بدل کر بلقیس بیگم رکھ دیا تھا اپنی خدمت گزاریوں سے ان کو یقین دلا دیا کہ وہ سچے دل سے توبہ کرکے آئی ہے اور اگر کوئی شریف قدردان مل گیا تو ساری زندگی اس کے ساتھ نباہ دے گی۔ حاجی صاحب کو اس سے سچ مچ ایسی الفت ہوگئی جیسی باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے۔ ادھر بلقیس بھی ان کا دل سے احترام کرتی اور ان کے سامنے شریف گھرانوں کی لڑکیوں کی طرح ہمیشہ اپنی نظریں نیچی رکھتی۔ اب حاجی صاحب کو بلقیس کے لیے کسی اچھے رشتے کی فکر ہوئی۔ کیوں کہ وہ یہ خوب سمجھتے کہ لڑکی کا اصلی گھر اس کے شوہر ہی کا ہوتا ہے۔
سرکاری ملازمت کے دوران میں حاجی صاحب کا ایک رفیق کا ررحمت علی ہوا کرتا تھا۔ وہ حاجی صاحب کی بڑی عزت کرتا تھا۔ یہ بھی اس سے بھائیوں کی طرح پیش آتے تھے۔ وہ تو مدت ہوئی مر چکا تھا۔ مگر اس کے لڑکے انور نے حال ہی میں انجینئری کا امتحان پاس کیا تھا اور اسے ایک معقول سرکاری ملازمت مل گئی تھی۔ انور حاجی صاحب کو تایا ابا کہا کرتا اور اکثر ان سے ملنے آیا کرتا تھا۔ ابھی چند روز ہوئے کہ وہ اپنی اس کامیابی کی اطلاع دینے آیا تھا۔ ابھی تک اس نے شادی نہیں کی تھی۔ بلقیس کے رشتے کے سلسلے میں ان کا خیال فوراً اس کی طرف گیا۔ وہ اس کے دفتر پہنچے اور اس کو شام کے کھانے پر بلایا۔ ادھر گھر آکر انہوں نے بلقیس سے کہا: ’’بیٹی! آج شام ایک مہمان آرہا ہے۔ وہ میرے ایک نہایت عزیز دوست کی نشانی ہے۔ تم یہ میلے کپڑے اتار کر کوئی اچھا سا لباس پہن لینا ، وہ میرے بیٹوں کی طرح ہے، اس سے پردہ نہیں کرنا ہوگا۔‘‘
شام کو انور کھانے پر آیا تو بلقیس کے حسن، اس کی شائستگی اور حیا کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ حاجی صاحب نے اس کو بلقیس کی بپتا سنائی اور اس سے کوئی بات چھپانہ رکھی۔ دوسرے دن وہ پھر آیا، پھر تیسرے دن، پھر دن میں دو دو مرتبہ آنے لگا اور آخر مہینے بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ان دونوں کی شادی ہوگئی۔
انور اور بلقیس کی خوب گزر ہونے لگی۔ وہ دونوں اکثر حاجی صاحب سے ملنے آیا کرتے۔ انور اپنی بیوی کو فریفتگی کی حد تک چاہتا تھا۔ ادھر بلقیس بھی دل و جان سے اس پر فدا تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ حاجی صاحب سے بھی ایسی الفت کرنے لگی تھی گویا وہ سچ مچ اس کے باپ ہیں۔ اور پھر یہی تو تھے جن کے طفیل وہ گمراہی کے گڑھے سے نکلی تھی۔
جب ایک سال گزر گیا تو انور کی تبدیلی کسی اور شہر ہوگئی۔ حاجی صاحب ان میاں بیوی کو اسٹیشن پر رخصت کرنے آئے تو جدائی کے خیال سے روتے روتے بلقیس کی ہچکی بندھ گئی۔ حاجی صاحب نے بڑی تسلیاں دے کر اسے رخصت کیا۔ وہ باقاعدگی سے ہر مہینے حاجی صاحب کو خط لکھتی جس میں اس کی اور انور کی خیرت اور گھر کے حالات تفصیل سے لکھے ہوتے۔ اس کے ان خطوں میں ایک بلبل کی سی چہچہاہٹ تھی۔ ان خطوں کا سلسلہ کوئی دو برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد جو خطوط آئے ان کا لہجہ اچانک سنجیدہ ہوگیا۔ حاجی صاحب نے اس تبدیلی کو بلقیس کی بڑھتی ہوئی عمر کے تقاضے پر محمول کیا۔ آخر تیسرے سال ایک خط جسے پڑھ کر وہ بھونچکا رہ گئے۔ لکھا تھا:
ابا جان! تسلیم۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ خط پڑھ کر آپ کو صدمہ پہنچے گا۔ میں نے عرصے تک اس معاملے کو آپ سے چھپائے رکھا تاکہ آپ کو دکھ نہ ہو لیکن اب بات اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس کا چھپانا ممکن نہیں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ اس میں میرے شوہر انور کا کچھ قصور نہیں۔ اس کی تمام ذمہ داری ان کے رشتہ داروں پر ہے جو ہر روز آ آ کر ان کے کان بھرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو کسی نہ کسی طرح میری پچھلی زندگی کا حال معلوم ہوگیا ہے اور وہ مجھ سے سخت نفرت کرنے لگے ہیں او برملا طعنے دیتے ہیں۔ چونکہ بدقسمتی سے اس عرصے میں میرے کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی جو شاید انور کو مجھ سے قریب تر کردیتی۔ اس لیے یہ لوگ اب اس کوشش میں ہیں کہ انور میاں سے مجھے طلاق دلوادیں۔ میں نے اس لڑکی کو بھی دیکھا ہے جس کو وہ ان کے پلے باندھنا چاہتے ہیں۔ اچھی شریف لڑکی ہے، بے چاری صورت شکل کی بھی بری نہیں۔ اب میری آپ سے التجا ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ لوگ مجھے دھکے دے کر نکال دیں آپ خود آئیں اور مجھے طلاق دلواکر لے جائیں۔
آپ کی بیٹی
بلقیس
اس خط کی عبارت نے حاجی صاحب کو سخت بے چین کردیا۔ وہ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ اسٹیشن پہنچے اور پہلی گاڑی سے اس شہر کو روانہ ہوگئے جہاں انور ملازم تھا۔ رات بھر و ہ غم اور غصے سے کھولتے رہے۔ ان کا جی چاہتا کہ وہ جاتے ہی انور کا منہ نوچ لیں۔ راستے بھر وہ آیات قرآنی پڑھ پڑھ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرتے رہے۔
مصالحت کا سوال ہی نہیں تھا۔ کیونکہ جب دلوں میں فرق پڑجائے تو زندگی کا لطف جاتا رہتا ہے۔ اب ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ انور سے حق مہر حاصل کریں اور وہ تمام زیورات اور کپڑے بھی جو انور نے اب تک بلقیس کو بنواکر دیے تھے۔ انور اور اس کے رشتہ داروں نے زیادہ مزاحمت نہ کی۔ انور کو توقع نہ تھی کہ اس قدر جلد بلقیس سے اس کا پیچھا چھوٹ جائے گا اور اسے کسی قدر رنج بھی ہوا کیونکہ ابھی تک اس کے دل میں بلقیس کی کچھ کچھ محبت باقی تھی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ حاجی صاحب بلقیس کو ساتھ لے دو تانگوں میں اسباب لدا ، اسی رات اسٹیشن پہنچے اور دوسرے دن گھر آگئے۔
بلقیس اب پھر حاجی صاحب کے پاس رہنے لگی۔ حاجی صاحب کواب پھر اس کے رشتے کی فکر ہوئی اور ابھی تین مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ انہوں نے اس کے لیے ایک اور شوہر تلاش کرلیا۔ اب کے جو آدمی چنا گیا وہ انور کی طرح نہ تو کم عمر تھا نہ زیادہ تعلیم یافتہ اور نہ اس کا تعلق کسی اونچے گھرانے سے تھا۔ وہ میوے کا کاروبار کرتا تھا۔ آئے دن دساور سےمیوے کی بھری ہوئی لاریاں اس کےیہاں آتی رہتی تھیں۔ شہر کے میوہ فروشوں میں اس کی بڑی ساکھ تھی۔
یہ میوہ فروش جس کا نام ربانی تھا، رنڈوہ تھا اور کسی نیک بیوہ سے عقد کرنا چاہتا تھا۔ حاجی صاحب نے حق مہر کے طور پر پانچ ہزار روپیہ نقد اور ایک مکان بلقیس کے نام لکھوانے کی شرائط پیش کیں جسے اس نے بلا حیل و حجت منظور کرلیا تھا۔ دراصل یہ میوہ فروش بہار کے پرانے مگر ناکام عشاق میں سے تھا۔ جب بہار بازار سے غائب ہوئی تھی تو وہ سخت پریشان ہوا تھا۔ پھر کچھ دن بعد جب اس نے سنا کہ حاجی صاحب نے اسے کسی انجینئر سے بیاہ دیا ہے تو وہ ایک آہ سرد بھر کے رہ گیا۔ اب جو اسے اس طلاق کا حال معلوم ہوا تو اس کے دل میں پھر بہار کی آرزو تازہ ہوگئی اور اس نے جلد ہی منت خوشامد سےحاجی صاحب کو اس رشتے پر آمادہ کر لیا۔ مگر حاجی صاحب نے جب تک پورا حق مہر وصول نہ کرلیا ، میوہ فروش کو بلقیس کی شکل تک نہ دیکھنے دی۔
بلقیس نے ایک اطاعت مند بیٹی کی طرح حاجی صاحب کے تجویز کیے ہوئے رشتے کو صبر شکر سے قبول کرلیا اور دونوں کی خاصی گزر ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ایک سال ہنسی خوشی میں گزر گیا۔ مگر یہ میوہ فروش طبعاً عیاش واقع ہوا تھا۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ تو وہ اس سے بڑی عزت کے ساتھ پیش آتا رہا۔ مگر جلد ہی اس کے رویے میں تبدیلی آگئی۔ اور وہ اس سے ایسا سلوک کرنے لگا گویا وہ اس کی داشتہ ہو۔ وہ مصر تھا کہ بلقیس رات رات بھر اس کے ساتھ جاگے اور شراب نوشی میں شریک ہو۔ پھر وہ اس کا بھی متمنی تھا کہ آئے دن دوستوں کی دعوتیں ہوں اور بلقیس ساقی گری کی خدمت انجام دے اور وہ دوستوں سے یہ کہہ سکے: ’’یہی تھا وہ لعل بے بہا جس کی ایک جھلک دیکھنے کو دنیا ترستی تھی۔ اور اب میں تنہا اس کی قسمت کا مالک ہوں۔‘‘
مگر بلقیس نے اس کی ان خواہشوں کو سختی کے ساتھ رد کردیا۔ وہ اس کے دوستوں کی ضیافتوں اور ان کی مے خواری سے تو تعرض نہ کرتی مگر خو دکبھی ان کے سامنے نہ آتی۔ رفتہ رفتہ میوہ فروش کادل گھر سے اچاٹ رہنے لگا اور یہ محفلیں اب اوروں کے یہاں منعقد ہونے لگیں۔ میاں بیوی کے تعلقات کشیدہ رہنے لگے۔ کئی مرتبہ گالی گلوج تک نوبت پہنچ گئی۔ آخر ایک دن میوہ فروش نے شراب کے نشے میں بلقیس کو اس قدر پیٹا کے وہ کئی دن تک بستر سے نہ اٹھ سکی۔
حاجی صاحب کو میاں بیوی کی ناچاقی کا علم تھا مگر جب انہیں اس مارپیٹ کی خبر ہوئی تو ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا۔ وہ اسی وقت میوہ فروش کے گھر پنچے اور بلقیس کو اپنے ہم راہ لے آئے۔ میوہ فروش نےمعافی مانگی منت سماجت کی مگر حاجی صاحب پر کچھ اثر نہ ہوا۔ انہوں نے کہا: ’’اگر تم نے فوراً طلاق نہ دی تو میں تمہارے خلاف چارہ جوئی کروں گا۔‘‘
میوہ فروش حاجی صاحب کے اثر و رسوخ کو بخوبی جانتا تھا۔ مقدمہ بازی سے خائف ہوکر ناچار طلاق دینے پر آمادہ ہوگیا۔ اب کے بلقیس سال بھر تک حاجی صاحب کے گھر پر رہی۔ جب کبھی حاجی صاحب اس کے رشتے کا سوال اٹھاتے تو وہ تنک کر کہتی: ’’ابا جان۔ آپ کو میری کیوں فکر رہتی ہے۔ میں آپ پر بھاری ہوں کیا۔‘‘
مگر ایک دوراندیش باپ کی طرح حاجی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ بلقیس زیادہ عرصے گھر میں بیٹھی رہے۔ علاوہ ازیں اس کامطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنے اصلاحی کام میں ناکام رہے۔ ان کا منصوبہ نا قابل عمل ثابت ہوا۔ مگر ایک مرتبہ فتح حاصل کرکے اب وہ کسی طرح اس شکست کے لیےتیار نہ تھے ۔ چنانچہ انہیں پھر اس کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی، اور بلقیس کچھ تو حاجی صاحب کے اصرار سے اور کچھ اپنے مستقبل کے خیال سے تیسری مرتبہ پھر شادی پر رضامند ہوگئی۔
اب کے حاجی صاحب نے شوہر کے انتخاب میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیا اور مہینوں اس کے مزاج اور چال چلن کے بارے میں تفتیش کرتے رہے۔ یہ ایک نوعمر شخص تھا جو کسی دفتر میں معمولی کلرک تھا۔ حد درجہ کم سخن، بھولا بھالا، ناک نقشہ بھی اچھا تھا۔ البتہ ہاتھ پاؤں کاذرا دبلاتھا۔ سارا دفتر اس کی سادگی مزاج اور اطاعت گزاری کا معترف تھا۔ ایسے داماد کو پاکر حاجی صاحب پورے طور پر مطمئن ہوگئے۔ ادھر بلقیس نے بھی خوشی خوشی اسے قبول کرلیا۔ البتہ اس بات کی ذراخلش تھی کہ وہ عمر میں اس سے پانچ سال بڑی تھی۔
اس دفعہ حاجی صاحب نے اونچے خاندان اور روپے پیسے کالالچ نہیں کیا تھا۔ بلکہ مصلحتاً غریب شوہر چنا تھا اور پھر روپے کی ضرورت بھی کیا تھی کیونکہ پچھلے مہروں کی رقمیں، گھر کاسامان، زیور، کپڑا لتا پہلے ہی وافر تھا۔ اس کلرک کا نام منیر تھا۔ اس کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ کم عمری ہی میں ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ کچھ دور کے رشتہ دار تھے مگر وہ اس کے خرچ کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ تھے اور اس نے یتیم خانے میں پرورش پائی تھی۔
بلقیس اور منیر خوش حالی اور فارغ البالی سےزندگی بسر کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ محبت کے بندھنوں نے ایک دوسرے کو جکڑ لیا۔ بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ جو خوشی انور سے علیحدگی کے بعد اس سے چھن گئی تھی وہ اسے پھر مل گئی ہے۔ ادھر منیر بھی آٹھوں پہر اسی کا دم بھرتا تھا۔ وہ ایسا صالح نوجوان تھا کہ کسی قسم کا نشہ یا بری لت اس کو نہ تھی۔ دفتر سے چھٹی ملتے ہی سیدھا گھر کا رخ کرتا اور پھر بیوی کی قربت میں ایسا کھو جاتا کہ دوسرے دن دفتر جانے کے وقت ہی گھر سے نکلتا۔
دن پر دن گزرتے گئے، ہفتے، مہینے اور پھر سال۔ دونوں کی محبت بڑھتی ہی چلی گئی۔ اب حاجی صاحب بھی بہت ضعیف ہوگئے تھے۔ تبلیغ اور ہدایت کا وہ پہلا سا جوش و خروش ان میں نہیں رہا تھا۔ گھر سے کم ہی باہر نکلتے مگر ان کو اطمینان تھا کہ بالآخر ان کی محنت ٹھکانے لگ گئی۔
اس طرح پانچ سال گزر گئے۔ اس دوران میں منیر کو نوکری کے سلسلے میں کئی جگہ تبدیل ہوکر جانا پڑا۔ مگر وہ جہاں کہیں بھی جاتے بلقیس حاجی صاحب کو اپنی خیرو عافیت کی اطلاع دیتی رہتی۔ ایک دن حاجی صاحب کو ایک خط ملا جسے پڑھ کر اچانک ایک مرتبہ پھر دنیا ان کی آنکھوں میں اندھیر ہوگئی۔ بات یہ تھی کہ منیر کی صحت پچھلے سال سے دھیرے دھیرے گرنی شروع ہوگئی تھی۔ منیر کا ہر وقت گھر میں پڑے رہنا، کھیل تفریح میں حصہ نہ لینا، اس کی تندرستی کے لیے ضرر رساں ثابت ہوا۔ اسے ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا تھا اور کبھی کبھی کھانسی بھی اٹھنے لگی تھی۔ ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ یہ ابتدائی دق کے آثار ہیں اور انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ دفتر سے طویل رخصت لے لی جائے اور اسے کسی صحت افزا پہاڑی مقام پر رکھا جائے۔ خط کی آخری سطور یہ تھیں:
لیکن میرے پیارے ابا جان! آپ اس خبر سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ منیر میاں سال بھر باقاعدہ علاج کرانے سے تندرست ہوجائیں گے۔ میں خود ان کی تیمارداری کروں گی اور جس صحت افزا مقام پر وہ رہیں گے میں ان کے ساتھ رہوں گی۔ شفا تو اللہ نے چاہا انہیں ضرور ہوجائے گی۔ مگر اس میں تین چار سو روپیہ ماہوار اٹھے گا۔ سو اس کی آپ فکر نہ کریں۔ وہ جو میرے نام کا مکان ہے اسے فروخت کردیں۔ آخر جائداد اسی قسم کی ضرورتوں ہی کے لیے تو ہوتی ہے، جان ہے تو جہان ہے۔ امید ہے کہ آپ ان تمام باتوں کا جواب مفصل لکھیں گے یا خود تشریف لائیں گے۔
آپ کے دیدار کی طالب
بلقیس
اس خط کو پڑھ کر حاجی صاحب گم سم رہ گئے۔ اچانک دل میں ایسا ضعف محسوس ہوا گویا ان کا آخری وقت آپہنچا ہو۔۔۔ دو دن تک وہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ تیسرے دن جب ذرا طبیعت سنبھلی تو وہ لاٹھی ٹیکے ہوئے اٹھے اور جائداد کی فروخت کے سلسلے میں کسی دلال کی تلاش میں نکلے۔ قدم گھر سے باہر رکھا ہی تھا کہ ایک تانگا ان کے دروازے کے سامنے آکر رکھا۔ اس میں ایک برقعہ پوش خاتون بیٹھی تھی۔ ساتھ کچھ سامان تھا، دو تین ٹرنک، ایک اٹیچی کیس۔
حاجی صاحب ٹھہر گئے۔ ان کی صورت دیکھ کر اس خاتون نے چہرے سے نقاب اٹھادی۔ اس کا سن تیس پینتیس برس سے کسی طرح کم نہ ہوگا۔ مگر اس کے حسن میں ابھی تک غضب کی شادابی تھی۔
’’میں بہار کی بہن گل ہوں۔‘‘ اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا۔ ’’دس سال ہوئے جیسے حضور نے میری بہن کو دین اور آخرت کی راہ دکھائی تھی ویسے ہی مجھ پر بھی کرم کی نظر ہو جائے اور حاجی صاحب اپنا کام بھول کرنئی فکر میں کھو گئے۔۔۔‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...