وبا نے انسانوں کی شہ رگ میں دانت گاڑ دیے تھے۔
اُس دن نفیس احمد کا چہلم تھا۔ جانے والے کی رخصتی کے چالیس دن بعد، یہ ایک ایسی رسم ہے جس میں مرحوم کے اہلِ خانہ عزیز و اقارب کو کھانے پر بلاتے ہیں اور جانے والے کو رسمی طور پر ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہتے ہیں۔ اس رسم میں سوگ کم اور میل ملاقات زیادہ ہوتی ہے۔ مرحوم کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ دنیا جہان کی خبریں مردانہ اور زنانہ میں گردش کرتی ہیں۔ اور چونکہ وبا انسانوں کو پچھاڑ رہی تھی تو اس دن بھی خبروں کا خاص موضوع وبا ہی تھا۔
زنانہ میں عورتوں ہی کے بیچ مریم بھی بیٹھی تھی، سفید چادر اوڑھے ہوئے ایک خاموش بت نما عورت جس کا چہرہ کسی طرح کے احساسات سے عاری تھا۔ اس کا بھائی دو ہفتے پہلے اسی وبا کا شکار ہوا تھا۔ تب سے وہ سکتے کے عالم میں زیست کے سبھی کام کر رہی تھی مگر گویائی اس کی سلب تھی۔
وبا کی خبروں میں ایسی بھی تھیں جو زندگی کی امید بڑھاتی تھیں۔ ایک عورت نے اپنے چچا کی وبا کے ہاتھوں شدید بیمار حالت سے زندگی کی طرف واپسی کی کہانی سنائی۔ اس کے چچا کو بڑھاپے کے ساتھ ساتھ بلند فشارِ خون، ضیابیطس اور دل کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ پھر بھی وہ بچ گیا۔
"یہ تو معجزہ ہو گیا۔ آج کل تو اچھے بھلے جوان اس موذی کے ہاتھوں دم توڑ رہے ہیں۔" ایک عورت نے کہا۔
وہ جس کے چچا کا ذکر تھا کہنے لگی:
"ویسے تو بچانے والی خدا کی ذات ہے لیکن میرے چچا کو اس کی بیٹیوں نے بچا لیا۔ ساری زندگی بیچارے چچا نے وارث نہ ہونے کا طعنہ سنا تھا۔ لیکن آخر میں بیٹیاں ہی کام آئیں۔ اس کو ایک دن بخار ہوا تو دوسرے دن جھٹ کرونا کا ٹیسٹ کرا لیا۔ جب پتا چلا کہ کرونا ہی تھا تو چوبیس گھنٹے تیمار داری کی۔ اچھی خوراک دی۔ ہر وقت ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے میں رہتی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر سے آکسیجن کا لیول چیک کرتی تھیں۔ پھر آکسیجن کا سیلینڈر گھر لے آئیں۔ اور جب اس سے بھی کام نہ چلا تو ڈاکٹر گھر آ کر ضروری ٹیکے لگانے لگا۔ روز کئی ٹیکے لگتے، مشین سے بھاپ الگ دی جاتی۔ قصہ مختصر دو ہفتوں بعد وہ اس بیماری سے نکل آیا۔"
"اللہ کی شان ۔۔۔۔ میں نے بھی کئی لوگوں کو صحت یاب ہوتے دیکھا ہے۔ بس ذرا وقت پر بیماری کی پکڑ ہو جائے تو اس ڈائن سے بچا جا سکتا ہے۔" ایک دوسری عورت نے کہا۔
""یونہی تو ہمارے رسول نے بیٹیوں کو رب کی رحمت نہیں کہا۔" یہ بات ایک ادھیڑ عمر عورت کے دل سے نکلی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ رسان سے ہوتی گفتگو کو ایک گہری، جگر پھاڑتی ہوئی، بدن لرزاتی ہوئی چیخ نے برہم کر دیا۔ مریم کی دو ہفتے طویل خاموشی ٹوٹی۔ اس کی چیخ کے ساتھ ایک تڑپتا جملہ لپٹا ہوا تھا:
"ہائے او ربّا، توں میرے ویر نوں دھی کیوں نہ دِتّی۔"