فرائی پین میں موجود کھولتے تیل میں کٹی ہوئی پیاز سنہری کیا ہوئی…تڑکے کی خوشبو گھر بھر کو اپنے احاطے میں لیتی مہکاتی چلی گئی، یہاں تک کہ گلی سے بھی اگر کوئی مسافر گزر رہا ہو تو با آسانی اندازہ لگا لے کہ "جی اس گھر کا پکوان ضرور لہسن کے تڑکے والی دال ہی ہوگی"
"اے بٹیا ….،، تڑکے کے فوراً بعد دال کو ڈھکن دے دیا کر ورنہ تڑکے کی خوشبو دال میں رچنے کے بجائے ہوا میں معلق ہو جاتی ہے"
اکثر دال پکاتے وقت مجھے بوا جی کی یہ بات ضرور یاد آجاتی، بوا جی جو میری دادی صاحبہ تھیں آج سے کئی سال پہلے دنیا سے رخ موڑ چکی تھیں، لیکن انکے فرمودات وقتاً فوقتاً ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں ان کی یاد کے دیئے روشن کرتے رہتے تھے ۔
میں نے چولھے سے دال کی دیگچی اتار کر سائیڈ میں رکھی اور دوسرے چولھے پر دھری دیگچی میں دم آتے چاولوں کا چولھا بند کرکے کچن کے باہر کی سمت دیوار پر لگے وال کلاک پر نگاہ ڈالی…
"دوپہر کا ڈیڑھ تو بج ہی گیا ہے منیا کو بھی اسکول سے لانا ہے "
نام تو منیا کا بڑے پیار سے پارس رکھا گیا تھا لیکن چھوٹی سی پارس کو سب پیار ہی پیار میں منیا پکارنے لگے یوں وہ گھر بھر میں ہی نہیں بلکہ خاندان بھر میں منیا مشہور ہوگئی ۔
میں کچن سے نکل کر اپنے دو منزلہ گھر کی اوپری منزل کی گیلری میں نصب لوہے کی سلاخوں سے ماتھا ٹکائے نیچے دیکھنے میں محو ہوگئی جہاں اسکول کی چھٹی کے بعد کی منظر کشی صاف نمایاں تھی، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ازدھام کے ساتھ بھانت بھانت کے شور کی آوازیں لیے مصروف سی شاہراہ دور تلک خوانچہ فروشوں سے سجی پڑی تھی جو اپنی روزی کے لیے عین اسکول کی چھٹی کے وقت نجانے کہاں کہاں سے اپنے ٹھیلے بھگاتے آن پہنچتے تھے ۔
میں نے چادر اوڑھتے ہوئے باہر کی راہ لی…ذرا ہی دیر بعد دو گلی چھوڑ کر اسکول کا گیٹ نظر آگیا تھا ، ننھے منے بچے چھٹی کے وقت باہر نکل رہے تھے ۔
یکایک میری نگاہ نو سالہ منیا پرجا ٹکی جو اپنا بھاری بھرکم بستہ سنبھالے اپنی ہم جولیوں کے ساتھ ہاتھ میں چوکور چھوٹی سی تھیلی میں ملفوف کالا چورن چاٹتی ہنستی بولتی خراماں خراماں چلی آرہی تھی ۔
"اب بیٹھ جانا پھر کٹی زبان لے کر اور گلا پکڑ کر "
پہلی فرصت میں منیا سے چورن کی تھیلی جھپٹ کر گھرکا،
"منیا بیٹی…. ادھر آئیے ذرا یہ اسکارف تو پہن کر دکھائیے"
دوپہر کا کھانا کھا کر منیا تو اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلنے میں لگ گئی تھی، جب کہ میں منیا کا اسکارف سینے کی تگ و دو میں لگ گئی۔
" سفید یونیفارم پر کالا اسکارف یقیناً اچھا لگے گا" میں نے اسکارف پر آخری ٹانکا لگا کر دھاگہ کو دانت سے کاٹتے ہوئے سوچا،
اسکارف پہناتے ہی منیا کا گلابی گول مٹول چہرہ چاند کی طرح چمکنے لگا،
"میری منیا کل سے اسکارف پہن کر جائے گی.. "
میں نے منیا کے صبیح پیشانی پر پیار کی مہر ثبت کرتے ہوئے کہا،
" لیکن امی جان اسکارف کیوں پہنتے ہیں؟ "
میں جو ابھی منیا کے اسکارف کا سائز چیک کررہی تھی، ایک لمحے کو اس کے سوال پر سٹپٹا گئی…
کوئی جواب نہ بن پڑا تو منیا کی طرف نظر دوڑائی جو دوبارہ سے اپنی گڑیا کے سنہری بالوں کی چوٹی بنانے کی کوششوں میں لگ گئی تھی… دھیرے دھیرے میری منتشر سوچیں مجھے حال سے اٹھا کر ماضی کی بھول بھلیوں میں لے جاتی چلی گئیں ،
"لوٹھا کی لوٹھا ہوگئ ہے… لے اٹھا اور اوڑھ اسے"
"کیا مصیبت ہے..!!"
میں نے مگن سے انداز میں ٹی وی دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں ڈوپٹے کو کوسا جو ذرا فاصلے پر گول مول ہوا پڑا تھا ۔
"ایک تو بوا جی بھی نا..! میرے پیچھے ہی پڑی رہتی ہیں"
میں نے منہ بسورتے ہوئے دوبارہ ٹی وی کی طرف توجہ کی جہاں شازیہ حسن اور شعیب حسن گانے کے خوبصورت بول کے ساتھ محو رقص تھے ۔
"بات مان لیا کر میری..!!
" لے دیکھ…!! ایسے منہ بنا لے گی جیسے لٹھ مار دیا ہو میں نے"
بوا جی نے پان کے پتے پانی سے سنے سوتی رومال میں لپیٹ کر پاندان میں رکھتے ہوئے ترچھی نگاہوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا ۔
" ابھی بارہویں سال میں لگی ہے اماں… ابھی کاہے کو اسے مائی بنانے پر تلی ہیں ؟ بواجی..یہ زمانہ اور ہے … آپ کا زمانہ تو کچھ اور ہی تھا "
" امی جان دیکھیے یہ وہی دونوں بہن بھائی ہیں جن کے گانے آج کل بہت مشہور ہورہے ہیں"
میں نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ امی جان کو متوجہ کیا جو ڈیوڑھی میں کسی کام سے آئی تھیں بواجی کی بات کے جواب میں ہمیشہ کی طرح میری حمایت میں بولتی ہوئی ٹی وی کی طرف متوجہ ہوتی وہیں دری پر بیٹھ کر گانا دیکھنے میں محو ہوگئیں ، ساتھ ساتھ ہم ماں بیٹی کے تبصرے بھی بڑی شدومد کے ساتھ جاری تھے ۔
کندھے سے گپے والے فیشن کے ساتھ بیگی اسٹائل والی جامنی رنگ کی چھوٹی سی قمیض بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس پر نگوں والی بیلٹ کمر پر باندھے بالوں کو کھلا چھوڑ کر میں آئینہ میں اپنے عکس کو بار بار دیکھتی خود کو کبھی شازیہ حسن سے تو کبھی ارینہ خان سے ملا رہی تھی ۔
"اے بٹیا… چھوٹی سی ڈوپٹیا ہی رکھ لو کاندھے پر"
بوا جی جو تخت پر بیٹھی آنکھیں چندی کیے نجانے کب سے مجھے دیکھ رہی تھیں آخر بولے بنا نہ رہ سکیں ۔
" میاں لاکھ ماڈرن صحیح پر ڈھنگ کے کپڑے پہنایا کرو اب بٹیا بچی تو رہی نہیں کہ چھوٹی سی قمیض پہن لی اور ڈوپٹہ غائب…. "
"بواجی ابھی اس کی عمر ہی کتنی ہے اوڑھ لے گی "
ابو جان جو بوا جی کے پاس بیٹھے تھے ایک سرسری سی نظر مجھ پر ڈال کر مکھی اڑاتے ہوئے بولے ۔
"اف…!! پھر ڈوپٹہ "
میں نے کنگھا ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر آئینے میں بوا جی کے نظر آتے عکس کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔
ابو جان جلدی چلیے دیر ہورہی ہے میں نے بواجی کے کہنے پر چھوٹا سا ڈوپٹہ کندھے پر ڈالا پھر گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی پچھلی سیٹ کی طرف اچھال دیا ….
آج اسکول میں عید ملن پارٹی تھی سو سب طالبات خوب تیار ہوکر اسکول جارہی تھیں ۔
ٹرن ٹرن ٹرن……
ڈرائنگ روم میں رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی،
میں نے سائنس کا جرنل ایک طرف رکھ کر ڈرائنگ روم کا رخ کیا ۔
"ہیلو.. اسلام علیکم "
"وعلیکم السلام"
"طالبہ بات سنو..! ایک بہت خوشی کی بات ہے "
" کل شیرازی بھائی ہم سب کو پکنک پر لے جارہے ہیں "
"سچ…!! کہاں…..؟"
"دیکھو…. ابھی تو فی الحال کنڈ کا پروگرام ہے ۔"
کنڈ وہی پارک ہے نا…جو اٹک کے پاس ہے؟
"ہاں وہی جہاں ہم پہلے بھی گئے تھے "
یادوں کے دریچے واں ہوئے تو کنڈ پارک کے سرسبزوشاداب گھنے درخت آنکھوں میں سما گئے ۔
"چلو… ٹھیک ہے میں بعد میں بات کرتی ہوں، پکنک کا سن کر میں اتنی خوش ہوگئی تھی کہ بس فون گھمائے بغیر چین ہی نہیں آیا…"
حبیبہ نے فون رکھا تو میں بھی ریسیور کریڈل پر رکھ کر امی اور بوا جی کو بتانے انکے کمرے کی طرف بھاگی ۔
حبیبہ اور شیرازی بھائی میرے پھوپھی زاد بھائی بہن تھے حبیبہ تو میری ہم عمر تھی جب کہ بیس سالہ شیرازی بھائی تعلیم کے سلسلے میں شہر سے باہر ہوسٹل میں رہائش پزیر تھے ۔
امی جان اور بواجی کی باہمی مشاورت سے پکنک کے لیے پلاؤ اور خاگینہ تیار کیا گیا تھا، پھوپھو جان ایک ڈبے میں تلے تلائے شامی کباب لیے تیار کھڑی تھیں، شیرازی بھائی بھی بگٹٹ بھاگ کر تنور سے روٹیاں لگوا لائے تھے، یوں ہمارا قافلہ دن کے گیارہ بجے گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد کنڈ میں موجود تھا ۔
ٹی ۔جے کے اسٹائلش کپڑے پہنے بال کھولے نک سک سے تیار میری نظریں بار بار شیرازی بھائی کا طواف کررہی تھیں جو کتھئی ہائی نیک میں ملبوس بادامی رنگ کی ٹوپی پہنے نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے ۔
پارک میں شام اتر آئی تھی اوائل سردیوں کے دن تھے ہری ہری گھاس اور سرسبز درخت سر شام ہی دھند کی لپیٹ میں آگئے تھے ۔ شیرازی بھائی کے کیڈٹ کالج کے قصے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے تھے ۔
پھوپھو جان اور امی جان نے آس پاس سے جمع شدہ لکڑیوں کو جلا کر چھوٹی سی دیگچی میں چائے تیار کی تھی جس کی مہک دور تلک بیٹھے پھوپھاجان اور ابوجان تک چلی گئی تھی نتیجتاً اب وہ بھی ہمارے پڑاؤ کی جگہ پر آبیٹھے تھے ۔
چائے کے بھاپ اڑاتے کپ ایک ایک کرکے ہاتھوں کی زینت بنتے جارہے تھے،
"اے بٹیا…. تم تو گھر سے ڈوپٹیا لے کر چلی تھی"
"کہاں رکھ دی ڈوپٹیا؟
اچانک بواجی کے سوال پر شیرازی بھائی تو کیا… بلکہ پورے خاندان نے چونک کر مجھے دیکھا…
"بواجی چائے میں چینی تو ٹھیک ہے نا..؟ "
امی جان کے بروقت سوال کرنے پر بات آئی گئی ہوگئی لیکن مجھ پر سب کے سامنے مانو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ہو ۔
"بوا جی آپ بھی حد کرتی ہیں موقع محل کچھ تو دیکھ لیا کیجئے کل پکنک پر لے کر بچی کو بے عزت کردیا سب کے سامنے… "
گھر پہنچنے پر دوسرے دن امی جان نے بواجی کو خاصے غصے میں بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی..
"ارے باپ ہوتے ہوئے مجھے پرواہ نہیں… تو آپ کیوں فکر کرتی ہیں، جب اوڑھنا ہوگا اوڑھ لے گی اتنی بھی بے وقوف نہیں ہے وہ…"
قریب ہی موڑھے پر بیٹھے ہاتھ میں اخبار پکڑے ابو جان نے بھی خاصے کڑوے لہجے میں بات کی…
"جاؤ میاں…. ہم تو ٹھہرے پرانے زمانے کے… "
اس دن بواجی ناراض ناراض سی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں،
امی جان اور بواجی کی نوک جھونک تو چلتی رہتی تھی لیکن اس دفعہ ابو جان خاصے کڑوے لہجے میں بول پڑے تھے…
بواجی کی خاموشی گھر بھر میں سب ہی کو کھل رہی تھی ۔
طالبہ یہ چائے بواجی کے کمرے میں دے آؤ،
شام میں بھی جب بواجی کمرے سے نہ نکلیں تو امی جان نے مجھے آواز دے کر چائے کا کپ تھمایا ۔
"بوا جی… میری پیاری بواجی..!! "
میں نے چائے کا کپ کارنس پر رکھا اور بواجی کے گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ شروع کردیا ۔
"چل ہٹ…. آئی بڑی بواجی کی لاڈلی "
بواجی نے مصنوعی خفگی سے مجھے پرے ہٹایا،
وہ تو میں ہوں…. میں نے بواجی کی گود میں سر رکھتے ہوئے انکے ضعیف چہرے کو دیکھا جہاں کئ زمانوں کے تجربات چہرے کی جھریوں میں رقم تھے ۔
بواجی بھی تو شاید گڑُ کی بنی ہوئ تھیں ناراضگی بھول بھال کر پیار سے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں…
بٹیا.. کچھ باتیں ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں لیکن وہی باتیں ہمیں وقت سمجھا دیتا ہے ۔بواجی کی گود میں سر رکھے میری لامتناہی سوچیں بواجی کی باتوں پر دھیان دینے کے بجائے شیرازی بھائی کی شخصیت میں گم ہوگئیں…
بواجی کارنس پر سے چائے کا کپ اٹھا کر اب اپنے کمرے میں رکھے نعمت خانے میں رکھے بسکٹ کے پیکٹ میں سے ایک بسکٹ نکال کر چائے کے ساتھ نوش فرمانے لگیں ۔
ٹن ٹن ٹن ٹن……
شام میں ہوم ورک کرتے ہوئے گلی میں گونجنے والی گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی میرے دماغ کی بتی جل اٹھی،
"چاٹ والا…"
کٹھائی کے پانی میں ڈوبے کابلی چنے کی چاٹ مجھے بےحد پسند تھی جلدی سے پیسے اٹھائے اور دروازہ کھول کر گلی میں بھاگی.. "دس روپے کی چاٹ دے دو"
میں نے پھولتی سانسوں کے دوران کہا ۔
"کتنے روپے کی دوں؟" چاٹ والے نے چہرے پر خباثت ٹپکائے بہت گہری اور کھنگالتی ہوئی نظریں میرے سراپے پر جماتے ہوئے نہایت حریصانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
جو بات بواجی مجھے سمجھانا چاہ رہی تھیں جو بات میری ماں مجھے ماڈنزم کے چکر میں جانتے بوجھتے ہوئے سمجھانا نہیں چاہتی تھی وہ چاٹ والے کی غلیظ نظروں نے مجھے چند ہی لمحات میں اچھی طرح سمجھادی تھی ۔
جس چاٹ کے لیے میں اتاؤلی ہوکر بھاگی تھی اب شدید کراہیت محسوس ہورہی تھی۔ نظروں کے مفہوم کا ادراک ہوتے ہی میں نے گھر کا گیٹ کھولا اور اپنے کمرے میں آکر دم لیا، الماری کے پٹ کھولے تو سامنے لپٹا لپٹایا ڈوپٹہ پڑا تھا، ہاتھ آگے کرکے اٹھا کر دھڑکتے دل کے ساتھ خود پر پھیلایا، قدم خود بخود بواجی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے…
"اے موئی…! یہ سوئی کا ناکہ ہی اتنا باریک ہے "
" اے بٹیا…. ناکے میں دھاگہ تو ڈال دے ہماری تسبیح کب سے ٹوٹی پڑی ہے، سوچ رہی تھی ذرا دانے ہی پرو لوں"
آہٹ محسوس کرکے بوا نے مجھے دیکھا تھوڑا ٹھٹھکیں لیکن پھر مسکرا کررہ گئیں، اور جھٹ سے سوئی دھاگہ آگے کیا ۔
موبائل فون کی مسلسل بجتی ہوئ ٹون نے مجھے ماضی کی بھول بھلیوں سے حال میں لاکھڑا کیا
شیرازی کالنگ…..
" امی جان کس کا فون تھا ؟ "
" منیا آپ کے ابو کا فون تھا "
میں نے شیرازی صاحب سے بات کرکے موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے کہا… میں یعنی طالبہ شیرازی کبھی اپنی بیٹی کو حریص نظروں کا نشانہ نہیں بننے دوں گی…
منیا کے سوال کا جواب دینا ابھی بھی باقی ہے…
"منیا بیٹی لڑکیاں پریوں جیسی ہوتی ہیں بہت سارے اچھے لوگوں کے بیچ ایک نہ ایک دیو ضرور موجود ہوتا ہے جو ڈوپٹہ نہ اوڑھنے والی یا اسکارف نہ لینے والی لڑکیوں کو دبوچ کر لے جاتا ہے"
"امی جان دیکھیں میں نے گڑیا کی کتنی اچھی چوٹیاں بنالیں"
"میری بات پر منیا نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا یا شاید وہ سمجھی ہی نہیں تھی؟"
" شاید میں اپنی نو سال کی بچی کو سمجھا ہی نہیں سکی یا شاید میں کسی بھی بچی کو سمجھا نہیں سکتی "
اللہ کسی بھی بچے پر ایسا وقت نہ لائے کہ ان پر آگہی کا ایک بھیانک در کھلے ۔
"