مجھے اب اس دنیا میں نہیں رہنا جہاں میرے لیے کوئی فکر کرنے والی ذات ہی نہیں مر جاؤں نا تو کسی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکے گا ۔
وہ معصوم بھولی بھالی صورت والا لڑکا جس کی قسمت نے اسے زمانے کے دکھ جھیلنے اور چہروں پر پڑی گرد کو جھاڑنے میں ہی جھونک دیا تھا اس نے اپنا جملہ دوبارہ دہرایا ” میں مر جاؤں گا ناں تو میرے لیے کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا”. تم کتنی فضول باتیں کرتے ہو تمہاری تائی پھوپھی خالہ کا گھرانہ ہے تم اکیلے تو نہیں لیکن بالکل پاگل ہو ۔شنایہ نے غصے میں کہا۔
شنایہ سے احمد کی پہلی ملاقات کراچی کے مشہور اور شاپنگ مال میں ایک ایکٹیویٹی کے دوران ہوئی ۔ شنایہ بھی قسمت کے ہچکولے کھاتی بڑی ہوئی تھی تو احمد کی ڈانواں ڈول زندگی کے مہیب سایوں نے دونوں کو ایک دوسرے کا سچا دوست بنادیا۔ وقتافوقتا ہونے والی ملاقاتوں میں شنایہ نے احمد کی بکھری زندگی کے بارے میں جانا۔ کوئی پانچ چھ برس کی عمر میں احمد کی ماں اسے داغ مفارقت دے کر اپنے رب کے پاس چلی گئی تھی۔ معصوم چھوٹا سا بچہ روپے پیسے کی ریل پیل لیکن تنہا وہ ننھا دل۔ باپ نے دوسری شادی کی جسے احمد نے دل سے قبول نہ کیا۔ آنے والی بھی کوئی کٹھور دل عورت تھی جس نے بچے کے غمزدہ دل پر ممتا کی محبت کا پھایہ نہ رکھا۔ کوئی اولاد نہ ہوئی اور اس عورت نے احمد کو بھی اولاد کا درجہ نہ دیا ۔ دونوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نفرت کی دیوار مضبوط ہوتی چلی گئی۔ احمد کی زندگی کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب وہ نو جوانی کی دہلیز کو چھو کر خوبصورت قلب میں ڈھل رہا تھا ۔عمر کوئی سترہ یا اٹھارہ ہو گی کہ باپ کو موذی مرض لگ گیا ۔ بیماری کا علاج ہوتے ہوتے امارت کب رخصت ہوئی کچھ خبر نہ ہوئی ۔ تب احمد کو پتہ چلا کہ ماں باپ کے علاوہ دوسرے تمام خاندانی رشتہ کھوکھلے ہوتے ہیں ۔خالہ خالو ،تایا تائ ،پھوپھیاں ان کے بچے اور سب سے بڑھ کر زمین جائیداد اور اثر رسوخ رکھنے والے دادا میاں۔لیکن وقت اور حالات نے جلد صاف اور کھردرے لہجے میں احمد کو یہ بتا دیا کہ باپ کے علاج اور اس کے گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس کا ہر نام نہاد رشتہ قلاش ہے۔کھوٹے سکوں کی طرح زندگی کے راستوں میں ساتھ نہ دینے والے رشتے لہذا اس نے گھر کی ذمہ داری اٹھا لی۔
وہ کمزور بچہ اپنی جوانی تیاگ کرنے نکل پڑا تھا۔ مختلف جگہوں پر کام کر کر کے نہ صرف اس نے گھر کے اخراجات اٹھاے بلکہ باپ کا علاج بھی کروانا شروع کیا۔ساتھ ساتھ اپنے اچھے دنوں کی پالی بلیوں کے نخرے بھی خوشی خوشی اٹھاتا ۔ “میں یہ بلیاں باہر پھینک دوں گی “. اکثر اس کی سوتیلی ماں اسے یہ دھمکی دیتی لیکن اب احمد ماں سے لڑنے جھگڑنے کے بجائے مسکرا کر اور طنزیہ ہنسی ہنس کر اس کو جلاتا۔زندگی اپنے ڈگر پر چل رہی تھی۔احمد کے دل میں زندگی کو تسخیر کرنے کی چاہ بھی جاگ چکی تھی۔ وہ بہتر مستقبل کے لیے بہتر معاش کی تلاش میں لگا رہتا۔ ہر اچھی کمپنی میں جڑ کر اس نے پیسے کماۓ۔ اس کا رہن سہن بھی ہمیشہ امیروں والا ہوتا جس میں رکھ رکھاؤ نظر آتا تھا ۔میں نے اسے ہمیشہ مسکراتا ہوا دیکھا اس کی مسکراہٹ کے پیچھے اس تلخ زندگی کے لیے شاید طنز چھپا ہوتا اور زندگی بھی اس کی مسکراہٹ سے گھائل ہو کر اس پر ہمیشہ کاری وار کرنے کو تیار رہتی۔
میری اس سے ملاقات ایک پکنک پر ہوئی۔ شنایہ نے اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر وہ پکنک ترتیب دی تھی جس میں احمد کو بڑے خلوص کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ خوبصورت تھا لیکن انداز میں تھوڑا سا زنانہ پن بھی محسوس ہوتا تھا ۔مجھے اس لڑکے کی آنکھوں میں بہت گہری اداسی نظر آئی….. دل چیر دینے والی اداسی۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن بہت خوشگوار تھا ہم سب نے خوب مزا کیا۔ وہ ایک ایسا دن تھا جو یاد آجائے تو لب پر مسکراہٹ کی لکیر اور ذہن میں تروتازگی کا احساس جاگ اٹھے۔
شنایہ اور احمد کی سالگرہ بھی دو دن کے فرق سے آتی تھی لہذا وہ اکثر سالگرہ بھی ساتھ مناتے.
شنایہ اور احمد کے درمیان بغیر کسی غرض کے ایک بے لوث اور بے غرض سچی دوستی کا تعلق تھا ۔ مصروفیت بڑھی تو دونوں فون پر ہونے والی ملاقاتوں تک محدود ہوگئے۔ایک دن احمد کا فون آیا تو اس نے خوشخبری دی کہ اس کے دادا کے جذبات اس کے لیے جاگ گئے ہیں اور انہوں نے احمد کو اپنے پاس برطانیہ بلانے کا انتظام کیا ہے . ” بڑی خوشی ہوئی لائف میں کچھ اچھا ہو جائے گا وہاں کے ماحول میں تو تم سیٹ ہو جاؤ گے ۔” شنایہ یہ سب سن کر بہت خوش تھی۔ اس دن احمد کی آواز میں بھی ایک زندگی کی رمق تھی ۔کچھ دنوں تک آپس میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔شنایہ نے سوچا کہ وہ مصروف ہو گا باہر جانے کے لیے دس طرح کے کاغذات تیار کروا رہا ہوگا پاسپورٹ یہ وہ ۔۔۔۔۔۔ ایک دن احمد کا فون آ ہی گیا ۔ وہ ادھر کی باتیں کرنے لگا ۔شنایہ نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا تم تو لندن جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ تمہارے دادا جان نے بلوایا تھا ناں تمہیں؟ احمد کی حسرت زدہ آواز آئی ہاں یار سارے انتظامات ہو گئے تھے کہ بس کچھ میڈیکل ایشوز آگئے تھے اور میں دادا جان کو کڈنی ڈونیٹ نہیں کر سکتا تھا تو انہوں نےمیرے معاملے میں اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ مطلب ؟؟ تمہارے دادا تمہاری کڈنی لینے کے لیے تمہیں لندن بلا رہے تھے تھے ؟؟ احمد نے شرمندہ ہو کر دھیرے سے جواب دیا”ہاں ” . شنایہ سناٹے میں تھی کچھ سمجھنے سے قاصر ! یا خدا تیرے بنائے یہ رشتے؟؟؟؟؟
تین سال پہلے شنایہ کو یہ محسوس ہوا کہ احمد کی سوتیلی ماں اب اسے بہت مشکل وقت دے رہی ہے ۔باپ کی بڑھتی بیماری سوتیلی ماں کی کم ظرفی کو کھول کر سامنے لے آئ۔ اب احمد اور عورت کے درمیان ایک جنگ کا میدان گرم رہتا ۔بیمار شوہر سے نالاں رہنے والی اس عورت میں اور احمد میں اب باقاعدہ تو تو میں میں ہونے لگی۔کبھی کبھار غصے میں وہ خاتون اپنے میکے بھی چلی جاتی۔میری نظر میں وہ عورت بھی مجبور بے کس اور بدنصیب ہی تھی۔ کاش اس نے اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیا ہوتا کاش وہ ضدی اور خود سر بن جانے والے احمد کے دل میں جگہ بنا لیتی تو یقینا اس کا بھی بڑھاپا اس لڑکے کے سہارے گزر ہی جاتا کاش اے کاش۔۔۔۔۔ پھر ایک دن احمد نے اپنے والد کے انتقال کی خبر دی۔ شنایہ اپنے دیگر دوستوں اور بہن کے ساتھ تدفین میں شریک ہوئی۔ واپسی پر شنایہ غمزدہ تھی کہ اب احمد بالکل تنہا رہ جائے گا۔ کیونکہ اس کی ماں نے اپنے میکے جانے کا انتظام کر لیا تھا ۔احمد کے باپ کی تدفین پر جمع ہونے والے امیرکبیر رشتے دار احساسات اور غم سے عاری نظر آتے تھے۔
تھوڑے تھوڑے دنوں بعد وہ احمد سے خیرخیریت ضرور معلوم کرتی۔ پھر پتہ چلا کہ اب احمد نے جس کمپنی میں کام شروع کیا ہے وہاں کے دوست کچھ اچھے لڑکے نہیں ۔۔۔ دوسری طرف احمد کی محلے کے لڑکوں نے بھی اسے تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ محلے کے لڑکے احمد کی ظاہری شکل و صورت اور چال کو غلط رنگ دینے لگے۔ اس پر بھپتیاں کسنے لگے۔ بادل ناخواستہ احمد کو اپنا فلیٹ چھوڑ کر پھوپھی کےگھرجا کر رہنا پڑا ۔وہ گھر جہاں ہر آسائش موجود تھی لیکن احمد کے لیے نہیں احمد کے لیے اس گھر میں کچھ نہ تھا رشتوں کا لمس بھی نہیں ۔۔۔وہ اس گھر میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے لگا ۔ چلو زندگی میں پھر بھی کچھ سکون تھا لیکن اس کا سکون زندگی کو پسند نہ تھا۔پھوپھی کی اکلوتی اولاد لندن سے بوریا بستر سمیٹ کر کراچی آئئ تو احمد کو بھی وہاں سے رخصت ہونا پڑا ۔ پھر وہ اپنے ایک دور پار کے کزن کے ساتھ رہنے لگا۔ ایک ایسا کزن جو خود بھی امیر زادہ تھا لیکن پیسے کا پجاری تھا۔ کھانے پینے یوٹیلیٹی بل کمرے کا کرایہ وہ احمد سے سب وصول کرتا ۔ ایک دن شنایہ کے میسج کے جواب میں احمد نے کہا کہ” یار میں بہت تلخ ہو گیا ہوں میرے کولیگ کہتے ہیں کہ میں بات نہیں کرتا بلکہ کتے کی طرح کاٹتا ہوں ۔ پھر وہ اپنی مخصوص ہنسی کے ساتھ کہنے لگا اگر میرا موڈ آج کی طرح اچھا رہا تو پھر کسی دن ملاقات ہو جائے گی ۔
شنایہ سماج کی بنائی دیوار سے مجبور تھی لہذا احمد کا کچھ ایسا انتظام بھی نہیں کر سکتی تھی کہ وہ اس کی فیملی کے ساتھ رہنے لگے اور دوئم وہ احمد کے لئے وہ حالات بھی نہیں پیدا کرنا چاہتی تھی جس احمد شنا یہ سے کوئی جذباتی توقع وابستہ کر بیٹھے کیونکہ شنایہ کی منگنی ہو چکی تھی۔
وہ دسمبر کی سرد صبح تھی۔ فون کی گھنٹی بجی احمد کی نام نہاد پھوپھی زاد بہن نے شنایہ کو یہ خبر دی کہ احمد نے اوور ڈوز لی ہے وہ ہسپتال میں ہے اور اس کی حالت بہت خراب ہے۔ شنا یہ الٹے قدموں اسپتال بھاگی۔اپنے دیگر دوستوں کو اکھٹا کیا ۔ احمد اسپتال میں مرتے وجود کے ساتھ پڑا تھا۔ احسان کرکے اسپتال لانے والے چند ایک رشتے داروں کا رویہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کیا مصیبت گلے پڑ گئی ہے حتی کہ کسی ایک رشتہ دار نے انسانیت کے ناتے اس کی زندگی بچانے کیلئے رتی بھر بھی کوئی کوشش نہ کی تھی ۔شنایہ، اس کے دوستوں نے بھاگ دوڑ کر کے احمد کا علاج شروع کروایا ۔ دعاؤں کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ لانے والے رشتہ دار کچھ بتانے کو تیار ہی نہ تھے کہ اصل حقیقت کیا ہے کبھی کچھ کہتے کبھی پہلو بدل کر کچھ۔۔۔ بہرطور یہ بات کھلی حقیقت تھی احمد نے صحیح کہا تھا کہ میں مر جاؤں گا تو میرے لیے کوئی رونے والا نہ ہوگا۔ دوسرا دن نیا سال شروع ہونے کی خوشیاں منائی جارہی تھیں اور دوسری طرف ایک زخمی روح جسم کا ساتھ چھوڑ کر جا رہی تھی اپنے ابدی سفر پر۔۔۔۔ وہاں جہاں اس روح کی تسکین تھی۔ جہاں اس کی ماں ممتا بھرے بازو پھیلائے مسکراہٹ سجائے اسے اپنی بانہوں میں لینے کے لئے بے قرار تھی اور باپ شفقت پدری سے مسرور تھا۔
نئے سال کا سورج احمد کی موت کی خبر لےکر ابھرا ۔ میں نے بھی احمد کی تدفین میں شرکت کی ۔ وہاں مجھے پتا چلا کہ احمد صرف سگے رشتوں کے معاملے میں ہی بدنصیب نہ تھا بلکہ وہاں اس کے وہ دوست وہ کولیگ جو اس معصوم لڑکے کی تنخواہ اڑاتے رہے اس کی زندگی کو مزید جہنم بناتے رہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تھا وہ لڑکی بھی نہیں جسے۔احمد باجی کہا کرتا تھا اور اسے مہنگے مہنگے تحفے دیا کرتا تھا۔احمد کی تدفین پر بس اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی پندرہ بیس افراد جمع تھے ۔ احمد کے خاندان کے لوگوں کی بے صبری دیکھنے کے لائق تھی کہ جلدی سے ظہر ہو جائے اور وہ معصوم لڑکا جو اب ایک بے جان لاشے کی صورت لیٹا تھا جلد ان کے گھر کی دہلیز چھوڑ دے۔
اے رب تیری مصلحت تو ہی جانے۔ نصیب کے لکھنے والے تجھ سے کچھ شکوہ تو نہیں بنتا پر تو زندگی دے تو اچھے نصیب کے ساتھ ورنہ دنیا کی چکی پیسنا کسی بدنصیب کے لیے آسان کام نہیں۔ احمد تم ایک بہت نیک معصوم فرشتہ تھے۔ یہ دنیا تمہارے رہنے کی جگہ نہ تھی تمہاری مغفرت اور بخشش بھی میرے رب نے بغیر کسی سوال و جواب کے کر دی ہوں گی۔ میں اس بات کا شکر ادا کرتی ہوں اور یہ احمد کے نیک ہونے کی دلیل بھی ہے کہ اس کے نام نہاد رشتے داروں نے اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کر دیا تھا ۔احمد کی تدفین کے وقت یہ عقدہ بھی کھلا کہ وہ اپنی قبر کا انتظام ایک مہینے پہلے ہی کر چکا تھا۔ میں واپسی پر الوداع اے معصوم فرشتے کہہ کر اپنی گاڑی میں آ بیٹھی۔